التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

احا د یث درمد حِ مختار

4 min read
 بروایت ’’رجال کشی‘‘ امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے:
(۱)   لا تَسُبُّو الْمُخْتَارَفَاِنَّہُ قَتَلَ قَتْلَتَنَاَ وَطَلَبَ بِثَارِنَا وَزَوَّجَ اَرَامِلَنَا وَقَسَمَ  فِیْنَا الْمَالَ عَلٰی الْعُسْرَۃِ مختار کوگالی نہ دوکیونکہ اس نے اورہمارے قاتلوں کوقتل کیا ہے اورہمارا بدلہ لیا ہے اورہماری بیوائوںکی شادی کرآئی ہے اورہم میں تنگدستی کی حالت میں مال تقسیم کیا ہے۔
یہ روایت صاف بتلاتی ہے کہ امام معصوم ؑ مختار کے فعل پردل وجان سے راضی تھے۔
(۲)   ’’بحارالانوار‘‘ میں بروایت ’’رجال کشی‘‘ منقول ہے ایک مرتبہ عید قربان کے دن مختار کا لڑکا (حکم) امام محمد باقرؑکی خدمت میں حاضرہوا، امام ؑ نے دریافت کیاکہ توکون ہے؟ اس نے جواب دیا میں مختارکالڑکا حکم ہوں، آپ ؑ نے اس کو زیادہ قریب کیا ایسا معلوم ہوتاتھا کہ حضور ؑ اس کو اپنی گود میں بٹھاناچاہتے ہیں پس اس نے عرض کیا حضور لوگ میرے باپ کوبرا بھلا کہتے ہیں اس کے متعلق آپ ؑ کی رائے کیا ہے؟ کیونکہ میں آپ ؑ کے فرمان کوآخری فیصلہ سمجھتاہوں؟ آپ ؑ نے پوچھاکہ لوگ تیرے باپ کوکیا کہتے ہیں؟ تو اس نے جواب دیا کہ کہتے ہیں وہ جھوٹااورکذّاب تھا، آپ ؑ نے فرمایاسبحان اللہ میں نے اپنے والد سے سناہے کہ میری والدہ کاحق مہر اُن روپوں سے تھا جو مختار نے ہماری طرف بھیجے تھے، مختار نے ہمارے گھروں کوآباد کیا اوراس نے ہمارے دشمنوں کوقتل کیا ہے اورہمارے خون کا بدلہ لیا ہے، پھر فرمایا خدا مختارپر رحمت نازل فرما ئے۔
یہ روایت صاف طورپر دلالت کرتی ہے کہ مختار مردمومن تھا اوراسکافعل امام ؑ کی نظر میں درست تھا اورامام ؑ کا اسکے حق میں رحمت کی دعاکرنا اسکے مومن ہونے کیلئے کافی ووافی ہے۔۔۔ اورمرزاحبیب اللہ خوئی نے شرح نہج البلاغہ جلد۲ صفحہ ۷۵ پر اس حدیث کونقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ مختار کی فضیلت کیلئے صرف یہی حدیث کافی ہے۔
غور طلب بات یہ کہ مختارنے جوآلِ محمد کی مالی اعانت کی ہے یہ رقم بھی تووہی ہے جومختارکی فوجوں نے دشمنانِ دین کوشکست دے کر بذریعہ غنیمت حاصل کی تھی یا جن لوگوں کے گھروں کو مختار نے تاخت وتاراج کیاتھا ان سے درآمد شدہ ما ل تھا؟ پس آلِ محمد کے نزدیک اس مال کی پذیرائی بلکہ ا س پرمدح گستری صاف بتلاتی ہے کہ مختار کا جہاد شرعی تھا اورامام ؑ وقت اس پر رضامند تھے، پس اس لحاظ سے مختار کی موت یقینا موت شہادت ہوتی ہے اورمختارکے ناجی ہونے میں کوئی شک وشبہ ہی باقی نہیں رہتا۔
(۳)   جب ابن زیاد کا سرامام زین العابدین ؑ کے پاس پہنچا وامام ؑ نے سجدہ شکر کیااورفرمایا یا  جَزَااللّٰہُ الْمُخْتَارَ خَیْرًا خدامختار کوجزائے خیر دے، امام ؑ کی مختارکے حق میں یہ دعا مختارکے مومن ہونے کی شاہد ہے۔
(۴)   بروایت ’’رجال مامقانی‘‘ امام محمد باقرؑسے مردی ہے کہ بخدا مجھے اپنے والد ماجد نے فرمایاکہ جب کبھی مختار کی آمد ہوتی تھی تو حضرت فاطمہ بنت امیرالمومنین ؑ مختارکیلئے بستر درست کرتی تھیں اوراس کیلئے سرہانہ مہیا فرماتی تھیں یعنی اس کی مہمان نوازی یہ مخدرہ خود کرتی تھیں کیونکہ اس نے ہمارابدلہ لیاہے۔
(۵)   بروایت ’’رجال کشی‘‘ اصبغ سے منقول ہے کہتا ہے میں نے مختار کو بچپنے میں دیکھا کہ حضرت امیر ؑ اس کو اپنے زانوئے پاک پر بٹھاکر اس کے سر پر ہاتھ پھیررہے تھے اور فرمارہے تھے  یَاکَیِّسْ یَاکَیِّسْ یعنی اے دانااے دانا، کیّس کا معنی ہے دانا۔۔۔ اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ مختاربچپنے سے ہی اہل بیت کو محبوب وپیاراتھا۔
(۶)   بروایت کشی امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے:
مَا امْتَشَطَتْ مِنَّا ھَاشِمِیَّۃٌ وَ لا اخْتَضَبَتْ حَتّٰی بَعَثَ اِلَیْنَا الْمُخْتَارَ بِرَؤُسِ الَّذِیْنَ قَتَلُوْا الْحُسَیْنَ عَلَیْہِ السَّلام یعنی ہم میں سے کسی ہاشمی عورت نے سرپرکنگھی نہیں پھیری اورنہ مہندی لگائی جب تک کہ مختارنے قاتلین حسین ؑ کے سرنہیں بھیجے۔۔۔۔۔ اورجناب فاطمہ بنت امیر المومنین ؑسے بھی اسی مضمون کی حدیث وارد ہے جوپہلے کہیں ذکرکی جاچکی ہے، بہر کیف مختارکی خدمات کا آلِ محمد اعتراف کرتے تھے اوراس سے نہایت خوشنود وخورسند تھے، حتی کہ حضرت محمد بن حنفیہ نے فرمایا کہ حضرت عبدالمطلب کی اولاد کے ہرفردکی گردن پرمختارکا احسان اور حق ہے خدامختار پررحم کرے۔
روایات سے معلوم ہوتاہے کہ ایک مومن کوخو ش کرنا بہت سی نیکیوں کے مقابلہ میں خداکومحبوب ترہے، کسی عسرت زدہ مومن کو خوشحال کرنا اورکسی مصیبت زدہ مومن کے دلجوئی کے اسباب مہیا کرنااللہ کے نزدیک بہت بڑا کارِخیر ہے، پس جب ایک مومن سے حسن سلوک کی یہ حالت ہے تو جومومنوں کے سرداروامام ؑ ہیں اگرکوئی شخص حالت عسرت میں ان کی خبرگیری کرے۔۔ حالت کسمپرسی میں ان کی دلجوئی کرے۔۔ ان کے شکستہ دلوں پرمرہم لگائے۔۔ ان کے غم واندوہ کوکم کرے ان کے دکھ ودردکا علاج کرے۔۔ اوران کے دشمنوں سے انتقام لے کران کے غمزدہ دلوں کوشادماں کرے۔۔ اورچھ سال کے طویل عرصہ سے گریاں آنکھوں کے سامنے نوید مسرت لائے۔۔ تو اس سے بڑھ کراورنیکی کیا ہوسکتی ہے؟ یقینا ایسا شخص ناجی اورجنتی ہے ۔