اپنے زمانہ کے نامی گرامی شہسواروں اور آزمودہ کاربہادروں میں سے تھے۔۔۔
نہایت فصیح و بلیغ خطیب اور امام عالیمقام ؑ کے وفادار رفیق تھے۔۔۔ امام ؑ نے ان
کو اپنے لشکر کے میمنہ پر متعین فرمایا تھا۔۔ امام ؑ کی فوج میں یہ شخص بڑا دلیر،
جری، جنگجو اور بابصیرت سپاہی تھا۔۔۔ کسی بڑے سے بڑے حادثہ کو جرأت کے قدموں سے
روندتا تھا اور اس کے قول و عمل سے شجاعت ٹپکتی تھی۔
زہیر پہلے عثمانی تھا۔۔ جب ۶۰ ھ میں حج پر گیا تو واپسی پر حسینی بن گیا۔۔ زہیر
کے سفر حج کا ایک ساتھی جو قبیلہ فزارہ سے تعلق رکھتا ہے بیان کرتا ہے کہ جب ہم
مکہ سے عراق کا قصد کر کے نکلے تو بنی امیہ کے ڈر سے ہم نہ چاہتے تھے کہ امام حسین
ؑ کے قریب جائیں پس اس سفر میں ہم امام حسین ؑ سے دور دور رہے جہاں سے وہ چلتے تھے
ہم وہاں قیام کر لیتے تھے، ایک منزل پر چاروناچار ہمیں وہیں اترنا پڑا جہاں امام ؑ
نزولِ اجلال فرما چکے تھے لیکن امام ؑ کے خیام سے کچھ فاصلہ پر ہم نے اپنے خیام
نصب کر لئے۔۔۔ ہم کھانے میں مشغول ہوئے تو امام ؑکا قاصد پہنچ گیا اور زہیر سے کہا
کہ مجھے امام پاک نے تجھے بلانے کے لئے بھیجا ہے۔
فزاری کہتا ہے یہ سنتے ہی ہمارے ہاتھوں سے لقمے گر گئے اور گویا ہمارے سروں
پر پرندے بیٹھ گئے اور اس پیغام کی دہشت سے ہم شل ہو گئے۔۔۔ زہیر کی زوجہ دیلم یا
دلہم بنت عمرو نے زہیر سے کہا کہ یہ کونسی بات ہے کہ فرزند رسول تجھے بلائے اور تو
سوچ میں پڑ جائے؟ اس میں کیا مضائقہ ہے؟ جا کر ان کی بات سن لو اور پھر واپس آ
جائو۔
پس زہیر اٹھا اور کچھ دیر کے بعد ہشاش و بشاش ہو کر واپس پلٹا اور حکم دیا
کہ میرا خیمہ یہاں سے اُکھاڑ کر اصحابِ حسین ؑ کے پاس نصب کرو اور تمام مال و
اسباب وہیں منتقل کرو اور کہا کہ میں اپنی عورت کو طلاق دے کر آزاد کرتا ہوں۔۔ پس
اس کو اپنے اہل تک پہنچا دینا کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے اس کو کوئی
تکلیف پیش آئے۔۔ اور یہ میری اور تمہاری آخری ملاقات ہے اور کہا جب میں بلخببر
(یہ علاقہ اب غالباً روس کے زیر اثر ہے) کی لڑائی میں گیا اور مسلمانوں کو فتح
نصیب ہوئی تو سلمان بن ربیعہ باہلی نے کہا تھا کہ بیشک تم بہت خوش ہو لیکن جب تم
آل محمد کے ساتھ مل کر جہاد کرو گے تو وہاں تم کو زیادہ خوشی و سرور نصیب ہو گا
پھر ان کو الوداع کیا اور خدمت امام ؑ میں پہنچا۔
بروایت اعثم کوفی۔۔۔ دیلم زوجہ زہیر نے زہیر سے کہا تھا میں تم سے جدا نہیں
ہوں گی اگر تو فرزند علی ؑ کی غلامی کرے گا تو میں بنت رسول کی نوکری کا شرف حاصل
کروں گی۔۔ اور قمقام میں ہے کہ زہیر کی زوجہ تا آخر زہیر کی ہمراہ رہی۔
جب ذوحسم پہنچے اور آپ ؑنے ایک خطبہ بلیغہ ارشاد فرمایا جس میں موت پر
آمادگی اور دنیا کی بے وفائی اور زمانہ کے انقلابات کا تذکرہ فرمایا تو زہیر نے
کھڑے ہو کر عرض کیا آقا ہم آپ کا مطلب سمجھ گئے ہیں اگر ہمیں دنیا میں ہمیشہ کی
زندگی ایک طرف مل جائے اور دوسری طرف تیری نصرت کا سوال ہو تو اس کو ٹھکرا کر تیری
نصرت کریں گے، آپ ؑ نے اس کے حق میں دعائے خیر کی۔۔ زہیر کے بعد نافع بن ہلال
بجلی اور بریر بن خضیر یکے بعد دیگرے اٹھے اور انہوں نے بھی زہیر کی طرح اپنی نصرت
اور وفا داری کی یقین دہانی کرائی۔
جب حر ّ کی فوج نے راستہ روکا تھا اس وقت زہیر نے عرض کیا تھا حضور! اگر اجازت مرحمت فرمائیں تو ہم ان لوگوں سے
ابھی نپٹ لیتے ہیں کیونکہ ان کے بعد جن لشکروں سے ہمیں واسطہ پڑے گا ان کا مقابلہ
گراں تر ہوگا؟ امام ؑ نے فرمایا تھا کہ لڑائی کی ابتدا کرنا ہمارا شیوہ نہیں ہے۔
ابن شہر آشوب سے منقول ہے کہ زہیر نے عرض کیا تھا کہ کربلا یہاں سے قریب
ہے اور دریا کا کنارہ بھی ہے وہاں قیام کر لیں کیونکہ وہاں ہمیں کوئی تکلیف نہ ہو
گی اور اگر لڑائی چھڑ گئی تو مقابلہ بھی ہمارے لئے آسان ہو گا؟ اما مؑ نے کربلا
کا نام سنا تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے۔
نویں کے دن جب حبیب ابن مظاہر نے حضرت عباس ؑکی معیت میں جا کر اُن بدنہاد
لوگوں کو کلماتِ نصیحت فرمائے اور امام حسین ؑاور ان کی عیال و اصحاب کے قتل سے
بازرہنے کی تلقین کی تو اس وقت ایک شخص غرہ بن قیس نے زبان درازی کرتے ہوئے حبیب
سے کہا تو خودشنائی کر رہا ہے اور اس کے علاوہ بہت سخت سست الفاظ بھی کہے! جو زہیر
سے برداشت نہ ہو سکے فرمانے لگے اے غرہ! حبیب کی خدا تعریف کرتا ہے اور خدا نے اس
کو ہدایت کی نعمت کرامت فرمائی ہے خدا سے ڈرو اور گمراہوں کا ساتھ چھوڑ دو اور
نفوسِ ذکیہ کے قتل کے ارادہ سے باز آجائو۔
غرہ بن قیس نے کہا اے زہیر! تو
عثمانی تھا اب اس خانوادہ میں کیسے شریک ہو گیا؟ زہیر نے جواب دیا خدا کی قسم میں
نے نہ حسین ؑ کو کوئی خط لکھا ہے نہ کوئی ان کی طرف قاصد بھیجا ہے اور نہ ان کی
نصرت کا وعدہ کیا ہے۔۔ اتفاقاً راستہ میں ملاقات ہوئی اور خدمت اقدس میں حاضر ہو
گیا ہوں، میں نے رسول خدا کا تصور کیا اور حسین ؑ کے رشتہ کا لحاظ کیا پس ان کی
نصرت کو اپنے اوپر واجب کر لیا تاکہ ان کا نانا بروز محشر میرا شفیع ہو، نیز رسول
خدا کی وصیت کا پاس میرے دل میں ہے جسے تم لوگ ضائع کر چکے ہو۔
شب عاشور امام عالیمقامؑ نے اپنے باوفا صحابہ کے سامنے ایک خطبہ پڑھا جس
میں حمد و ثنائے پروردگار کے بعد فرمایا:
خدا کی حمد ہے جس نے ہر سختی و نرمی کی حالت میں ہمیں عزت بخشی، ہمیں نبوت
علم دین اور قرآن عنایت فرمایا، ہمیں معرفت کے ساتھ شکر گزار دل عطا کیا اور کسی
کو ایسے اصحاب میسر نہیں آئے جو میرے اصحاب سے زیادہ وفادار ہوں۔۔۔ خدا تمہیں
جزائے خیر دے تم کو یقین ہونا چاہیے کہ جو بھی میرے ساتھ رہے گا وہ کل میرے ہمراہ
قتل ہو گا اس لئے میں تمہاری گردنوں سے اپنی بیعت کو اٹھاتا ہوں اور تم جو کچھ
میرے ساتھ عہد و پیمان کر چکے ہو ان کی وفا تم سے ساقط کرتا ہوں، اب تم کو اجازت
ہے کہ اس تاریکیٔ شب میں میرے اہل بیت میں سے ایک ایک کا ہاتھ پکڑ کر اس صحرا سے
نکل جائو اور بے شک مجھے اکیلا چھوڑ جائو کیونکہ یہ لوگ صرف میرے ہی خون کے پیاسے
ہیں۔۔ اب سفر کا وقت بھی موزوں تر ہے کیونکہ دن میں گرمی ہو گی اور رات کے پردہ
میں کوئی دیکھنے والا بھی نہ ہو گا ان لوگوں کو چونکہ صرف مجھ سے مطلب ہے اس لئے
تمہارا تعاقب نہ کریں گے۔
امام ؑ کا یہ خطبہ سن کر صحابہ کے جسم پر رونگٹے کھڑے ہو گئے۔۔ سب سے پہلے
زہیر بن قین نے کھڑے ہو کر دست بستہ عرض کیا اے فرزند رسول! خدا کی قسم میرا یہ ایمان ہے کہ ایک مرتبہ قتل
ہوں۔۔ پھر زندہ ہوں پھر قتل ہوں۔۔ اور ہزار بار ایسا ہو تو مجھے کوئی پرواہ نہیں،
تاکہ آپ ؑ کو اور آپ ؑکی عیال کو کوئی دکھ نہ پہنچے، یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ
آپ ؑ کو نرغۂ اعدا میں تنہا چھوڑ کر چلا جائوں اور خدا مجھے وہ دن نہ دکھائے جس
دن میں ایسا کروں۔
بروایت ابو مخنف۔۔۔ علی بن حنظلہ شبامی۔۔ کثیر بن عبداللہ شعبی ملعون سے
نقل کرتا ہے جو کہ زہیر کا قاتل ہے کہ جب ہم لـڑائی کے لئے کمر بستہ ہوئے ہم نے
دیکھا کہ زہیر آلاتِ جنگ سے مسلح ہو کر گھوڑے پر سوار ہو کر میدان میں آیا اور
بآواز بلند یہ تقریر شروع کی:
اے کوفیو! عذاب خدا سے ڈرو ایک
مسلمان پر دوسرے مسلمان کا پہلا حق یہ ہے کہ اس کو نصیحت کرے ہم اور تم اب تک
بھائی بھائی ہیں، ہمارا دین ایک اور ملت ایک ہے، جب تک کہ ہمارے درمیان تلواریں نہ
چل جائیں، اب میری نصیحت سنو اور تم نصیحت سننے کے سزاوار ہو ورنہ اگر تلوار چل
گئی تو ہمارا اور تمہارا دینی رشتہ ختم ہو جائے گا۔۔ ہمارا دین الگ اور تمہارا دین
الگ ہو جائے گا۔۔۔۔۔ خداوندکریم ذرّیت پیغمبرؐ کے ذریعہ سے ہمارا اور تمہارا
امتحان کرتا ہے تاکہ رسول خدا کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اس کی ذرّیت کی نصرت کون
کرتا ہے؟ اور ان کے درپے آزار کون ہوتا ہے؟ میں تم لوگوں کو فرزند پیغمبر کی نصرت
کی دعوت دیتا ہوں، ابن زیاد شیطان کی اطاعت سے ہٹ جائو، تم لوگ سب جانتے ہو کہ یہ
اور اس کا باپ زیاد پورے زمانِ حکومت میں سوائے خونریزی کے دوسرا کوئی شغل نہیں
رکھتے۔۔ کتنے نیک بندگان خدا کی انہوں نے آنکھیں نکلوا ڈالیں اور کس قدر بزرگان
دین کے ہاتھ پائوں اور دیگر اعضا کاٹ ڈالے اور ان کو سولی پر لٹکا دیا! حجر ابن عدی اور اس کے ساتھیوں کا حال دیکھو۔۔۔
ہانی اور اس کے مثل دوسرے قاریانِ قرآن کا قصہ یاد کرو جنہیں ان لوگوں نے اپنے
ظلم و ستم کا نشانہ بنایا۔
زہیر جب یہاں تک پہنچا تو لشکر اعدا ٔنے دشنام دینا شروع کیا اور زیاد اور
ابن زیاد کی تعریفیں کرنے لگے اور کہا ہم حسین ؑ کو نہ چھوڑیں گے جب تک کہ اسے قتل
نہ کر دیں یا اسے قید کر کے ابن زیاد کے پیش نہ کریں۔
زہیر نے دوبارہ موج دریا کی طرح تقریر کو روانی دی اور فرمایا:
خدا کے بندہ۔۔ فرزند زہرا ؑ اولاد ِسُمیہ کی بہ نسبت تمہاری نصرت کا زیادہ
مستحق ہے، اور اگر اس کی نصرت نہیں کر سکتے تو کم از کم اس کے قتل سے باز آجائو
اور اس امرِ شنیع کا ارتکاب ہرگز نہ کرو۔۔۔ امام حسین ؑ اور یزید کے معاملہ میں
دخل نہ دو، مجھے اپنی جان کی قسم وہ قتل حسین ؑ کے بغیر بھی تم سے راضی ہو گا۔
اس وقت شمر نے ایک تیر زہیر کی جانب پھینکا اور کہا خاموش ہو جا ہم تیری
زیادہ باتوں سے تھک گئے ہیں، زہیر نے جواب دیا اے گندیدہ عورت کا بیٹا جو اپنے
پائوں پر پیشاب کرتی ہے۔۔۔ میں تجھ جیسے خبیث سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا
کیونکہ تیری حیثیت میرے نزدیک ایک عام حیوان سے زیادہ نہیں، مجھے یقین ہے کہ تو
قرآن کی دو آیتوں کو بھی صحیح سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔۔۔ تجھے یوم قیامت کی
ذلت اور دردناک عذاب کی بشارت ہو، اس نابکار نے جواب دیا کہ تیرا اور تیرے حسین ؑ
کا انجام ایک گھنٹہ کے بعد قتل ہو گا، زہیر نے جواب دیا کیا تو ہمیں قتل کی دھمکی
دیتا ہے! خدا کی قسم حسین ؑ کے قدموں میں
قتل ہو جانا تجھ جیسے بدنہاد لوگوں کے ساتھ جینے سے مجھے بدرجہا محبوب تر ہے۔
پھر لشکر اعدأ کی طرف رُخ کر کے بآواز بلند فرمایا:
یہ بے حیا پاگل قسم کا انسان تمہیں دھوکا دے رہا ہے تاکہ تم کو دین سے
بیگانہ کر دے، خدا کی قسم ذرّیت پیغمبر کے قتل کرنے والے اور اس کے انصار کا خون
بہانے والے یقینا رسول خدا کی شفاعت سے محروم ہوں گے، بات یہاں تک پہنچی تھی کہ
پیچھے سے امام ؑ کے ایک صحابی نے آواز دی اے زہیر! امام عالیمقامؑ تیرے حق میں فرماتے ہیں مجھے
اپنی جان کی قسم تو نے مومن آل فرعون کی طرح قوم کو خوب نصیحت کی جس طرح نصیحت
کرنے کا حق ہے۔۔ اب واپس آجائو۔
حملۂ لشکرِ اعدأ
عمرو بن حجاج زبیدی نے جب دیکھا کہ ابن سعد کے لشکر سے جو بہادر جاتا ہے وہ
شیرانِ بیشۂ شجاعت کی شمشیر کا لقمہ ہو جاتا ہے تو اس نے بآواز بلند طعن و طنز
کے لہجہ میں کہا: اے بے عقلو! کیا تم ایسے
لوگوں کا مقابلہ کرتے ہو جو شجاعت کے سینے سے دُودھ پی چکے ہیں اور تلواروں کے خون
چُوس چُو س کر پلے ہیں، اگرچہ وہ تھوڑے ہیں اور تم زیادہ ہو لیکن اس طریق سے تم سب
کو لقمہ اجل کر کے وہ دم لیں گے، بہتر یہ ہے کہ یکبارگی حملہ کرو اور ان پر پتھروں
کی بارش کر دو۔
عمر سعد نے جب یہ بات سنی تو اس کو بھی یہ رائے پسند آئی۔۔ پس عمرو بن
حجاج نے فرات کی طرف سے امام حسین ؑ کے میمنہ لشکر پر حملہ کیا اور شمر بن ذی
الجوشن نے میسرہ پر چڑھائی کی انہوں نے پورے زور اور شدت سے حملہ کیا، ادھر اصحاب
حسین ؑ نے جوابی کاروائی میں مردانہ وار جوہر دکھانے شُروع کئے اس زور کی جنگ ہوئی
کہ اژدہائے موت نے منہ کھولا۔۔ گرگِ ہلاکت دانت نکال کر سامنے آیا۔۔ بہادروں کے
روح لینے کے لئے اجل نے ہاتھ پھیلائے، اصحاب حسین ؑ نے ایک دوسرے سے بڑھ بڑھ کر اس
طرح بخوشی و سرور موت کے منہ میں جانا شروع کر دیا جس طرح نوبیاہتا نوجوان اپنی
پوری اُمنگوں کو دامن میں لے کر حجرۂ عروسی کی طرف جاتا ہے، جب یہ مردِ میدان موت
کو سینے سے لگانے کے لئے شیرِ غضبناک کی طرح گونجتے گرجتے اپنی شرربار تلواریں
میان سے نکال کر مصروف جنگ ہوئے تو ابن زیاد کی فوج کے میمنہ و میسرہ میں تمیز نہ
رہی اور لشکر اعدأ کی جمعیت درہم برہم ہو گئی۔
یہ صورت حال دیکھ کر ابن سعد گھبرایا اور حصین بن نمیر کو بلا کر کہنے لگا
پانچ سو تیراندازوں کو حکم دو تاکہ فوج حسین ؑ پر تیربارانی کریں کیونکہ صرف تلوار
کی لڑائی سے حسینی سپاہیوں کو مغلوب کر لینا ہمارے بس کا روگ نہیں، پس ایک طرف سے
انہوں نے تیراندازی شروع کر دی اور دوسری طرف سے شمر نے ایک دستہ فوج کی کمان کرتے
ہوئے حسینی فوج پر حملہ کیا، لیکن حسین ؑ کے سراپاوفا جانثار پوری پامردی سے ان کا
مقابلہ کرتے رہے اور جو بھی آگے قدم بڑھاتا تقدیر بن کر اس کو موت کے منہ میں
دھکیل دیتے، لیکن وہ چونکہ زیادہ تھے اور یہ کم۔۔ لہذا اُن میں ہزاروں کی موت سے
بھی کمی ظاہر نہ ہوئی تھی جس طرح کہ اس طرف ایک ایک کی موت نمایاں کمی کی موجب
بنتی جا رہی تھی۔
فوجِ اعدأ اُدھر خیموں کے قریب آ پہنچی تھی۔۔ سادات کے بچوں میں نالہ و
فریاد کی آوازیں بلند ہوئیں، اتنے میں شبث بن ربعی نے عمر سعد سے کہا تیری ماں
تیرے ماتم میں بیٹھے۔۔ پردہ داروں اور بچوں کے ستانے سے تجھے کیا حاصل ہو گا؟ وہ
بے حیا شرمندہ ہوا اور فوج کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا۔
اس حملہ میں امام حسین ؑ کے پچاس جانباز کام آگئے (غالباً اسی کو حملہ
اولیٰ سے تعبیر کیا جاتا ہے جس میں چیدہ چیدہ صحابہ حسین ؑ نے جام شہادت نوش
فرمایا) اور مروی ہے کہ جب زہیر نے پردہ داروں اور بچوں کے گریہ کی آوازیں سنیں
تو بجلی کی طرح قوم اعدأ پر حملہ آور ہوا اور انہیں خیموں سے دور بھگا دیا۔
شمر نے آواز دی کہ آگ لائو تاکہ خیام حسینی کو جلایا جائے! امام حسین ؑ
نے فرمایا اے شمر! کیا تو میری اہل بیت کو جلانا چاہتا ہے؟ خدا تجھے جہنم کی آگ
نصیب کرے، جب شمر کی بکواس زہیر کے کانوں میں پہنچی تو شیر ببر کی طرح شمر کے
ساتھیوں پر حملہ آور ہوا اور ابو عزرہ کو واصل جہنم کیا جو شمر کا ساتھی تھا۔
پھر حر ّ بن یزید ریاحی اور زہیر نے مل کر حملہ شروع کیا، جب ان میں سے ایک
لڑائی کو جاتا تھا اور اس کے سر پر کچھ بن جاتی تھی تو دوسرا فوراً اس کی مدد کے
لئے پہنچ جاتا اور ایک گھنٹہ تک دونوں اس طرح جنگ کرتے رہے، حر ّ جب شہید ہو گیا
تو زہیر نے تنہا جنگ کی اور چند اشعار بطورِ رجز زبان پر جاری کئے جن کا خلاصہ
مطلب یہ ہے:
میں زہیر ہوں اور قین کا بیٹا ہوں۔۔ اور میرے ہاتھ میں دو دھاری قاطع تلوار
موجود ہے، میں تلوار کے زور سے تمہیں مولا حسین ؑ کے قریب نہ آنے دوں گا کیونکہ
وہ نبی کے دو نواسوں میں سے ایک ہے، یہ فرزند علی ؑ ہے جس کے جدّ طاہر ہیں، یہ
عترتِ پیغمبر سے ہیں جو محسن اور بلاشک اللہ کا رسول تھا، میں اپنے امام ؑ سے
تمہیں دور رکھوں گا جو صادق الیقین ہے۔۔۔ اور اپنے دین کی حفاظت کے لئے تمہیں تلوار
کا مزہ چکھائوں گا، تمہیں تلوار کا مزہ چکھانے میں مجھے کوئی عار نہیں اور میں تم
کو وفادار غلام کی طرح تلوار ماروں گا، یہ کہہ کر بجلی کی طرح فوجِ اشقیأ کے قلب
لشکر پر حملہ آور ہوا اور دائیں بائیں جولان لگایا۔۔ نامور اور آزمودہ کار
ملاعین کو تہِ تیغ کیا، بروایت بحار الانوار ایک سو بیس شجاعان کو واصل جہنم کیا۔
بروایت ابومخنف زہیر کی شہادت حبیب کی شہادت کے بعد واقع ہوئی کیونکہ جب
حبیب شہید ہوئے تھے تو روایت میں ہے کہ
ِ’’بانّ الانْکِسَارُ فِی وَجْہِ ا لْحُسَیْن‘‘ حسین ؑ کے چہرہ اطہر پر شکستگی اور گھبراہٹ کے
آثار نمایاں ہو گئے، زہیر نے جب یہ حالت دیکھی تو عرض کیا آقا! چہرہ اقدس پر
گھبراہٹ کے آثار کیوں ہیں؟ کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ تو آپ ؑ نے فرمایا خدا کی قسم
ہم حق پر ہیں۔۔ تو زہیر نے عرض کیا پھر ہمیں ذرّہ بھر پرواہ نہیں کیونکہ ہم بہشت
کی طرف جا رہے ہیں، پس زہیر نے امام ؑ سے اجازت طلب کی اور میدان کارزار کی طرف
چند اشعار پڑھتا ہوا روانہ ہوا جن کا مقصد یہ ہے:
آپ ؑ پر میرا نفس قربان ہو اے حسین ؑ !کہ آپ ؑ ہادی و مہدی ہیں۔۔ آج میں
شہید ہو کر آپ ؑکے جدّ پاک پیغمبر، علی مرتضیٰ، حسن مجتبیٰ ، جعفر طیار شہید اور
آپ ؑکی والدہ ماجدہ جناب فاطمہ زہرا ؑاور دیگر پاک بزرگواروں کی خدمت عالیہ میں
پہنچنے کو تیار ہوں۔
پس وہ دوبارہ بادِ تند کی طرح لشکرِ مخالف پر جا ٹوٹا اور خوب دادِ شجاعت
دی کہ اچانک کثیر بن عبداللہ شعبی اور مہاجربن اوس تمیمی نے جو موقعہ کی تاڑ میں
تھے فرصت پا کر تلوار اور نیزہ سے اس پر حملہ آور ہوئے اور زہیر کو شہید کر دیا،
مولا حسین ؑ نے زہیر کے حق میں فرمایا:
خدا اپنے جوار سے تجھے دور نہ کرے اور تیرے قاتلوں پر لعنت کرے، جس طرح ان
لوگوں پر لعنت کی جنہیں بندروں اور سوروں کی شکل میں مسخ کر دیا۔
’’تذکرہ
سبط بن جوزی‘‘ میں منقول ہے کہ زوجہ زہیر نے غلام کو کہا کہ جا کر اپنے آقا کو
کفن پہنائو۔۔ غلام زہیر نے جب حسین ؑ کی لاش کو بے کفن دیکھا تو دل میں کہا خدا کی
قسم یہ نہیں ہو سکتا کہ اپنے آقا کو کفن پہنائوں اور حسین ؑ کو بلا کفن چھوڑ
دوں۔۔ پس وہ کفن حسین ؑ کے لئے قرار دیا اور زہیر کو دوسرا کفن دیا۔ (تذکرۃ الخواص صفحہ ۳۱۰ اُردو ترجمہ)