یہ واقعہ اکثر کتب سیرمیں مذکورہے آقا شیخ ذبیح محلاتی نے ’’فرسان
الہیجا‘‘ میں اس کو بروایت ابن الحدید سعید بن جبیر سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ
عبداللہ بن زبیر نے مکہ میں خطبہ پڑھا اوراس میں حضرت امیرالمومنین ؑ پر سبّ کیا؟
جب محمد بن حنفیہ کے کانو ں میں یہ خبر پہنچی تو آپ ضبط نہ کرسکے اورحکم دیا کہ
ابن زبیر کے منبر کے مقابلہ میں میرے لئے ایک منبر نصب کیا جائے چنانچہ آپ منبر
پرتشریف لائے اورایک فصیح وبلیغ خطبہ پڑھا:
اے گروہِ عرب! تم سننے والوں کے چہرے مسخ ہوجائیں کہ تمہارے سامنے حضرت علی
ؑکو سبّ کیا جارہا ہے اورتم سب خاموش سن رہے ہو؟ حضرت علی ؑاپنے دشمنوں کے مقابلہ
میں یداللہ تھے اورکافروں اور منکروں کے لئے خداکی جا نب سے شعلہ ٔبرق تھے اورتیرِ
قضائے الٰہی تھے جو اعدائے دین کے سینہ پُرازکینہ میں پیوست ہوتے تھے اوروہ اللہ کی
تلوارتھے جس نے حق سے منہ موڑنے والوںکی گردن کے خون گرائے چونکہ منافقین ان سے
رضامندنہ تھے اس لئے انہوں نے ان کو برُا کہا اوران سے بغض کیا، ابھی تو جناب
رسالتمآب ؐ بہ حیات تھے کہ انہوں نے علی ؑ پرحسد کیا اورجب انہوں نے
جوارِپروردگار کی طرف رحلت فرمائی تو ان منافقوں نے اپنے قلبی کینوں اورحسدوں
کوظاہر کیا؟ کسی نے ان کا حق غصب کیا؟ کسی نے اثنائے شب ان کواچانک قتل کرنے کا
پروگرام بنایا؟ اورکسی نے ان کواپنی بدزبانی کا نشانہ بنایا اورسبّ کیا؟ اگر آج
ان کی ذرّیت اوران کے موالیوں کے ہاتھ میں زمامِ اقتدار ہوتی تو ان کے زندوں کی
گردنیں اُڑادی جاتیں اوران کوتہ تیغ کیا جاتا اوران کے مردوں کو قبروں سے نکال
کرآوارہ پھینک دیا جاتا اور خدا ان کو اپنے عذاب سے ذلیل وخوارکرے گا اورہماری
مدد کرکے ہمارے ہاتھوں ان کومخذول کرکے ہمارے دلوں کو ٹھنڈا کرے گا، خداکی قسم علی
ؑ کو دشنام نہیں دیتا مگر کافر چونکہ وہ جناب رسالتمآب کو تواعلانیہ دشنام دے
نہیں سکتا پس حضرت علی ؑکے وسیلہ سے وہ درحقیقت رسول خداکوہی دشنام دیتاہے، خدا کی
قسم یہ تمام لوگ جانتے ہیں کہ علی ؑ کے بارے میں جناب رسالتمآبؐ نے فرمایاتھا لَایُحِبُّکَ اِلاَّ مُؤمِنٌ وَلَایُبْغِضُکَ
اِلَّامُنَافقٌکہ آپ ؑ سے نہ محبت کرے گا مگر مومن اورنہ بغض رکھے گا مگر منافق۔
اس کے بعد ابن زبیر نے دوبارہ خطبہ شروع کیا اور کہنے لگا کہ بنی فاطمہ ؑ
سے تو میں در گذر کرتا ہوں وہ جو بھی کہتے رہیں لیکن یہ حنفیہ کا لڑکا کیوں جرأت
کرتا ہے؟ آپ نے فرمایااے اُمِّ فتیلہ کے بیٹے! میں کیوں نہ بات کرو ں؟ فواطم میں
سے صرف ایک ہی ہے جس سے میرانسبتی رشتہ نہیں ہے ورنہ یہ میرے فخر کے لئے کیا کم ہے
کہ وہ میرے دونوں بھائیوں کی ماں ہے؟ اورعلاوہ ازیں میں فاطمہ بنت عمران بن عائذ
بن مخزوم کا بیٹاہوں جوجناب رسالتمآب کی دادی تھی؟ اورمیں فاطمہ بنت اسد بن ہاشم
کا بیٹاہوں جس نے جناب رسالتمآب کی کفالت کی تھی اورحضوؐراس کو اپنی ماں سمجھتے
تھے(الخبر) خدا کی قسم اگر خدیجہ بنت خویلد کا پاس نہ ہوتا تو میں اسد بن عبدالعزی
کی نسل میں ایک ہڈی نہ چھوڑتا مگر یہ کہ اس کو توڑ دیتا خواہ مجھے اس سلسلہ میں کس
قدر ہی مصائب کا سامنا ہوتا؟ یہ روایت ’’مروج الذہب مسعودی‘‘ میں معمولی اختلاف کے
ساتھ موجود ہے اوریہ یادر ہے کہ اسد بن عبدالعزی خویلد کا باپ اورجناب خدیجہ کا
داداتھا(تذکرہ ص۶۹ا)
محمد بن حنفیہ اورعبداللہ بن زبیر کے درمیان اس کے علاوہ بھی کئی مقامات
پرآپس میں مکالمات ہوئے۔۔۔۔ ’’تذکرہ خواص الامہ‘‘ میں واقدی سے نقل کیا گیا ہے کہ
جب ابن زبیر کو مختار اورمحمدبن حنفیہ کا آپس میں گٹھ جوڑمعلوم ہوا تو اس نے محمد
سے اپنے لئے بیعت طلب کی اورمحمد نے چونکہ انکار کیا لہذا ابن زبیر نے محمد بن حنفیہ
کو اپنے قبیلہ اورجماعت بنی ہاشم کے بیس افراد کے ہمراہ سجنِ عارم میں قید کردیا
اورایک میعادِ مقررتک ان کومہلت دی کہ اگر اس میعاد کے اندر بیعت کرلو تو فبہا
ورنہ تم کونذرِ آتش کردوں گا؟ پس محمد کو اپنے بعض ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ مختار
کو اس معاملہ کی اطلاع دی جائے اوران سے نصرت طلب کی جائے؟ چنانچہ حضرت محمد بن
حنفیہ نے مختارکو اپنے حالات پر مشتمل ایک خط لکھا اوراس سے نصرت کی خواہش کی
اوریہ فقرہ بھی خصوصیت سے تحریر فرمایا: کہ اے اہل کوفہ ہماری مددسے دست کش نہ
ہوجانا جس طرح کہ تم نے حسین ؑ کی مددسے کنار ہ کشی کی تھی؟ جب مختار نے خط
پڑھاتوبہت رویا اوراشرفِ کوفہ کوجمع کرکے ان کے سامنے محمد بن حنفیہ کا خط پڑھا
اوراپنی طرف سے آلِ رسول کی نصرت کے لئے لوگوں کوآمادہ کیا کہ یہ تمہارے مہدی کا
خط ہے اوراہل بیت پیغمبر کے سید سردار کا خط ہے جوحضرت رسالتمآب تم میں چھوڑگئے
ہیں، اب لوگ ان کوقتل کرنا اورزندہ جلادینا چاہتے ہیں اورمیں ابواسحق نہیں ہوں کہ
ان کی مدد نہ کروں؟ میں سواروں کے عقب میں پے درپے سوار بھیجتا رہوں گا کہ فوج کا
ایک سیلاب زمین مکہ پررونما ہو اورابن زبیر کو اپنے کئے کا وبال بھگتنا پڑے،
چنانچہ عبداللہ جدلی کو ایک ہزار کے ہمراہ روانہ کیا اوریکے بعد دیگرے ہزار ہزار
سوار کا دستہ متعدد جرنیلوں کے زیر قیادت روانہ کرتارہا، جب ان لوگوں نے مکہ میں
پہنچ کر یَا لَثَارَاتِ الْحُسَینؑ کا
نعرہ بلند کیا تو لوگوں کے دل دہل گئے، محمد بن حنفیہ کے قید خانہ کے ارد گرد لکڑیاں
جمع کی جاچکی تھیں اورصرف دو ہی دن باقی رہ گئے تھے، پس قید خانہ کا دروازہ توڑ کر
محمد کو بمعہ جماعت کے رہا کردیا وران سے اجازت چاہی کہ ابن زبیر کے ساتھ جنگ کی
جائے؟ تو آپ نے حرم خدا میں جنگ کرنے سے روک دیا، اس وقت مختار کی طرف سے محمد کے
پاس چارہزار فوج موجود تھی پس بنابر مشہور کے آپ طائف کی طرف روانہ ہوگئے اور
وہیں قیام پذیر ہوے اورمختار کی فوجیں واپس کوفہ کی طرف لوٹ آئیں کوئی خون خرا بہ
نہ ہونے پایا۔
اقول: واقدی کی اس روایت میں مختار
کا یہ جملہ (کہ تمہارے مہدی کا خط ہے) اس امر کوظاہر کرتا ہے کہ مختار حضرت محمد
بن حنفیہ کو مہدی سمجھتے تھے اوران ہی کی امامت کے قائل تھے، لیکن یہ بات غلط ہے
مختار حضرت امام زین العابدین ؑ کی امامت کا قائل تھا اوروہ صحیح الاعتقاد شیعہ
تھا صرف دشمنان اہل بیت نے اس کو بدنام کرنے کیلئے کئی حربے استعمال کئے ہیں اوران
میں سے ایک یہ بھی ہے۔