خانوادۂ عصمت سے متحارب گروہ نے جس طرح اہل بیت اطہارکے دامن عصمت کوبعض
اوقات اپنی من گھڑت اوربے سراپا داستانوں کی بدولت داغدار کرنے کی کوشش کی ہے اسی
طرح انہوں نے اپنی خانہ ساز احادیث کے بل بوتہ پراہل بیت کے ساتھ تمسک رکھنے والے
بعض ممتا ز کارکن افرادکے دامن شرافت کوبری طرح ملوث کرنے کی سعی نامشکور میں کوئی
کسر نہیں اٹھارکھی۔
اورابتدائی اموی دور اس جانبدارانہ دینی پالیسی کے جنم کاموجب تھا اس کے
بعد حزب اقتدار نے حزب اختلاف پرہردور میں اپنی وسعت بھر کیچڑ ا ُچھالا، حتیٰ کہ
صاحبانِ اقتدار کے ہرغلط سلط اقدام کودیتی اقدار کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی
گئی اوراہل بیت اوران کے نام لیواؤں کی ہربات کوناجائز اور غلط رنگ میں عوام کے
سامنے پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔
چنانچہ وہ صحابی رسول ؐجس کی صداقت کے متعلق زبان رسالت سے یہ اعلام صادر
ہوا کہ پشت زمین پرسقف نیلگوں کے نیچے کسی ماں نے ابوذر سے سچا بچہ نہیں جنا،
چونکہ یہ بزرگوار صاحبان اقتدار کے خزانہ جمع کرنے کے خلاف پر زور احتجاج کرتا تھا
لہذا خانوادہ رسالت سے بر سر پیکار جماعت نے اس بزرگوار کو کمیونزم کا حامی و محرک
قرار دیا۔
اسی طرح حضرت سید الشہدأ کے خون کو دبانے کی خاطر اور یزید و ابن زیاد کو
بری الذمہ ثابت کرنے کی غرض سے حضرت علی ؑکے بعض شہزادوں کو حسینی مشن کے مخالف
ثابت کرنے کی ناپاک کوشش کی اور لکھ دیا کہ عمر بن علی ؑ حضرت امام حسین ؑ کی
شہادت کے بعد امام حسین ؑکو ہی اس معاملہ میں قصوروار سمجھتے تھے حالانکہ ہم نے
متعدد علمائے شیعہ کی تصانیف سے ثابت کیا ہے کہ یہ بزرگوار شہدائے کربلا میں سے
تھے۔
پس اسی قسم کے بے سراپا اتہامات و ا لزامات
میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مختار معاذاللہ دین اہل بیت سے منحرف تھا یا یہ کہ وہ
محمد بن حنفیہ کی امامت کا قائل تھا وعلی ہذ القیاس۔
چنانچہ ’’تاریخ طبری ص۹۱‘‘سے منقول
ہے کہ جب امام حسن ؑ زخمی ہو کر مدائن میںسعدبن مسعودثقفی کے پاس پہنچے جو آپ ؑ
کی جانب سے مدائن کا گورنرتھا تومختار نے جواس وقت ابتدائے شباب میں تھا اپنے
چچاسعدبن مسعود سے کہاکہ امام حسن ؑ کو گرفتار کرکے معاویہ کے حولے کیاجائے تاکہ
وہ اس کے بدلہ میں عراق کی حکومت دے دے پس اس کوچچا نے لعن وطعن کیا اوربعض شیعوں
نے اس کے قتل کا ارادہ کیا لیکن اس کے چچا کی سفارش سے اس کومعاف کردیا گیا۔
یہ روایت چندوجوہ سے غلط اورخود ساختہ ہے:
(۱) علمائے
شیعہ کے نزدیک تاریخ طبری ناقابل اعتبارہے اوراس میں اکثر مطالب غلط اوربے بنیاد
درج ہیں۔۔۔ چنانچہ یہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔
(۲) اسکا
راوی مجہول ہے جس کا کتب رجال میں کہیں نام نشان تک نہیں۔
(۳) اس روایت
میں ہے کہ مختاراس وقت اوّل شباب میں تھا حالانکہ اس کی ولادت ۱ ھ میں
ہے اوریہ واقعہ ۴۱ھکا ہے، پس مختار کی عمر اس وقت تقریباً چالیس برس کے تھی۔۔۔
لہذا اس کونوجوان کہنادرست نہیں کیونکہ وہ اس وقت پورا آزمودہ کارجوان تھا۔
(۴) اس کے
مقابلہ میں ’’کامل بہائی‘‘ سے ایک روایت منقول ہے کہ حضرت امیرالمو منین ؑ کا غلام
قنبر مدائن میں آیا تو اس کے پاس ایک شیشی تھی جس میں زہرتھا اورایک خط تھا
جوامام حسن ؑکے ایک غلام اسماعیل نامی کولکھا گیا تھا، قنبر نے بیان کیا کہ میں نے
راستہ میں ایک شخص کو مقتول پایا ہے جس کے قریب توبرہ میں یہ شیشی اورخط موجود تھے
جن کومیں اٹھالایا ہوں، اس خط میں معاویہ نے اسماعیل کولکھا تھا کہ امام حسنؑ کے
قتل کے لئے میں نے زہربھیجی ہے لہذا تم اس کوقتل کردو، امام حسن ؑ نے وہ خط پڑھ
کرسرہانے کے نیچے رکھ دیا اوراس کے مضمون کوظاہر نہ فرمایا لیکن ابن عباس نے اٹھا
کراسے پڑھ لیا، مختار کوجب اس مضمون کا پتہ چلاتو وہ اسماعیل کو مجلس سے باہرلے
گیا اوراس کا سرتن سے جداکردیا، یہ روایت پہلی طبری کی مفروضہ روایت سے معارض ہے۔
(۵) طبری
والی روایت بنابر صحت کے علمائے شیعہ نے بالفاظ دیگر بیان کی ہے جس سے مختارکی قوت
ایمانی پرروشنی پڑتی ہے اورمعلوم ہوتاہے کہ مختار کی ہراچھی خوپرپردہ ڈالنے کے لئے
بنی امیہ کے وظیفہ خور ہمیشہ سے اپنے آپ کووقف رکھتے تھے اورواقعات کو توڑمروڑ کر
پیش کرنا ان کا شیوہ تھا!
چنانچہ شیخ صدوق سے ’’علل الشرائع‘‘ میں اس طرح منقول ہے کہ معاویہ نے
عمروبن حریث۔۔ اشعت بن قیس ۔۔حجربن حارث اورشبث بن ربعی کو جداجدا خطوط لکھے کہ
اگر تم نے امام حسن ؑ کو قتل کرڈالا تو میں تمہیں دولاکھ درہم نقد کے علاوہ فوج کی
افسری اوراپنی ایک لڑکی نکاح میں دوں گا، حضرت امام حسن ؑ کوچونکہ معلوم تھا لہذا
آپ ؑ ہمیشہ قمیص کے نیچے زرّہ پہنے ر کھتے تھے۔
پس بنا بر روایت فاضل دجیلی جوانہوںنے کتاب ’’المختارالثقفی‘‘ میں ذکر کی
ہے کہ مختار کوخطرہ لاحق ہواکہ کہیں میرا چچا اس حرص و لالچ کے پھندے میں نہ پھنس
جائے؟ چنانچہ اسی فکرمیں ہی تھا کہ شریک اعورسے اس کی ملاقات ہوئی اورشریک چونکہ
مشہورومعروف شیعہ تھا مختارنے اس کے سامنے اپنی تشویش ظاہر کی اورمعاویہ کی
چالبازی سے اس کو آگاہ کیااورکہاکہ مجھے خطرہ ہے کہیں میرا چچامعاویہ کے دامِ
تزویرمیں نہ پھنس جائے، پس شریک نے اس کو مشورہ دیا کہ اس طریقہ سے اس کا امتحان
کرو اگر واقعاً لالچ وطمع اس کے دل میں ہوگا تو ظاہرہوجائے گا پس امام ؑ کو کسی
دوسری جگہ منتقل کردیں گے، چنانچہ مختارنے اپنے چچا سے کہا کہ امام حسن ؑ کو
گرفتار کر کے معاویہ کے سپردکردیں تاکہ اس کے انعام میں ہمیں عراق کی حکومت دے دے،
پس اس کے چچا نے اس کو فور اً جھڑک دیا اورمختار کومعلوم ہوگیاکہ میرا چچالالچ
وطمع دنیاویہ میں آکرگمراہ ہونے والانہیں۔۔۔ پس یہ روایت درحقیقت مختار کی مدح
میں تھی اور دشمنانِ اہل بیت نے مختار کی عظمت کو کم دکھانے کے لئے اس کو توڑ مروڑ
کر پیش کیا اوراس طریقہ سے بنی امیہ کے ساتھ اپنی وفاداری کا فریضہ اداکیا۔
اسی طرح ایک روایت امام جعفرصادقؑ سے ’’رجال کشی‘‘ میں منقول ہے کہ مختار
امام زین العابدین ؑ کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کیاکرتاتھا؟
اولاً اس روایت
کے راوی مجہول ہیں۔
ثانیاً اکثر
روایات سے ثابت ہے کہ مختارامام زین العابد ین ؑ کی امامت کا قائل تھا اوراس روایت
کے مقابلہ میں خود امام جعفرصادقؑ سے کشّی نے ہی مختار کی مدح نقل کی ہے جس کو
اخبارِ مدحِ مختار میں چھٹے نمبر پردرج کیا جاچکا ہے۔
پس معلوم ہواکہ اس قسم کی مفروضہ روایات دشمنانِ اہل بیت کی اُمویت نوازی
کا شاخسانہ ہیں، اسی طرح مختار کا حضرت محمد بن حنفیہ کی امامت کا قائل ہونا بھی
کسی اموی خوشامدی زبان کا اُگلا ہوا کلمہ ہے جوروحِ یزیدی کوخوش کرنے کے لئے الاپا
گیا ہے، البتہ اس مقام پردوروایتیں جوامام جعفر صادقؑ سے منقول ہیں مختارکے متعلق
بدظنّی کی موجب ہیں:
(۱) بروایت
’’تہذیب‘‘ سند کے ساتھ احمد بن ابی ہلال بواسطہ ایک گمنام راوی کے امام جعفر صادقؑ
سے نقل کرتاہے کہ حضرت رسالتمآبؐ پل صراط سے گزریں گے ان کے پیچھے علی ؑان کے
پیچھے حسن ؑ اوران کے پیچھے حسین ؑہونگے، جب درمیان میں پہنچیں گے تومختار حضرت
امام حسین ؑکی خدمت میں عرض کرے گاکہ میں نے آپ ؑ کے خون کابدلہ لیا تھا پس حضرت
رسالتمآبؐ فرمائیں گے اے حسین ؑتم اس کی فریاد رسی کرو، پس حضرت امام حسین ؑ عقاب
تیز پرواز کی طرح جاکراس کو آتش جہنم سے نکال لائیں گے۔
(۲) ’’بحارالانوار‘‘
میں سماعہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادقؑ سے سنا کہ بروزِمحشر حضرت
رسالتمآبؐ۔۔ حضرت امیرالمومنین ؑ اورحضرات حسنین ؑ دوزخ کے کنارے پر ہوں گے
اورجہنم سے ایک آواز آئے گی یارسول اللہ! میری امدادکیجئے؟ تو آپؐ اس کو کوئی
جواب نہ دیں گے، پھر امیرالمومنین ؑ کوپکارے گا یامولا! میری مددکیجئے؟ تووہ بھی
اس کو کوئی جواب نہ دیں گے، پھر امام حسین ؑ کی خدمت میں عرض کرے گا اے مولا! میں
نے آپ ؑ کے دشمنوں سے انتقام لیا تھا، تو حضرت رسول خدا فرمائیں گے اے بیٹاحسین
ؑ! اس نے تیرے اوپر حجت تمام کردی ہے پس امام حسین ؑ تیز پروازعقاب کی مانند اس کو
آتش دوزخ سے نکال لیں گے، سماعہ کہتاہے میں نے دریافت کیا حضوؐر وہ شخص کون ہوگا
؟ توآپؐ نے فرمایا وہ مختار ہو گا، میں نے پوچھا وہ جہنم میں کیوں جائے گا؟
توفرمایا اس کے دل میں شیخین کی تھوڑی سی محبت تھی اورمجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے
حضرت محمد مصطفیٰ کو برحق نبی مبعوث فرمایا اگرجبرائیل ومیکا ئیل کے دلوں میں بھی
ان دو کی ذرّہ بھر محبت موجود ہو تو خداان کو بھی اُلٹے منہ دوزخ میں ڈالے گا۔
یہ روایت ’’منتخب‘‘ میں بھی مذکور ہے لیکن اس میں اس طرح ہے کہ مختار سلطنت
کی محبت رکھتاتھا اوردنیا کی زینت ورونق کا دلدادہ تھا اوردنیا کی محبت ہرگناہ کی
جڑ ہے کیونکہ جناب رسالتمآبؐ نے فرمایا مجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے نبی
مبعوث فرمایا ہے اگر جبرائیل ومیکائیل کے دل میں دنیا کی ذرّہ بھر بھی محبت ہو تو
خدا ان کوبھی الٹے منہ جہنم میں داخل فرمائے گا۔
پہلی روایت جو ’’تہذیب‘‘ میں منقول ہے اس کا جواب تویہ ہے کہ:
اولاً احمد بن
ابی ہلال مقبول راوی نہیں ہے جیسا کہ بعض کتب رجال والوں سے منقول ہے۔
ثانیاً احمد بن
ابی ہلال نے جس سے روایت لی ہے اس کا نام نہیں لیا گیا لہذا گمنام شخص کی روایت
قطعاً قابل قبول نہیں ہوسکتی جس طرح کہ علمائے اصول کا مسلمہ ہے۔
دوسری روایت کا یہ جواب دیاگیا ہے کہ سماعہ نامی تین اشخاص ہیں:
(۱ ، ۲) سماعہ
حناط ،
سماعہ بن عبدالرحمن مزنی (یہ دونوں
مجہول الحال ہیں)
(۳) سماعہ بن مہران: اس کے عقیدہ کے متعلق اختلاف ہے بعض اسے
فطحی بعض واقفی اوربعض اثناعشری کہتے ہیں۔۔۔ بنابریں روایت مجہول ہے لہذاقابل قبول
نہیں ہوسکتی۔
اوربالفرض اگر یہ دوحدیثیں صحیح بھی مانی جائیں تب بھی یہ ثابت ہوجاتاہے کہ
مختار مومن تھا اورصحیح الاعتقادتھا کیونکہ اگر اس کا اعتقاد فاسد ہوتا تویقینا
نجات نہ پاسکتا پس کسی وقت بھی اس کا آتش جہنم سے نجات پالینا اس کے مومن ہونے کی
دلیل ہے ممکن ہے پہلے کچھ عرصہ کے لئے اپنے بعض سابقہ گناہوں کی وجہ سے مستحق جہنم
قرار دیا گیا ہوا اور پھر امام حسین ؑکی شفاعت سے نجات حاصل کرے جس طرح بعض دوسرے
گنہگار شیعوں کا بھی یہی حال ہوگا۔
بعض دشمنانِ دین نے یہ بھی مشہور کیا ہوا ہے کہ مختارنے نبوت کا دعوی کیا
تھا اوروہ کہتاتھا کہ مجھے وحی ہوتی ہے
(دروغ گو را حافظہ نہ باشد) ایک
طرف کہتے ہیں کہ مختارمحمد بن حنفیہ کی امامت کا قائل تھا اورلوگوں کو اس کی امامت
کی طرف راغب کرتا تھا اوردوسری طرف یہ کہ وہ خود اپنی ذات کے لئے نبوت کا مدعی
تھا؟ حیا کیجئے! جو شخص خود اپنی نبوت کا
قائل ہو وہ کسی دوسرے کی امامت کا پرچار کیو نکر کرسکتا ہے؟ نیز کہتے ہیں مختار کا
ایک غلام تھا جس کا نام جبریل تھا پس جب کہتاتھا کہ مجھے جبریل نے خبر دی ہے تو
لوگ سمجھتے تھے کہ وہ وحی کا دعویٰ کررہاہے بہرکیف مختار کے متعلق اس قسم کی افواہیں
دشمنانِ اہل بیت کے تعصب کی پیداوار ہیں ان کو درخوراعتنا نہ سمجھناچاہیے اوریہی
عقیدہ درست ہے کہ مختار پکا شیعہ اورموالی تھا، البتہ ہم اس کو معصوم نہیں تسلیم
کرتے کہ اس سے کبھی گناہ سرزدبھی ہوا ہو، بلکہ وہ مومن تھا محب اہل بیت تھا اوراس
نے اہل بیت کے افسردہ اورغمزدہ دلوں کوخوشنود کیا اوراس کی یہ نیکی بہت سی نیکیوں
سے بڑھ کرہے۔
شیخ عباس قمی اعلی اللہ مقامہ نے ’’منتہی الامال‘‘ میں فرمایاہے کہ مختار
نے امام ؑ کے قلب مبارک کوشاد کیا بلکہ مصیبت زدہ اورشکستہ دل سادات اورا ٓلِ
پیغمبر کے ایتام دارامل کے زخمی دلوں پرمرہم لگائی اوران کوخوشحال وخوشنود کیا
جوپانچ سال کے طویل عرصہ سے سوگواری اور آہ وزاری میں شب وروز بسرکررہے تھے
اورصرف بطریق ظاہرداری ان کا شریک غم نہیں ہوا بلکہ ان کی تسلی خاطر اورسکونِ نفس
کے موجب ہونے کے علاوہ ان کے گھروں کوآباد کیا اور مالی امداد سے ایک بڑی حد تک
ان کی دست گیری کی۔
کتب معتبرہ میں وارد ہے کہ ایک مسلمان کا ہمسایہ ایک کافر تھا اوروہ ہمیشہ
مسلمان کے ساتھ نیکی برتتا تھا، جب اس کافر پر موت آئی تو حسب وعدۂ پروردگا ر
دوزح میں بھیجاگیا، خداوندکریم نے آگ کے درمیان اس کے ارد گرد ایک پردہ بنادیا کہ
اس پر آگ اثر نہ کرسکے اوراس کے رزق کا انتقام بھی علیحدہ فرمادیا اور اس کو
کہاگیاکہ اپنے مسلمان ہمسایہ سے نیکی کرنے کا یہ تجھے بدلہ دیا جارہا ہے، پس جب
ایک کافر مسلمان پراحسان کرے تواس کے عوض میں آتش جہنم سے اس کو بچالیا جاتاہے تو
جو شخص آلِ محمد پر احسان کرے اوران کی مصیبتوں کا علاج کرے وہ کس طرح دوزخ میں
ڈالاجاسکتاہے؟ پس ثابت ہوا کہ مختار ناجی ہے اوراس کا فعل اہل بیت کی بارگاہ میں
مقبول ہے بلکہ میں توسمجھتا ہوں کہ جوکچھ مختار نے کیا اگر کسی انسان سے اس کے فعل
کا عشرعشیر بھی صادر ہوجاوے تووہ اس کی نجات کے لئے کافی ہے۔