و اقا م الصلو ۃو اتی الزکوۃ والمفو ن بوھدھم ازا عھدو اوال صبرین فی الباسا ء والضرا
ی وحین الباس اولیک الزین صدقو او او لیک ھم المتون یا ایھا الزین امنو اکتب علیکم
اوقصاص فی القتلی الحر با لحر والعبد بالعبد والا انثی بالانثیفمن عفی لہ من اخیہ
چہ فاتباع بالمعروف وا دا ی الیہ باحسان ذا لک تخفیف من ر بکم ورحمتہ
اور
قیم کرے نماز کو اور دے زکوۃ اور وہ لوگ جو اپنے عہد سے وفا کرنے والے ہوں جب عہد
کر لیں اور صبر کرنے والے ہں سخئؤتی اور تکلیف میں اور بوقت لڑائی ایسے لوگ صادو
ہیں اور وہی پرہیزگار متقی ہیں اے ایمان والو فرضکیا گیا ہے تم پر قصاص بدلہ
مووہین کے بارے میں ازاد ندلے ازاد کے اور غلام بدلے غلام کے اور عورت کے بدلے
عورت پس جس شخص کے لیے معافی ہوجائے اپنے ایمانی بھائی کی طرف سے کچھ
تومعافی دینے والے کے لیے باقی کا پیچھا کرنا جئز ہے ساتھ نیکی کے اعر معاف شدہ کو
باقی کا ادا کرناہے ساتھ احسان کے یہ آسانی ہے
ذَوِی
الْقُرْبٰی بعض روایات میں ہے کہ اس سے جناب رسول خدا کے قریبی
مراد ہیں اور آیت مجیدہ میںجس قدر اوصاف کا ذکر ہے سوائے علی بن ابی طالب کے کوئی
بھی ان کا جمع نہیں ہے لہذا آیت کا مصداق سوائے علی ؑکے کوئی ہوہی نہیں سکتا
یَااَیُّھَاالَّزِیْنَ
اٰمَنُوْ شان نزول عرب لوگ اپنے دستورکے قدیم کے موافق قسم اٹھالیا کرتے تھے
کہ اگر کوئی ہمارا غلام قتل کرے گا تو ہم اس کے بدلہ میں ازاد کو قتل کریں گے اسی
طرح عورت کے بدلہ میں مرد کو قتل کریں گے اور ایک کے بدلہ میں دو کو قتل کریں گے
اسی بناء پر یہ آیت نازل ہوئی کہ مقتول کا قصاص یہ ہے کہ ازاد کے بدلہ میں ازاد
غلام کے بدلہ میں غلام اور عورت کے بدلہ میں عورت قتل ہواس سے تجاوز کرنا قطعا
ناجائز ہے
کُتِبَ
عَلَیْکُمْ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایت بتلاتی ہے کہ قصاص لینا فرض ہے
حالانکہ وارث پر قصاص کا لینا فرض نہیں ہوتا بلکہ اس کو تین چیزوں میں اختیار ہوتا
ہے ۱ قصاص ۲ یاخون بہا ۳یامعاف کردے تو اس کا جواب یہ ہے کہ واجب
تخییری کو بھی واجب کہا جاتا ہے اس مقام پر بھی چونکہ قصاص واجب تخییری کا ایک فرد
ہے پس اگر وارث اسی فرد کو اختیار کریں تو یہ واجب اورفرض ہوگا
فَمِنْ
عُفِیَ لَہٗ مقتول
کا کا وارث اگر قاتل سے قصاص معاف کردے اوراس پر خون بہاعائد کرے تو صاحب حق یعنی
وارث مقتول کو چاہیے کہ معروف یعنی احسان وبھلائی سے خون بہاکا مطالبہ کرے
یعنی اس کو تنگ نہ کرے اوراگر تنگ دست ہو تو اس کو کچھ مہلت دے دے اسی
طرح قاتل پر بھی واجب ہے کہ وارث مقتول کا حق خیروخوبی سے ادا کرے ٹال مٹول کرکے
خواہ مخواہ اس کو تنگ نہ کرے
من
اخیہ اخ سے مراد یہاں مقتول ہے یعنی جس قاتل کو اپنے مقتو بھائی کی
جانب سے کچھ معافی مل جائے یعنی وارث مقتول کے قصاص لینے کی بجائے خوں بہا پر راضی
ہوجائیں پس اس مقام پر مقتول کو قاتل کا بھائی کہا گیا ہے اوراسی قول کو صاحب مجمع
البیان نے پسند فرمایا ہے
ذلک
تخفیف قتل کے بارے میں تورات کا حکم تھا بدلہ لیانا یا معاف کرنا
اورانجیل کا حکم تھا معاف کرنا یا خون بہا لینا اورقران کا حکم ہے بدلہ
یاخون بہایا معانی پس قرانی حکم سب سے زیادہ اسان ہے
فمن
اعتدی یعنی مقتول کا وارث اگر معاف کردے یا خون بہا پر راضی ہوجائے تو پھر اس کو
قصاص لینے کا حق نہیں ہے ورنہ اگر پھر قصاص لینے پر امادہ ہوتو اس کے لئے
عذاب درد ناک ہے
ولکم
فی القصاص خیوۃ احتجاج طبرسی سے امام علی زین الوابدین علیہ السلام سے
منقول ہے کہ اے امت محمد تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے کیونکہ جو شخص قتل کا ارادہ
کرے گا اورجانے گا کہ مجھ سے قصاص لیا جائے گا تو وہ خود قتل سے رک جائے گا پس
مقتول بھی قتل سے بچ گیا اوریہ بھی قصاص میں قتل ہونے سے بچ گیا گویا قصاص کے وجوب
نے دونوں کو زندگی بخش دیاس کے بعد اپ نے فرمایا کہ یہ قصاص ہے تمہارے
دنیاوی قتلوں کا اگرچاہو تو میں تم کو اس سے بڑے قتل کا پتہ دوں اوراللہ کے نزدیک
اس کے قاتل کی سزا جو مقرر ہے اس کو بھی بیان کروں جو اس
قصاص کی سزا سے بہت زیادہ ہے لوگوں نیعرض کی حضور بیان فرمایئے تو اپ نے فرمایا کہ
عظیم ترین قتل وہ قتل ہے جس کے بعد مقتول کبھی زندہ نہیں ہو سکتا اورنہ اس کا
خسارہ پورا ہوسکتا ہے لوگوں نے پوچھا وہ کونسا قتل ہے تو اپ نے فرمایا کہ وہ یہ ہے
کہ کسی کو جناب محمد مصطفے کی نبوت اورعلی بن ابی طالب کی ولایت
سے
برگشتہ کیا جائے اوراللہ کے راستہ سے گمراہکرکے دشمنان علی کے
طریقہ پر اس کو گامزن کیا جائے اوران کو امام مان کر علی کو اپنے منصب سے
ہٹایا جائے اوراس کی فضیلت وعظمت کا انکار کیا جائے پس یہ وہ قتل ہے جس سے مقتول
کو ہمیشہ جہنم میں بھیجاجاتا ہے پس اس قتل کی جزاء اتش روزخ ہی ہے البرہان
فائدہ
اسی معنی کو ادا کرنے کیلئے عربوں میں ایک جملہ مشہور تھا
القتل
انفی للقتل ترجمہ قتل قتل کو مٹاتا ہے
لیکن
قران مجید کا یہ جملہ فی القصاص حیوۃ قصاص میں زندگی ہے لفظی ومعنوی ہر دواعتبار
سے اس سے بہیغ تر ہے لفظی اعتبار سے اس لئے کہ قرانی جملہ اس عربی مقولہ سے
مختصر ہے کیونکہ اس کے حروف دس اوراس کے حرور چودہ ہیں اورمعنوی
لحاظ سے اس لئے کہ قرانی جملہ میں تکرار نہیں اورعربی مقولہ میں
۱۔عورت کے وارث خون بہالے لیں۔
۲۔عورت کے وارث قاتل کو قصاص میں قتل کر دیں اور اس مرد کی نصف قیمت اس کے ورثوں
کو ادا کریں کیونکہ عورت حقوق میں مرد کا نصف ہوا کرتی ہے۔