التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

دوسری مجلس -- مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  --  مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ

میں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر عبادت کیلئے، جس کیلئے کوئی کام کیا جائے وہ اس کام کی غرض بن جاتی ہے اور غرض صاحب غرض میں موجب تکمیل ہوتی ہے۔۔۔ نیز صاحب الغرض مجنون کا مقولہ بھی مشہور ہے اور ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا کے افعال معلّل بالا غراض نہیں اورنہ وہ صاحب غرض ہے ورنہ اس کی ذات میں نقص لازم آئے گا اور وہ مستکمل بالغیر ہو گا اور یہ محال ہے۔
بلکہ خدا وہ ہے جس کو نہ اطاعت کی غرض اور نہ وہ اطاعت گزاروں کا محتاج نہ اس کو عبادت کی حاجت اور نہ وہ عبادت گزاروں کا نیازمند۔۔۔ کوئی اس کی اطاعت کرے یا نہ کرے کوئی اس کی عبادت کرے یا نہ کرے اس کی خدائی میں فرق نہیں پڑتا اطاعت و عبادت اس کو بڑھا نہیں سکتی اور نافرمانی اس کو کم نہیں کر سکتی نہ ملائکہ، انبیا ٔ و اوصیا ٔ کی عبادت اس کو فائدہ بخشتی ہے اور نہ ابلیس و شیطان کی سرکشی اس کو نقصان پہنچاتی ہے۔۔۔ وہ مطلق بے نیاز اور غنی ہے اس کو بذات خود کسی فرشتہ یا نبی یا ولی کی عبادت کی احتیاج نہیں ہے، نبیوں کے زمانِ عبادت میں جس قدر خدا تھا ان کے بعد بھی اسی قدر خدا ہے وہ لوگوں کی تخلیق سے پہلے ہراساں اور پریشان نہ تھا نہ کوئی دوسری کمی اس کو لاحق تھی جس کا مخلوق کے پیدا کرنے کے بعد ازالہ ہوا ہو۔۔ اگر ایسا ہو تو تغیر لازم آتا ہے جو اس کی ذات میں محال ہے۔
پھر عبادت کی دعوت کیوں ملی؟ تو اس کا جواب ہے تقاضائے محبت،کیونکہ ہر رشتہ و قرب داعی محبت ہوتا ہے اور غلامی و آقائی کا رشتہ سب رشتوں سے قریب تر ہے لہذا یہ رشتہ مضبوط ترین سبب محبت ہے کیونکہ مثلاً بیٹا وہی محبوب تر ہو گا جو غلام ہو گا باپ کا، بھائی وہی پیارا ہوگا جو اپنے بھائی کا وفادار ہوگا، پس قریبی رشتہ دار نافرمانی سے بیگانہ ہو سکتا ہے اور بیگانہ غلامی کے دائرہ میں آکر اپنا ہو جایا کرتا ہے، دیکھئے حضرت نوحؑ کا بیٹا آل سے کٹ گیا اور جناب سلمان کو اہل بیت ؑ میں شامل کر لیا گیا ’’اَلسَّّلْمَانُ مِنَّا اَہْلَ الْبَیْتِ‘‘
ماں باپ اولاد کے لئے ترستے ہیں منتوں دعائوں کے بعد ان کی گود آباد ہوتی ہے خوش ہوتے ہیں۔۔۔ پھر انکی تمنائیں بڑھتی جاتیںہیں اور "ہر تمنا کی تکمیل ایک نئی تمناکو جنم دیتی ہے"  وہ ترستے ہیں کہ کیا اپنی پیاری اور میٹھی زبان سے ہمیں بابا یا اماں کے لفظ سے یاد کرے گا؟ اور جب لفظ بنانے کی کوشش کرتا ہے اور آخر اس کے پیارے منہ سے لفظ  "اماں"  نکلتا ہے تو ماں جی جی کر کے تھکتی نہیں اور اس کی خوشی کا اندازہ سوائے پروردگار کے اور کوئی کر ہی نہیں سکتا اسی طرح وہ خدا جس کی محبت ماں باپ کی محبت سے کامل تر ہے وہ بھی چاہتا ہے کہ میرا بندہ مجھے اپنی پیاری زبان سے کہے  ’’یَا اَللّّٰہ‘‘  اور میں اس کو جواب دوں  ’’لَبَّیْکَ یَا عَبْدِیْ‘‘  اور یہ کلمہ اس کی ذات کو اس قدر محبوب ہے کہ ملائکہ پر بھی مباہا ت فرماتاہے۔
بچہ جب اماں کہہ کر ماں سے جی کی داد لیتا ہے اور بے انداز محبت و پیار کا ظہور دیکھتا ہے تو وہ اماں کے لفظ کو دہراتا ہے پھر ماں پیار کرتی ہے وعلی ہذا القیاس بچہ کو ماں کا لفظ یاد ہو جاتا ہے اور پھر ہر ایک موقعہ پر یہی لفظ استعمال کرتا ہے لیکن جب دوسری عورتوں سے وہ محبت نہیں پاتا تو اپنی غلطی محسوس کرتا ہے اور دوسرے لفظوں کی تلاش کرنے لگتا ہے حتیٰ کہ مناسب الفاظ ڈھونڈ کر آخر اُن سے بھی پیار و محبت کی داد لے لیا کرتا ہے۔۔۔۔ اسی طرح بابا ماموں وغیرہ کے الفاظ یاد کرتا ہے یہ ایک فطری درسگاہ ہے جس سے بچہ مادری زبان سیکھتا ہے اور یہ یاد رہے کہ ماں باربار بچے کے ورد سے بعض اوقات تھک جاتی ہے اور بعض اوقات باپ بھی کوفت محسوس کرتا ہے حتیٰ کہ وہ دونوں چاہتے ہیں کہ بچہ اب کوئی دوسری بات کرے لیکن قربان محبت خالق کے کہ انسان جس قدر اس کو پکارتا جائے اس کی محبت میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا وہ کبھی مخلوق کی یاد سے تھکتا نہیں بلکہ منازل قرب میں ترقی ہی دیتا رہتا ہے۔
بعض اوقات بچہ کی نافرمانی ماں باپ سے دائمی قطع تعلقی کی موجب بن جاتی ہے کیونکہ ماں باپ کی محبت اغراض کی ماتحت تھی اور زمان بچپن میں وہ اندھی محبت کرتے تھے اور بچہ کی جوانی سے کچھ توقعات وابستہ رکھتے تھے اب ان توقعات کے پورا نہ ہو سکنے پر بعض اوقات بچہ کو عاق کر دیتے ہیں۔۔۔ خدا کی محبت چونکہ حقیقی ہے اور غنی عنِ الاغراض ہے اور پیدا کرنا اس کا احسان محض ہے لہذا وہ کبھی اپنے بندہ کو اپنی رحمت سے مایوس نہیں کرتا اگر انسان نافرمانی کرے تو وہ اس کے سامنے سے توبہ کا دروازہ بند نہیں کرتا بلکہ مدت کے بعد توبہ کرنے والے بھی اس کی جانب سے خطاب آتا ہے  اَیْنَ کُنْتَ فِیْ ھٰذِہٖ الْمُدَّۃِ  اتنی مدت تک تو کہاں رہا ؟
اس مہربان خدا نے تو فرعون جیسوں کو بھی اپنی رحمت سے مایوس نہیں کیا یہ اور بات ہے کہ فرعون نے خود اس کی طرف آنا پسند نہیں کیا۔۔ دیکھئے کمزور کا حق ہے کہ بڑے کو منت کرے لیکن اللہ کی محبت کی یہ شان ہے کہ علیٰ کل شی قدیرہوتے ہوئے منت بھی کرتا ہے میلہ بھی اور خط و کتابت بھی۔۔ چنانچہ فرعون کی طرف حضرات موسیٰؑ و ہارونؑ کو بھی بھیجا اور تورات جیسی کتاب بھی ساتھ دی اور اس کی دعوت عام ہے   ’’فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرُکُمْ‘‘  تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں اور ساتھ اس کے جنت کے انعام کی پیشکش بھی کرتا ہے اسلئے ماں باپ بچے کی نافرمانی سے ناراض ہوتے ہیں اور اس کی اطاعت سے خوش رہتے ہیں حالانکہ بحیثیت ماں باپ کے ان کو نہ فائدہ ہے اور نہ نقصان ہے اگر بیٹا باپ کو باپ نہ کہے تو باپ کو کیا خسارہ ہے؟ اور کہے تو باپ کو کیا فائدہ؟ ہاں۔۔۔ باپ کی محبت کا تقاضا ہے کہ باپ کہہ کر وہ حلالی کہلائے گا اور نہ کہہ کر وہ حرامی کا خطاب پائے گا محبت چاہتی ہے کہ میرا ہو کر حرامی نہ کہلائے اسی طرح انسان کی عبادت خالق کو فائدہ نہیں دیتی اور نہ اس کی نافرمانی اس کو نقصان دیتی ہے بلکہ اس کی محبت حقیقی کا تقاضا یہ ہے کہ میرا ہو کر شیطان کا نہ کہلائے بس اسی وجہ سے اس نے مخلوق کو عبادت کی دعوت عام دی ہے ورنہ اس کو کوئی غرض نہیں تھی۔
اسی طرح جملہ عبادات سے اس کو منفعت نہیں ہے اور گناہوں سے اس کو خسارہ نہیں اور باوجود اس کے وہ عبادت سے خوشنود اور گناہوں سے ناراض ہوتا ہے، صرف تقاضائے محبت ہے کہ انسان عاقل ہو کر بے عقلوں کی طرح ذلت کی وادی میں نہ گرے۔۔ نیز دکھ سکھ، بیماری و تندرستی بھی اس تنبیہ کی خاطر اس نے مقرر کی ہیں۔
آئیے!  کربلا والوں سے درس لیں، امام حسین ؑ ؑ کی بے آس بہن۔۔ امام حسین ؑ کی سراپا حسرت بہن نے کونسادرد نہیں دیکھا؟ لیکن قربان جائوں اس مخدومہ کی عبادت کی شان پر کہ پُر خطر اور پُر درد سفر میں اونٹ کی کوہان پر خدا معلوم وضو سے یا تیمم سے نماز واجب تو بجائے خود تہجد بھی قضا نہ کی اور شام کے زندان میں بیٹھ کر فرائض ادا کئے۔۔ ہائے دنیا کی تمام شریف زادیاں قید ہو جاتیں لیکن بی بی زینب ؑ قید نہ ہوتی، تمام شریف زادیوں کے برقعے بی بی کی چادر کی ایک تار کی قیمت نہیں اور تمام شریف زادیاں بی بی کے قدموں کی خاک پر نثار ہو جائیں۔
سچ ہے پردے کا وقار ختم ہو گیا جب سے امام حسین ؑ کی بہن تشہیر ہو کر بازارِ شام گئی۔۔ جناب زینب ؑ کو حسر ت کا مجموعہ اسلئے میں نے کہا کہ مرد میدان میں جاتا ہے زخم کھاتا ہے لیکن اس کے دل میں حسرت نہیں ہوتی کیونکہ زخم مارتا بھی ہے اور کھاتا بھی ہے قتل کرتا بھی ہے اور قتل ہوتا بھی ہے۔۔۔ لیکن عورت کے پاس سوائے حسرت کے اور کچھ نہیں ہوتا جب مصائب کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں تو دل ہی دل میں کہتی ہے کاش میں مرد ہوتی تو ان کا مقابلہ کر سکتی اب اس کو دُگنا درد ہوتا ہے۔۔ ایک مصیبت کادوسرا حسرت کا؟  کربلا کی مخدومہ پر کئی درد جمع تھے قید کا درد۔۔ پیاس کا درد۔۔ اعزأ کی شہادت کا درد۔۔ بچوں کی یتیمی کا درد۔۔ بیوائوں کے لاوارث ہونے کا درد۔۔ امام سجاد ؑ کی بیماری کا درد اور بایں ہمہ ہر طرف سے حسرت و یاس کا درد!
اسلئے میںکہتا ہوں مرتبہ شہادت میں گو امام حسین ؑ کا حصہ زیادہ ہے لیکن مقام درد میں زینب ؑ عالیہ بھائی سے آگے ہے۔۔ اسی طرح مقام صبر و استقلال میں بھی زینب ؑ عالیہ کا حصہ زیادہ ہے، باوجود یکہ عورت تھی لیکن مردانہ وار مصائب کو روند دینا اسی مخدومہ کا حصہ تھا۔۔۔ امام حسین ؑ نبوت کی لاج تھے اور زینب ؑ عالیہ امام حسین ؑ کی لاج تھی۔۔ اگر امام حسین ؑ نہ ہوتے تونبوت کی تعلیم ختم ہو جاتی لیکن اگر زینب ؑ عالیہ نہ ہوتی تو حسینیت ختم ہو جاتی۔
امام حسین ؑ کے پاس شہادت کے بعد بھی دونوں شہزادے قریب موجود ہیں لیکن ہائے زینب ؑ عالیہ وفات کے بعد بھی اپنی اولاد کا قرب نصیب نہ ہوا؟
امام حسین ؑ چند بھائیوںسے جدا ہیں تو چند پاس موجود ہیں لیکن زینب ؑ عالیہ تمام بہن بھائیوں سے جدا ہیں؟!
 اے بی بی!   ہم تیرے عزادارآج تو بہتی ہوئی آنکھوں سے تیرا سلام کرتے ہیں، تیرا ذکر کر تے ہیں اور اپنوں کا مجمع آنکھیں بند کرکے تیرے مصائب پر روتا ہے لیکن وہ کیا وقت ہو گا جب تیرا محمل درمیان میں تھا اور تماشائیوں کا ہر طرف سے ہجوم تھا؟ آج تیرے نام کے سامنے مومنوں کے سرجھک جاتے ہیں ہائے دربارشام میں جب تیرا نام لیا جاتا تو لوگ خوشیاں مناتے اور تالیاں بجاتے تھے!؟
ہائے شرابی کا دربار کجا اور زینب ؑجیسی پردہ دار کجا؟ بس ہمیں دو ہی باتیں رُلاتی ہیں ماں کا دربار میں جانا اور بیٹی کا بازار میں آنا۔۔۔ ماں دربار سے روتی آئی اور بیٹی بازارسے روتی گئی۔

مخدومہ دوعالم دی کیوں وچ دربار بلائی گئی
بازار دے وچ بنت علی دی کیوں تشہیر کرائی گئی
کیوں دھی مظلوم مسافر دی ہک چولے وچ دفنائی گئی
جیڑھی ٹر ناہی سگدی گھر دے وچ کیوں نو نو میل ٹرائی گئی