جب مختار نے خروج کیا تو عمر بن سعد پوشیدہ ہو گیا تھا اور عبد اللہ بن
جعدہ بن ہبیرہ سے اس نے خواہش کی کہ مختار سے میرے لئے امان نامہ کی سفارش کیجئے؟
(یہ عبد اللہ بن جعدہ حضرت امیرالمومنین ؑ کا بھانجا تھا اور مختار کا مقرب خاص
تھا) چنانچہ بعض وجوہ کی بنا پر عبد اللہ بن جعدہ نے ان کی درخواست منظور کی اور
مختار سے امان نامہ لکھوایا، جس کا خلاصہ تھا کہ ابن سعد اس وقت تک امان میں ہے جب
تک اس سے کوئی حدث صادر نہ ہو اس امان نامہ کے بعد عمر بن سعد ظاہرہو گیا اور گاہ
بگاہ مختار کے دربار میںبھی آجایا کرتا تھا، ایک د ن مختار نے بیان کیا کہ کل میں
ایک ایسے شخص کو قتل کروں گا جس کی علامتیں فلاں فلاں ہو نگی اور اس کے قتل سے
ملائکہ مقربین اور جملہ مومنین خوش ہو ں گے، چنانچہ یہ خبر عمربن سعد تک پہنچ گئی اور
راتوں رات گھوڑے پرسوار ہو کر اس نے راہِ فرار اختیار کیا تھوڑا سا سفر کیا تھاکہ
اس پر نیند غالب آئی اور قربوسِ زین پر سر رکھ کر سو گیا اور گھوڑا آگے جانے کی
بجائے واپس پلٹ آیا، جب اس ملعون کی آنکھ کھلی تو اپنے آپ کو کوفہ میںپایا پس
فوراً گھر میں داخل ہو گیا، چنانچہ جاسوسوں نے مختار کو اس امر کی اطلا ع دے دی
مختار نے کہا جس شخص کی گرد ن میں خون حسین ؑکا طوق موجود ہے وہ کہاں فرار کر سکتا
ہے؟ پس عمر بن سعد نے اپنے بیٹے حفص کو مختار کے پاس دوبارہ امان نامہ حاصل کر نے
کیلئے بھیجا۔
مختار نے اس سے پوچھا کہ تیرا باپ کہاں ہے اس نے جواب دیا کہ گھر میں ہے
اور امان نامہ کی تجدید کی درخواست کرتاہے مختار نے کہاکہ بیٹھ جائو پس ابو عمرہ
کو بلایا اور اس کے کان میں کہا کہ عمر سعد کے گھر جائو اور اس کو جس حالت میں
دیکھو قتل کردو۔اور اس کا سر میرے پاس لائو چنانچہ ابو عمرہ پہنچا تو ابن سعد ابھی
رخت خواب میں تھا ابو عمرہ نے کہا تجھے امیر مختار نے بلایا ہے۔عمر سعد نے اٹھنے
کا ارادہ کیا کہ اس کا پائوں اچانک قمیص کے دامن میں الجھ گیا اور وہ گر گیا ابو
عمرہ نے تلوار سے اس کا سر قلم کر لیا اور مختار کے پاس لایا مختار نے اس کے لڑکے
سے پوچھا کہ اس کو پہچانتا ہے یہ کون ہے؟حفص نے جواب دیا ہاں لیکن اس کے بعد میرا
جینا بھی فضول ہے پس مختار نے حکم دیا اور اس کے سر جدا کیا گیا۔
مختار کہنے لگا کیا عمر بن سعد حسین ؑکے بدلہ میںحفص علی اکبر کے بدلہ میں
ہوسکتا ہے؟پس فورا خودہی جواب دیا نہیں خدا کی قسم ہرگز نہیں ہوسکتا بلکہ اگر پوری
قوم قریش میں سے تین چوتھائی کو تہ تیغ کردوں تب بھی امام مظلوم کی ایک انگلی کا
بدلہ بھی نہیں ہو سکتا، پس عمر سعد اور اس کے بیٹے حفص کا سر مختار نے حضرت محمد
بن حنفیہ کی خدمت میں روانہ کردیا کیونکہ اس سے پہلے محمد بن حنفیہ نے اس کو سرزنش
کی تھی کہ ابھی تک عمر بن سعد کو کیوں نہیں قتل کیا گیا، پس جب یہ دونوں سر پہنچے
تو محمد بن حنفیہ سے سجدہ شکرادا کیا اور مختار کے حق میں دعا کی۔