چو نکہ اعمالِ صالحہ کی جزا کے متعلق قرآن مجید
میں بارھا وعدہ ہو چکا ہے اور عدلِ خداوندی سے کسی کے اعمال کا ضائع کرنا بعید
ہے۔۔لہذا وہ آیات جن کا مضمون حبطِ اعمال کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے ان کی بنا
ٔ پر یہ خطور ذہن میں پیدا ہونا لازمی ہے کہ عدل اور حبط۔۔ کیا یہ دوباتیں آپس
میں تنافی تو نہیں رکھتیں؟
تو اس اشکال کے جواب سے پہلے یہ معلوم کر لینا
ضروری ہے کہ ضبط اور حبط دو جدالفظیں ہیں جن کے معانی جدا جدا ہیں:
ضبط: ضبط کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو ایک
چیز کا مستحق قرار دیتے ہوئے کسی اور معاملہ یا حق میں اس کو ماخوذقرار دے کر
بطورِ تاوان کے اس کے استحقاق کو باطل کر دینا۔۔۔ اور اس کا سبب صرف تسکین جذبات
ہی ہو ا کرتا ہے اور یہ سراسر ظلم ہے، ایسے امر کا صدور کسی شریف کسے بھی بعید ہے
چہ جائیکہ معبود بر حق سے اس کا صدور ہو۔
حبط: حبط کا مطلب یہ ہے کہ عمل میں
معاوضہ کا استحقاق ہی نہیں یعنی وہ عمل صوری طور پر عمل ہے اس میں معنویت ہی نہیں
جس کی بدولت اس میں کسی قسم کا استحقاق پیدا ہو۔۔۔ اور اس کی دو صورتیں ہیں:
(۱)
عمل میں وہ شرائط ملحوظ نہ رکھی گئی ہوںجو اس کی مقبولیت کا معیار
ہیں۔
(۲)
بوقت ِعمل شرائط متعینہ کا لحاظ ہو جن کی بدولت وہ عمل صحیح قرار دیا
جائے لیکن اس کی مقبولیت و استحقاق کی آخری شرط (یعنی خاتمہ کا ایمان سے
ہونا)مفقود ہو جائے۔
پس اگر نمازی۔۔نماز کو شرائط ِصحت کے ساتھ ادا کرے
اور بالآخر اس کا خاتمہ بھی ایمان سے ہو تو اس کی نماز یقینا موجب اَجر ہے اور وہ
شخص فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِم کا مصداق ہے، اسی طرح باقی تمام اعمالِ صالحہ
اگر اسی صورت سے ہوں تو ان کی جزا ضروری ہے اور کوئی دوسرا جرم ان کی جزا کو ضبط
نہیںکرسکتا کیو نکہ ضبط ظلم ہے، پس ایسے شخص سے اپنی زندگی میں اگر کوئی عمل موجب
مواخذہ سر زد ہو بھی جائے تو وہ اس کی سزا علیحدہ پائے گا اور سزا کی میعاد ختم ہو
جانے پر اپنے اعمالِ صالحہ کی جزا کا ضرور مستحق ہو گا۔
لیکن اگر اس کی نماز یا دیگر عبادات میں بوقت
ادائیگی شرائط ِصحت ملحوظ نہ ہوں اور منجملہ شرائط ِصحت محبت و وِلائے آلِ
محمد بھی ہے۔۔ جیسا کہ گذشتہ بیانات میں اس پر کافی بحث گذر چکی ہے۔۔۔ یا بوقت
ادائیگی شرائط ِصحت ملحوظ تھیں لیکن خاتمہ ایمان پر نہ رہا۔۔۔ تو ان ہر دو صورتوں
میں اس کے اعمال میں استحقاق جزا ہی نہیں رہتا جسے حبط عمل سے تعبیر کیا گیا ہے پس
جب اس قسم کے اعمال موجب ِجزا ہی نہیں تو ضبط جزا کا قصہ ہی ختم ہے، گویا اس کے
اعمال کا وجود کا لعدم ہے۔۔۔ نماز کا سرے سے بے وضو پڑھنا یا قبل سلام کے وضو تو ڑ
دینا دونوں مساوی ہیں۔۔۔ اسی طرح روزہ میں شروع سے نیت فاسد ہ رکھنا یا قبل از
غروب خواہ ایک منٹ ہی پہلے ہو توتوڑ دینا برابر ہیں۔۔ و علیٰ ہذا اقیاس تمام
عبادات۔۔ پس ایسا ہی ابتداء ً وِلائے اہل بیت سے منحرف ہونا اور قبل ازموت منحرف
ہو جانا ہر دو صورتیں برابر ہیں اور ہر دو مبطلِ جمیعِ اعمال ہیں۔
اس مقا م
پر گذشتہ مثا لِ حکو مت کو مقا م کی مز ید تو ضیح کے لیے مدّ نظر فرمائیے۔۔۔ کہ جو
شخص حکومت ِوقت کا دشمن وغدّ ار ہو خو اہ ابتد اء ً ایسا ہو۔۔ خوا ہ عر صہ ٔ
دراز کے بعد ایسا ہو جائے۔۔ہر دو صو رت میں حکو مت ِوقت کی طر ف سے سخت ترین سزا
کا مستو جب ہو ا کر تا ہے اور اس کا یہ جر م قطعاً قا بل عفو نہیں ہو تا۔۔خو ا ہ
ظاہر ی طو ر پر وہ حکو مت کے قو ا نین کا کتنا ہی احترا م کر تا ہو تا ہو، پس جب
بھی جرم مذکور میں گرفتار ہو گا اس کی کسی دوسری خوبی کو سامنے نہ لایا جائے گا
اور نہ وہ ان خوبیوں کو جتلا کر اپنا گناہ دھو سکے گا۔۔ بلکہ اس کی وہ تمام خوبیا
ں صرف ظاہر داری اور منافقت ہی پر محمول ہوںگی اب اس کی سزا محدود نہ ہو گی تا کہ
کسی وقت اس کو رہا کر کے دوبارہ اس کو اس قسم کی شرارتوں کا موقعہ دیا جائے ایسی
صورت میں اس کو رہا کرنا بھی حکومت کی دانائی کے سراسر خلاف ہے۔
لیکن بخلاف اس کے جو شخص حکومت کا دل سے وفادار ہو
لیکن جذباتِ نفسانیہ کے ماتحت اگر اس سے حرکاتِ ناشائستہ کا صدور ہو جائے۔۔ تو
ایسا شخص اپنے جرم میں گرفتار ہو کر دفعاتِ حکومت کی رُو سے متعینہ سزا کا سزاوار
ضرور ہو گا لیکن اس کی سزا محدود ہو گی۔۔ اور آخر کار رہائی کا مستحق ہو گا۔۔۔۔۔
اور یہی عینِ مصلحت و عدالت ہے اور جرم کی حیثیت سے اس کو زیادہ سزا یاب رکھنا
عینِ ظلم ہو گا۔
پہلی صورت میں مجرم کا رہا کرنا ناانصافی اور
دوسری صورت میں اس کو زیادہ دیر تک مبتلائے سزا رکھنا ناانصافی ہے۔۔۔ پہلی صورت
میں مجرم کی سزا کی تحفیف موجب خطرہ ہے اور دوسری صورت میں سزا کی تحفیف حکومت کی
رحمدلی اور مجرم کے لیے تازیانہ عبرت ہے۔۔۔۔۔ نیز دوسری صورت میں بعض مصالح کی بنا
ٔ پر مجرم کا معاف کر دینا بھی ممکن ہے بشر طیکہ جرم کا تعلق حکومتی حقوق سے ہو۔۔
اور اگر رعایا کے حقوق سے اس کا تعلق ہوا تو پھر اس کی معافی صاحب ِحق کے حق کی
تلافی یا اس کی معانی پر موقوف ہے۔
یہ مثال صرف مطلب کی وضاحت کے لئے ہے ورنہ اُخروی
جزا و سزا کا اس پر قطعاً قیا س نہیں کیا جاسکتا۔۔ کیونکہ بعض اوقا ت حکومت ِظاہر
یہ میں پہلی قسم کے مجرم کو بھی توبہ کرنے اور وفاداری کا یقین دلانے پر رہا کر
دیا جاتا ہے لیکن قیامت کی عدالت ِعالیہ ٔ الٰہیہ میں یہ صورت پیدا نہیں ہو سکتی
کیونکہ وہاں مجرم کا توبہ کرنا یا آئندہ کی وفاداری کی یقین دہانی کرنا نا ممکن
ہے۔۔۔۔۔ یہ صورت تو صرف موت سے پہلے پہلے ہو سکتی تھی اور اس صورت میں اس کو یقینی
طور پر معاف بھی کیا جاسکتا تھا لیکن اب موت کے آہنی شکنجہ میں گرفتار ہو جانے کے
بعد نہ تو توبہ کا امکان ہے اور نہ اس کی رہائی کی کوئی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔۔۔
ہاں اگر اب کوئی خواہش کر لے کہ دوبارہ مجھے دنیا میں بھیجا جائے تو اعمالِ سابقہ
کی تلافی کروں گا۔۔۔ جواب ملے گا کَلَّا اِنَّھَا کَلِمَۃٌ ھُوَ
قَائِلُھَا۔
اس مثال کے بعد آسانی سے اس نظریہ پر پہنچا
جاسکتا ہے کہ جو لوگ حکومت ِالٰہیۂ اسلامیہ کے اصول یعنی توحید۔۔ نبوت۔۔ امامت یا
اِن میں سے کسی ایک عقیدہ کے باغی ہیں ان کی تمام نیکیا ں نہ قابل قبول ہیں اور نہ
موجب ثواب۔۔۔۔۔ پس گرفتاری کے بعد ان کے لیے نہ امکان توبہ ہے! نہ تخفیف عذاب!
بلکہ وہ جَزَا ئُھُمْ خَالِدِیْنَ فِیْھَا کے ہی مصداق ہیں۔
لیکن بخلاف اس کے جو لوگ اصل حکومت کے موافق۔۔
وفادار ہیں تو ان کی جزوی کو تاہیا ں موجب ِسزا ضرور ہیں لیکن سزائے محدود۔۔ نہ
دائمی، اگر توحید و رسالت و امامت کے قائل و عارف سے ایسا گناہ سر زد ہو جائے جو
تعزیراتِ شرعیہ کی رُو سے دائمی سزا کا موجب ہے تواب تعارض پیدا ہو جائے گا۔۔ ایک
طرف اس کے پاس نیکی موجود ہے جس کی جزا ضروری ہے کیونکہ وہ کسی صورت میں ضائع نہیں
کی جاسکتی اور وہ ہیں عقائد حقہ، اور دوسری طرف اس کی برائی بھی اس قسم کی ہے کہ
اس کی سزا دائمی مقرر شدہ ہے۔۔ اب اگر اس کے گناہ کی سزا دائمی ہو تو اس کی نیکی
کی جزا کا ضبط ہونا لازم آئے گا، کیونکہ وہ نیکی بھی ہے اور بدلہ سے بھی محروم ہے
اور ضبط۔۔ عدل خداوندی کے خلاف ہے!
پس جمع کی صورت یہی ہو گی کہ اس کی سزا سے دوام کو
ہٹا دیا جائے اور محدود کر دیا جائے۔۔۔ پس گویا وہ شخص مستحقِ سزا۔۔ اور حقدا رِ
جزا بھی ہے۔۔ پس پہلے گناہ کی سزا لے گا اور پھر نیکی کی جزا میں داخل جنت ہو گا،
پس ایسی صورت میں اس کی سزا میں اگر ’’ خلُود‘‘ کا لفظ وارد ہو تو اس سے مراد مدتِ
طویلہ لینی ہو گی تاکہ جزا و سزا ہر دو اپنے اپنے مقام پر برقرار رہیں۔
اب مجرم کی سزائے دائمی کو ہلکا کر کے کم کر دینا
منافی عدل نہیں ہے بلکہ تخفیفِ سزا اس کا فضل و احسان ہے، البتہ اس کی سزا کو
دائمی کر کے اس کو اپنی نیکی کی جزا سے محروم کر دینا شانِ ربوبیت کے منافی اور
عدلِ خداوندی کے خلاف ہے۔۔۔۔۔ میزانِ اعمال کے متعلق ارشادِ قدرت ہے: اَمَّا
مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہُ فَھُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَاضِیَۃٍ وَاَمَّا مَنْ
خَفَّتْ مَوَازِیْنُہُ فَاُمُّہٗ ھَاوِیَۃ۔۔۔جس کا میزانِ عمل بھارا ہو گا وہ
آرام کی زندگی میں ہو گا۔۔ اور جس کے اعمال کا پلڑا ہلکا ہو گا اس کا ٹھکانا جہنم
ہے۔
اعمالِ صالحہ کی زیادتی اور اعمالِ بد کی کمی کی
صورت میں اس کے اُن تھوڑے گناہوں کو معاف قرار دینا اور اس سزا کو قطعا بر طرف کر
دینا اللہ کے فضل و کرم سے بعید نہیں جس طرح پہلی آیت سے صاف طور پر ظاہرہے۔
لیکن اعمالِ بد کی زیادتی کی صورت میں اس کی تھوڑی
نیکیوں کو نظر انداز کرنا اور ضبط کرنا خلافِ عدل ہے پس دوسری آیت جس سے یہ معلوم
ہوتا ہے کہ اعمالِ بد کی زیادتی کی صورت میں اس کی نیکیاں بے اثر قرار دے کر اس کی
باز گشت ہاویہ کو قرار دیا جائے گا اس کی توجیہ کی دو صورتیں ہیں:
(۱)
اس کے نامہ ٔ اعمال میں قطعاً عمل صالحہ کا وجود ہی نہ ہو اور
’’خَفَّتْ مَوَازِیْنہ‘‘ کا یہی معنی لیا جائے اور یہ خدا اور رسول وآئمہ طاہرین
کے دشمن کی ہی صورت ہو سکتی ہے کیونکہ ان کے اعمال بوجہ ٔ حبط ناقابل جزا ہیں لہذا
ان کا میزانِ عمل خیر سے قطعاً خالی ہو گا پس اس کے نامہ میں سوائے برائی کے اور
کچھ نہ ہو گا اور حکومت الہٰیہ کے باغی ہونے کی حیثیت سے وہ صرف سزا ہی سزا کا
سزاوار ہو گا پس اس کی جزا ہاویہ ہی ہے۔
(۲)
اعتقاد ًا مومن ہو لیکن اعمالِ صالحہ کم اور اعما لِ بد زیا دہ ہو تو
چو نکہ دوسر ے مقا م پر فر ما تا ہے مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ
خَیْرًا یَرَہجو ذرّہ بھر نیکی کر ے گا اس کی جزا پا ئے گا۔۔۔اور اُدھر فر ماتا ہے
وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہُ فَاُمُّہٗ ھَاوِیَۃ پس اگر اس کی سز ا دئمی ہو تو اس کے اعمالِ صا
لحہ کا ضبط خلا فِ وعد ہ بھی ہے اور منافی عد ل بھی، تو ما ننا پڑے گا کہ اپنے
اعما لِ فا سد ہ کی محدود سزا بھگت لینے کے بعد وہ ضرو ر جنت میں اپنی جگہ لے لے
گا اور اگر خدا چا ہے تو اپنے فضل وکر م سے اس کی سا ری سز ا ہی معا ف فر ما
دے۔۔۔۔۔ بشرطیکہ اس کے گنا ہوں کا تعلق حقو ق النا س سے نہ ہو اور حقو ق الناس بھی
صا حب حق کی معافی یا رضا مندی سے معاف ہو سکتے ہیں اور اگر حقو ق اللہ سے ہو ں تو
خد فر ما تا ہے: اِنَّ
اللّٰہَ لا یَغْفِرُ اَنْ یُشْرِکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذَالِکَ لِمَنْ
یَّشَائُتحقیق خد ا شر ک کے گنا ہ کو نہیں بخشتا اور اس کے علا و ہ تمام گنا ہ بخش
سکتا ہے۔
روا یت میں سے ہے اس استثنیٰ سے مر ا د شیعانِ حضر
ت امیرالمو منین علیہ السلا م ہی ہیں۔۔۔ پس نتیجہ بحث یہ ہو ا کہ اعما لِ صا لحہ
صحیحہ کا ضبط کر نا خلا فِ عد ل ہے اور منکر تو حید و نبو ت وا ما مت کے اعما ل کا
حبط ہو نا عینِ عد ل ہے۔۔ نیز عقائدِ حقہ کی صحت کی صو رت میں تخفیف کا ہو نا یا
سزا کا سرے سے معا ف ہو جا نا۔۔ اس کا فضل و احسا ن ہے۔