التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

سولہویں مجلس -- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


مجالس عشرہ چہلم (دوبئی، ابوظہبی ، العین) ۱۹۸۷ ؁ء

اللہ کے نام سے ابتدا کرتا ہوں جو رحمان و رحیم ہے۔۔۔ حدیث میں ہے کہ کُلُّ اَمْرٍ ذِیْ بَالٍ لَمْ یُبْدَ بِبِسْمِ اللّٰہِ فَھُوَ اَبْتَر یعنی جو بھی اہم اور مشکل کام اللہ کا نام لئے بغیر یعنی بسم اللہ پڑھے بغیر کیا جائے تو وہ بے نتیجہ اور ناتمام ہو گا۔
اس لئے مومن کو چاہیے کہ ہر جائز کا م کو شروع کرنے سے پہلے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھا کرے اور روایت میں مومن کی پانچ علامتیں بیان کی گئی ہیں:
ز   زیارت امام حسین ؑ (زیارت اربعین ۲۰ صفر کو پڑھنا)
ز    اَلتَّخَتُّمْ بِالْیَمِیْن  دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا خواہ نگینہ کوئی ہو ۔
ز   یومیہ اکاون رکعت نماز (۱۷ فریضہ، ۳۴ نوافل) پڑھنا۔
ز   بآواز بلند ہر جائز کام کی ابتدا میں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کا پڑھنا۔
ز   سجدہ شکر ادا کرنا۔۔۔ چنانچہ منقول ہے کہ حضرت امام زین العابدین ؑ ہر نعمت کی آمد اور ہر تکلیف کی دوری پر سجدہ شکر بجا لایا کرتے تھے۔
روایت میں ہے کہ حضرت پیغمبرؐ نے شب معراج ملاحظہ فرمایا کہ جنت کی چار نہریں پانی۔۔ شراب۔۔ دودھ اورشہد کی بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کے چار حروف سے نکلتی ہیں اوریہ اس شخص کو ملیں گی جو کثرت سے بسم اللہ کو پڑھتا ہو۔
اس میں شک نہیں کہ یہ آیت مجیدہ برکات کا بیش بہا خزانہ ہے منقول ہے کہ حضرت عیسیٰؑ نے کہیں جاتے ہوئے راستہ میں ایک قبر پر عذاب کے فرشتے نازل ہوتے دیکھے لیکن واپسی پر وہی قبر ملائکہ رحمت کی آماجگاہ تھی۔۔ پروردگار سے ملتجی ہوئے کہ کیا ماجرا ہے؟ تو وحی ہوئی اے عیسیٰؑ!  یہ ایک گنہگار کی قبر ہے جب مرا تھا تو اس کی عورت حاملہ تھی اس کا بچہ پیدا ہوا تو آج اس کے بچے نے استاد سے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کا درس پڑ ھا  مجھے شرم آتی ہے کہ جس کا بیٹا زمین پر میرا نام لے اس کے باپ کو کیسے عذاب میں مبتلارکھوں؟ خدا وند کریم تمام مومنین کو تو فیق دے کہ ان کے بچے والدین کی مغفرت کا سبب بنیں۔۔ آمین
حدیث میں ہے کہ قرآن مجید کے تمام علوم سورہ فاتحہ میں ہیں اوراگر تفصیلی جائزہ لیا جائے تو قرآن کے مضامین کے پانچ مراکز ہیں:
۱      تو حید کا ذکر اورصفاتِ پروردگار بیان
۲      قیامت کا ذکر اورجنت و نار کا تفصیلی تذکرہ
۳      دعوت، عبادت اورمعرفت
۴      اللہ کے نیک واطاعت گزاربندوں کا ذکرِ خیر
۵      منافقون، مشرکوں اورکافروں کے قصے اوران کا عبرتناک حشر
اورسورہ فاتحہ میں اجمالی طور پر یہ سب موجود ہے:
ز   توحید وصفاتِ پروردگار کا اجمالی ذکر پہلی تین آیتوں میں موجود ہے
ز   قیامت کا ذکر اورجزأ وسزا کی پیشکش کا اجمالی خاکہ آیت ۴ میں ہے
ز   عبادت اوراستعانت کا ذکر پانچویں آیت میں ہے
ز   اس کے بعد صراط مستقیم پر چلنے والے اطاعت گزاروں ذکر ہے
ز   آخر میں کفار ومنافقین (جو مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْاورضَالِّیْن ہیں) کا ذکر ہے
پس قرآن مجید کی تفصیلات سورہ فاتحہ میں اجمالاً موجود ہیں اورحدیث مذکورہ میں ہے کہ فاتحہ کے علوم بسم اللہ میں ہیں اور بسم اللہ کا اجمال بائے بسملہ ہے اوراس کا اجمال نقطہ با ہے اورحضرت علی ؑسے منقول ہے کہ بائے بسملہ کا تحتانی نقطہ میں ہوں۔
حروفِ تہجی میں الف کو اوّلیت اورباکو ثانویت حاصل ہے جس طرح موجودات میں اوّلیت اللہ کیلئے اورثانویت محمد مصطفی کے لئے ہے، الف تنہا ہے اور با کو نقطہ کے ساتھ مقرون کر کے اس کی احتیاج کو ظاہر کیا گیا ہے، جس طرح موجودات میں اللہ ایک ہے اور اس کی اوّل مخلوق  اَنَا وَ عَلِیٌّ مِنْ نُّوْرٍ وَّاحِدٍ کا مرکب ہے مقام موجود میں نقطہ تیسری جگہ موجود ہے پہلے الف پھر ب کا حرف پھر با کے نیچے کا نقطہ اور نقطے کا نیچے ہونا ظاہر کرتا ہے کہ وہ با کے ماتحت ہے۔
لیکن مقام ظہور و اظہار میں نقطہ کی حرکت حروف والفاظ وعبارات کے وجود کی موجب ہے اسلئے کہ قلم کا غذ سے مس ہوتے ہی نقطہ کو تشکیل دیتی ہے اورنقطہ کی حرکت حروف والفاظ بناتی ہے گویا نقطہ ہی مظہر تمام حروف ہے کیونکہ نقطہ حرکت نہ کرے تو نہ الف ظاہر ہوسکتا ہے نہ بااورنہ کوئی اورحرف؟
گویا حضرت علی ؑ نے اپنے آپ کو نقطہ سے تشبیہ دے کو مقام ولایت کو ظاہر فرمایا ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے:  کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَأحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفْ فَخَلَقْتُ الْخَلْق یعنی میں مخفی خزانہ تھا میں نے چاہاکہ پہچانا جائوں پس میں نے مخلوق کو پیدا کیا تاکہ پہچانا جائوں، تو مقام وجود میں اللہ تعالیٰ قدیم اورسب سے پہلی مخلوق حضرت محمدؐ۔۔۔ لیکن مقام معرفت وظہور میں جب تک حضرت علی ؑ کی معرفت نہ ہوگی اس وقت تک حضرت محمدؐ کی پہچان نہ ہوگی اور جب تک حضرت محمدؐ کی پہچان نہ ہو گی اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہ ہوگی؟
جب انسان حضرت علی ؑ کے مقام کو سمجھ لے گا تو خود سوچے گا کہ جب نائب اتنا بلند ہے تو وہ جس کا نائب ہے وہ کتنا بلند ہو گا؟ اور پھر سوچے گا کہ ان کے خالق کا مقام کتنا عظیم ہوگا؟
اسی بنا ٔ پر حضور اکرم ؐنے فرمایا اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ عَلِیٌّ بَابُھَا وَ مَنْ اَرَادَ الْمَدِیْنَۃَ فَلْیَأتِ مِنَ الْبَاب میں شہر ہوں علم کا اور علی ؑ اس کا دروازہ ہے اور شہر میں جو بھی آنا چاہے اسے دروازے سے گزرنا ہوگا۔۔۔ ایک حدیث میں یہ دعا تعلیم کی گئی ہے:  اے اللہ!  تو مجھے اپنی معرفت عطا فرما کیونکہ تیری معرفت کے بغیر تیرے نبی کی معرفت ناممکن ہے اور نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ نبی کی معرفت کے بغیر امام و حجت کی معرفت ناممکن ہے اور امام و حجت کی معرفت عطا فرما کیونکہ امام کی معرفت کے بغیر گمراہی کا ڈر ہے۔۔۔ یہ علت سے معلول تک پہنچنے کی صورت ہے۔
یعنی جب دلائل کی رو سے وجود خالق کا پتہ چل جائے تو عقل انسانی فیصلہ کرنے پر مجبور ہے کہ اس کے اور میرے درمیان اب کوئی واسطہ ضروری ہے جس کی بدولت اس کے احکامات کو سمجھ کر اس کی اطاعت کر سکوں۔۔ کیونکہ میرے اور اس کے درمیان کوئی اور رابطہ ہی نہیں، پس نبی کی پہچان ضروری ہے جو واسطہ ہے اور نبی کے فرمائشات حاصل کرنے کیلئے اس کے ایسے نائب کی تلاش ضروری ہے جو نبوی شریعت کی صحیح نشاندہی کرسکے اور وہ امام ہے۔۔۔۔ پس امام کی معرفت گمراہی سے بچنے کا ذریعہ ہے اس کو معقولات کی زبان میں ’’دلیل اِنّی ‘‘کہا جاتا ہے۔
لیکن مقامِ ارتقا ٔ میں چونکہ انسان نیچے سے اُوپر کو جاتا ہے تو دین کی تلاش کیلئے پہلے امام کو پہنچاننا ضروری ہے تاکہ شرعی احکامات اس سے حاصل کئے جائیں، پس امام نبی تک پہنچائے گا اور نبی خدا تک پہنچانے کا وسیلہ بنے گا اور اس کو معقولات کی زبان میں ’’دلیل لِمّی ‘‘ کہا جاتا ہے۔۔ گویا مقام معرفت میں ’’دلیل اِنّی ‘‘ سے کام لیا جا تا ہے اور مقام اطاعت میں  ’’دلیل لِمّی ‘‘ سے کا م لیا جاتا ہے کیونکہ اللہ  تعالیٰ کی صفاتِ ثبوتیہ و سلبیہ کے سمجھنے کے بعد عقل کہتی ہے اس عظیم برتر خدا کی جانب سے نامزد مبلّغ وہ ہو سکتا ہے جو بے عیب اور صفاتِ کمالیہ کاتاحدِّ امکان جامع ہو اور نبی کی صفاتِ جمالیہ و جلالیہ سمجھنے کے بعد عقل فیصلہ کرتی ہے کہ وہ اپنے بعد ایسے شخص کو وصی نامزد فرمائیں گے جو اوصافِ نبوت کا حامل ہو اور یہ ہے علت سے معلول کی معرفت۔۔۔  ’’دلیل لِمّی ‘‘
اور مقام اطاعت میں امام کا کردار رسول کے کردار کا کاشف اور رسول کا کردار رضائے پروردگار کا کاشف ہوتا ہے۔۔۔ پس امام کی اطاعت اللہ کی اطاعت کی دلیل ہے اور یہ ہے معلول سے علت کی پہچان۔۔۔ ’’دلیل اِنّی ‘‘
گویا حضرت علی ؑ کا اپنے آپ کو نقطہ سے تشبیہ دینا معلول سے علت کی طرف جانے کا ایک لطیف اشارہ ہے۔۔ جیسا کہ ظاہر میں ب کے نیچے کا نقطہ با کی پہچان کا ذریعہ ہے۔۔۔۔۔ اور قرآن مجید کے علوم کا نقطے میں سمانابھی غالباً اسی طرف اشارہ ہے کہ نقطے کی حرکت۔۔ حروف، الفاظ اور کلمات و کلام کی تشکیل کرتی چلی جاتی ہے جس سے آیات۔۔ رکوعات اور پارے عالم میں ظاہر ہوتے ہیں، بس سمٹا ہوا ہے تو ایک نقطہ ہے اور جب پھیل گیا تو پورا قرآن بن گیا۔۔۔۔جس طرح بَڑ کے چھوٹے سے بیج کے دانہ میں بَڑ کاتناور درخت پنہاں ہے جب مناسب زمین میں دفن ہوا تو عرصہ کے بعد عالم ظاہر میں ایک بہت بڑے درخت کا اس نے روپ دھارا۔۔ گویا وہ سمٹاہوا ہے تو ایک رائی کے دانہ کے برابر ہے اور جب مناسب مقام پر اس کو پھیلنے کا موقعہ ملا تو وہ شاخوں،ٹہنیوں ،پتوں،اور پھل سمیت ایک بڑا درخت ہے۔
اسی طرح پورا قرآن سمٹا تو نقطہ نظر آیا اور پھیلا تو قرآن کی شکل میں ظاہر ہوگیا اور حضرت علی ؑ کا اپنے آپ کو نقطہ تحت البا ٔ سے تشبیہ دینا اسی امر کی طرف لطیف اشارہ ہے کہ یہ علوم جو قرآن میں ہیں سمٹ جائیں تو علی ؑ میں ہیں اورپھیلیں تو پورا قرآن۔
گویا کتابِ خدا کاغذوں میں لکھا ہوا خاموش قرآن ہے اور علی ؑ بولتاہوا قرآن ہے۔۔۔ وہ قرآن کتابِ صامت ہے اور علی ؑ کتابِ ناطق ہے۔
ہم نے شریعت محمدی یا ازواج سے یا اصحاب سے یا آل سے حاصل کرنی ہے لیکن اصحاب کا تعلق پیغمبرؐ کے گھر کے باہر سے ہے اور ازواج کا تعلق صرف گھر کے اندر تک محدود ہے۔۔ البتہ آل محمد وہ ہیں جو گھر کے اندر بھی ساتھ ہیں اور گھر سے باہر بھی ساتھ ہیں۔۔۔۔۔ لہذا پیغمبرؐ کی زندگی اور کردار کی پوری ترجمانی نہ اصحاب کر سکتے تھے اور نہ ازواج کر سکتے ہیں کیو نکہ ان کا تعلق محدود ہے پس آلِ محمدہی میں جو حضوؐر کی پوری شریعت کی ترجمانی کر سکتے ہیں۔
حضرت علی ؑ نے فرمایا  یَنْحَدِرُ عَنِّیْ السَّیْل یعنی علوم قرآنیہ مجھ سے سیلاب بن کر نکلتے ہیں۔۔ یہ الفاظ نہج البلاغہ میں خطبہ شقشقیہ کے ہیں قرآن پاروں سے اورپارے رکوعوں سے اوررکوع آیات سے اور آیات الفاظ سے اورالفاظ حروف سے بنتے ہیں لیکن حروف مقام ظہور کتابی میں نہیں آتے جب تک نقطہ حرکت نہ کرے۔۔۔۔پس کہاجاسکتا ہے کہ پارے نہ ہوں تو قرآن نہیں بنتارکوع نہ ہوں تو پارے نہیں بنتے الفاظ نہ ہوں تو رکوع وآیات نہیں بنتے اور حروف نہ ہوں تو الفاظ معرض وجود میں نہیں آتے اورنقطہ سکون وسکوت میں رہے تو حروف نہیں بنتے۔
یہ بھی قابل غور ہے کہ نقطہ حس باصرہ کے ادراک کی آخری حدّ ہے زمین سے بہت بڑ ا جسم فضا میں پرواز کرے تو دور جاکر گھٹتے گھٹتے نقطہ تک جاپہنچتا ہے حالانکہ وہ حقیقت میں نقطہ نہیں بلکہ ایک پھیلاہوا لمبا چوڑا جسم ہے اب جولوگ خدا کی رؤیت کے قائل ہیں ان کے لئے دعوت فکر ہے کہ جوحس کچھ دور جانے والے جسم  کے متعلق دھوکاکھاتی ہے اور نقطہ وجسم میں تمیز نہیں کرسکتی وہی حس اُس اللہ کو کیسے دیکھ سکتی ہے؟ جونہ نقطہ ہے نہ جسم بلکہ نقطہ وجسم دونوں کا خالق ہے؟
بس ادراک ظاہری کی آخری منزل میں جسم نقطہ نظر آنے لگتا ہے گویا حضرت علی ؑ کا اپنے آپ کو نقطہ سے تشبیہ دینا اس طرف اشارہ ہے کہ میری حقیقت کا جائزہ لینے والو!  جہاں تمہارے ادراک کی آخری حدّ وہ میری منزل ہے تو تم مجھے کیسے پاسکتے ہو ؟
اس بنا ٔ پر خطبہ شقشقیہ کے الفاظ ہیں لا یَرْقٰی اِلَیَّ الطَّیْر یعنی تمہاری عقل کا بلند پرواز پرندہ میری منزل کو نہیں چھو سکتا اور لطف یہ کہ نقطہ ذرا اوپر چلا جائے تو نظروں سے اوجھل ہو کر غیب کے پردہ میں چلا جاتا ہے۔۔ اب ظاہر میں نگاہیں تو کہیں گی کہ فضا میں کچھ نہیں لیکن عقل کہے گی کہ ہے ضرور البتہ نظر نہیں آتا؟ غبارہ زمین سے اُڑانے والا جس کے ہاتھ میں تاگا ہے وہ تو ضرور کہے گا کہ پردہ غیب میں سے البتہ جن کے ہاتھ میں یہ رشتہ نہیں وہ اس کے غائب وجود کا انکار کرے گا۔
 اب حدیث ثقلین میں غور کرنے سے پتہ چلا کہ قرآن و اہل بیت ؑ جدا نہیں پس جن کا قرآن سے تمسک ہے وہ تو کہتے ہیں کہ اگر چہ امام غائب نظر نہیں آتا لیکن چونکہ قرآن موجود ہے لہذا آل کا کوئی فرد موجود ہے جو امامِ وقت ہے، پس آل کے وجود کا وہی انکار کر سکتے ہیں جن کا قرآن سے تمسک نہ ہو۔۔ کیونکہ قرآن رشتہ ہے جب یہ موجود ہے تو اس رشتہ کا جس سے تعلق ہے وہ کیسے موجود نہ ہو گا؟ شاید انہی وجوہات کی بنا ٔ پر امیر شام نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کو نماز میں ہضم کر لیا جس کی آج تک سنت و رسم باقی ہے۔
 آئمہ طاہرین علیہم السلام نے اپنے شیعوں کو بسم اللہ کے جہر سے پڑھنے کی تاکید فرمائی تاکہ بسم اللہ کے نقطہ سے تمسک رکھنے والوں کو دوہرا ثواب ملتا رہے اور حاسدوں کا دل جلتا رہے۔
امیر شام نے صرف بسم اللہ کی چوری پر اکتفا نہیں کی بلکہ حضرت علی ؑ کے واضح فضائل پر ڈاکہ ڈالنا اس کا دستور زندگی تھا۔۔ چنانچہ جب حدیث سازی کا کاروبار شروع ہوا تو ایسی احادیث جو دشمنانِ علی ؑ کی شان میں وضع کی جائیں ان پر احادیث سازوں کو لاکھوں روپے بطور انعامات اور عہدوں کی پیشکش کی جانے لگی، اور دوسری طرف آلِ رسول بالخصوص حضرت علی ؑ کی تنقیص پر عہد ہ جات ومناصب کے علاوہ قربِ بارگاہ اورانعام واکرام کی بارش ہونے لگی تو بے دین، جاہ پرست اورلالچ وطمع لکھنے والے درباری راویوں نے اس سلسلہ میں ایک دوسرے سے خوب سبقت لینے میں سعی بلیغ کی۔
چنانچہ ایک راوی نے جب امیر شام کے سامنے یہ موضو ع روایت پیش کی کہ مَنْ یَّشْرِی  والی آیت ایک دشمن علی ؑ کے حق میں ہے اوراس سے پہلے والی آیت میں  اَلَدُّ الْخِصَام سے مراد علی ؑ ہے یعنی واقع کے بالکل الٹ۔۔ تو امیر شام نے ایک لاکھ پھر دولاکھ پھر تین لاکھ آخر کار راوی کے اصرار پر چار لاکھ کا سودا ہو گیا اور اسے چارلاکھ بیت المال سے دیکر رخصت کیا گیا۔
جس طرح کذّاب راویوں کو نعامات سے نوازا گیا سچے اورصحیح راویوں کو یعنی آل محمد بالخصو ص حضرت علی ؑ کے حق میں زبان کھولنے والوں کو سنگین سزائیں دلوائی گئیں حتیٰ کہ ان کو جملہ شہری حقوق سے بھی محروم کردیا گیا۔
میثم تمار جیسے مقدس مومن کا دلسوز واقعہ عبرت کیلئے کیا کم ہے؟ اسے سولی پر چڑھا دیا گیا اور ہاتھ پیر کاٹ دئیے گئے لیکن اس کی زبان نے فضائل علی ؑ کے بیان کرنے سے توبہ نہ کی اور اس نے ظاہر کر دیا کہ سچے مومن کا سرکٹ سکتا ہے لیکن ہزار ہا تشدد کے باو جود محبت علی ؑ کے راستہ سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا بلکہ اس کے ناحق خون کا ہر قطرہ قیامت تک آنے والی نسلوں کو درس دے گیا ہے کہ حق پر ڈٹ کر رہنا اور مصائب سہنا مومن کا طر ّہ امتیاز ہے۔
کربلاوالوں نے اپنے زمانے کی سپر پاور یزیدی حکومت کی دین اسلام پر یلغار کو روکنے کے لئے کوہِ گراں کی طرح سینہ سپر ہوکر رہتی دنیا تک ایک مثال قائم کردی کہ تشدد کی تلوار حق والوں کاخون بہا کر عارضی خوشی کے گن تو گا سکتی ہے لیکن حق کو دبانہیں سکتی؟ اوراس کے خلاف حق والوں کے خون کا ہرقطرہ تشدد کی تلوار کو کند کرنے میں کافی ہے۔
چنانچہ جام شہادت نوش کرنے والے تاابد زندہ ہیں اوران کاذکر درخشندہ ہے اورتشددکی تلوار کو نتیجہ کے طور پر شرمندگی اورلعنت کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔
امام حسین ؑ کی بہن اسیر ہوئی اوردربدر اس کی تشہیر کرائی گئی لیکن اس کی اسیری نے چہار سو یزیدیت کے پرخچے اُڑا دیئے اورحسینیت کا پرچم لہراکر امام حسین ؑ کی کامیابی کالوہامنوادیا۔۔۔۔ یہ عزم واستقلال کی ملکہ مصائب کے کوہِ گراں کو پائے استحقا ٔ سے روندتی ہوئی آگے بڑھتی گئی اورشام کے گلی کوچوں سے گزر کرحسینیت کے وقار کا ڈنکہ بجادیا۔
میں نے کسی کتاب میں دیکھا ہے کہ کربلا سے شام تک امام حسین ؑ کی آنکھ کھلی رہی لیکن جب شام سے ایک یاتین فرسخ کے فاصلہ پر پیدل چلنے کا حکم ملاتو بھائی کے نیزے کی طرف رُخ کرکے کہا: اے حسین ؑ! یہ تماشائیوں کا ہجوم بھی دیکھ اورمیری خستہ حالی بھی دیکھ؟ چنانچہ روایات میں ہے کَانَتْ فِیْ اَرْذَلِ ثِیَابِہَا بی بی کے جسم پر لباس نہایت پرانا تھا۔۔اور واعظ نجف کے بیان کے مطابق زرق برق لباس میں ملبوس کم وبیش ایک لاکھ تماشائیوں کا ہجوم تھا بس بہن کی آواز سن کر  فَانْغَمَضَتْ عَیْنَا اَبِیْ عَبْدِ اللّٰہامام حسین ؑ نے آنکھیں بند کر لیں تو بی بی نے کہا لاتَغْمِضْ عَیْنَیْکَ وَ انْظُرْ اِلَیَّیعنی اب آنکھیں بند نہ کرو۔
شاید مقصد یہ ہوکہ جب تیرا امتحان تھا میں نے آنکھ بند نہیں کی تھی، تیرا ہمشکلِ پیغمبر زین سے زمین پر آیا میں نے آنکھ بند نہیں کی۔۔ تیرا زورِ کمر بازو کٹوا کر خاکِ شفا پر آیا میں نے آنکھ بند نہیں کی۔۔ تیرا جوانسال شہزادہ قاسم گھوڑوں کی ٹاپوں میں تقسیم ہوا میں نے آنکھ بند نہیں کی۔۔ تیرا کمسن بیٹا تیرِجفا سے شہید ہوا میں نے آنکھ بند نہیں کی۔۔ تیرے حلق پر شمر ملعون نے خنجر چلایا میں نے آنکھ بند نہیں کی۔۔بھیا! جب تک تیرا امتحان تھا میں دیکھتی رہی اب میرے امتحان میں آپ بھی آنکھیں بندنہ کریں؟
شاید یہ بھی کہا ہوکہ بھیا !  تیرے امتحان سے میرا امتحان سخت ہے کیونکہ تو مرد ہو کرمردوں سے لڑتا رہا اورمیں پردہ دار ہوں سامنے بے غیرت لوگ ہیں یعنی تیرا امتحان تیری خاندانی روایات کے مطابق اور میرا امتحان میری خاندانی روایات کے مطابق نہیں ہے؟ تو نوکِ نیزہ پر قرآن پڑھتا جا اور میں ہر موڑ پر تیری بے گناہی کے خطبے پڑھ کر تیرے نام سے باغی کا لفظ نہ مٹائوں توزینب ؑ نام نہیں؟
وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ

میڈا پاک مبلّغ دین اللہ دا اینہ فکر کوں دل توں چا گھن
اج پئے نصرانی سنڑدے ہن انجیل قرآن سنڑا گھن
اج موقعہ ای تخت یزید اتے توں حق باطل سمجھا گھن
میں ودی نبھیساں خاک اتے توڑیں توں تاں منبر سہا گھن