یہ شخص نہایت شجاع و دلیر اور دوست دار آل محمد تھا۔۔۔ اس کو صحابیت کا
شرف بھی حاصل تھا اور اصحاب شجرہ میں سے تھا۔۔ جنگ حدیبیہ اور جنگ خیبر میں جناب
رسالتمآبؐ کے ہمرکاب تھا۔۔ اس کی کنیت ابومجرا ہے۔۔ اس کا بیٹا اسی سے روایت کرتا
ہے یہ شخص کوفہ میں سکونت پذیر تھا اور عمرو بن حمق خزاعی کا ہمنشین تھا، ۶۰ ھ میں مکہ گیا اور وہاں امام حسین ؑ سے ملاقات
کی اور ہمرکاب ہو گیا اور حملہ اولیٰ میں درجہ شہادت پر فائز ہوا۔۔ زیارت ناحیہ
مقدسہ اور زیارت رجبیہ میں اس پر بالخصوص سلام وارد ہے۔
عمروبن حمق خزاعی وہ شخص ہے جس کو جناب رسالتمآبؐ نے جنت کی خوشخبری دی
تھی اور حضرت امیر ؑ کے خاص ُ الخاص تلامذہ میں سے تھا اور حجر بن عدی اور یہ ایک
ہی گروہ کے افراد تھے جو زیاد کے زمانِ حکومت میں مسجد کوفہ میں بیٹھ کر حضرت علی
ؑ کے فضائل سناتے تھے۔۔ پس زیاد نے ان کو منتشر کر دیا۔
بروایت طبری ایک مرتبہ زیاد منبر پر خطبہ پڑھ رہا تھا کہ عمرو بن حمق نے اس
کی طرف چند سنگریزے پھینکے اور زاہر بن عمرو نے بھی ایسا کیا کیونکہ یہ دونوں
باہمی ساتھی تھے اور ایک دوسرے کے قول و فعل میںشریک تھے۔۔ ایک شخص بکر بن عمیر نے
اُٹھ کر ایک عمود عمرو بن حمق کے سر پر مارا کہ وہ گر گیا۔۔ پس اس کے قبیلہ نے اس
کو فوراً اٹھا لیا اور عبیداللہ بن مالک کے گھر میں پوشیدہ کر دیا اور اسی حالت
میں کافی عرصہ گزر گیا۔۔ یہاں تک کہ معاویہ نے زیاد کو لکھا کہ عمرو بن حمق اور
زاہر بن عمرو اسلمی دونوں کو گرفتار کر کے میری طرف شام بھیج دو۔۔ زیاد نے ہر چند
کوشش کی لیکن ان کا کہیں سراغ نہ لگا سکا۔۔ آخر کار یہ دونوں کوفہ سے خفیہ طور پر
نکل کھڑے ہوئے اور موصل کے قریب ایک غار میں پوشیدہ ہو گئے۔
جب موصل کے عامل کو پتہ چلا تو اس نے ایک فوج ان کی تلاش کے لئے روانہ کی۔۔
عمرو بن حمق میں تو فرار کی طاقت نہیں تھی البتہ زاہر گھوڑے پر سوار ہوا اور یہ
طاقتور انسان تھا۔۔ عمرو نے پوچھا کیا خیال ہے؟ تو زاہر نے جواب دیا کہ میں ان سے
لڑوں گا، عمرو بن حمق نے کہا تیرے لڑنے سے ہمیں فائدہ کوئی نہ ہو گا۔۔ بس تو اپنی
جان بچا کر بھاگنے کی کوشش کر، پس زاہر نے گھوڑا دوڑا دیا اور ان کے بیچ سے نکل
گیا۔۔ انہوں نے سمجھا کہ عمرو بن حمق یہی تھا پس جب انہوں نے عمرو کو گرفتار کیا
اور پوچھا کہ تو کون ہے؟ تو جواب دیا کہ میں وہ ہوں کہ اگر مجھے چھوڑ دو گے تو
تمہارے لئے بہتر ہوگا اور اگر مجھے قتل کرو گے تو اس کا نقصان تمہیں زیادہ ہو گا۔
آخرکار بتایا کہ میں عمرو ہوں۔۔۔ پس اس کو عامل موصل کے پاس لے گئے جس کا
نام عبدالرحمن بن عثمان ثقفی تھا اور کنیت ابن امّ الحکم تھی اور معاویہ کا بھانجا
تھا۔۔ اس نے عمرو بن حمق کا سارا قصہ معاویہ کو لکھا، معاویہ نے واپسی جواب دیا کہ
یہی عمرو بن حمق کہتا ہے کہ میں نے عثمان کو نیزہ کے نو زخم لگائے تھے لہذا تو اس
کو اس کے فعل کی سزا دے اور اس سے وہی برتائو کر جو اس نے عثمان سے کیا تھا! چنانچہ جب اس کو دوسرا نیزہ مارا گیا تو اس کی
روح پر فتوح قفس عنصری سے پرواز کر کے بہشت بریں میں جا پہنچی۔
لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو معاویہ کے پاس بھیج دیا گیا
لیکن وہ معاویہ کہ بندش سے نکل کر بھاگ گیا اور جزیرہ کی طرف چلا گیا اور اس کے
ہمراہ زاہر بن عمرو تھا، جب ایک وادی میں رات کے وقت انہوں نے قیام کیا تو وسط رات
میں ایک سانپ عمرو کو کاٹ گیا جب صبح ہوئی تو اس کابدن سانپ کی زہر سے کافی متاثر
ہو چکا تھا، زاہر کو فرمایا کہ تو اب مجھ سے دور ہو جا کیونکہ مجھے آقا جناب
رسالتمآبؐ نے خبر دی تھی کہ میرے خون میں جن و انس شریک ہوں گے پس میں یہاں مقتول
ہوں گا۔۔۔ جیسا کہ زہر کے اثر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وقت میری زندگی کا آخر ہے
اور میں قریبُ المرگ ہوں۔۔ غالباً میرے دشمن کسی طرف سے میرے سر پر پہنچنے والے
ہیں، یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ تعاقب کرنے والی فوج کے گھوڑوں کے سر اور کان نظر
آنے لگے۔۔۔ زاہر سے کہا کہ تم کہیں پوشیدہ ہو جائو جب مجھے قتل کریں گے تو یقینا
میرا سر کاٹ کر لے جائیں گے جب چلے جائیں تو میرے باقی جسم کو دفن کر دینا۔۔ زاہر
نے جواب دیا مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا بلکہ میں تو تیری نصرت سے ہاتھ نہ اٹھائوں گا
یہاں تک کہ تیرے ساتھ قتل ہوں گا۔۔ پھر عمرو بن حمق نے اپنی بات کو دہرایا کہ میں
آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ ایسا مت کیجئے اور جو کچھ میں کہہ رہا ہوں تیرے لئے
زیادہ فائدہ مند ہو گا، آخر کار زاہر نے عمرو کی بات مان لی اور پوشیدہ ہو گئے
ادھر سے فوج پہنچ گئی۔۔ عمرو کا سر کاٹ کر نیزہ پر سوار کیا گیا اور شہر بشہر
پھراتے ہوئے شام لے گئے۔
زاہر نے عمرو بن حمق کو دفن کیا اور عمرو بن حمق کے مشورہ پر عمل کرنے کا
نتیجہ یہ ہوا کہ زاہر کو امام حسین ؑ کے قدموں میں شہادت کا شرف عطا ہوا۔۔۔ اسی کی
اولاد میں سے محمد بن سنان زاہری ہے جس کا انتقال
۲۲۰ ھ میں ہوا اور اس نے امام رضا ؑ اور امام محمد
تقی علیہ السلام ہر دو سے روایات نقل کی ہیں۔۔ اکثر علمائے امامیہ نے اسے ثقہ اور
صحیح الاعتقاد لکھا ہے۔