یہ شخص کو فہ کا رہنے والاہے اس کو صحابیت
رسول کا شرف بھی حاصل ہے، حضرت امیر ؑ کے خاص شیعوں میں تھا، جنگ جمل وصفین میں
حضرت شاہِ ولایت کے ہمرکاب رہا۔۔ اس کی ایک آنکھ جنگ جمل میں دشمن کے تیر سے ختم
ہوگئی تھی اوردوسری آنکھ جنگ صفین میں راہ ِخدامیں کام آئی تھی، زہد وعبادت میں
ممتاز تھا نابیناہونے کے بعد ہمیشہ مسجد کوفہ میں مشغول عبادت رہتاتھا، دن کوروزہ
اوررات کو نماز اس کا دستور تھا، حضرت سید الشہدأ کی شہادت کے بعد جب ابن زیاد
مسجد کوفہ میں منبرپر آیا اوربنی امیہ کی تعریف میں رطب اللسان ہوا اور ساتھ ساتھ
اہل بیت عصمت کوناسزا الفاظ سے یاد کیا توعبداللہ بن عفیف سے تاب ضبط نہ رہی
فوراًبول اٹھا اورفرمایا تو جھوٹا تیرا باپ جھوٹا اور تجھے حکومت سپرد کرنے
والااوراس کا باپ جھوٹاہے، پسرمرجانہ اولاد پیغمبر کو بے گناہ قتل کرتے
ہواورپھرمسلمانوں کی اسٹیج پر قبضہ جما کر اس قسم کے بکواس کرتے ہو؟ ابن زیاد یہ
کلمات سن کر برافروختہ ہوا اور دریافت کیا کہ یہ کون ہے جومجھے ایسی باتیں کہتاہے؟
عبداللہ بن عفیف نے جواب دیا وہ میں ہوں اے دشمن خدا۔۔۔ اے کذاب بن کذاب! تونے
ایسی ذرّیت کو قتل کیا جن کے حق میں آیت تطہیر اتری ا ورباوجود اس کے تو مسلمان
ہونے کا دعویدار بھی ہے؟ فرمایا خدایا کہا ں گئی مہاجرین وانصار کی اولاد جواس
سرکش لعین بن لعین سے انتقام نہیں لیتی؟
بروایت ابی مخنف یہ سن رسیدہ بزرگ تھا اس کو صحابیت کا شرف حاصل تھا
اورآنکھوں سے نابیناتھا، کہنے لگا خداتیرے منہ کوتوڑے تیرے باپ دادا پر خداکی
لعنت ہو اورخدا تجھے ذلیل و خوار کرے اور دوزخ تیرا ٹھکانہ ہو۔۔ کیا امام حسین ؑ
کے قتل پر اکتفا نہیں کرتا؟ پھر ان کو سر منبر سبّ بھی کرتا ہے؟ حالانکہ میں نے
اپنے کانوں جناب رسالتمآبؐ سے سنا ہے کہ جس نے علی ؑکو سبّ کیا اس نے گویا مجھے
سبّ کیا اور جس نے مجھے سبّ کیا تو اس نے اللہ کو سبّ کیا اور خدا ایسے شخص کو
الٹے منہ جہنم میں داخل کرے گا؟ کیاتو علی ؑ اور اولاد علی ؑ کو سبّ کرتا ہے؟ پس
ابن زیاد نے اس کے قتل کا حکم دیا لیکن اس کی قوم نے اس کو بچالیا اور اس کو اپنے
گھر پہنچایا، جب رات ہوئی تو ابن زیاد نے خولی ملعون کوبلایا اور پانچ سوسوار
ہمراہ دے کر عبداللہ کے قتل کا حکم دیا۔
عبد اللہ بن عفیف کی ایک لڑکی تھی جب اس نے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنی
تو باپ کو اطلاع دی کہ دشمن آ گئے ہیں، تو عبد اللہ نے اپنی بیٹی سے کہا کہ مجھے
تلوار دے دو اور خود علیحدہ ہو جائو اور مجھے بتاتی رہنا کہ دشمن کس طرف ہے؟ پس
خود ایک تنگ مقام پر کھڑا ہوگیا اور دائیں بائیں تلوار چلانے لگ گیا اور با وجود
نابینا ہونے کے پچاس سواروں کو فی النار کیا۔
آخر کار زخموں کی کثرت سے نڈھال ہو گیا تو انہوں نے اس کو گرفتار کر کے
ابن زیاد کے پیش کیا، ابن زیاد نے دیکھ کر کہا اللہ کا شکر ہے جس نے تجھے آنکھوں
کا اندھا کیا، تو فوراً عبد اللہ نے جواب دیا کہ خدا کا شکر ہے جس نے تجھے دل کا
اندھا کیا، ابن زیاد نے کہا میںتجھے برے طریقہ سے قتل نہ کروں تو خدا مجھے موت دے
دے، ابن عفیف نے کہا میری آنکھیں راہ خدا میںجہاد کرتے ہوئے بند ہو گئیں اور میں
نے خدا سے دعا مانگی کہ مجھے بد ترین انسان کے ہاتھوں شرف شہادت عطا فرمائے اور
میں سمجھتا ہو ں کہ روئے زمین پر تجھ سے زیادہ برا انسان کوئی نہیں ہے۔
دوسری روایت میں ہے کہ جب ابن زیاد نے مسجد میں ابن عفیف کی گرفتاری کا حکم
دیاتو فوج و پولیس اس کی گرفتاری کے لئے بڑھی لیکن خاندان کے لوگوں نے عبد اللہ
عفیف کو بچا کر گھر پہنچایا، ابن زیاد نے اس کے گھر سے اس کو گرفتارکرنے کا حکم دیاتو
پھر قبیلہ ازدنے ابن عفیف کی مدد کی اورابن زیاد کی فوج ان کا مقابلہ نہیں کرسکی
آخر کارمحمد بن اشعث کو قبیلہ مضر کے لڑاکے جوانوں کے ساتھ بھیجا، قبیلہ
ازداورقبیلہ مضر کے درمیان خوب جھڑپ ہوئی کافی تعداد میں لوگ مارے گئے آخرکار بنی
ازد مقابلہ کی تاب نہ لاسکے اورمحمد بن اشعث نے ابن عفیف کے گھر کا محاصرہ کرلیا،
عبداللہ کی لڑکی نے باپ کو دشمن کے محاصرہ کی اطلاع دی توعبداللہ نے لڑکی سے کہا
مجھے تلوار دے دو اور بے خوف ہوکر علیحدہ بیٹھ جاؤ میںدشمنوں سے خود نپٹ لوںگا،
پس جس طرف سے دشمن آتے تھے لڑکی باپ کو بتاتی تھی اورعبداللہ تلوار کی جنبش سے اس
کا کا م تمام کردیتاتھا اورعبداللہ کی لڑکی باربار یہ کہتی تھی کہ کاش آج میں مرد
ہوتی تودشمنان اہل بیت سے جہاد کرتی، لیکن عبداللہ باوجود نابینائی کے خوب پامردی
اورشجاعت سے ان کا مقابلہ کرتا تھا اوربروایت پچاس سواراورتیئس پیادے واصل جہنم
کئے اورآخر کار گرفتار ہوکر ابن زیاد کے پیش ہوا، ابن زیاد نے جونہی ابن عفیف کو
دیکھا کہنے لگا خداکا شکر ہے جس نے تجھے ذلیل کیا، عبداللہ نے کہا اے دشمن خدا میں
کیوں ذلیل ہوا ہوں؟ خداکی قسم اگر میری آنکھیں ہوتیں توتیرے اوپر جہان کو تاریک کردیتا،
ابن زیاد چونکہ جانتا تھاکہ شیعہ علی ؑ ہے پس اس کے قتل کا بہانہ بنانے کے لئے
سوال کردیا توعثمان کو کیسے جانتا ہے؟ ابن عفیف اس کی اس سازش کو بھانپ گیا فوراً
جواب دیا کہ عثمان اوراس کے قاتلین کے درمیان تو خود خدافیصلہ کرے گا، تومجھ سے
عثمان کے بارے میں کیوں سوال کرتاہے؟ ہاں اگر مجھ سے کچھ پوچھنا ہے تواپنے اور
اپنے باپ کے متعلق پوچھ؟ یزید اوراس کے باپ کے متعلق دریافت کر؟ تاکہ میں تجھ کو
حقیقت حال سے آگاہ کروں؟
عبداللہ بن عفیف نے ابن زیاد کو بوقت خطاب عبداور ابن مرجانہ کہہ کر پکارا
جس کی وجہ شیخ ذبیح محلاتی یہ لکھتے ہیں کہ عبیداللہ کا باپ زیاد ایک زنازادہ تھا
اورعلاوہ بریں غلام کے نطفے سے پیداہوا تھا لہذا حرامزادہ غلام تھا اوراس بناپر
عبیداللہ بن زیاد بھی غلام ہوا اورمرجانہ ابن زیاد کی ماں تھی اوروہ بھی زانیہ تھی
(اس لئے اس کی توہین کے لئے اس کو ابن مرجانہ کہہ کربلایا)
ابن زیاد نے کہا اب میں تجھ سے مزید کچھ نہیں پوچھتا اورتیرے لئے سزائے موت
کا حکم دیتا ہوں، ابن عفیف نے نہایت دلیری سے جواب دیا کہ تیرے پیدا ہونے سے بھی
پیشتر میں نے خداسے دعا طلب کی تھی کہ مجھے ملعون ترین انسان کے ہاتھوں شہادت نصیب
ہو چونکہ میری آنکھیں جنگ جمل وصفین میں راہ خدامیں کام آگئیں۔۔۔ تومیں فیض
شہادت سے محروم ہونے پر غمگین تھا آج مجھے یقین ہواکہ میری دعا مقبول ہے، اس کے
بعد فی البدیہ ایک قصیدہ پڑھا جس میں بنی اُمیہ کی مذمت اوراہل بیت عصمت کی
تعریف۔۔ اہل کوفہ کی نکوہی اورامام حسین ؑکے قتل کے بعد لوگوں کو انتقام کی دعوت
پر مشتمل تھا، جس میں ۲۹ اشعار تھے، ابن
زیاد نہایت خاموشی سے قصیدہ سنتارہا اور اختتام پر اس کے قتل کا حکم جاری کیا، پس
یہ صحابی رسولؐ اس طرح شہید ہوا اور اسکے جسم کو سولی پر لٹکا دیا گیا، پھر حکم
دیا کہ اس کی لڑکی صفیہ کو قید کردیا جائے؟ چنانچہ وہ قید ہوگئی۔
شیخ ذبیح فرماتے ہیں میں نے ’’ریاحین الشریعہ‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ یہ لڑکی
قیدمیں رہی اورسلیمان بن صردخزاعی کے مشورہ سے ایک شخص طارق نامی نے اس لڑکی کو
قید سے نکال لیااورقادسیہ کی طرف فرارکرکے قبیلہ خزاعہ میں جاپہنچااورواقعہ عین
الوردہ اورشہادت توابین کے بعد سلیمان بن صردخزاعی کے لڑکے محمد نے اس لڑکی صفیہ
سے نکاح کیا اوراس سے چھ لڑکے اور چارلڑکیا ں پیداہوئیں جوسب کے سب شجاع وبہادر
تھے اورحضرت علی ؑ کے شیعہ تھے۔