صبح عاشور جب شہزادہ علی اکبر ؑ نے دیکھا کہ باپ تنہاہے اورقربانی کے بغیر
چارہ نہیں حاضر خدمت ہوکرطالب اذنِ جہاد ہوا، پس امام عالیمقام ؑ نے اجازت دی
ثَمَّ نَظَرَاِلَیْہِ نَظْرآئِسٍ مِنْہُ وَاَرْخٰی عَیْنَیْہِ وَبَکیٰ
(ملہوف)
امام مظلوم ؑ نے اپنے نوجوان فرزند کو سرسے پاؤں تک ایک مرتبہ مایوسانہ
نگاہوں سے دیکھا اورپھربہت رُوئے پس اپنے دست حق پرست سے اپنے نوجوان فرزند کو
آلات جنگ سے آراستہ فرمایااپنے ہاتھوں زرّہ پہنائی خود لگایااورحضرت علی ؑ کا
چمڑے کاکمربند علی اکبر ؑ کی کمر میں باندھااورپھر جناب رسالتمآب ؐ کے خصو صی
راہوار ’’عقاب‘‘ پرسوار کیا اورروانہ فرمایا۔۔۔۔ اندازہ کیجئے۔۔۔۔ جس نوجوان کے
حسن کا یہ عالم ہوکہ جب مدینہ کی گلیوں میں سیروتفریح کے لئے نکلتے تھے تومدینہ کی
زن ومرد حسین ؑ کے اس نوجوان شہزادہ کی زیارت کیلئے بے تاب نظرآتے تھے نہ معلوم
مظلوم باپ نے کس طرح اجازت دی ہوگی؟ بے شک یہ حسین ؑ ہی کا کام تھا۔
جب آخری وداع کے لئے خیمہ گاہ کی طرف آئے
تو بہنوں پھوپھیوں اوردیگراہل حرم میں سے اَسّی مستورات نے شہزادے علی اکبر ؑ کا
احاطہ کرلیا اورسب بیبیاں پروانہ واراس مشعل نور ہدایت کے گرد جمع ہوئیں یہ وہ دل
خراش منظر تھا جس نے عالم کے ارکان لرزا دیئے پس اہل حرم سے وداع کیا اورمیدان
کارزارکی طرف متوجہ ہوئے۔
امام عالیمقام ؑ نے روروکر بار گاہِ ربّ العزت میں ان کلمات کا ہدیہ پیش
کیا:
اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ عَلٰی ھٰؤُلائِ الْقَوْمِ اِنَّہُ قَدْ بَرَزَ اِلَیْھِمْ غُلَامٌ اَشْبَہُ
النَّاسِ خَلْقًا وَ خُلْقًا وَ مَنْطِقًا بِرَسُوْلِکَ وَکُنَّا اِذَا اشْتَقْنَا
اِلٰی لِقَائِ نَبِیِّکَ نَظَرْنَا اِلْیہِ۔
اے پروردگار! اس قوم پرگواہ رہناکہ اب ان کی
جانب وہ شہزادہ جارہاہے جوصورت سیرت اورکرداروگفتار میں تیر ے رسول کے مشابہ تھا
اورہم جب تیرے نبی کی زیارت کی خواہش کرتے تھے تواس کودیکھ کرمطمئن ہوجاتے تھے۔
پس ابن سعد کوآواز دے کرفرمایا:
اے ملعون خداتیرے رحم کوقطع کرے جس طرح تونے میرا رحم قطع کیا۔
بے شک یہ منظر دلخراش بیان سے باہر ہے۔۔ قلم میں تاب کہاں کہ امام حسین ؑ
کے اس وقت کے احساسات کی ترجمانی کرسکے؟ نیزجناب زینب علیا کوجوشہزادہ علی اکبر ؑ سے
خصوصی محبت تھی کیونکہ یہ شہزادہ جناب زینب کا پروردۂ ناز تھا جب بی بی نے دیکھا
ہوگا کہ شہزادہ موت پرکمربستہ ہے توان کے حساسات کا کیا علم ہوگا ؟یہ نطاق
تحریرمیں نہیں سمویاجاسکتا۔۔۔ شہزادہ نے میدان میں یہ رجز پڑھا:
اَنَا عَلِیُّ ابْنُ الْحُسَیْنِ
ابْنِ عَلِیْ
مِنْ عُصْبَۃٍ جَدُّ اَبِیْھِمُ النَّبِیْ
میں حسین ؑ بن علی ؑ کا فرزند ہوں، اس جماعت
سے جن کے با پ کانبی نانا ہے۔
وَاللَّہِ لا یَحْکُمُ فِیْنَا ابْنُ ادَّعِی
اَطْعَنُکُمْ بِا الرُّمْحِ حَتَّی یَنْثَنِیْ
خدا کی قسم ہم میں حرامزادے کا بیٹاحاکم نہیںہو سکتا، میں نیزہ زنی کروں گا یہاں تک کہ نیزہ ٹوٹ
جائے۔
اَضْرِبُکُمْ بِالسَّیْفِ اَحْمِیْ عَنْ اَبِیْ
ضَرْبَ غُلاَمٍ ھَاشِمِیِ عَلَوِیٍّ
اور باپ کی حمایت میں تمہیں تلوار کا مزہ
چکھائوںگا، جس طرح کہ ہاشمی اورعلوی نوجوان تلوار زنی کیا کرتے ہیں۔
نَحْنُ وَبَیْتِ اللَّہِ اَوْلٰی بِالنَّبِیِّ
ہم خداکے گھرکی قسم نبی کے زیادہ قریبی ہیں۔
رجز پڑھتے ہی اشقیا پر حملہ آورہوئے اورصولت حیدری کا وہ مظاہر کیا کہ
لشکر مخالف سے اَلْحَذَرْ اَلْحَذَر اور اَ لْفِرَارْ اَلْفِرَار کی آوازیں بلند
ہوئیں سراوربازوہوا میں اڑتے نظر آتے تھے، قوت یداللّہی کے اس ماہِ تاباں وارث کے
ہاتھ کی جنبش سوارو رہوار ہردوکوزمین پرڈھیر کردیتی تھی، میمنہ کو میسرہ
پراورمیسرہ کومیمنہ پراس طرح مارا کہ دشمنوں کے حواس باختہ ہوگئے۔
چنانچہ علامہ مجلسی سے جلاء ُ العیون میں مروی ہے کہ برج عصمت کے اس خورشید
تاباں نے جب اُفق میدان سے طلوع کیا اورمیدان کارزار کو اپنے پرشکوہ جمال سے منور
کیا تواس نیّرآسمان جلال وجمال کے نورانی پرتوسے دشمنانِ دین کی آنکھیں خیر گی
محسوس کرنے لگیں اورانہیں محوِحیرت کرکے انگشت بدندان کردیا، جب آپ ؑ نے مبارز
طلبی کی توکسی میں آگے بڑھنے کی جرأت و ہمت نہ تھی توشیر بیشہ شجاعت نے تیغ
شرربار کونیام سے باہر کیا اوربجلی کی طرح قلب لشکر پرحملہ آور ہوئے اورباوجود
خستہ تنی اورتشنہ لبی کے ایک سوبیس آزمودہ کارانِ حرب وضرب کو تہِ تیغ
کوڈالازخموں سے چور ہوکرعنانِ اسپ خیام کی طرف موڑی اوراپنے پدربزرگوار کی خدمت
میں عرض گزار ہوئے:
باباجان پیاس سے جان بلب ہوں آوازجنگ کی گرانی اورپھر سورج کی تمازت تشنگی
کی شدت میں اضافہ کا باعث ہیں، کیاہوسکتاہے کہ مجھے ایک گھونٹ پانی مل جائے تاکہ
جسمانی قوت کو مضبوط کرکے دشمنان دین سے جہاد کرسکوں؟
اپنے نازنین نوجوان اورماہِ تاباں فرزند کے
جگرسوزکلمات سن کرحسین ؑ کی آنکھوں میں آنسوبھرآئے اورفرمایا:
بیٹا! تیرے نانا۔۔ تیرے دادا اور تیرے باپ پر یہ امرسخت گراں ہے کہ تجھ سا
نوجوان فرزند پانی طلب کرے اوروہ تجھے پیاسادیکھتے ہوئے کچھ نہ دے سکیں
اورتوفریادکرے اوروہ فریاد رسی نہ کرسکیں!
پھرفرمایا:
بیٹا! اپنی خشک زبان میرے تشنہ دہان میں رکھو اورمیری زبان کوچوسو پھراپنی
انگوٹھی اُتار کردی کہ اس کو منہ میں رکھو اوردشمنانِ دین سے جہاد کرنے کے لئے
واپس میدان میں پلٹ جائو اُمید ہے آج شام سے پہلے تجھے دادا اپنے دست مبارک سے
سیراب کریں گے کہ پھرکبھی پیاس محسوس نہ کروگے۔
پس شہزادہ نے دوبارہ شیر غضبناک کی طرح ان روباہ صفت انسانوں پرتیغ بُراں
سے حملہ کیا اوراس حملہ میں باوجود کمالِ تشنگی کے اَسّی ملاعین کو دارالبوار
پہنچایا۔
’’روضتہ
الصفا‘‘سے منقول ہے کہ شہزادہ علی اکبر ؑ نے اسی طرح پے درپے بارہ حملے کیے اورہر
دفعہ اپنے دادا شیرخداکی طرح تھکان وکوفت محسوس کئے بغیر تازہ دم ہوکر حملہ
آورہوتاتھا کہ ہرطرف کشتوں کے پشتے نظر آتے تھے۔۔۔ اچانک مُرّہ بن منقذ عبدی
ملعون نے کمین گاہ سے نکل کرپشت کی طرف سے شہزادے کے سرپر تلوار کا وار کیا کہ
شہزادہ کو تاب ضبط نہ رہی اوراپنے دونوں ہاتھ عقاب گھوڑے کی گردن میں حمائل کردئیے
پھر ہرطرف سے تلواریں اس طرح برسیں کہ جسم اطہر پاش پاش ہوگیا۔
حضرت حسین ؑ کی پوری توجہ میدان کی طرف تھی ان کو آرام نہیں تھا کرسی
چھوڑکر قدم مبارک خیمہ کے اندر رکھتے تھے پھر باہر آجاتے تھے اور اپنے جوان فرزند
کی آواز کے منتظر رہے محبت پدری سے متاثر ہوکر کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن درد اولاد
کا صد مہ گلوگیر ہوجاتاتھا ادھر جناب زینب علیا سلام اللہ علیہا کو بے چین دیکھتے
پس خاموشی سی چھائی ہوئی تھی کہ اچانک علی اکبر ؑ کی آواز کان میں پہنچی:
یَااَبَتَاہُ عَلَیْکَ مِنِّی السَّلامُ ھٰذَا جَدِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ
قَدْ سَقَانِیْ بِکاسَہٖ الْاَوْفٰی شَرْبَۃً لا اَظْمَأُ بَعْدَھَا اَبَدًا وَ
ھُوَ یَقُوْلُ اَلْعَجَلْ اَلْعَجَلْ فَاِنَّ لَکَ کاسًا مَذْخُوْرَۃً حَتّٰی
تَشْرَبَھَا السَّاعَۃَ۔
باباجان میراسلام ہومیرے نانانے مجھے جام شربت پلادیا کہ اب کبھی پیاسانہ
ہوں گا اوروہ فرماتے ہیں بیٹا جلدی آجائو تمہارے لئے جام شرت موجود ہے کہ ابھی
پیوگے۔
اورمقتل ابو مخنف میں ہے شہزادہ زین راہوار سے فرش زمین پر گرا اور فوراً
سنبھل کر بیٹھ گیا اورآوازدی:
یَا اَبَتَاہُ عَلَیْکَ مِنِّی السَّلامُ فَھٰذَا جَدِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ
وَاَمِیْرُ الْمُوْمِنِیْنَ وَھٰذِہٖ جَدَّتِیْ فَاطِمَۃُ الزَّھْرَائِ
وَخَدِیْجَۃُ الْکُبْریٰ وَ ھُمْ یَقُوْلُوْنَ لَکَ اَلْعَجَلْ اَلْعَجَلْ وَھُمْ
مُشْتَاقُوْنَ اِلَیْکَ۔
بابامیرا سلام ہو۔۔ یہ دیکھئے میرے نانارسولؐ خدا میرے دادا امیرالمومنین ؑ
اور میری دادی جناب فاطمہ زہرا ؑاورخدیجہ ؑ الکبریٰ سب موجود ہیں اورآپ ؑ کو جلدی
آنے کی دعوت دے رہے ہیں اورآپ ؑ کی آمد کے مشتاق ہیں۔
یعنی شہزادے نے اپنے باپ کوکیا ہوا وعدہ یا دلایا کہ آپ ؑ نے فرمایاتھا
تجھے ناناجان ابھی سیراب کریںگے توانہوں نے مجھے سیراب کردیا ہے اورآپ ؑ کے لئے
جام شربت ہاتھوں میں لئے انتظار کررہے ہیں۔
اپنے فرزند دلبند کی آواز سنتے ہی حسین ؑ نے میدان کارخ کیا اورمروی ہے کہ
حسین ؑ نے سات مرتبہ نعرہ بلند کیا اوربلند آواز سے روئے اورعلی اکبر ؑ کی شہادت
سے پہلے بلند آواز سے حسین ؑ کارونا کسی نے نہ سنا تھا، کیوں نہ ہو اپنی تمام
آرزوہیں اورامیدیں اب آنکھوں کے سامنے خون میں غلطان تھیں پس جوان بیٹے کے
سرکوگود میں رکھا اورنعرہ غم بلند کیا اوراحساسات پدری کوظاہرفرمایا، پھر علی اکبر
ؑ کے سر کوسینے سے لگایا پھر منہ پرمنہ رکھ کرفرمایا:
بیٹا دنیا کے رنج وغم سے تم کو آزادی ملی لیکن تیراباپ تواب تنہاوبے کس رہ
گیا ہے اچھا میں بھی عنقریب آرہاہوں بیٹاتیرے بعد دنیا اوردنیا کی زندگی پرخاک ہو
خدان لوگوکو ہلاک کرے جنہوں نے تجھے ناحق قتل کیا اوررسول کی ہتک حرمت پر جرأت کا
ہاتھ اٹھایا عَلٰی الدُّنْیا بَعْدَکَ
الْعَفَا۔
’’منتخب‘‘
میں ہے کہ شہزادہ علی اکبر ؑ نے پشمینہ پہناہوا تھا اورعمامہ گلابی رنگ کا تھا جس
کے دونوں کنارے بطور تحت الحنک کے سینہ پر لٹکے ہوئے تھے اوربعض روایات میں ہے کہ
شہزادہ علی اکبر کو حلق پر ایک تیر لگاجوپارہوگیا۔
’’بحارالانوار‘‘
میں ہے کہ جناب زینب علیا سلام اللہ علیہا خیمہ سے روتی ہوئی نکلیں اورجب حسین ؑ
پہنچے تو بہن کوواپس خیمہ میں لائے، پس علی اکبر ؑ کی لاش کواٹھاکر خیمہ گاہ کے
سامنے لائے اوربنی ہاشم کے چند بچوں نے جوان کی لاش اٹھانے میں امام مظلوم ؑ کا
ساتھ دیا، حسین ؑ خیمہ میں داخل ہوئے تومایوسانہ انداز میں اِدھر اُدھر دیکھتے تھے
اوردرد منددل سے آہِ حسرت کا دھواں اُبھرتاتھا آنکھوں میں آنسوئوں کے ضبط کی
طاقت نہ تھی، جونہی جناب سکینہ ؑ خاتون نے اپنے باباکی یہ دگر گون حالت دیکھی تو
دامن سے لپٹ کر عرض کرنے لگی باباجان آپ ؑ کی اِدھر اُدھر مایوسانہ نگا ہیں مجھے
پریشان کررہی ہیں بتلائیے میرے بھائی علی اکبر ؑ کہاں ہیں؟ اس وقت گلوگیر آواز سے
پردردلہجہ میں ارشاد فرمایابیٹی علی اکبر ؑ شہید ہوگیا ہے، یہ سنتے ہی جناب سکینہ
ؑ خاتون نے روناشروع کردیا اورتمام خیام میں کہرام ماتم باپا ہوا۔
ایک ایرانی شاعر نے علی اکبر ؑکے آخری استغاثہ کو یوں نظم کیا ہے:
بابا بیا کہ تیغِ جفا ساخت کار من
برگے نچیدہ گشت خزاں نوبہارِ من
تا بر تنم بود رمقے برسرم بیا
بنگر بوقت مرگ بر احوال زارِ من
از تیغ ظلم رشتہ عمرم زہم گسیخت
لیلا بگو دیگر نہ کشد انتظارِ من
خیمہ گاہ سے روانگی کے وقت جب اہل حرم کوشہزادہ علی اکبر ؑ نے آخری سلام
کیا توتمام اہل حرم اس نیّربرج جمال کے اردگرد جمع ہوئیں اورجس انداز سے انہوں نے
شہزادہ کو رخصت کیا ہوگا وہ اندرون پردہ کی بات ہے مناسب حال یہی ہے کہ بہنوں نے
اپنے انداز محبت سے وداع کیا ہوگا اورپھوپھیوں نے ضرورچہرہ انورکو بوسہ دیا ہوگا
اورماں نے اپنی محبت کی مناسبت سے پیارکیا ہوگا؟
بعض روایات میں میں نے دیکھا ہے کہ جب شہزادہ علی اکبر ؑ خیمے سے برآمد
ہوئے توتین مرتبہ پردہ اٹھا اورپھر گراگویا شہزادہ کوتین مرتبہ خیمہ سے نکلتے ہوئے
واپس جانا پڑا۔۔ خدا معلوم بیبیوں کو اس فخر یوسف کی جدائی گوارانہیں تھی، لہذا
باربارخواہش دیدار میں شہزادہ کوواپس گلے سے لگاتی ہوں گی اورپیار کرتی ہوں گی
جوجوان موت کے لئے جارہاہو اس کی بہنیں یاپھوپھیا ںیاماں کیسے گوارا کرسکتی ہیں کہ
وہ فوراً چلاجائے؟ بہرکیف محبت کے ارمان پورے نہیں ہوتے آخرشہزادہ باہر آیا
اوربعض راوی کہتے ہیں کہ اس وقت خیام اہل بیت میں ماتم اورآہ وفغاں کاشور بپاتھا
اورخیام عصمت سے گردوغبار اس قدر اٹھاکہ کچھ دکھائی نہ دیتاتھا شاید شہزادہ نے
بزبانِ حال کہاہوجیساکرفارسی شاعرکہتاہے:
بگریہ گفت کہ اہل حرم خداحافظ
بلاکشانِ دیارِ بلا خداحافظ
زمن غبارملالے اگربدل دارید
مراحلال کنید ازکرم خداحافظ
چہ ایں شنیدبرون شد زخیمہ گاہ لیلا
بنالہ گفت عزیز دلم خدا ہمراہ
مرابفرقت خود می کنی کباب امروز
امید واریٔ فردائی من خدا ہمراہ
راہ شام میں جناب لیلیٰ کی زبان حال سے ایک شاعر ایرانی نے کہاہے:
وائے برمن کزجفا باید زکوفہ تابشام
ہمرہی با قاتل بیرحم بد خویت کنم
راس تو در روبرویم تاچہل منزل دریغ
خصم نگذارد دمی تا یک نظرسویت کنم
بوقت روانگی ازمقتل جناب لیلیٰ کی زبانی مرثیہ کسی شاعر نے نظم کیا ہے:
افغان رعد برفلک ایں یاکہ درخروش
لیلائے داغدیدہ سرنعش اکبراست
آہ ازدمے کہ کرد نبعش پسر خطاب
کے روح پاک ازچہ تراخاک بستراست
گفتم عصائے پیری من باشی اے جوان
غافل ازاں کہ با تو اجل دربرابراست
ہرعضوراکہ بینمت اے پارہ پارہ تن
جائے سنان ونیزہ وشمشیر وخنجراست
اے نوردیدہ دیدہ کشا محملم بہ بند
ما را براہِ شام کہ غیرازتورہبراست
لاش علی اکبر ؑ پرپہنچ کرحضرت حسین ؑنے علی اکبر ؑ کوبزبانِ حال یوں خطاب
فرمایا:
کوکدامی سنگ دل بشگافت فرق انورت را
کرد آماج خدنگ وناوک کیں پیکرت را
بردرید ندا زچہ پہلوئے زگل نازک ترت را
اے ہمائے اوج رفعت کِی شکستہ شہپرت را
خیزبیں درانتظارت آں سکینہ خواہرت را
عمہا بگرفتہ دِورداغ دیدہ مادرت را
اگرچہ روایاتِ معتبرہ میں جناب لیلیٰ کی کربلامیں موجود گی نہیں ملتی لیکن
کتب مراثی میں بعض مقامات پراس کا ذکر آتاہے اورعلامہ سید علی نقی مدظلہ کی کتاب
’’شہید انسانیت‘‘ میں بھی موجود ہے۔۔ واللہ اعلم