ان کے شہدائے کربلا میں درج ہونے میں اختلاف ہے لیکن بہت سے علمائے تاریخ
مثلاً ابن شہرآشوب، ابومخنف، علامہ مجلسی، مامقانی، شیخ عباس قمی اورصاحب ناسخ نے
ان کو شہدائے کربلا میں سے شمارکیا ہے، جیساکہ مناقب، بحارالانوار اورنفس المہموم
میں ہے ان کی والدہ ماجدہ صہبا تغلبیہ تھیں جن کی کنیت اُمّ حبیبہ تھی اورحضرت
مسلم بن عقیل کی زوجہ رقیہ کی والدہ بھی صہبا تغلبیہ تھیں، عمربن علی اوررقیہ بنت
علی دونوں توا ٔم (جوڑے) پیداہوئے تھے، مدینہ سے اپنی بہن رقیہ اوردونوںبھانجوں
محمدوعبداللہ کو ساتھ لے کرامام عالیمقام ؑ کے ہمراہ سفرکیا اور بروز عاشور
ابوبکربن علی کی شہادت کے بعد میدانِ کارزار میں رجزپڑھتے ہوئے گئے، پہلے پہل حضرت
عبداللہ بن علی ؑ جوجناب اُمّ البنین کا چھوٹا شہزاداہ تھا کے قاتل زجر بن بدر کو
تہِ تیغ کیا اور پھر نہایت دلیری سے لشکراعدأ میں گھس کر داد شجاعت دی اور بہت سے
ملا عین کو فی النار کرکے جام شہادت نوش کیا ۔
عمر بن علی ؑ نہایت فصیح و بلیغ۔۔ عفیف النفس اور سخی انسان تھے جن لوگو ں
نے ان کے متعلق یہ ذکرکیا ہے وہ مدینہ میں رہ گئے تھے اور امام حسین ؑکی شہادت کے
بعد انہوں نے خوشی کا اظہارکیا تھا اور پھر ابن زبیر کی بیعت کر لی تھی یہ لوگ بنی
امیہ کے کاسہ لیس تھے اور اہل بیت کے وقار پر ہر قسم کے ناروا حملے کرنا ان کا
شیوہ تھا، بہرکیف یہ سب خاندانِ رسالت کے دشمن عناصر کی قلمی ولسانی سر گرمیوں کا
نتیجہ ہے اور بنی امیہ کی خانہ زاد تاریخ کی بے حقیقت اور بے سروپا جھو ٹ کی
داستان ہے جو خاندانِ عصمت کے دامن کو داغدار ثابت کرنے کے لئے تراشی گئی ہے یہ
وہی لوگ ہیں جنہوں نے حضرت ابو طالب ؑ کو کافر کہا اور انہی لوگوں نے محمد بن
حنفیہ پر ادعائے امامت کا الزام تراشا؟ بہر کیف خاندانِ اہل بیت کا دامن اس قسم کے
نازیبا دھبوں سے پاک ہے اور حقیقت حال کو خدا بہتر جانتا ہے۔