میں اس شہادت کو سیّد العلما ٔواستاذ الفضلاعلاّمہ مولانا سید محمد باقر
شاہ صاحب قبلہ مدظلّہ العالی کی کتاب مجالس المرضیہ سے نقل کرتاہوں؟
تذکرہ سبط بن جوزی میں ہشام کلبی سے مروی ہے کہ جب حضرت امام حسین ؑنے
دیکھا کہ لوگ میرے قتل پرآمادہ ہیں توقرآن مجید کو کھول کرسرپررکھا اورباآواز
بلند ندادی:
میرے اورتمہارے درمیان اللہ کی کتاب ہے اورمیں تمہارے رسولؐ کا نواسہ
ہوں۔۔۔ بتاؤ میرے خون کو کیوں جائز سمجھتے ہو؟
اتنے میں آپ ؑ نے اپنے شیرخوارکی آواز سنی
جوشدت تشنگی سے رو رہاتھا؟ پس اس کو ہاتھوں پراٹھایا اورفرمایااے قوم اگرتم لوگ
مجھے قابل رحم نہیں سمجھتے تواس بچہ پر تورحم کرو، کیا عرض کروں کہ اس کا جواب کیا
ملا؟ ایک شقی ازلی نے چلّہ کمان سے تیر رہاکیا اوربچہ باپ کی گود میں شہید ہوگیا،
امام ؑنے رودیا اوربارگاہِ خداوندی میں عرض کیا میرے اور اس قوم کے درمیان تو ہی
فیصلہ کرنا جنہوں نے ہمیں دعوت دی اور پھر ہماری نصرت سے دستبردار ہو کر ہمارے قتل
کے درپے ہوئے ؟ ہاتف غیبی کی ایک ندا آئی دَعْہُ یاَ حُسَیْنؑ فَاِنَّ لَہُ
مُرْضِعَۃً فِی الْجَنْۃِ اے حسین ؑفکر نہ کرو اس بچہ کیلئے جنت میں ایک دایہ مقرر
ہے(نفس المہموم ص۱۸۵)
ممکن ہے اس دایہ سے مراد کوئی حور ہو یا شاید اس سے مراد جناب خاتون جنت
ہوں؟ ایک روایت میں ہے کہ آپ ؑ نے جناب زینب خاتون سے بچہ طلب فرمایا تھا کہ مجھے
شیر خوار لادیجئے تاکہ میں اس سے وداع کرلوں لیکن جب دیکھا کہ پیاس سے اس کے لب
خشک ہیں اور رو رہا ہے توپانی طلب کرنے کی خاطرہاتھوں پراُٹھا کر میدان میں لے
آئے اورشیر خوار کے لئے پانی طلب فرمایا اورارشاد فرمایا:
اے قوم! تم لوگوں نے میرے جوان بھائی، بیٹے اورا نصارکو شہید کرڈالاہے؟ اب
اس بچے کے سوامیرے پاس اورکوئی باقی نہیں رہا کم ازکم اس کو توپانی پلادو ؟اگر
میرے اوپر تم رحم نہیں کرتے تو اس بچہ پر رحم کرو۔
لیکن امام عالیمقام ؑ کی اس تقریرکا سنگدلوںپر کوئی اثر نہ ہوا؟ اتنا ہی
عرض کرتاہوں کہ ایک تیر جفاگلوئے نازنین کی طرف آیاجس کے صد مہ سے بچہ باپ کی گود
میں ہمک ہمک کر ہمیشہ کی نیند سوگیا۔
کتاب ’’محرق القلوب ص۱۴۹‘‘ پرہے کہ
حُرملہ بن کاہل اسدی نے تیر مارا جو علی اصغر ؑ کی گردن سے گذرکر امام حسین ؑ کے
بازو میںپیوست ہوگیا، حضرت نے وہ تیر زور سے کھینچا اور حلق علی اصغر ؑ سے بہنے
والا خون اپنے چلّو میںلے کر آسماں کی طرف پھینکا ؟بچے نے پُرارمانِ نگاہ اپنے
باپ کے چہرے پر دوڑائی اور ایک تبسم کرکے آنکھیں بند کر لیں، امام ؑ نے سرد آہ کھینچی
کہ زمین میں زلزلہ آیا پس خیام کی طرف رُخ فرمایا اور قریب پہنچ کر اہل حرم کو
صدادِی کہ لو علی اصغر ؑ حوضِ کوثر سے سیراب ہو چکاہے، جونہی بیبیوں نے آوازسنی؟
سرا سیمہ دو ڑ کر آئیں، حضرت ؑ نے وہ بچہ ماں کی گود میں دیا اس میں شک نہیں کہ
اس دنیاوی پانی کے بدلہ میں امام ؑ حسین ؑکو چارقسم کے پانی عطاہوئے:
کوثر: امام حسین ؑ کے عزادار اس
کوپی کرمسرور ہوں گے۔
آب ِحیا ت : جس کوعزاداروں کی
آنسوسے ملایا جاتاہے اوراس کی شیرینی میں اضافہ ہوتا ہے یہ بھی حسین ؑ کے ماتم
داروں کیلئے جنت میں ہوگا۔
تمام مومنوں کی آنسوکا پانی:
کیونکہ حضرت حسین ؑقتیل العبرۃ ہیں۔
ہرسرد پانی: کیونکہ جب بھی کوئی
مومن پانی پیتاہے تواپنے آقاومولا کی تشنہ لبی کو یاد کرتاہے۔
نیز مستحب بھی ہے کہ جب بھی انسان سرد پانی پئے توامام حسین ؑپرسلام ودرود
اوران کے قاتلوں پرلعنت بھیجے ؟ ایسے کیوں نہ ہوجب کہ دین خدا کی حفاظت کے لئے آپ
ؑ کو پانی کے چار قسموں کے حقوق سے محروم کردیا گیا:
پہلاحق: جو تمام بنی نوع انسان کو
پانی کے استعمال کیلئے بالعموم حاصل ہے۔
دوسرا حق: ذی روح ہونے کی حیثیت سے پانی کے استعمال کا حق حاصل ہے کیونکہ
ہرذی روح کی زندگی کا دارومدار پانی پر ہے حتیٰ کہ اگرکوئی مخلوق حیوان پیاس کی
شدت سے مررہاہو اورپانی میسر نہ آتاہو تونماز خداکے لئے تیمم کرلیا جائے اوراس
حیوان کی زندگی کو بچانے کے لئے پانی اس کو پلادیا جائے ۔
تیسر احق: بالخصوص اہل کوفہ پرتھا
کہ آپ ؑ نے کئی مرتبہ پیاس سے جان بلب ہونے کی حالت میں ان کوسیراب فرمایاتھا،
ایک دفعہ قحط سالی میں امام حسین ؑ کی دُعاسے بارانِ رحمت کا نزول ہوا تھا، دوسری
مرتبہ جنگ صفین میں جب فوج شام نے پانی پر قبضہ کیا تو امام حسین ؑ نے باعجاز
امامت ان کوسیراب کیا تھا؟ تیسری مرتبہ لشکر حُر کوسیراب فرمایا تھا، ان ہرسہ حقوق
کے باوجود آپ ؑ کو دریائے فرات کے کنارے پربمعہ اصحاب واہل بیت پیاساشہید کردیا
گیا!
چوتھا حق: خصوصی یہ بھی تھا کہ
دریائے فرات بالخصوص جناب بتول معظمہ کے حق مہر میں داخل تھا۔
امام عالیمقام ؑ پرپیاس کی شدت حد درجہ کو پہنچی ہوئی تھی لیکن چاراعضائے
مبارکہ پیاس سے سخت طور پر متاثر تھے:
(۱) لب ہائے
مبارک بالکل خشک تھے۔
(۲) جگر کباب ہورہاتھا۔
(۳) زبان خشک
تھی۔
(۴) چشم اطہر
کے سامنے سماں تاریک تھا۔ (ملخص ازخصائص)
جناب سکینہ خاتون جب بعد از شہادت باباکی لاش پر پہنچیں تو فرماتی ہیں
گلوئے بریدہ سے آپ ؑ یہ فرمارہے تھے:
(۱) شِیْعَتِیْ
مَا اِنْ شَرِبْتُمْْ مَائَ عَذْبٍ فَاذْکُرُوْنیِْ
اے میرے شیعو! جب
سردپانی پینا تومجھے یاد کرنا۔
(۲) اَوْسَمِعْتُمْ
بِغَرِیْبٍ اَوْشَھِیْدٍ فَانْدُبُوْ نِیْ
یااگر کسی مسافر یا
شہید کا ذکرسننا تومیرے اُوپرآنسوبہالینا۔
(۳) وَاَنَا
السِّبْطُ الَّذِیْ بِغَیْرِ جُرْمٍ قَتَلُوْنِیْ
میں وہ سبط ہوں کہ
مجھے انہوں نے بغیرجرم کے قتل کیاہے۔
(۴) وَ
بِجُرْدِ الْخَیْلِ بَعْدَ الْقَتْلِ عَمْدًا سَحَقُوْنِیْ
اورقتل کے بعد گھوڑے
کے سموں سے مجھے پامال کیا ہے۔
(۵) وَیْلَھُمْ
قَدْ جَرَحُوْا قَلْبَ الرَّسُوْلِ الَّثَقَلِیْنِ
ان پر وَیل ہوکہ
انہوں نے رسول الثقلین کے دل کو زخمی کیا ہے۔
(۶) یَالَرُزْئٍ
وَمُصَابٍ ھَدَّ اَرْکَانَ الْجَحُوِْن
کتنی زبردست مصیبت
ہے جس نے ارکانِ عالم کو منہدم کرڈالاہے؟
(۷) لَیْتَکُمْ
فِیْ یَوْمِ عَاشُوْرَا جَمِیْعًا تَنْظُرُوْنِیْ
کاش یوم عاشورتم سب
مجھے دیکھتے ہوتے؟
(۸) کَیْفَ
اَسْتَسْقِیْ لِطِفْلِیْ فَاَبَوْا اَنْ
یَرْحَمُوْنِیْ
کہ میں کس طرح اپنے
بچے کیلئے پانی مانگ رہاتھا اوروہ رحم نہ کرتے تھے؟
(۹) وَسَقَوْہُ
سَھْمَ بَغْیٍ عِوَضَ الْمَائِ الْمَعِیْنِ
اورپانی
کے بدلے میں اس کو انہوں نے تیر جفاکا پانی پلایا!
(۱۰) فَالْعَنُوْھُمْ
مَااسْتَطَعْتُمْ شِیْعَتِیْ فِیْ کُلِّ حِیْنِ
اے میرے شیعو
جتناکرسکو ہروقت اُن پرلعنت بھیجو۔
حضرت امام حسین ؑنے شیر خوار شہزادے کا خون چلّوپرلیا اوراُسے آسمان کی
طرف پھینکا؟کہ ایک قطرہ واپس نہ آیا غالباًوہ ملائکہ کرام نے اپنے پاس محفوظ
کرلیاہے! کہ بروزمحشراسے بطور شہادت کے پیش کیا جاسکے۔
’’احتجاج‘‘
میں ہے کہ پس آپ ؑ گھوڑے سے اُترے اورخون آلود نازنین کو سپردِ خاک فرمایا، مروی
ہے کہ نوک تلوارسے قبر کھودی اورنماز جنازہ ادا فرمائی پھر دفن کیا، لیکن یہ سوال
پیداہوتاہے کہ تمام شہدأ میں سے اس شہید کے ساتھ یہ نرالاسلوک کیوں ہوا؟ تواس کے
کئی وجوہ ہوسکتے ہیں:
(۱) شاید یہ
وجہ ہوکہ باقی شہیدوں میں سے کسی کیلئے اس قدروقت نہ مل سکاہو؟
(۲) شاید یہ
گوارا نہ تھا کہ اس نازنین کا سربھی تن سے جُدا ہوکرنوک نیزہ پرآئے؟
(۳) شاید تین روز تک ریگ گرم پربچہ کا رہنا
ناگوار ہو؟
(۴) ممکن ہے
گھوڑں کے سموں میں پامال ہونے سے حفاظت کیلئے ایسا کیا ہو؟
(۵) شاید دوسری لاشوں کی طرح اس لاش کادوبارہ
لٹنا منظور خاطرنہ ہو؟
(۶) ممکن ہے شہزادہ
کی خوردسالی وپیاس کی شدت اورمظلومیت سے تیر جفاکا
نشانہ
بننا ایسے روح فرساواقعات تھے جن کے پیش نظر معصوم کی لاش کو
دیکھنے
کی تاب برداشت نہ ہو؟
میں عرض کرتاہوں شاید یہ وجہ بھی ہوکہ اس بچہ کی درد رسیدہ ماں جب کل مقتل
میں آئے گی توشاید بچہ کی معصومیت ومظلومیت اورپھر جسم نازک کاگرم زمین پررہنا
برداشت نہ کرسکے؟ اورنیزاس کی یتیم بہنیں اورپھوپھیاں بھی ضبط نہ کرسکیں گی؟ پس
امام ؑ نے مصلحت اسی میں سمجھی کہ اس کی لاش کو سپر دخاک کیا جائے، لیکن کہتے ہیں
کہ ظالموں نے نوک ہائے نیزہ سے بچہ کی مدفون لاش کوتلاش کرلیا اورسرنازنین کوتن سے
جداکرکے نوک نیزہ پرماں بہنوں اورپھوپھیوں کے سامنے سوار کیا؟
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن ۔