التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

تیسویں مجلس -- اَلْحُسَیْنُ مِنِّیْ وَ أنَا مِنَ الْحُسَیْن

یہ مجلس ابو ظہبی میں یومُ الجمعہ کو پڑھی گئی 


حسین ؑ مجھ سے ہے اور میں حسین ؑ سے ہوں۔۔۔ یہ فقرہ اس زبان نکلا ہے جو کینہ پرور نہیں بلکہ حق پرور ہے۔۔ خاندان پرست نہیں بلکہ حق پرست ہے اور اقربا ٔ پرور نہیں بلکہ حق پرور ہے۔۔۔ اگر کسی کی تعریف کی تو اپنا قریبی سمجھ کر نہیں بلکہ حق سمجھ کر اور کسی کی شکایت کی  تب بھی اپنے سے دوری کی بنا پر نہیں بلکہ حق سے دور سمجھ کر۔
پس حضرت علی ؑ کی تعریف کی تو بھائی سمجھ کر نہیں بلکہ حق سمجھ کر اور جناب زہرا ؑ کے حق میں کچھ فرمایا تو بیٹی سمجھ کر نہیں بلکہ حق سمجھ کر فرمایا اسی طرح امام حسین ؑ کے متعلق بھی جو کچھ فرمایا صرف فرزند سمجھ کر نہیں بلکہ حق سمجھ کر فرمایا۔
جو حدیث رسول میں نے آپ حضرات کے گوش گزار کی ہے اس کے دو حصے ہیں ایک حصہ کا سمجھنا نہایت آسان ہے لیکن دوسرے حصے کو سمجھنا بڑا مشکل ہے، پہلا فقرہ (حسین ؑ مجھ سے ہے) اس کو ہر بندہ آسانی سے سمجھ سکتا ہے کیونکہ بیٹا باپ سے ہوتا ہے اور فرع اصل سے ہوتی ہے۔۔۔ لیکن دوسرا فقرہ (میں حسین ؑ سے ہوں) اس کو سمجھنا مشکل ہے اسلئے کہ باپ بیٹے سے نہیں ہوا کرتا اور نہ اصل فرع سے ہوتی ہے۔
میں دو حصوں کی وضاحت اپنے انداز سے کروں گا بشرطیکہ آپ کہانی سمجھ کر صرف کانوں کو متوجہ نہ کریں بلکہ حقیقت آموز درس سمجھ کر دل و دماغ کو متوجہ فرمائیں۔
 دیکھئے۔۔ انسان کے متعارف ہونے کے دو طریقے ہیں ایک ہے اس میں ذاتی کمال کا پایا جانا اور دوسرا ہے کسی صاحب کمال کی طرف منسوب ہونا۔۔۔ ذاتی کمال کا نام علمی اصطلاح میں حسب ہے اور نسبی کمال نسب ہے۔
ایک شخص ذاتی کمال کی بدولت متعارف ہوا کرتا ہے کہ بڑا عالم ہے۔۔ فاضل ہے یا دنیاوی اعتبار سے فلاں عہدہ پر فائز ہے اور دوسرا شخص دینی یا دنیاوی کوئی عہدہ نہیں رکھتا بلکہ اس کا باپ عہدہ دار ہے پس وہ اپنے باپ کی طرف سے متعارف کرایا جائے گا کہ فلاں صاحب کا فرزند ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ذاتی کمال پائیدار اور نسبی کمال و شرف عارضی ہے۔
یہ بھی ظاہر ہے کہ ذاتی کمال اور نسبی کمال میں تلازم نہیں ہے یعنی حسب اور نسب میں لازم و ملزوم کی حیثیت نہیں ہے۔۔ پس ضروری نہیںہے کہ جس کا حسب بلند ہو اس کا نسب بھی اعلیٰ ہو؟ یا جس کا نسب اعلیٰ ہو اس کا حسب بھی اعلیٰ اور کردار بھی بلند ہو؟ ہاں جس کا نسب اعلیٰ ہو اس کو نسبی اور جس کا حسب اعلیٰ ہو اس کو حسبی کہا جائے گا۔
حضرت آدم ؑکا فرزند قابیل نسب میں بلند ہے کہ نبی زادہ ہے لیکن ذاتی حسب و کردار میں پست ہے کہ اپنے بھائی کا قاتل ہے اور اپنے بابا کی شریعت کا دشمن ہے۔۔۔ اسی طرح حضرت نوحؑ کا فرزند کنعان نسب اعلیٰ رکھتا ہے لیکن عمل و کردار کے اعتبار سے پست ہے پس اس کی قسم کے آ دمیو ںکو حسبی نہیںکہا جائے گا البتہ نسب اعلیٰ رکھتے ہیں لہذا نسبی ہیں۔
ان کے مقابلہ میں ایسے آدمی بکثرت موجود ہیں جن کا نسب پست ہے اور حسب و کردار بلند ہے۔۔۔ ان میں جناب سلمان فارسی۔۔ جناب بلال حبشی اور جناب محمد بن ابی بکر کی واضح مثالیں موجود ہیں کہ جن کا نسب بلند نہیں لیکن حسب میں بلند مقام رکھتے ہیں جو حدیث میں نے پڑھی ہے حُسَیْنُ مِنِّیْ وَأنَا مِنَ الْحُسَیْن اس میں حضور ؐ اپنے فرزند امام حسین ؑکو متعارف کرنا چاہتے ہیں کہ اس کو صرف نسبی بلندی کے اعتبار نہ دیکھو بلکہ اس کا اپنا حسب و کردار بھی بہت بلند ہے او ر اس کا مختصر بیان یہ ہے کہ اگر حسین ؑ کا نسبی مقام دیکھنا ہو تو حسین ؑ مجھ سے ہے لیکن اگر اس کا حسب دیکھنا ہو تو میں حسین ؑ سے ہوں۔
دیکھئے۔۔۔ حضرت پیغمبرؐ کا نسب ہے محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف حضرت آدم ؑتک اور ان کا حسب یعنی ذاتی کمال یہ ہے کہ آپ سلطان الانبیا ٔ۔۔ شافعِ محشر۔۔ صاحب معراج۔۔ بانی ٔاسلام اور صاحب ِقرآن ہیں، حضور ؐ کے آبائے طاہرین حضرت عبداللہ سے لیکر حضرت آدم ؑتک نسب کے لحاظ سے تو آپ کے باپ دادا ہیں لیکن حسب کے لحاظ سے وہ سب کے سب آپ کی امت میں داخل ہیں۔۔۔ پس حضورؐ کے فرمان کا مقصد یہ ہوا کہ اگرمیں نہ ہوتا تو حسین ؑ کا نسب نہ بنتا اور اگر حسین ؑ نہ ہوتا تو میرا حسب محفوظ نہ رہتا، پس نسب میں وہ مجھ سے ہے اور حسب میں میں اس سے ہوں۔
نسب کے دو پہلو ہیں ایک طول دوسرا عرض۔۔ نسب کا طول اوپر کی طرف باپ۔۔ دادا۔۔ پردادا وغیرہ حضرت آدم ؑتک اور نیچے بیٹا۔۔ پوتا آخر تک یہ ایک زنجیر ہے جس کی ہر کڑی دوسری سے ملی ہوئی ہے اور عرض نسب ہے بھائی۔۔ بہن جو سلسلہ طول میں داخل نہیں ہے، عام انسانوں میں کوئی انسان نہ اپنے طولی سلسلہ کی ضمانت دے سکتا ہے اور نہ اپنے عرضی سلسلہ پر اطمینان کر سکتا ہے۔۔۔ لیکن امام حسین ؑ سلسلہ نسب کے وہ سلطان ہیں جن کا طول بھی شک و ریب سے بالا تر ہے اور عرضی بھی لائق فخر ہے۔۔ طول میں اوپر حضرت علی ؑ سے حضرت آدم ؑتک ہر صلب پاک اور حضرت زہرا ؑ سے حضرت حواّ تک ہر رحم پاک  أشْھَدُ أنَّکَ کُنْتَ نُوْرًا فِی الْأصْلابِ الشَّامِخَۃِ وَ الْأرْحَامِ الْمُطَھَّرَۃِ لَمْ تُنَجِّسْکَ الْجَاھِلِیَّۃُ بِأنْجَاسِھَا زیارت وارث ہے کہ اے امام حسین ؑمیں گواہی دیتا ہوںکہ آپ ہمیشہ بلند صلبوں میں اور پاکیزہ رحموں میں رہتے رہے اورکسی دور میں بھی جاہلیت (شرک و کفر) آپ کو اپنی نجاستوں سے آلودہ نہ کرسکیں۔
پس آپ کا طولانی سلسلہ اوپر کی طرف حضرت آدم ؑ و حواؑ تک پاک او رتحتانی سلسلہ امام سجاد ؑ سے امام مہدی ؑ تک پاک۔۔ پس اوپر کا سلسلہ بھی پاک اورنیچے کا سلسلہ بھی پاک گویا اصل بھی پاک اور نسل بھی پاک۔
امام حسین ؑ نسب کے اعتبار سے عظمتوں میں گھر ے ہیں نانا عظیم۔۔ بابا عظیم۔۔ ماں ملکہ عظمت یا یوں عرض کروں نانا ہے تو سید الانبیا ٔ۔۔ بابا ہے تو سید الاولیا ٔ۔۔ دادا ہے تو سید العرب۔۔ نانی ہے تو سیدۃ العر ب۔۔ ماں سیدۃ النسأ العالمین اور خاتونِ جنت بھائی سید جوانانِ جنت۔۔ بہن سیدہ صبر امّ المصائب۔۔ بیٹا سید الساجدین۔
غالباََ اسی بنا ٔپر حضورؐکا ایک ارشاد منقول ہے کہ مقام نسب میں خود میں بھی حسین ؑکا مقابلہ نہیں کرسکتا کیونکہ حسین ؑکانانا سید الانبیا ہے اور میرا نانا ایسا نہیں، حسین ؑکا بابا سید الاوصیا ٔ ہے اور میرا بابا ایسا نہیں، حسین ؑکی ماں خاتونِ جنت ہے اور میری ماں کا یہ مقام نہیں اور یہ کہا جاسکتاہے کہ پیغمبرؐ کا بھائی حسین ؑ کے بھائی جیسا نہیں۔۔ پیغمبر ؐکی نانی حسین ؑکی نانی جیسی نہیں۔۔ پیغمبر ؐکی بہن حسین ؑکی بہن جیسی نہیں اور پیغمبرؐ کے بیٹے حسین ؑ کے بیٹوں جیسے نہیں۔۔ پس امام حسین ؑ سلسلہ نسب کے وہ سلطان ہیں جن کی مثال ہیں تو صرف ایک امام حسن ؑ اور بس۔
علامہ شیخ محمد حسین آل کاشف الغطأ( جو ہمارے استاذالاستاذ ہیں) انہوں نے ایک مقام پر فرمایا کہ ہمیشہ مقام تعارف میں بے ہمت انسان اپنا نسب پیش کرتاہے اور باہمت اپناکردار و حسب پیش کرتا ہے یعنی باہمت آدمی دنیا میں اپنے کمال سے متعارف ہوتا ہے اور بے ہمت آدمی   پدرم سلطان بودکے نعرہ پر ہی محدود ہوتاہے اور درحقیقت زندہ انسان وہ ہے جو اپنے قدموں پر کھڑا ہو، اگر دیکھو کوئی زندہ اپنے مردوں کے سہارے پر زندہ ہے تو اس زندہ کو زندہ مت کہو اور جس کا یہ سہار ا لیتا ہے  اس کو مردہ مت کہو بلکہ درحقیقت یہی زندہ مردہ ہے جو کہ زندگی کے باوجود مردوں کا سہار ا لیتا ہے اور زندہ ہے وہ مردہ جس کا زندہ کو سہارا ہے۔
امام حسین ؑتخلیق پروردگار کے وہ عظیم شاہکار ہیں جنہوں نے نباض انسانیت ہو کر ظلم وجورکی چکی میںپسی ہوئی اور ظلم استبدارو تشددکے شکنجوںمیں جکڑی اور کراہتی ہوئی انسانیت کو عظیم انقلاب کے ذریعے یزیدیت و فرعونیت کے طوفانوں کے منہ موڑ نے اور ان کی شوکت کو توڑنے کا جذبہ دیا۔
پس ایسے عظیم انسان کے لیے ناممکن تھا کہ اپنے تعارف کیلئے اپنے آبا ٔ یا بزرگوں کا سہارا لیتے۔۔۔ ورنہ چاہتے تو اپنے نانا کی عظمت اور بابا کی جلالت پر ہی فخر کرنے تک محدود رہتے لیکن امام حسین ؑ نے اپنے بلند عزم کے ماتحت غلامی کی زنجیروں میںجکڑی انسانیت کو راہِ آزادی کی نشاندہی کے لیے انتہائی کٹھن مراحل سے گزرنے کو اپنے دستور العمل میں شامل کردیا، ایسے کٹھن مراحل کہ جن کے تصور سے بھی عام انسان لرز جاتا ہے۔
پس جب امام حسین ؑ نے وہ مراحل طے کرکے پوری کامیابی کے ساتھ منزل مراد حاصل کرلی اور مظلوم اقوام کے لیے آزاد زندگی کی راہ ہموار کی لی اور عظمت انسانی اورروحِ اسلامی کو تازگی و تابندگی بلکہ تا ابد زندگی بخش دی۔۔ تو بجائے اس کے کہ وہ اپنے بابا اور نانا کی عظمتوں کا سہارا لیتے خود نانا اور بابا تک محدود نہیں بلکہ تاآدم ؑ تمام بزرگوں نے امام حسین ؑ کی عظمت کو تسلیم کیا اورمل کر خراجِ عقیدت پیش کرنے اور داد دینے پر مجبورہوئے۔
اب دیکھنا ہے کہ امام حسین ؑکا حسب کیاہے جس پر نسب کو ناز ہے؟
تو اس مقصد تک پہنچنے کے لیے چند امور کا سمجھ لینا ضروری ہے:
خ   تاریک گھر میںمعمولی چراغ روشنی دے سکتاہے لیکن جہاں پہلے روشنی موجود ہو وہاں مزید روشنی کے لیے معمولی چراغ کام نہیں دے گا کیونکہ جب اندھیرا تھا تو اسی چراغ سے کام لینا دانشمندی کا تقاضاتھا۔۔۔ لیکن روشن گھر میں اسی چراغ کا جلانا حماقت کی علامت ہے، حق یہ ہے کہ یہاں وہ چراغ آئے جس کی روشنی موجود ہ روشنی پرچھا جائے پس اگر پہلے زیرو کا بلب ہے تو ساٹھ والٹ کا لگایا جائے اور ساٹھ کا ہے تو سو والٹ کا لگانا چاہیے اور سو کا ہے تو ہزار کا لگائیں گے۔۔ وعلی ہذا القیاس
خ   دوسری بات قابل غور یہ ہے کہ اَن پڑھ گھرانے میں پڑھنا مشکل ہے لیکن اگر پڑھ لے تو چمکنا آسان ہے اسلئے کہ وہ اندھیرے گھر کا چراغ ہے اور اس کے بر عکس پڑھے لکھے گھرانے میں پڑھنا اگرچہ آسان ہے لیکن چمکنا اور نامور ہونا مشکل ہے اسلئے کہ یہ روشن گھر کا چراغ ہے یہ اُس وقت چمکے گا جب موجود روشنیوں پر چھا جانے کی صلاحیت رکھتا ہوگا۔۔۔۔۔ اسی طرح بخیل گھر انے میں کچھ دے کر سخی بننا مشکل ہے لیکن اگرکوئی دینے کی ہمت کرے تو شہرت یافتہ ہونا اور چمکنا آسان ہے کیونکہ تاریک گھر کا چراغ ہے اور اس کے برعکس سخی گھرانے میں رہ کر سخاوت کرنا آسان ہے لیکن چمکنا مشکل ہے کیونکہ روشن گھر کا چراغ ہے یہ تب چمکے گا جب تمام گھر والوں سے بازی لے جائے۔
خ   تیسری بات جو ذہن نشین کر لینا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ باپ یا خاندان جتنا گھٹیایا گمنام ہو اُبھرنے والے بلند ہمت فرزند کے لیے بلندی اور ناموری آسان ہے اور اس کے برعکس باپ یا خاندان جس قدر بلند ہو گا نئی پود کے لیے بلندی کا مقام حاصل کرنا مشکل ہوگا۔۔ مثلاََ مقام تعلیم میں باپ اَن پڑھ ہے تو بیٹا معمولی سی تعلیم کے ساتھ باپ سے بڑھ سکتاہے اور نام پیدا کر سکتا ہے لیکن اگر باپ تعلیم یافتہ ہو تو جس قدر باپ کی تعلیم کم ہو گی بیٹے کے لیے بلندی اسی قدر آسان ہوگی۔۔ مثلاََ وہ پرائمری پاس ہے تو بیٹا تھوڑی محنت کرکے مڈل پاس ہو کر باپ سے قدم بڑھالے گا اور اگر باپ مڈل پاس ہو تو بیٹا میڑک کرکے اپنی شان بنالے گا اگر وہ میٹرک ہو تو یہ بی اے کر لے۔۔ وہ بی اے ہو تو یہ ایم اے کرلے، مقصد یہ ہے کہ باپ جس قدر بلند ہوتا جائے گا بیٹے کے لیے مشکل بڑھتی جائے گی۔
زندگی کے ہر شعبہ میں یہی قیاس کیجئے اگر باپ یا خاندان بخیل ہو تو بیٹا سخاوت کرکے سخی کہلائے گا لیکن وہ بھی سخی ہوں تو اِن کو بلندی حاصل کرنے میں اُن سے بڑھ کر قدم رکھنا پڑے گا ورنہ نامور ہونا مشکل ہو گا۔۔ کیونکہ مثال کے طور پر اگر باپ حاتم طائی جیسا سخی ہو تو بیٹا پانچ یا دس روپے میں سخی نہیں کہلائے گا بلکہ لوگ اس کو بخیل کہیں گے یعنی جہاں بخیل گھرانے کا فرد ایک روپیہ دے کر سخی کہلا سکتا ہے وہاں سخی گھرانے کا فرد پانچ روپے دے کر بھی بخیل کہلائے گا؟ اسی طرح اَن پڑھ گھرانے کا فرد جہاں پرائمری پاس کرکے تعلیم یافتہ کہلا سکتا ہے وہاں تعلیم یافتہ گھرانے کا فرد مڈل پاس ہو کر بھی اَن پڑھ کہے جانے کا مستحق ہو گا۔
ان باتوں کو ذہن نشین کرنے کے بعد امام حسین ؑ کی عظمت کا اندازہ کیجئے؟
امام حسین ؑ تاریک گھر کے چراغ نہیں۔۔ بخیل گھرانے کے سخی نہیں۔۔ بزدل خاندان کے بہادر نہیں۔۔ اَن پڑھ گھرانے کے عالم نہیں۔۔ بے نماز گھر کے نمازی نہیں اور گمنام گھرانے کا نامور نہیں بلکہ امام حسین ؑ اس گھر میں آ ئے جہاں معرفت و سخاوت اور شجاعت و عبادت کی گوناگوں قندیلیں چہاردانگ ِ عالم میں ضیا پاشی کے لیے مصروف کار تھیں۔۔۔ ایک تاریک گھر کا چراغ ہوتے تو معمولی چمک سے اُبھر سکتے تھے اور اگر پہلے معمولی درجہ کی روشنی ہوتی تو یہ تھوڑی سی محبت کرکے اپنی چمک سے نمایاں مقام حاصل کر سکتے تھے، امام حسین ؑ جس گھرانے میں آئے وہاں روشنی پھیلانے والے زیرو یا کم درجہ کے بلب روشن نہیں تھے بلکہ ہائی درجہ کے بلب موجود تھے، یا یوں عرض کروں کہ اس گھر میں روشن ہونے والا نبوت کا بلب ایک لاکھ چوبیس ہزار والٹ کا تھا اور جس مالک و کارخانہ دار (اللہ ) نے یہ بلب تیار کیا ہے اس نے یہ نمبر ہی آخری قرار دیا ہے۔۔ نہ اس نے بلند درجہ کا پہلے بنایا اور نہ بعد میں بنایا جائے گا، اسی طرح ولایت کا بلب آخری نمبر کا،عصمت و طہار ت کا بلب آخری نمبر کا، پھر اِن ہائی روشنیوں میں آکر امام حسین ؑ نمایاں طور پر اپنی روشنی پھیلائے اور سابق کے تمام روشن ماحول سے بھی اپنی روشنی منوائے تو کیسے؟ یہ امام حسین ؑ کے عظیم مشن کا عظیم منشور تھا جس کوامام نے نبھایا اور بزرگوں سے منوایا۔
میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ باپ جس قدر گمنا م اور گھٹیا ہو تو بیٹے کے لئے  بلندی کا مقام آسان ہے۔۔۔ لیکن باپ جس قدر بلند ہو بیٹے کے لئے اسی قدر مشکلات میں اضافہ ہوگا۔
امام حسین ؑ اس عظیم باپ کے فرزند ہیں جنہوں نے بلندی کا کوئی زینہ چھوڑا ہی نہیں جس پر قدم نہ رکھا ہو؟ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے ان کانام بھی علی ؑ رکھا ہے، پست ہوتے تو عالم الغیب نے ان کا نام علی ؑ کیوںرکھا ہوتا ؟
اگر کمالات کے متعدد شعبہ جات ہوں اور باپ ایک شعبہ میں بلند مقام حاصل کرلے تو بیٹا دوسرے شعبہ میں آخری ڈگری حاصل کرکے باپ کے برابر کرسی حاصل کر سکتا ہے۔۔ مثلاََ باپ علم الحساب کے آخری زینہ پر ہو تو بیٹا الجبرا میں آخری ڈگری پر۔۔ اسی طرح باپ علم تاریخ میں ماہر ہو تو بیٹا علم جغرافیہ میںصاحب کمال۔۔ وعلی ہذا القیاس
لیکن امام حسین ؑ اُس باپ کے فرزند ہیں جنہوں نے کمالاتِ انسانیہ میںسے کوئی شعبہ چھوڑا ہی نہیں جس کے آخری زینہ پر قدم نہ رکھا ہو؟
مقام علم میں بابِ مدینہ علومِ نبویہ۔۔ مقام شجاعت میں اسداللہ الغالب۔۔ مقام معرفت میں سلطان العارفین۔۔ مقام تقویٰ میں امام المتقین۔۔ مقام اسلام میں اوّل المسلمین۔۔مقام ایمان میں ایک طرف ایمانِ کل اور دوسری طرف امیرالمومنین۔۔ مقام ولایت میں سید الاولیا ٔ۔۔ آخرت میں قسیم الجنتہ والنار۔۔او ربارگاہِ پروردگار میں حاضری کے وقت حامل لواء ُالحمد (انبیا ٔو اولیا ٔ کی پناہ گاہ)اب امام حسین ؑ اس بابا سے بڑھیں تو کیونکر؟ جب کہ اس کے بعد ترقی کا کوئی زینہ ہی نہیں؟ اور اس عظیم بابا سے اپنی عظمت منوائیں تو کیسے ؟
لیکن آپ کے عزم واستقلال کا کیا کہنااے امام حسین ؑ! آپ نے ہر میدان میں قدم ایسا جما کے رکھا کہ فتح و نصرت نے بڑھ کر آپ کے قدم چوم لیے اور نانا اور بابا بھی آپ کو داد دیئے بغیر نہ رہ سکے؟
دیکھئے۔۔۔ مقام عباد ت میںامام حسین ؑ کے نانا سے بڑا عبادت گزار اور نمازی کوئی نہیں ہو سکتا لیکن امام حسین ؑ نے اپنا مقام طے کرلیا اور نماز ایسی پڑھی کہ ان کی نماز نے تمام اوّلین وآخرین کے نمازیوں کی نماز کی لاج رکھ لی حتی کہ ایک شاعر نے برملا کہہ دیا:
اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے
اِک ضرب یداللّہی اِک سجدۂ شبیری
حالانکہ اس شاعر نے حلقہ اسلام میں پڑھی جانے والی ہر نماز کوامام حسین ؑ کی نماز کے مقابلہ میں کالعدم قرار دے دیا اور میں نے نہیں سنا کہ اس شاعر کو کسی نے کافر کہا ہو؟ وجہ یہ ہے کہ ہے ہر نماز درجہ مقبولیت تک نہیں پہنچتی بلکہ وہ نماز مقبول ہوتی ہے جس میں خضوع و خشوع موجو د ہواور خضوع کے لیے ضروری ہے کہ فضا مناسب۔۔ ماحول سازگار۔۔ نمازی پر سکون۔۔مطمئن اور بے چینی و پریشانی سے دور ہو، بے شک حضور ؐ نے نمازیں پڑھیں اور انتہائی خضوع وخشوع سے پڑھیں لیکن ماحول ساز گار اور فضا پر سکون تھی۔۔ مثلاََ مسجد کی چھت کے نیچے سائے میں۔۔ شکم سیر ہو کر۔۔ پورے اطمینان کے ساتھ۔۔ اقتدأ کرنے والے ہزاروں معتقدین کے آگے کھڑے ہو کر۔۔ نہ گرمی نہ درد۔۔ نہ غم نہ فکر۔۔ ادھر جبریل کی آمد۔۔ فتح و نصرت کی خوشخبری۔۔ اسلام کی توسیع۔۔ قرآن کا نزول۔۔ رحمت پروردگار کا سایہ۔۔ دشمن کا غلغلہ نہ شور و غل نہ عزیزوں کا قتل۔۔ نہ جسم پر زخم۔۔ نہ بہن بیٹی کے پردہ کی فکر۔۔ پس ہر طرح سے بے فکر ہو کر آرام و اطمینان سے نمازیں ادا فرماتے رہے۔
امام حسین ؑ نے ایک نماز ایسی حالت میں پڑھی کہ دنیا میں جس درد و غم کا تصور ہو سکتا ہے وہ سب امام حسین ؑ کے لیے موجود تھے اور ہر قسم کی گرمی وجودِ اطہر پر موجود تھی، سور ج کی گرمی۔۔ ملک گرم۔۔ فضا گرم۔۔ ہوا گرم۔۔ موسم گرم۔۔ وقت گرم۔۔ جسم پر بے حد زخموں کی گرمی۔۔ تیروں کی برسات۔۔ مارو مارو کی صدائیں۔۔ کسی طرف علی اکبرؑ کا لاشہ۔۔ کہیں قاسم و عباس و عون و محمد ؑ کے لاشے۔۔ ادھر سکینہ کے بین۔۔ باقی سادانیوں کے رونے کی آوازیں۔۔ ان تمام دردوں میں گھر کر پورے اطمینان کے ساتھ خون آلود ریگ صحرا پر تیمم کرکے بہتر لاشوں کے درمیان کھڑے ہو کر قبلہ کی طرف رُخ کر کے کہتے ہیں۔۔اللہ اکبر
 یہ امام حسین ؑ کی وہ نماز تھی جس نے ملا ٔ اعلیٰ میں کہرام بپا کردیا اور غالباََ زیارتِ مطلقہ کے الفاظ ارواحِ انبیا اورملائکہ کی زبان سے بھی بے تحاشا نکلے ہوں گے أشْھَدُ أنَّکَ قَدْ أقَمْتَ الصَّلاۃَ۔
بے شک امام علی ؑ نے زکواۃ دی لیکن امام حسین ؑ کا رنگ نرالا ہے، حضرت علی ؑ نے زکواۃ میں انگوٹھی دی اورامام حسین ؑ نے بھی انگوٹھی دی۔۔ مولا علی ؑ نے دی رکوع میںامام حسین ؑ نے سجدہ میں۔۔امام علی ؑ نے مسجد کے سائے میں اورامام حسین ؑ نے گرم ریت پر۔۔ حضرت علی ؑ نے صرف انگوٹھی دی انگلی بچ گئی لیکن امام حسین ؑ نے انگوٹھی دی تو (بقولے ) انگلی کٹ گئی؟ غالباََ بہن نے سوال کیا ہو گا کہ ایک ہاتھ کی انگلیاں تو پانچ ہیں لیکن دوسرے کی انگلیاں چار کیوں ہیں؟ اور جب حضرت علی ؑ کی روح کربلا میں پہنچی ہوگی تو کیا کہا ہوگا؟
أشْھَدُ أنَّکَ قَدْ أقَمْتَ الصَّلٰوۃَ وَاٰ تَیْتَ الزَّکٰوۃَ  زیارتِ مطلقہ میں ہے امام حسین ؑ میں گواہی دیتا ہوں کہ نماز تو نے پڑھی اور زکواۃ بھی تو نے دی۔
اس میں شک نہیں کہ شجاعت و بہادری میں حضرت علی ؑ سے کوئی نہیں بڑھ سکتا لیکن جس طرح میں نے پہلے کہا ہے کہ عبادت میں خضوع وخشوع کیلئے پر سکون ماحول اور پر اطمینان فضا کا ہونا ضروری ہے اسی طرح شجاعت کے لیے بھی فضائے سازگار ضروری ہے ورنہ جس بہادر کے سر میں درد ہو یا پیٹ میں تکلیف ہو یا اس کے سامنے اس کا بیٹا تڑپ رہا ہو یا وہ ہوشربا مصائب میں خود گھرا ہو اہو تو میدان میں جوہر شجاعت نہیں دکھا سکتا۔
بے شک حضرت علی ؑ نے جنگ کی مگر ہر قسم کی فکر سے آزاد ہوکر لیکن جب امام حسین ؑ نے تلوار اٹھائی تو ہر قسم کے افکارمیں گھر کر؟ میدانِ خیبر میںحضرت علی ؑ  لڑے تو ماحول ہمت افزأ تھا اور امام حسین ؑ جب میدانِ کربلا میں آئے تو فضا ہمت شکن اور ہوشربا تھی؟
حضرت علی ؑ نے گھوڑا طلب کیا تو غالباََ پیغمبرؐ نے پیش کیا ہو گا تلوار مانگی تو پیغمبر ؐ نے عطا کی ہو گی لیکن یہاں امام حسین ؑ نے تلوار مانگی تو جناب زینب ؑ در پر کھڑی ہو گئی اور گھوڑے پر سواری کا ارادہ کیا ہو گا تو  نَظَرَ یَمِیْنًا وَّ شِمَالًا  دائیں بائیں  دیکھ کر فرمایا  یَا فُرْسَانَ الْہَیْجَائَ مَا لِیْ اُنَادِیْکُمْ فَلا تُجِیْبُوْنِیکہاں ہو بیشہ شجاعت کے شیرو! آج میں بلاتا ہوں اورکوئی جواب نہیں دیتا؟ شاید بہن نے جواب دیا ہو کس کو بلاتے ہو ؟ کون بچ گیا ہے ؟ اگر حکم ہو تو صرف بہن حاضر ہے؟ حضرت علی ؑ میدانِ خیبر میں آگے بڑھے تو پیچھے محمدمصطفی کی دعا اوپر رحمت خدا دائیں جبریل ؑبائیں میکائیل ؑ آگے عزرائیل ؑ پائوں چومنے کے لیے نصرت پروردگار اور در خیبر میں ہاتھ ڈالا اور اسے اکھیڑ پھینکا۔۔ میں عرض کروںگا یا علی ؑ سازگار ماحول اور پرسکون فضا میں قوت یدالٰہی سے در خیبر کا اکھاڑنا آسان ہے لیکن انتہائی ہو شربا اور روح فرسا حالات میں اورناساز ماحول میںعلی اکبر ؑجیسے نوجوان فرزند کے سینے سے برچھی کا نکالنا مشکل ہے؟
جو شخص ہمارے رونے پر اعتراض کرتا ہے میں اس سے دریافت کرتا ہوں کہ تیرا ایسا نوجوان فرزند ہوتا جس کی عمر۱۸ برس ہوتی۔۔ شکل میں یوسف ؑ ۔۔تین دن کا پیاسا۔۔جیٹھ ہاڑ کی گرمی دوپہر کا وقت۔۔ سینے میں برچھی۔۔ ستر قدم کے فاصلہ پر دیکھنے والی ماں ہوتی اورکمسن بہن کے سر پر قرآن ہوتا اگر تیرا ہوتاتو تو کیا کرتا ؟
مدہوش کھڑی تھی ماںکہ کم سن بچی نے شاید دامن کھینچ کر کہا ہو گا ماں کیا دیکھتی ہو بھیا علی اکبر ؑگھوڑے کی زین سے اُتر گئے؟
ہائے۔۔ کتناپیار ابیٹا تھا جناب لیلیٰ کا جس کا نام ہے علی اکبر ؑ! اب میں نفسیاتی اندازسے مصائب پڑھتا ہوں ان الفاظ کو کتابوں سے ڈھونڈنے کی کوشش نہ کریں؟
شیعہ نوجوانو !  تم ماتم کرکے اپنے سینے اور سر کا خون قربان کرتے ہو اور کس قدر قیمتی خون ہے نوجوانوں کا جو حضرت علی اکبر ؑکے صدقہ میں گلی کوچوں میں گرایا جاتا ہے؟اگر چودہ سو سال کا جوانوں کا خون اکٹھا ہوتا تو شاید ایک دریا کی شکل میں بہہ جاتا لیکن میرا عقیدہ ہے کہ شیعہ جوانوں کے خون کا موجزن سمندر بھی ہوتب بھی امام حسین ؑ کے نوجوان علی اکبر ؑکے ناحق خون کے قطرہ کا بدلہ نہیں ہو سکتا۔
جب دسویںکے دن ڈھلے ماںکے دروازہ پر آکر سلام کے لیے ٹھہرا ہو گا تو وہ کیسا سماں ہو گا؟ ماں نے کہا ہو گا بیٹے کیسے تشریف لائے ہو؟تو جھجکتے ہوئے لہجے سے علی اکبر ؑنے کہا ہوگا ماںآپ ترستی تھیں کہ میرا جوان مجھ سے کوئی چیز مانگے اور میں بسم اللہ کرکے دوں آج مانگنے کے انداز سے حاضر ہوا ہوں اجازت ہو تو عرض کروں ؟ ماںنے کہا ہو گا بسم اللہ جو چاہو مانگو؟ لیکن میری حیثیت کا اندازہ کرکے مانگنا؟ اماں جان وہی چیز مانگوں گا جو تیرے پاس ہوگی اچھا مانگو میرے لعل،عرض کیا اماں ذرا جگر پر ہاتھ رکھو تو مانگتاہوں۔۔۔ بیٹا میں ہاجرہ تو نہیں ہوں تیرے صابر بابا کے در کی کنیز ہوں جو جی چاہے مانگ لو عرض کیا اورکچھ نہیں مانگتا بس موت کی اجازت مانگتا ہوں۔
یہ علی اکبر ؑکی ماں کا حوصلہ تھا کہ بیٹے کی زبان سے موت کا نام سن کر سہہ گئی اور کہہ دیا بیٹے تو نے اجازت مانگ لی اورمیں نے دے دی، پس کنیز (فضہ) سے فرمایا کہ علی اکبر ؑکے غلام سے کہو گھوڑا تیار کرکے اندر بھیج دے۔۔ آج میں خود علی اکبر ؑکو گھوڑے پر سوار کروں گی کیونکہ یہ میرے بیٹے کی آخری سواری ہے۔
چنانچہ گھوڑا تیارکرکے غلام نے اندر بھیج دیا تو علی اکبر ؑکی ماں نے گھوڑے کی باگ پکڑی اور اپنے جوان فرزند کے سامنے آئی اور فرمایا بیٹا ! بسم اللہ سوار ہوجائو ماں نے کوچ میں ہاتھ رکھا ہو گا، رکاب تھامی ہوگی پس جوان کو سوار کرکے باگ اس کے حوالے کی اورکہا ہو گاکہ چہرہ سے تحت الحنک الگ کرکے تمام بیبیوں کو سلام کرو۔
جناب لیلیٰ نے تمام مخدرات سے خطاب کر کے فرمایا کہ اے بیبیو!  خود بتلائو کہ جتنے نوجوان میدان میں گئے ہیں کیا میرے علی اکبر ؑ سے زیادہ کوئی حسین تھا؟ پھر فرماتی ہیں کہ بروز محشر مولا حسین ؑ کی ماں کے سامنے گواہی دینا کہ میں نے اپنا بیٹا زہرا ؑ کے بیٹے سے پیارا نہیں سمجھا؟ اور میدانِ شہادت میں روانہ کیا۔
یہ بی بی شرم و حیا کی پیکر تھی۔۔ جس کتاب میں میں نے دیکھا ہے جب سے امام حسین ؑ کے گھر میں آئی ہے آج تک حضرت عباس ؑ کی مخدومہ بن کر رہی، بیٹے  سے فرمایا تم رُکو میں ابھی آ رہی ہوں سر پر چادر اوڑھی اور اپنے خیمے سے نکلتی ہوئی حضرت عباس ؑ کے خیمہ کی طرف بچشم گریاں بڑھی۔۔۔ چند خیام سے گزر کر حضرت عباس ؑ کے خیمہ کے قریب پہنچی، حضرت عباس ؑ کا فرزند جو کہ خیمہ سے باہر میدان کا حال معلوم کرنے کو نکلا تھا کہ اس کی نگاہ چچی کی چادر پر پڑی اور جلدی سے پیچھے پلٹا، حضرت عباس ؑ فرماتے ہیں بیٹا جلدی واپس لوٹے ہو؟ عرض کرتا ہے کہ بابا قیامت کے آثار ہیں؟ فرماتے ہیں کونسی قیامت؟ عرض کرتا ہے بابا آج وہ بی بی ہمارے ہاں آ رہی ہے جو کبھی نہیں آئی، حضرت عباس ؑ دریافت فرماتے ہیں کون؟ عرض کرتا ہے چچی لیلیٰ، بس جناب لیلیٰ کا نام سننا تھا کہ حضرت عباس ؑ کے ہاتھ کانپے۔۔ ہاتھ سے تلوا رگر پڑی۔۔ دستار کے پیچ کھل گئے۔۔ نعلین نہ سنبھلے اور ہتھیلیاں ٹیک کر جلدی سے اٹھے۔۔ دروازے تک پہنچے جناب لیلیٰ کی چادر پر نگاہ پڑی نگاہیں جھک گئیں، عرض گزار ہوئے اے میری مخدومہ کنیز کو بھیج کر مجھے در پر بلوا لیا ہوتا قدم رنجا کیوں فرمایا؟ خدا جانتا ہے کہ گریہ کے لہجے میں فرمایا اے عباس ؑ آج مجھے مخدومہ نہ کہو، اے عباس ؑ!  میرے مخدومہ کے زمانے گزر گئے آج میرے بخت کا سورج ڈھل رہا ہے اور میرا حضرت زہرا ؑ سے رشتہ کٹ رہا ہے، آج میرا جوان بیٹا موت کی طرف جا رہا ہے اس لئے تیرے پاس آئی ہوں کہ میرا بیٹا ہے اور تیرا شاگرد ہے میرے خیمہ میں آئو اور میرے بیٹے کو میدان کی طرف روانہ خود کرو۔۔حضرت عباس ؑآئے اور حضرت علی اکبر ؑنے جھک کر سلام کیا، حضرت عباس ؑ نے علی اکبر ؑکی پشت پر ہاتھ پھیرا اور میدان میں جانے کی اجازت دی اور پیچھے ہٹے، اب شہزادہ علی اکبر ؑفرماتا ہے اماں مجھے چچا نے اجازت دے دی، آپ کی اجازت ہو تو چلا جائوں؟  چنانچہ اجازت لینے کے بعد علی ؑاکبرنے گھوڑے کو ا شارہ کیا اورخیام سے نکلنے کا ارادہ کیا۔
راوی کہتا ہے کہ ہر جوان کے بعد خیام میں صدائے گریہ بلند ہوئی لیکن اس شہزادے کی روانگی پر خیام میں ماتم بپا ہوا ہر مستور نے ماتم کیا کہ ہمشکل پیغمبر روانہ ہو رہا ہے۔۔۔ حضرت زینب ؑعالیہ کو خیمہ میں پڑا ایک پتھر نظر آیا ہر بی بی نے ہاتھ سے ماتم کیا اور حضرت زینب ؑ نے پتھر سے ماتم کیا۔۔۔ ہائے علی اکبر ؑ
 میں نے ایک روایت میں پڑھا ہے بقول حمید بن مسلم خیام کا پردہ تین دفعہ اٹھا اور گرا اور اس کے بعد صدائے گریہ وماتم بلند ہوئی۔۔۔ تین دفعہ پردہ کا اٹھنا اور گرنا اس کی یہی تووجہ یہی ہوسکتی ہے کہ بیبیوں نے باری باری پیارکیا ہو گااور شہزادے کو رکنا پڑ گیا ہوگا۔
غالباََ پہلی دفعہ جب شہزادے نے گھوڑے کو اشارہ کیااور گھوڑا روانہ ہوا تو پیچھے سے کسی نے دامن کو کھینچا تو شہزادے نے پوچھا کون ہو روکنے والے؟ گریہ میں ڈوبی ہوئی آواز نکلی تیری پھوپھی ہوں علی اکبرؑ، عرض کیا جب اجازت مل گئی تو روکتی کیوں ہو؟بھرائی ہوئی آواز میں کہا بیٹا روکتی نہیں ہوںبلکہ ارمان پورا کرنا چاہتی ہوںوہ یہ کہ جب میں میدان میں ملنے کے لیے آئوں گی تو تیر ی صورت خاک و خون میں غلطان بوسہ کے قابل نہ ہوگی اس لیئے اگر ہو سکے توزین سے جھک کر مجھے گلے سے لگا لو تاکہ ایک ایک دفعہ دایاں اور بایاں رخسار چوم لوں؟ پس علی اکبر ؑجھکے ہوں گے او رپھوپھی نے بوسہ دیا ہوگا۔
دوبارہ گھوڑے کو باگ کا اشارہ کیا تو پھر پردہ دارنے دامن کو کھنچا حضرت علی اکبر ؑنے پوچھا کون ہو؟ تو گریہ کے لہجہ میںجوا ب دیا تیری ماں لیلیٰ ہوں عرض کیا اماں جان! جب اجازت دے دی تو روکنے کا کیا مطلب ؟ وہ دیکھو بابا اکیلا ہے؟  بی بی نے جواب دیا جب پھوپھی کو موقعہ دیاہے تو میں ماں ہوں مجھے بھی محروم نہ کرو حسرت پوری کر لوں ایک دفعہ چہرہ پر بوسہ دینے دو؟ چنانچہ دوبارہ علی اکبر ؑجھکے اور ماں نے چوما اور پیچھے ہٹی۔
اب جو تیسری بار علی اکبر ؑ نے گھوڑے کو اشارہ کیا اور پھر دامن کو کسی نے کھنچا تو علی اکبر ؑ نے پوچھا کون ہو روکنے والے ؟ خاموشی چھا گئی اورجواب نہ ملا، پس گھوڑے سے فرمایا کیوں رک گئے ہو؟ تو گھوڑے نے زبانِ حال سے اپنی مجبوری بیان کی۔۔ تو شہزادے نے فرمایا کونسی مجبوری ہے ؟ گھوڑے نے گردن ہلا کر اپنے قدم کی طرف اشارہ کیا، بس علی اکبر ؑنے جھک کر دیکھا تو کمسن بچی گھوڑے کے سموں کو تھامے ہوئے ہے۔۔۔ علی اکبر ؑنے فرمایا اے سکینہ ؑگھوڑے کے سم چھوڑدو پس بھائی کا حکم مان کر اٹھ کھڑی ہوئی اور عرض کیا میرے جوان بھائی میری کم سنی پر رحم کرو، اماں کا قد دراز تھا اور پھوپھی کا قد بھی دراز تھا کہ انہوں نے تیرے چہرے پر بوسہ دیا میرا قد چھوٹا ہے آپ کو مجبور نہیں کرتی اور نہ ہی گھوڑے سے اُترنے کو کہتی ہوں، ذرا اپنا دایاں قدم رکاب سے نکال لو تاکہ اپنے سینے سے بھی لگا لوں اورجی بھر کر چوم لوں شام تک یاد کرتی رہوں گی کہ میں نے علی اکبر ؑ کے قدم چومے تھے۔
وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مُنْقَلَبٍ  یَّنْقَلِبُوْن

لتھا بے وس تھی کے زین اتوں تھی زخمی چن لیلا دا
آکھیا یا ابتاہ ادرکنی میڈا وقت قضا دا
ریہیا اٹُھدا بانہدا کئی واری اُتے خاک تے پیو صغرا ؑدا
بہوں اوکھا پہنچا ٹیک کے زانوں اُتے لاش تے چن زہراؑ دا