التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

بائیسویں مجلس -- تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ



ہم ایام کو لوگوں میں بدل بدل کرلاتے ہیں۔۔۔ یعنی انفرادی اوراجتماعی طور پر ہم تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں مثلاً انفرادی طور پر کبھی افلاس۔۔ کبھی دولت۔۔ کبھی خوشی۔۔ کبھی غمی۔۔ کسی وقت تندرستی۔۔ کسی وقت بیماری، اس کے علاوہ پہلے بچپن پھر جوانی آخر میں ضعیفی جیسی تبدیلیاں تاکہ انسان ان بدلتے ہوئے حالات سے یقین پیدا کرے کہ میرے اوپر ایک بالا طاقت موجود ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری پوری زندگی ہے۔۔۔ اسی لئے مولا امیر المومنین ؑ نے فرمایاتھا عَرَفْتُ اللّٰہَ بِفَسْخِ الْعَزَائِمِ وَ نَقْضِ الْھِمَمِ یعنی میں نے اللہ تعالیٰ کو اپنے ارادوں اورعزائم کی شکست وریخت سے پہچانا ہے۔
اجتماعی طور پر بھی حالات بدلنا سامنے ہے، کبھی ایک قوم کا غلبہ۔۔ کبھی دوسری قوم کا غلبہ۔۔ کبھی شریف حکمران۔۔ کبھی کمینہ حکمران۔۔ کبھی مومن کی حکومت۔۔ کبھی کافر کی حکومت۔۔ یہ سب فکر کو مہمیز کرنے کے لئے ہیں اورعام انسانوں کے لئے درسِ عبرت ومعرفت ہیں۔
رات آتی ہے تودن کی قدر ہوتی ہے۔۔ بد معاش دنیا میں ہیں تو شرافت کا پتہ چلتا ہے۔۔ پس اگر کسی وقت کمینے حکمران نہ ہوں تو شرافت کی قیمت کیسے معلوم ہو؟ اور اگر ہمیشہ ہی کمینو ں کی حکومت ہوتو شریف زندہ کیسے رہیں؟  اَلْأشْیَائُ تُعْرَفُ بِأضْدَادِھَا اللہ تعالیٰ نے انبیا ٔ کچھ غریب اور کچھ امیر بھیجے۔
ایک غریب نبی کا واقعہ سنیے۔۔۔۔۔ نمرود تخت حکومت پر ہے اور حضرت ابراہیم ؑ جیسا شریف النفس انسان اس کے ماتحت؟ غربت کا یہ عالم کہ ایک دفعہ مہمان آیا اور گھر میں آٹا نہیں تھا۔۔ جناب سارہ نے عرض کیا کہ مہمان بھی ہے اور آٹابھی نہیں تو آپ ؑنے بوری اٹھائی اور گھر سے یہ کہہ کر نکلے کہ دوست سے مانگ کر لاتا ہوں بس جنگل میں پہنچ کر ریگ ِصحرا سے بوری کو پُر کیا اور خچر پر لاد کر واپس پلٹے۔۔ بوری کو گھر کے ایک کونے میں رکھ کر پھر باہر چلے گئے اور رات گئے تک نہ آئے جب کافی دیر کے بعد واپس آئے تو جناب سارہ نے کھانا پیش کیا دریافت کیا یہ کہاں سے آیا؟ تو بی بی نے جواب دیا جو آٹا آپ دوست کی طرف سے لائے ہیں اس سے بہترین آٹا میں نے دیکھا ہی کبھی نہیں اور یہ اس سے تیار شدہ روٹیاں ہیں۔۔ پس حضرت ابراہیم ؑ نے شکر پروردگار ادا کیا اور عرض کیا اے اللہ!  واقعی تو ایسا دوست ہے جو کبھی اپنے دوست کو مایوس نہیں کرتا۔
اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اس بد معاش انسان (نمرود) کے سامنے کلمہ توحید بیان کرو تو آپ فوراً چل دیئے اور نمرود کے بھر ے دربار میں لا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ  کا پرچم لہرا دیا بآواز بلند فرمایا نمرود تو خدا نہیں ہے بلکہ خدا وہ ہے جو تیرا اور سب مخلوق کا خالق ہے۔۔۔ نمرود نے اپنے دربار کے اربابِ حل و عقد۔۔ مشیرانِ کار۔۔ ممبرانِ اسمبلی اور ارکانِ عدلیہ سے سوال کیا کہ ایسے شخص کی کیا سزا ہونی چاہیے؟ تو سب نے یک زبان سزائے موت کا نعرہ لگایا، اس دربار میں حضرت ابراہیم ؑ ا کیلاتھا نہ کوئی سفارشی ہے نہ وکیل۔۔ پس سزائے موت سن کر پولیس کے ہمراہ جیل خانہ کی طرف روانہ ہو گئے،  دربار نمرود میں گئے تھے توحید پروردگار کا پیغام پہچانے اور پلٹے سزائے موت کے قیدی بن کر۔۔ لیکن چہرہ ہشاش بشاش۔۔ طبیعت مطمئن اور پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں، یہی سوچ کر کہ کیا ہوا اگر اس شخص نے سزائے موت سنادی جس کے قبضہ میں موت ہے ہی نہیں؟ اور جس کے قبضہ میں موت و حیات ہے اگر وہ اللہ  موت دے توکوئی ٹال نہیں سکتا اور اگر زندگی بخشے تو کوئی گھٹا نہیں سکتا۔
بس آگ کا چخہتیار ہونے تک کال کوٹھری میں رہے۔۔ جب آگ بھڑکا دی گئی اور کال کوٹھری سے نکلاکر حضرت ابراہیم ؑکو آگ کی طرف لایا جارہا تھا تو زمین و آسمان کی ہر مخلوق میں ایک تہلکہ مچ گیا اور شاید جبریل نے عرض کیا پروردگار تیرا ایک عبادت گزار آگ میں دھکیلا جا رہا ہے اور تو بچا سکنے کے باوجود اس کو بچا تا نہیں؟ گویا زبانِ بے زبانی پروردگار سے ارشاد ہوا اے جبریل! امتحان خلیل کا ہے اور گھبرا تے تم ہو؟ اگر چاہو تو جاکر میرے خلیل کو اپنی نصرت کی پیشکش کرو اور پھر اس کے عزم کا جائزہ لو؟ چنانچہ ابھی تک آگ کے شعلے حضرت ابراہیم ؑکے جسم نازنین سے مس نہ ہوئے تھے البتہ قریب آگ کے آرہے تھے اور گرمی بڑھتی جارہی تھی لیکن زبان شکر پروردگار میں مصروف تھی۔۔ اچانک جبریل نے پہنچ کر نیچے پَر بچھا دیئے تو بڑھتی ہوئی گرمی کا فوراً رُک جانا تھا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے نیچے نگاہ کی دیکھا تو جبریل پَر بچھائے ہوئے تھا۔۔ آپ نے سر زنش کرتے ہوئے فرمایا کون ہے میرے امتحان میں خلل ڈالنے والا ہٹ جائو اور مجھے ذکر پروردگار کی لذت اٹھانے دو؟
حضرت جبریل نے عرض کیا میں آپ کی مدد کیلئے حاضر ہوا ہوں کیا آپ کو مددکی ضرورت نہیں؟ تو آپ نے فرمایامجھے مدد کی ضرورت ہے لیکن تیری نہیں؟
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
بقولے۔۔۔ رعفہ بنت نمرود نے ایک بلند چبوترے سے جھک کر دیکھا کہ آگ کے شعلے بلند ہیں لیکن حضرت ابراہیم ؑاُسے باغ و بہار سمجھ کر لطف اندوز ہو رہے ہیں اور آگ کے انگاروں پر مصلائے عبادت بچھا کر انگاروں کو تسبیح کے دانے قرار دیتے ہوئے ذکر پروردگار سے رطب اللسان ہیں۔۔ تو عرض کیا اے آگ کے مصلیٰ پر بیٹھ کر اپنے خدا کا ذکر کرنے والے کیا یہ آگ نہیں ہے؟ اور اگر ہے تو تجھے جلاتی کیوں نہیں ہے؟ آپ ؑنے فرمایا یہ آگ ہے انسان ہوں لیکن یہ تیرے باپ کی قدرت نہیں ہے بلکہ اس پر میرے اللہ کا کنٹرول ہے جو میرا تیرے باپ کا اس آگ کا اور پورے جہاں کا خالق ہے۔۔۔۔۔ رعفہ نے کہا واقعی تیرا اللہ سچا ہے اور میں اس کی توحید اور تیری نبوت پر ایمان لاتی ہوں۔۔ اس کے بعد رعفہ کو سزائے موت سنائی گئی لیکن بقول جبریل نے پَر مار کر اُسے تختہ موت سے اٹھا لیا۔
یہ تھا ایک غریب نبی کا تذکرہ جس نے نمرود جیسے سرکش حکمران کی حکومت میں بھی اپنے فریضہ تبلیغ ادا فرمایا۔۔۔ آیئے ایک امیر نبی کا واقعہ بھی سن لیجئے کیونکہ اللہ نے اُمرأ اور غربا ٔدونوں طبقوں کی راہنمائی کیلئے دونوں طرح کے نبی بھیجے،   غریب بھی اور امیر بھی تاکہ اگر کوئی غریب ہوتو حضرت ابراہیم ؑجیسے نبی کی سیرت کو مشعلِ راہ قرار دیا جائے۔۔۔ اور دولت و زر آجائے تو امیر و رئیس نبی کی سیرت کو اپنا یا جائے، بس دولت آئے تو انسان نمرود و فرعون بننے کی کوشش نہ کرے اور غربت آئے تو ابلیس کا کردار ادا نہ کرے؟
امیر نبی تھے حضرت سلیمان ؑبن داود ؑ۔۔۔۔ انہوں نے دعا کی اے اللہ! مجھے ایسی حکومت عطا فرما جو میرے علاوہ کسی کو نصیب نہ ہو، پس انسانوں۔۔ جنوں۔۔  حیوانوں اور حشرات الارض کے علاوہ ہوا پر بھی حکومت مل گئی، آپ کا تخت ہوا میں صبح کو ایک ماہ کا راستہ طے کرتا تھا اور شام کو بھی ایک ماہ کا سفر طے کرتا تھا، آپ کے سر پر پرندوں میں سے ہر نوع کا ایک ایک فرد اپنی اپنی ایک ڈیوٹی کے ماتحت پَر پھیلا کر ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو سائباں کا نمونہ بن کر کھڑے رہتے تھے۔
ایک دن ایک پرندہ ہدہد غائب ہوا تو گود میں دھوپ کا نشان دیکھ کر آپ نے فرمایا یہ پرندہ جو غائب ہے اسے گرفتار کر کے لایا جائے اگر اس نے کوئی معقول عذر پیش نہ کیا تو میں سزادوں گا چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد ہد ہد پیش ہوا آپ نے وجہ غیبت دریافت کی تو کہنے لگا میں نے اس روئے زمین پر ایک زرخیر ملک دیکھا ہے جس کی حکمران ایک عورت ہے اور یمن کے علاقہ میں ہے آپ نے فرمایا اگر تیری بات میں صداقت ہے تو لو یہ میرا خط ہے اور اس کا جواب لائو خط کا مضمون یہ تھا:
اِنَّہُ مِنْ سُلَیْمَانَ وَ اِنَّہُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اَنْ لَّا تَعْلُوْا عَلَیَّ وَ اٰتُوْنِیْ مُسْلِمِیْن  یہ سلیمان ؑکا خط ہے جس کی ابتدا اللہ کے نام سے ہے جو رحمن و رحیم ہے یہ کہ میرے آگے سرتابی نہ کرنا بلکہ مسلمان ہو کر فوراً میرے پاس پہنچو۔
ملکہ بلقیس اپنے مخصوص محل میں محو آرام تھی کہ قاصد ِسلیمان ؑ(ہدہد ) وہاں پہنچا اور محل کے ایک روشندان سے گزر کر حضرت سلیمان ؑکے مکتوب کو اس کے سینہ پر رکھ دیا اور واپس نتیجہ دیکھنے کیلئے روشندان میں بیٹھ گیا۔۔ اسی روشندان سے سورج کی کرنیں ملکہ کے چہرہ پر پڑیں تو اُٹھ بیٹھی اور سینے پر پڑے ہوئے خط کو بغور پڑھا سمجھ گئی یہ خط یہی پر ند لایا ہے، پس ایک مخصوص اعلان کے ذریعہ اپنے محل سرا میں فوراً میٹنگ بلوائی جس میں فوج آفیسرز۔۔ سولین اہل کار۔۔ وزرا ٔ۔۔ ارکانِ دولت اور ممبرانِ اسمبلی کو دعوت شرکت دی گئی۔
پس ملکہ نے حضرت سلیمان ؑکے خط کو سامنے رکھ کر ایک پُرمغز تقریر کی اور حاضرین اجلاس سے رائے طلب کی جس پر فوجی آفیسران بول اُٹھے اے ملکہ!  ہمارا ملک معمولی ملک نہیں ہے نہ دولت کی کمی ہے اور نہ فوج کمزور ہے۔۔ ہم ملک و ملت کے تحفظ کیلئے کٹ مرنے کو تیار ہیں اور اپنے خون کا آخری قطرہ وقارِ ملک کی خاطربہا دینے کو تیار کھڑے ہیں، یہ چاق وچوبند۔۔ وفادار فوج تیرے اشارۂ چشم کی محتاج ہے، ملکہ نے اپنی جوابی تقریر میں کہا  اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْھَا وَجَعَلُوْا أعِزَّۃَ أھْلِھَا أذِلَّہ  دیکھو میرے وفادار فوج کے جانباز جیالے نوجوانو! میں تمہارے جذبات سے کھیلنا پسند نہیں کرتی۔۔ خون خرابہ کوئی دانشمندانہ اقدام نہیں۔۔ آگ کا لگاناآسان ہے لیکن بجھا نا مشکل۔۔ اسی طرح جنگ چھیڑنا آسان ہے لیکن اس کے بھیانک نتائج کا بھگتنا مشکل۔۔ سابقہ تاریخی جنگوں کا جائزہ لو (جب بادشاہ فاتحانہ انداز میں کسی شہر میں داخل ہوں شہر تہ و بالا ہو جایا کرتے ہیں۔۔ کسی شریف کی عزت محفوظ نہیں رہتی۔۔ جان و مال تباہ ہوتے ہیں اور عزت دار ذلیل ہو جایا کرتے ہیں)
میں اعلانِ جنگ کرنے سے پہلے ان کو کچھ تحائف بھیجتی ہوں اِنِّیْ مُرْسِلَۃٌ اِلَیْھِمْ ھَدِیَۃٌ ۔۔الآیہ  پھر دیکھیں گے کیا جواب آتا ہے؟ تمام اراکین مجلس نے عرض کیا کہ ألْاَمْرُ اِلَیْکَ  ہم آ پ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔
پس باختلافِ روایات۔۔۔۔۔ کئی خچروں پر سونا لاد کر بطورِ ہدیہ بھیجنے کا پروگرام طے ہوا۔۔ اس کے علاوہ امتحان کے طور پر چند سوالات مرتب کئے گئے کہ اگر نبی ہوگا تو جوابات صحیح ہوں گے اور جواب نہ دے سکا تو ہم سمجھیں گے کہ ہم جیسا بادشاہ ہے بس اعلان جنگ کو قبول کرلیں گے لیکن بصورتِ نبی ہم اس سے ہرگز نہ لڑیں گے بلکہ اسلام کو قبول کرکے سرِ تسلیم جھالیں گے۔۔ سوالات یہ تھے:
ز   سینکڑوں کی تعداد میں لڑکے اورلڑکیا ں ہم عمر۔۔ ہم شکل۔۔ ہم لباس بھیجے تاکہ کلام کئے بغیر ان میں سے نر ّومادّہ کی پہچان کرے؟
ز   ایک عصادیاجس کی اصل وفرع کا پتہ نہ چلتا تھا اس کا پتہ بتادے؟
ز   ایک دُرّ ناسِفتہ میں سوراخ ڈال دے اورلوہے کا آلہ استعمال نہ ہو؟
ز   ایک پیچیدہ سوراخ والے موتی میں تاگہ ڈالدے؟
ز   ایک شیشی دی جو پانی سے بھر دے جبکہ وہ پانی نہ آسمان کا ہو اور نہ زمین کا؟
ادھر ہدہد نے واپس آکر حضرت سلیمان ؑکو سب کچھ بتا دیا، پس تخت ِسلیمان ؑ اُترا اورقومِ جنات کی پھرتی سے میلوں تک محلات تعمیر ہوئے۔۔ ایک اصطبل تیار کرایا گیا جس میں سونے اورچاندی کی اینٹیں لگائی گئیں۔۔ گھوڑوں کے باندھنے کی جگہ کا فرش بھی سونے کا حتی کہ وہ نالیاں جن سے گھوڑوں کاپیشاب بہتا تھا وہ بھی سونے کی تیار کی گئیں۔
چنانچہ ملکہ بلقیس کے قاصدوں کی آمد سے پہلے یہ سب کچھ تیار ہوچکا تھا اورحضرت سلیمان ؑاپنے شایانِ شان تخت پر جلوہ گر تھے اور دربارِ شاہی کوشایانِ شان سجایا گیاتھا۔
جب وہ لوگ پہنچے اوردیکھا کہ حضرت سلیمان ؑکے گھوڑے بھی سونے کے فرش پر پیشاب کررہے ہیں تو انہوں نے ہدیہ کے طور پر لایا جانے والا سوناباہر پھینک دیا کہ ایسے بادشاہ کو یہ ہدیہ دینا اس میں ملکہ کی توہین ہے؟
جب قاصد داخل دربار ہوئے تو آتے ہی حضرت سلیمان ؑنے حکم دیا کہ ان کو پانی کے کوزے دوتاکہ ہاتھ منہ دھولیں چنانچہ لڑکیوں نے اپنی سرشت کے مطابق اورلڑکوں نے اپنے مردانہ طور طریقے سے ہاتھ منہ دھویا۔۔ حضرت سلیمان ؑنے فوراً فرما دیا کہ یہ لڑکے ہیں اوران کو الگ جگہ دو اوروہ لڑکیاں ہیں ان کو الگ کمرہ میں بٹھائو۔
عصا کو آسمان کی طرف پھنکا تو جب واپس زمین پر آیا جو کنارہ پہلے زمین بوس ہوا فرمایا یہ اصل ہے کیونکہ اصل فرع کے مقابلہ میں بھاری ہوتا ہے۔
اس کے بعد دُرّ ناسِفتہ کو تخت پر رکھا تاکہ سوراخ کیا جائے جولوہے کے آلہ سے نہ ہو۔۔ پس ایک دیمک نے اپنی خدمت پیش کی اورسوراخ ہوگیا۔
پھر ترچھے اورٹیڑھے سوراخ والے موتی میں ایک کیڑے نے منہ میں تاگہ ڈال کر خدمت انجام دی۔
پھر ایک گھوڑے کو میدان میں دوڑایا گیا اورآپ نے فرمایا اس کے پسینے سے خالی شیشی کو بھر دو اورملکہ سے کہو یہ پانی نہ آسمان کا ہے اورنہ زمین کا ہے۔
اتنی بڑی مملکت کا فرمانروا کہ ایک دفعہ تخت ہوا میں تھا اورزمین پر ایک چیونٹیوں کے بھرے اجلاس میں اسی جنس کے ایک مقررنے تقریر کی  یَأیَّتُھَا النَّمْل اُدْخُلُوْا مَسَاکِنَکُمْ لا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنَ وَجُنُوْدَہُ  اے  چیونٹیو!  اپنے سوراخوں میں گھس جائو کہیں سلیمان ؑاوراس کی فوجیں تمہیں روند نہ ڈالیں؟
چیونٹی کی یہ تقریر حضرت سلیمان ؑنے سن لی جبکہ وہ تقریباً تین میل دور فضامیں تھے۔۔ پس فوراً اس تقریر کرنے والی چیونٹی کی گرفتاری کا حکم دیا جس نے حکومت کے خلاف زبان کشائی کی تھی۔
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین فرمالیجئے کہ ہمارے کان پاس بیٹھی ہوئی چیونٹی کی آواز نہیں سن سکتے لیکن نبی تین میل دور ایک چیونٹی کی پوری تقریر سن رہاتھا؟ جس کو قرآن مجید نے اپنے انداز میں نقل کیا۔۔ حالانکہ ہم لوگ تین میل دور تو بجائے خود ایک فرلانگ دور سے اپنے جیسے آدمی کی آواز سن اورسمجھ نہیں سکتے؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کی قوت سماعت ہماری قوت سماعت سے الگ ہے۔۔ پس یہ کہنا کہ اپنے اعضا ٔ وجوارح کی طاقت میں وہ ہم جیسا ہے یاہم اس جیسے ہیں احمقانہ قول ہے اور علما ٔ تو بجائے خود کوئی بھی انبیا کو اپنے جیسا نہیں مانتا۔
پس حضرت سلیمان ؑنے گرفتاری کے لئے جس نمائندہ کو بھیجا تھا وہ یقینا نبی نہیں تھا اور ادھر تقریر کرنے والی چیونٹی کا لباس یا ہیئت دوسری چیونٹیوں سے جدا نہیں تھی۔۔ معلوم ہوا کہ نبی تو بجائے خود نبی کا نائب بھی عام بندوں جیسا نہیں ہوا کرتا؟ پس اس نے نہ تو دوسری چیونٹیوں سے پوچھا کہ تقریر کس نے کی تھی؟ اور نہ اس کی کوئی اور خاص علامت تھی پس آتے ہی اسی کو گرفتار کر لیا جس نے تقریر کی تھی، اور اس نے بھی یہ نہ کہا کہ میں نہیں کوئی اور تھی اس سے معلوم ہوا کہ نبی کے نائب کا علم بھی ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔
جب یہ چیونٹی حضرت سلیمان ؑکے سامنے آئی تو آپ نے اُسے اپنے ہاتھ پراُٹھا لیا۔۔ آپ نے دریافت فرمایا کیا تو نے یہ بیان جاری کیا تھا؟ کہنے لگی جی ہاں، آپ نے فرمایا میرا تخت ہوا میں تھا تم لوگ زمین پر تھے روندنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔ پھر میں ایک نبی ہوں اور نبی ظالم نہیں ہوا کرتا بتائو تم نے غلط بیانی کر کے اپنی کمزور قوم کو میرے ظلم سے خوفزدہ کیوں کیا؟ اپنی قوم میں تیری یہ تقریر کیا حکومت وقت کے خلاف کھلی ہوئی بغاوت نہیں؟ چیونٹی نے عرض کیا حضور!  میری قوم بے عقل ہے وہ صرف جینے اور مرنے کو ہی سمجھتی ہے اس کے علاوہ منطقی دلائل کو وہ نہیں سمجھ سکتی۔۔ یہ سب عبادت پروردگار میں مصروف تھیں میں نے ان کو آپ کے تخت کی آمد سے خوفزدہ کیاہے تا کہ تخت دیکھ کر کہیں آپ کو خدا یا اس کا خدا شریک نہ سمجھ لیں؟ پس میں نے اس طریقہ کار اور طرزِ بیان سے ان کے دین کی حفاظت کی ہے تاکہ مشرک نہ ہو جائیں۔
جب حضرت سلیمان ؑ کی کلام ختم ہوئی اور اطمینان ہوا تو چیونٹی کہنے لگی اے اللہ کے نبی!  ایک سوال کر سکتی ہوں؟ فرمایا کیوں نہیں۔۔۔ تو چیونٹی کہنے لگی آپ بتائیے کہ آپ کی سواری افضل ہے یا میری؟
حضرت سلیمان ؑ نے فرمایا کہ یقینا میری۔۔ میں نبی ہوں۔۔ پوری دنیا کا بادشاہ ہوں۔۔ چرند پرند میرے تابع۔۔ ہوائیں میرے حکم کے ما تحت۔۔ جنات میری غلامی میں۔۔ انسانوں پر میری حکومت۔۔ غرضیکہ ہر چیز پر حاکم میں ہوں سواری میری بہتر اور افضل ہے، تو چیونٹی مسکرا کر کہنے لگی اے نبی! سواری میری افضل ہے کیونکہ آپ جس پر بیٹھے ہیں وہ ہے لکڑی کا تخت اور میری سواری ہے نبی کا ہاتھ۔۔۔ اب آپ خود ہی بتائیں کہ لکڑی کا تخت افضل ہے یا کہ دست ِ نبی؟ حضرت سلیمان ؑ اپنی رعیت کے حکمت آمیز شعور سے متاثر ہوئے اور چیونٹی کو دوبارہ وہیں چھوڑے کا حکم دیا۔
یہ ایک امیر نبی تھا لیکن اپنی گزرِاوقات بیت المال سے نہیں بلکہ دستکاری کی آمدنی سے کرتے تھے جس طرح کہ حضرت امیر المومنین ؑ اپنی گزر بسر مزدوری کرکے کیا کرتے تھے۔
امیر اور غریب انبیا ٔ پر موت کی آمد مختلف ہے!
حضرت ابراہیم ؑکے پاس جب ملک الموت آیا تو انہوں نے جواب دیا کیا کوئی دوست بھی دوست کی موت چاہتا ہے؟ پس جب ملک الموت واپس گیا تو اللہ نے فرمایا ان سے کہو کیا کوئی دوست بھی دوست کی ملاقات کو نا پسند کرتاہے؟ پس حضرت ابراہیم ؑنے موت کو قبول کر لیا؟
جب حضرت موسیٰؑ کے پاس ملک الموت آیا تو حضرت موسیٰؑ نے پوچھا کہاں سے میری روح کو قبض کرو گے؟ تو اس نے کہا ہاتھوں سے۔۔ آپ نے فرمایا ان ہاتھوں سے میں نے تورات کو اُٹھایا ہے، ملک الموت نے کہا پائوں سے۔۔ آپ نے فرمایا ان کے ذریعے میں کوہِ طور پرچل کر جاتا رہا ہوں، اس نے کہا پھر آنکھوں سے کروں گا۔۔ آپ نے فرمایا میںنے انہی آنکھوں سے طور کا منظر دیکھا ہے، اس نے کہا زبان سے تو آپ نے فرمایا اسی زبان سے میں نے اللہ سے کلام کیا ہے، پس ملک الموت واپس پلٹا اللہ نے فرمایا جب خود موت کو مانگے گا تب روح قبض کرنا؟
چنانچہ ایک بار حضرت موسیٰؑ نے جاتے ہوئے دیکھا ایک آدمی قبر کھود رہا تھا (در حقیقت یہی موت کا فرشتہ تھا) پس حضرت موسیٰؑ نے پوچھا کیا کررہے ہو؟ جواب دیا ایک مومن کی قبر کھود رہا ہوں۔۔ آپ نے فرمایا میں تیر ی امداد کرسکتا ہوں؟ بتائو اس کا قد کتنا ہے؟ اس نے کہا کہ آپ کے قد کے برابر۔۔ پس آپ نے اپنے قد وقامت کا ناپ کر کے قبر تیار کر دی اور پھر خود قبر میں اُترے اور لیٹے تا کہ پتہ چلے کہ قبر ٹھیک تیار ہوئی یا نہیں؟ ادھر حضرت موسیٰؑ کا قبر میں لیٹنا تھا کہ سامنے بہشت کے دروازے کھول دئیے گئے۔۔ پس عرض کیا اے پروردگار!  میں واپس نہیں جانا چاہتا میری روح قبض ہو جائے تاکہ یہاں سے مجھے نہ واپس جانا پڑے، پس فوراً ملک الموت نے روح قبض کرلی۔
آیئے۔۔۔ اب امیر اور سلطان نبی کی موت کا منظر دیکھئے، حضرت سلیمان ؑ بالاخانہ پر چڑھے تا کہ اپنے ما تحت ملازمین کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے اور حکم دیا کہ کوئی بھی اُوپر نہ آئے۔۔ اچانک دیکھا کہ خوش شکل اور خوش لباس شخص سامنے آ گیا آپ نے فرمایا میرے حکم کے بغیر یہاں کیوں آیا ہے؟ جواب دیا میں جب کسی کے پاس جایا کرتا ہوں تواجازت کے بغیر ہی جاتا ہوں۔۔ آپ نے پوچھا کیا تو ملک الموت ہے؟ عرض کیا جی ہاں آپ نے فرمایا کیسے آنا ہوا؟ عرض کیا آپ کی روح کو قبض کرنے کا حکم لایا ہوں۔۔ آپ نے فرمایا پھر اُترنے دو تاکہ وصیت کر لوں؟ ملک الموت نے کہا اتنی فرصت نہیں۔۔ فرمایا یہاں لیٹنے دو؟ جواب دیا فرصت نہیں تو حضرت سلیمان نے کہا کیسے روح قبض کرو گے؟ جواب دیا آپ عصا کے سہارے کھڑے رہیں اور میں قفس عنصری سے روح کھینچ لوں گا اور چلا جائوں گا۔
پس مومن اگر غریب ہو تو حضرت ابراہیم ؑکی سیرت کو دیکھے اگر امیرہو تو حضرت سلیمان ؑکی سیرت کا مطالعہ کرے۔۔۔ یہ سب معرفت سے ہی ہو سکتاہے۔
حضرت امام حسین ؑ سے ایک سائل نے ہزار درہم کی خواہش کی کہ مقروض ہوں۔۔ آپ نے فرمایا تین سوال کرتاہوں اگر جوابات صحیح ہوں گے تو دوں گا ورنہ جس قدر سوال حل کرو گے اسی مناسبت سے دوں گا، کیونکہ میرے نانا کا فرمان ہے   اَلْمَعْرُوْفُ بِقَدْرِ الْمَعْرِفَۃ یعنی کسی پر احسان اتنا کرو جس قدر وہ معرفت رکھتا ہو، اس نے کہا آ پ سوال کریں اگر جواب آیا تو عرض کروں گا ورنہ آپ سے سیکھ لوں گا:
ز   آپ نے پوچھا سب سے بڑی عبادت کونسی ہے؟
    جواب دیا اللہ کی معرفت۔
ز   آپ نے پوچھا مصیبت کے وقت سہارا کیا ہوتا ہے؟
    جواب دیا تو کل بر خدا۔
ز   آپ نے پوچھا انسان کی زینت کیاہے؟
    عرض کیا  اَلْعِلْمُ مَعَ الْعَمَلِ  علم عمل کے ساتھ کیونکہ عمل کے بغیر علم ایسا ہے جس طرح درخت بے ثمر۔
معصوم ؑسے پوچھا گیا انبیا ٔ اور اولیا ٔکے بعد جنت کے بلند طبقہ میں کون ہوگا؟ تو فرمایا ہماری امت کے علما ٔ  (جن کا عمل علم کے مطابق ہے) پھر پوچھا گیا کہ فرعون شداد و نمرود کے بعد جہنم کے نچلے درجہ میں کون ہوگا؟ تو فرمایا ہماری امت کے علما ٔ  (جن کا عمل اپنے علم کے مطابق نہ ہوگا)
دیکھئے علم ایک ایسا مظروف ہے جو ہر ظرف میں آکر اسی کی شکل اختیار کر لیتا ہے اگر شریف ظرف میںہو تو شرافت کو بڑھاتا ہے اور کمینے ظرف میں آئے تو اس کی کمینگی میں اضافہ کرتا ہے۔۔۔۔ کَمَائِ الْمُزْن بارش کے پانی کی سی مثال ہے کہ:
 اگر بارش کا پانی باغ پر آئے تو اس کی خوشبو مہکتی ہے۔  
اگر بدبو دار چیز پر آئے تو اس کی بدبو میں اضافہ ہو تا ہے۔
اگر صدف کے منہ میں آئے تو موتی بنتا ہے۔
اگر سانپ کے منہ میں آئے تو زہر بنتا ہے۔
پس علم بھی شریف ظرف میں آئے تو ایمان والوں کی تعداد میں اضافہ کرتا ہے ۔۔ اور اگر کمینی فطرت کے لوگوں میں آئے تو گمراہی پھیلاتا ہے، بہر صورت عمل علم کی زینت اور علم انسان کی زینت ہے۔
آپ نے پوچھا اگر علم نہیں تو پھر انسان کی زینت کیا ہے؟ اس نے عرض کیا   اَلْغِنَائُ مَعَ السََّخَا دولت مندی ہو اور سخاوت ہو۔۔ یعنی راہِ خدا میں خرچ کرے بیہودگیوں میں ضائع نہ کرے، آپ نے پوچھا اگر مال و دولت بھی نہ ہو تو زینت کیا ہے؟ اس نے عرض کیا   اَلْفَقْرُ مَعَ الصَّبْرِ  غربت ہو تو صبر کرے یعنی امیر ہو تو فرعونیت کا مظاہرہ نہ کرے اور غریب ہو تو شکوہ پروردگار نہ کرے، آ پ نے فرمایااگر صبر بھی نہ ہوتو پھر اس کی زینت کیا ہے؟ اس نے عرض کیا پھر اس کی زینت موت ہے کہ پتھر گرے اوراس کو زمین دوز کردے۔۔۔ آپ  نے اسے مانگا ہواایک ہزار بھی دیا اوراپنی جانب سے اسے انعام دے کر رخصت فرمایا۔
امام حسین ؑفطرۃً پیاس رکھتے تھے جس طرح کہ زینب ؑخاتون عام حیا کے علاوہ مخصو ص طور پر صاحب حیا تھیں۔
بعض اوقا ت حضرت پیغمبر اکرؐم گھر تشریف لاتے اورفاطمہ ؑکو غمگین دیکھ کر سوال کرتے کہ تیری شکل غمناک کیوںہے؟ ایک مرتبہ تشریف لائے اور سوال کیا تو بی بی نے عرض کیا میرے شکم میں بچہ مجھے غمگین کرتا ہے جب میں وضو کے لئے پانی سامنے رکھتی ہوں اورچلو میں لیتی ہوں تو شکم سے آواز آتی ہے أنَاعَطْشَانٌ ماں میں پیاسا ہوں۔۔ بعض دفعہ آوازآتی ہے أنَاعُرْیَانٌ  جسم لباس سے محروم ہے اوربعض اوقات آوز آتی ہے أنَا سَحْقَانٌ  میری ہڈیاں پسلیاں ٹوٹ گئیں۔
حضوؐر نے فرمایا نہ خود رواورنہ مجھے رُلا۔۔ پس بی بی کے اصرار پر فرمایا تیرا یہی بچہ بے جرم وبے خطاپیاسامارا جائے گا اوراس کو کفن نہ ملے گا اور دفن نہ کیاجائے گا، بی بی نے عرض کیا وہ کون ہوں گے؟ فرمایا میری امت کے لوگ۔۔ بی بی نے عرض کیا کیا آپ سفارش نہ کریں گے؟ فرمایا میں نہ ہوں گا عرض کیا علی ؑیہاں ہوں گے فرمایا وہ بھی نہ ہونگے۔۔ حسن ؑبھی نہ ہو گا عرض کیا پھر میں برقعہ سرپر ڈال کر خود چلی جائوں گی اورکہوں گی لوگو!  میں تمہارے نبی کی بیٹی ہوں میرا حیا کرو۔۔ میرے فرزندکو نہ مارو، آپ نے فرمایا زہراؑ اس وقت تم بھی نہ ہوگی صرف بہنیں ہوں گی جو مددنہ کرسکیں گی۔۔ بی بی نے عرض کیا پھر دفن کون کرے گا؟ فرمایاگرم ریت پر چھوڑ کرچلے جائیں گے۔
بقولے۔۔ گیارہویں کے دن بی بی زینب ؑ عالیہ نے جناب فضہ کو بھیجا کہ عمر بن سعد سے کہو تم اپنی لاشوں کو دفن کرو لیکن ہمیں بھی اجازت دے دو کہ ہم اورنہیںتو بھیا حسین ؑکی لاش کو دفن کرلیں؟ جناب فضہ روتی ہوئی واپس پلٹی اورعرض کیا بی بی وہ ظالم کہتا ہے ہمیں حکم ملا ہے کہ صرف مسلمانوں کی لاشوں کو دفن کیا جائے، بی بی نے مدینہ کی طرف منہ کرکے ضرور فریاد کی ہوگی نانا آج تیری اُمت تیرے حسین ؑکو مسلمان بھی نہیںسمجھتی؟
بہر کیف آخر میں حضرت زہرا ؑ نے عرض کیا کہ میرے حسین ؑکا پرسہ کون لے گا؟ تو آپ نے فرمایا خدا ایک ایسا گروہ پیدا کرے گا جو تیری اولاد کا ماتم کریں گے ان کے مرد مردوں پر نوحہ کریں گے اوران کی مستورات پردہ داروں کا غم کریں گی۔
شیعو!  تم زہراؑ کی دعائوں کا نتیجہ ہو۔۔ بیشک ماتم کرو۔۔ سینہ پر ہاتھ مارو۔۔  ہائے حسین ؑکہو، پس زہرا ؑنے عرض کیا بابا اگر یہ لوگ میرے بیٹے کا فرش عزا بچھائیں گے تو میں بھی وعد ہ کرتی ہوں کہ جنت میں اس وقت تک داخل نہ ہوں گی جب تک یہ داخل جنت نہ ہوں۔
یقین کیجئے بی بی خود غم حسین ؑمیں شریک ہوتی ہے۔
چنانچہ نجف اشرف کی ایک عزادار مستور جس کے پاس عزاداری کا خرچہ نہ تھا، محرم کا چاند نمودار ہوا تو اس نے فرشِ عزا بچھایا لیکن نذر نیاز نہ کرسکنے کے باعث لوگ نہ آئے، بقولے اچانک ایک مستور نے دستک دی دروازہ کھلا اوروہ داخل ہوئی اُس کا سیاہ لباس تھا اور وقت ِمجلس تک روتی رہی اورمجلس کے اختتام پر چلی گئی، پھر دوسرے دن۔۔ پھر تیسرے دن۔۔ بہر صورت وہ دس روز تک شریک مجلس ہوتی رہی، جب آخری مجلس سے اُٹھ کر جانے لگی تو عزادار خاتون نے ایک گٹھڑی باندھی اور دروازہ پر جاکر نذرانہ کے طور پر پیش کی۔۔ اس کی ایک چیخ نکلی اورکربلا کی طرف منہ کرکے کہنے لگی بیٹا حسین ؑآج تیری عزادار تیری ماں کو نذرانہ پیش کررہی ہے، اس عزادار نے جب پہچاناتو قدموں میں گر پڑی اورعرض کیا بی بی میں نے پہچانا نہیں تھا اب بروز محشر میری سفارش فرمانا۔
ایک اور عزا دار نجف کا ذکر سننے میں آتا ہے کہ ہر روز اپنے بیٹے کی قبر پر وادی السلام میں جایا کرتی تھی لیکن جب محرم کا چاند نمودار ہوا تو اس نے اپنی بیٹے کی قبر پر جانا موقوف کرکے غم حسین ؑمیں مصروف ہوگئی۔۔ جب دسویں کے دن ماتم حسین ؑسے فارغ ہوئی تو اپنے بیٹے کی قبر پر پہنچی۔۔ دیکھا تو قبر پرایک سیاہ پوش مستور رو رہی ہے کہنے لگی بی بی یہ تو میرے بیٹے کی قبر ہے تمہارے عزیز کی قبر کوئی اور ہوگی تو اس کی ایک چیخ نکلی اور کہا تو نے نہیں پہچانا؟ میں حسین ؑکی ماں ہوں تو نے دس دن میرے بیٹے کا غم کیا ہے اور میں تیرے بیٹے کی قبرپرحاضری دیتی رہی ہوں۔
ہم جس قدر بھی روتے رہیں ہم سے نہ زینب ؑعالیہ کا حق ادا ہو سکتا ہے اور نہ امام حسین ؑکا حق ادا ہوتا ہے۔
امام حسین ؑکی صحیح عزادار تھی اُن کی بہن جناب زینب عالیہ ؑ۔۔۔بقولے جب امام سجاد ؑنے قبر میں اُتارا تو جناب فضہ نے عرض کیا میرے آقا سجاد ؑ!  میری مدت کی ساتھی مجھ سے جدا ہو گئی ہے اگر اجازت ہوتو قبر میںا ُترا ٓخری دیدار کر لوں؟ امام سجاد ؑنے اجازت دی وہ اُتری چہرہ سے کفن کا دامن اٹھایا تو چیخ نکلی اور روتے ہوئے کھڑی ہوئی۔۔ حضرت سجاد ؑنے فرمایا کیا دیکھا؟ تو عرض کیا خدا جانے تیری پھوپھی رونے کیلئے اس قدر ترس رہی تھی کہ کفن کا دامن آنسوئوں سے تر ہے اور لب ہل رہے تھے میں کان لگا کر سنا تو آواز آرہی تھی اب تو مجھے حسین ؑکے رونے سے کوئی نہ روکے گا؟
وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مُنْقَلَبٍ  یَّنْقَلِبُوْن

ڈینہ ڈہویں دے ڈھلدیاں دی پر غم تاریخ لکھی گئی
کیویں بعد ظہر دے ویر دے رَلّے اَتے زینب آپ لٹی گئی
 بھائیاں لگیاں اَتے چادراں لٹیاں اُتوں شام غریباں تھی گئی
ربّ جانڑیں اُجڑیاں سینڑیں دی کیویں روندے رات کٹی گئی