اس ملعون نے بھی امام پاک کے زخمی جسم کو اپنے ظلم کا نشانہ بنایا تھا۔
عبداللہ بن صلخت ، عبدالرحمن بن صلخت ، عثمان بن خلد ، بشربن سوط لعنہمُ اللّٰہ
یہ چاروں حضرت عبدالرحمن بن عقیل کے قتل میں شریک تھے۔
امام مظلوم ؑ نے بروزعاشور ان پربددعاکی تھی جومقبول ہوئی، مختارکے حکم سے
یہ سب گرفتار ہو کر پیش ہوئے توان سب کوانتہائی ذلت وخواری سے قتل کرایا گیا اوران
کے نجس مردوں کونذر آتش کرایا گیا۔
’’مخزن
البُکا مجلس ہفتم‘‘ میں ہے کہ جب مسلم بن عقبہ نے یزید عنیدکے حکم سے مدینہ
کوتاراج کیا اورتین روز تک قتل عام جاری رکھا اورمسجد نبوی میں اس قدر مسلمان بے
دریغ تہ تیغ کئے گئے کہ مسلمانوں کا خون منبر رسول سے جاری ہوا اورقبر نبی تک
پہنچا، اشقیائے بنی اُمیہّ نے سادات کے گھروں کی بے حرمتی کی جس کے نتیجہ میں
سادات کے بہت سے افراد بھوک پیاس کی تکالیف سے جاں بحق ہوگئے اوراکثر ترک وطن کرکے
بے خانماں ہوگئے، چنانچہ قاسم بن عبدالرحمن بن عقیل اپنی بیوہ ماں اورتین بہنوں
کوساتھ لے کرگھر سے نکل کھڑا ہوا اورجنگلوں کی خاک چھان چھان کر آخر کاراس وقت
واردکوفہ ہواجب مختارتخت حکومت پرفائزتھا۔
حضرت عبدالرحمن بن عقیل کا قاتل عثمان بن خالد جہنی عبدالرحمن کے گھوڑے پر
سوار ہو کر بصرہ کی طرف فرار کرنا چاہتا تھا کہ مختار کی پولیس کے ایک گشتی دستے
نے اسے گرفتار کر لیا، پولیس افسر ابو عمرو نے مختار کو اس کی گرفتاری کی اطلاع دی
اور لوگوں نے جب عبد الرحمن بن عقیل کا گھوڑا دیکھا تو بہت گریہ و بکا ہو ا،اس
ملعون کو باندھا کر لوگ تازیانے مارتے تھے اور ہر طرف سے اس پر لعنت کی بوچھاڑ ہو
رہی تھی، اسی اثنا میں پولیس انچارج ابو عمرو نے ایک حسین و جمیل لڑکے کو مختار کے
سامنے پیش کیا جب کہ ان دونوںکی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، مختار نے سبب پوچھا تو
ابو عمر و نے جواب دیا کہ یہ لڑکا حضرت عبدالرحمن بن عقیل کا فرزند دلبند ہے، یہ
سنتے ہی مختار اپنی مسند سے اٹھا اور شہزدے کو گلے لگا کر خوب رویا اور دریافت کیا
آپ یہاں کیسے تشریف لائے ہیں؟ شہزادہ نے جواب دیا آج تیسرا دن ہے میں اس شہر میں
اس شہر میں وارد ہوا ہوں اور سفر کی نوعیت و کیفیت بھی بتلائی، مختار نے پوچھا کہ
تنہا ہو؟ تو جواب دیا نہیں بلکہ میرے ساتھ بیوہ ماں اور تین ہمشیرگان بھی ہیں، ہم
تیری حکومت کا چرچا اور قلاتلانِ امام حسین ؑ سے بدلہ لینے کی خبر سن کر یہاں آئے
ہیں اور آج میں نے سنا ہے کہ میرے پدر نامدار کا قاتل گرفتار ہوا ہے لہذا قصاص
کیلئے حاضر ہوا ہوں، چنانچہ اس ملعون کو شہزادہ کے سپرد کیا گیا اور شہزادہ نے اس
ملعون کو اپنے باپ کے قصاص میں قتل کر کے دارالبوار پہنچایا اور مختارنے قاسم کو
تین ہزار مثقال سونا اورپردہ داروں کو دو ہزار دیا اور ابراہیم نے پانچ ہزاردیا
باقی اہل شہر نے مکان مہیا کیا اور شہزادہ نے بمعہ سادانیوں کے وہاں قیام کیا۔