التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

مشکور زندان بان

4 min read
جب مشکور نے شہزادوں کو زندان سے باہر بھیجاتو ابن زیاد نے مشکور کو بلوایا اور دریافت کیا کہ فرزندانِ مسلم کہاں ہیں؟ مشکور نے جواب دیا میں نے ان کو خوشنودی خدا کی خاطر آزاد کردیا ہے، ابن زیاد نے پوچھا تجھے میرا ڈر نہ تھا؟ تو مشکور نے جواب دیا میرے لیے اللہ کا ڈر کافی ہے، اے ابن زیاد! کل تو نے ان یتیم بچوں کے قاتل کو قتل کردیا ہے اور اب ان معصوم بچوں کے در پے آزار ہے؟ ابن زیاد کو غصہ آیا اور کہا کہ میں ابھی تجھے قتل کرا دوں گا؟ تو مشکور نے جواب دیا جو سر رسول خدا کی خوشنودی کی خاطر کام نہ آئے مجھے ایسے سر کی ضرورت نہیں، اس وقت ملعون نے حکم دیا پانچ سو تازیانے مار کر اس کی گردن جدا کی جائے چنانچہ اس کو مقام سزا پر لے گئے اور تازیانے مارنے شروع کیے، پہلا تازیانہ لگا تو بسم اللہ پڑھی، اور دوسرا تازیانہ لگا تو عرض کیا اے پروردگار مجھے صبر عطا فرما، تیسرا تازیانہ لگا تو کہا اے خدایا مجھے آلِ رسول کی محبت میں قتل کیا جارہا ہے، چوتھا تازیانہ لگا اور پھر پانچواں لگا تو عرض کیا اے پروردگار مجھے محمد وآل محمد کی ہمراہی میں جگہ عنایت فرما، پھر خاموش ہو گیا یہاں تک کہ پانچ سو تازیانے کی تعداد پوری ہوگئی۔۔۔ آخر میں پانی مانگا تو ابن زیاد نے حکم دیا اس کو پیاسا ہی قتل کرو، پس عمروبن حریث نے سفارش کی کہ اب اس کو مجھے بخش دو پھر اپنے گھر لایا اور پانی دیا مشکور نے پانی کو دیکھ کر کہا اب مجھے پانی کی ضرورت نہیں بلکہ حوض کوثر سے سیراب ہوچکا ہوں پھر جان جان آفریں کے حوالہ کر دی۔
سلیمان بن صرد خزاعی صحابی رسول
عبداللہ بن سعد بن نفیل ازدی
مسیب بن نخبہ فزاری
عبداللہ بن دال تمیمی
رفاعہ بن شدادبجلی
سلیمان بن صرد خزاعی جس کو صحبت رسول خداکا شرف حاصل تھا اورحضوؐر کی وفات کے بعد اس نے کوفہ میں رہائش اختیار کی تھی اورجنگ جمل وصفین میں حضرت امیر ؑ کے ہمراہ رہااورباقی بزرگوار بھی کوفہ کے مشاہیر شیعان علی ؑ میں سے تھے، یہ سب کوفہ پر ابن زیاد کے تسلط اوراس کی سخت ناکہ بندی کے سبب سے کربلا میں شہادت کا شرف حاصل نہ کرسکے اوراسی طرح ہزاروں فدایان حسین ؑحسرتیں لے کر کوفہ میں رہ گئے تھے، ہر گلی پر پہرہ۔۔ ہر محلہ پر پہرہ اورپورے شہر کے گرد پہرہ تھا تاکہ کوئی نصرت امام ؑ کے لئے نہ جانے پائے، چنانچہ جو جو لوگ نصرت امام ؑ کے لئے پہنچے ہیں وہ مختلف بہانے تراش کر کوفہ سے نکلے تھے اورجن کو کو ئی اوربہانہ دستیاب نہ ہوسکا تھا وہ ابن سعد کی فوج میں بھر تی ہوکر چلے گئے اوروہاں پہنچ کر امام حسین ؑ کے ہمرکاب ہوگئے تھے جیسا کہ بہت سے اصحاب امام حسین ؑکے انفرادی حالات میں ذکر کیا جاچکا ہے۔
پس واقعہ کربلا کے بعد یہ لوگ چین سے نہیں بیٹھے بلکہ تجویزیں سوچتے رہے اور  ۶۴  ؁ھ ہجری کو انہوں نے یہ تجویز بالکل پا س کردی کہ اب ضرورجہاد کریں گے،  چنانچہ ربیع الاول  ۶۵  ؁ھ کو سلیمان بن صردخزاعی کے گھر ان کی آخری مشاورتی مجلس ہوئی اورطے شدہ پروگرا م کے تحت پانچ ہزار جانباز کوفہ سے چل کھڑے ہوئے، مختار بھی اسی دوران میں کوفہ میں وارد ہوا لیکن وہ ان لوگوں کے اس خروج کو بے محل سمجھتا تھا، لہذا وہ اس خروج میں شریک نہ ہوا اورنہ کسی دوسرے کو اس تحریک میں شامل ہونے کا مشورہ دیا بلکہ وہ موقع ومحل کی مناسبت کی تلاش میں رہا، اس طرف ابن زیاد تیس ہزار فوج کے ہمراہ نکلا، اس کے مقدمہ لشکر پر حصین بن نمیر ملعون تھا۔۔ عین الوردہ پر دونوں فوجوں میں سخت لڑائی ہوئی، پس سلیمان اوراس کی اکثر فوج ماری گئی اورجوبچے واپس کوفہ میں آکر مختار کی جماعت میں شامل ہوگئے۔
’’نورالمشرقین‘‘ میں ہے کہ پہلی جھڑپ میں مسیب بن نخبہ نے حصین بن نمیر کی فوج کو شکست دی اورمال غنیمت بھی قبضہ میں کر لیا، لیکن وہ پھر ایک لشکر جرار کے ساتھ جس کی تعداد ۱۲ہزار تھی دوبارہ حملہ آور ہوا تو علَم فوج سلمان بن صرد کے ہاتھ میں تھا، پس جمادی الاول   ۶۵  ؁ھ مطابق۱۳نومبر۸۴ ء  ؁گھمسان کی لڑائی ہوئی، سارا دن رہی دوسرے دن شامی فوج ۸ ہزار اور پہنچ گئی اورلڑائی سارا دن رہی، پھر تیسرے دن ۱۰ہزار فوج شامی آگئی اوریہ جمعہ کا دن تھا پس سلیمان شہید ہوگیا، پھر علَم مسیب نے اٹھالیا جب وہ شہید ہوا توعلَم عبداللہ بن سعد بن نفیل نے اٹھایا اوروہ بھی شہید ہواتو عبداللہ بن دال بھی مارا گیا تو علَم رفاعہ بن شداد نے اٹھایا اورخوب لڑے، دن ختم ہوگیا اب فوج کی تعداد ان کے پاس بہت کم رہ گئی تھی، لہذا راتوں رات واپس کوفہ کا رخ کیا اوریہ یادرہے جنگ چھڑنے سے پہلے سلیمان نے یہ انتظام کیا تھا کہ اگر میں مارا جائوں تو علَمدار مسیب بن نخبہ ہوگا اگر وہ مارا جائے تو عبداللہ بن سعد اگر وہ ماراجائے توعبداللہ بن دال اوراگر وہ بھی مارا جائے تو رفاعہ بن شداد علمبردار ہوگا، یہ جنگ عین الوردہ کے نام سے مشہور ہے جو۲۶جمادی الاولیٰ سے شروع ہوکرآخرماہ تک جاری رہی۔