التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

چھٹی مجلس -- مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  --  مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ

جس قدر معرفت خدا ہو گی اسی قدر عبادت ہو گی اور عبادات کی مقبولیت کا دارومدار بھی معرفت پرہی ہے نیز خدائی احکام کا بوجھ بھی معرفت کے درجات کے موافق ہے اور جزا وسزا بھی اسی سے وابستہ ہیں۔
فرشتوں نے جزیرہ میں ایک عابد کو دیکھا اور خدا سے اس کی جزا دیکھنے کا سوال کیا چنانچہ جب دکھائی گئی تو وہ کم تھی پس ان کو اس عابد کی عبادت کا قریب سے جائزہ لینے کا حکم دیا۔۔ چنانچہ فرشتے آئے اور عابد سے بات چیت ہوئی تو عابد نے کہا دل اس جزیرہ میں بہت خوش ہے اور عبادت پر بڑا راضی ہو ں لیکن افسوس ہے کہ سب گھاس ضائع ہو رہا ہے اگر خدا کا کوئی گدھا ہوتا تو اس میں چراتا اور یہ گھاس ضائع نہ ہوتا پس فرشتوں نے واپس آ کر عرض کیا اے پالنے والے تیرا فیصلہ حق ہے۔
حضرت موسیٰ کا ایک عابد سے گزر ہوا اس کی عبادت کو کمزور پایا اور اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا تو خطاب ہوا جس کو جس قدر معرفت دیتا ہوں اس پر عبادت کا اُتنا ہی بوجھ رکھتا ہوں تیری عبادت تیری معرفت کے لحاظ سے ہے اور اس کی عبادت اس کی معرفت کے لحاظ سے۔۔ اور اگر تو بھی مجھے اس طرح پہنچانتا جس طرح میں خود اپنے آپ کو پہنچانتا ہوں تو تجھے اپنی موجودہ عبادت حقیر معلوم ہوتی۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہماری نمازیں ٹکّریں ہیں پس ہم نماز نہیں پڑھتے چونکہ ٹکّر کا کیا فائدہ؟ ایسے لوگوں کی خدمت میں عرض ہے کہ نماز اُن لوگو ں کی ٹکّر ہے جو وِلائے علی ؑ کو نہیں پہچانتے۔۔۔ پس ولائے علی ؑ کی موجودگی میں جو شخص اپنی نماز کو ٹکّر سمجھے اس نے در حقیقت ولائے علی ؑکو نہیں پہچانا۔
دیکھئے۔۔۔ جس طر ح زمین کے زرخیز کرنے کیلئے کھاد کی ضرورت ہوا کرتی ہے اس طر ح زمین عمل کو علی ؑ کی وِلا زرخیز بناتی ہے اور علی ؑ کی وِلا کی موجودگی میں کوئی عمل برباد نہیں ہوتا ارمان ان لوگوں پر جو زمین زرخیز بنائے بغیر بیج عمل کو ضائع کرتے ہیں اور ارمان ان لوگوں پر جو زمین زرخیز کی موجودگی میں عمل کا بیج کا شت نہیں کرتے اور بروز محشر یہ دونوں حسرت و افسوس کا ہاتھ ملیں گے وہ کہیں گے کاش ولائے علی ؑ کے ذریعہ سے زمین عمل کو زرخیز بنایا ہوتا اور یہ کہیں گے کاش زمین عمل زرخیز تھی اور اس میں عمل کا بیج بویا ہوتا!؟
بیج کا مل ہے یعنی قرآنی آیات اور زمین بھی کامل ہے یعنی انسانی وجود اور کاشتکار اس کے محمد آل محمد علیہم السلام ہیں۔۔ نیز زمین زرخیز پر جتنی محنت ہو گی وہ اتنا زیادہ پھل دے گی کیونکہ ایک کا دس گنا تو بہرکیف ضروری ہے پھر اگر زیادہ محنت ہوتو ایک کا ایک سو اور اس سے زیادہ ہوتو ایک کا سات سو پھر ایک کا ایک ہزار پھر ایک کا ایک لاکھ اور بعض اوقات ایک کے بدلہ میں اتنا پھل ہو گا کہ جنّ و ملَک وانسان اس کو تاقیامت شمار بھی نہ کر سکیں گے (یہاں محنت سے مراد خضوع و خشوع و اخلاص ہے)
دیکھئے جن کی نماز باعث مسرت ہے وہ پڑھتے نہیں اور جو پڑھتے ہیں ان کی قبول نہیں ہوتی کیونکہ وِلائے علی ؑ سے محروم ہیں اب انصاف سے بتائیے کہ قرآن کا پر سانِ حال کو ن ہو گا؟
اے اہل ایمان!  قرآن کو سنبھالو کہ یہ تمہارے لئے ہے زرخیز زمین بیج کو ضائع نہیں کرتی البتہ جو فضول اور ردی خیالات دل میں گھس آتے ہیں وہ اس طرح ہیں جس طرح زرخیز زمیں میں مزروعہ بیج کے علاوہ ردی اور فضول گھاس اُگ آتا ہے پس زمیندار فضول گھاس کے خطرہ سے زمین کو بنجر نہیں چھوڑتا کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ گھاس اپنے موسم پر خشک ہو کر گل سڑ جائے گا اور مزروعہ فصل اپنے موسم پر تیار ہو جائے گا اسی طرح نماز پڑھنے والے کے دل میںاگر ردی خیالات آجائیں تو گھبرائے نہیں کیونکہ یہ ردی گھاس کی طرح ہیں وقت سے پہلے یہ ختم ہو جائیں گے اور نماز صحیح و سالم بچ جائے گی اور موجب جزا ہوگی۔
نیز یہ خیال نہ کروکہ حبیب بن مظاہر کی نماز کی طرح ہم نماز نہیں پڑھ سکتے کیونکہ جس قدر کسی کی معرفت ہوگی اسی قدر عمل کی برتری ہوگی۔۔ یا یوں سمجھئے سو مربعہ والا سو مربعہ کا فصل اٹھائے گا لیکن ایک مربعہ والاایک مربعہ کا فصل اٹھائے گا، ایک مربعہ والا بڑے زمیندار کی ضد سے اپنے تھوڑے رقبہ کو چھوڑ نہیں دیا کرتا اسی طرح اگر حبیب کیلئے اپنی معرفت کے لحاظ سے اعمال کا صلہ ہوگا تو تم کو بھی اپنی معرفت کے لحاظ سے اپنے اعمال کا صلہ ملے گا لیکن ملے گا ضرور۔۔۔ حبیب پہلی صف کا امام کا مقتدی ہے تو ہم کم از کم آخری صف میں تو کھڑے ہوئے نظر آئیں حبیب امام حسین ؑ کا وفادار اور جانثار صحابی ہے جس نے اپنے آپ کو حسینیت کے رنگ میں رنگ دیا تھا۔
آہ۔۔۔ خواب میں کسی نے حبیب بن مظاہر کو باغ جنت میں غمزدہ دیکھا اور سبب پوچھا تو جواب دیا کہ امام حسین ؑ کے ماتم دار جب صف ماتم بچھاتے ہیں تو میرے دل میں درد آتا ہے کہ خدا ایک دفعہ زندگی دے تاکہ دنیا میں جا کر صف ِ عزائے امام حسین ؑ بچھائوں۔
امام حسین ؑ کی پر ارمان بہن کو بھائی کے غم میں جی بھر کر رونے کا موقعہ نہ ملا؟ جس بہن کے سامنے بھائی دم توڑ رہا ہو وہ بہن بھائی سے دور نہیں رہ سکتی، لیکن ہائے زینب امام حسین ؑ کے پاس نہ جاسکی اور پاس جانا تو بجائے خود بھائی کی شہادت کے بعد بھی لاش کو جی بھر کر دیکھ نہ سکی نہ ماتم کر سکی نہ ہاتھ پائوں کو جوڑ سکی؟ حتی کہ جب مقتل گاہ میں آئی تو بروایت مزامیر ایک بلند جگہ دیکھی اور وہ تیروں، تلواروں، نیزوں کی اَنیوں اور پتھروں کا انبار تھا کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اُن کو ہٹایا تو بھائی کی لاش پر نظر پڑی بوسہ کا ارادہ کیا تو جسم خستہ نظر آیا آخر پُر ارمان بہن نے یہی کہا:
جائے یک بوسۂ من درہمہ اعضائے تو نیست
اے بھائی۔۔۔ زخموں کی کثرت کی وجہ سے تیرے جسم کے کسی حصہ کو بہن بوسہ نہیں دے سکتی؟

لتھی ودھ ودھ ظلم دی اتنی بارش دل اہل قلم دے ہل گئے
مخدوم زمانے سارے دے ہر لہندے ظلم کو جھل گئے
وچ شام دے کڑکی ظلم دی بجلی یکسر حالات بدل گئے
 لتھی ایجیہاں بارش بالاں دے بے وس کُرلاٹ نکل گئے