التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

مختار کی دوبارہ گرفتاری اورقید

3 min read
مختارکے کوفہ میں داخلے سے بنی اُمیہّ کو جان کے لالے پڑگئے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ شیعان علی ؑ سب مختار کے ہمنواہیں، پس عمر سعد اورشبث بن ربعی اوردیگر ہوا خواہانِ بن اُمیہّ عبداللہ بن یزیدکے پاس جمع ہوئے جو اس وقت ابن زبیر کی جانب سے کوفہ کا گورنر تھا اوراسے اطلاع دی کہ مختار کوفہ میں اپنے لئے لوگوں سے بیعت لے رہاہے اور اس کی آمد میں ہماری اورتمہاری خیر نہیں بلکہ یہ شخص سلمان بن صرد سے بھی زیادہ خطر ناک ہے اگر اس کو موقعہ ملا تو ہم اور تم میں سے ایک آدمی کو بھی زندہ نہ چھوڑے گا مصلحت اس میں ہے کہ اس کو گرفتار کرکے فوراً قید کرلیا جائے، چنانچہ اچانک اس پر ٹوٹ پڑے اورگرفتار کرکے اس کو زندان میں ڈا ل دیا، لیکن مختار نے اس مرتبہ زندان میں رہ کر بھی اپنے انتقامی جذبہ پر پر دہ نہیں ڈالا اورنعرہ انتقام بلند کرتارہا۔
جب سلیمان بن صردخزاعی کی شہادت کے بعد اس کے بعض ہمراہی (رفاعہ بن شداد) واپس کوفہ میں پہنچے تو مختار نے ان کو اس مضمون کا ایک خط لکھا:
تم نے خدا ورسول کی خوشنودی کی خاطر دشمنان دین سے جنگ کی ہے لہذا تمہارے گناہ بخشے گئے اورتمہارا اجر زیادہ ہوا اور تمہارے ہر قدم کے بدلہ میں تمہارے نامہ اعمال میں ایک ایک نیکی لکھی گئی ہے، میں جب بھی قید سے نکلوں گا تمہارے دشمنوں کو چن چن کر تہِ تیغ کروںگا۔
جب انہوں نے مختار کا خط پڑھا تو اس کو جواب لکھا کہ تیرے خط نے ہم میں خوشی کی لہردوڑا دی ہے ہم سب تمہاری مددکے لئے حاضر ہیں اگر حکم دوتو ہم پہنچ کر تجھے زبر دستی زندان سے نکال لائیں؟ مختار نے پیغام بھیجا کہ میں عنقریب رہا ہو جائوں گا، کیونکہ مختار نے اپنا غلام دوبارہ مدینہ میں عبد اللہ کے پاس بھیجا ہوا تھا کہ وہ حاکم کوفہ کی طرف رہائی کا خط لکھے، چنانچہ عبداللہ بن عمر نے عبداللہ بن یزید حاکمِ کوفہ کو خط لکھا کہ فوراً مختار کو رہاکردے کیونکہ وہ میرا رشتہ دار ہے اورتم لوگ میرے دوست ہو، چنانچہ مختار کو فوراً رہا کردیا گیا اور روسائے کوفہ میں سے دس آدمیوں سے ضمانت لی گئی کہ مختار کو اس شرط پر آزاد کیا جارہا ہے کہ وہ خروج نہ کرے، جب عبداللہ بن زبیر نے مختار کی رہائی کی خبر سنی تو اس نے سزاکے طورپر عبداللہ بن یزید کو معزول کرکے اس کی جگہ عبداللہ بن مطیع کو کوفہ کا گورنر مقررکردیا، کافی لوگوں نے مل جل کرمختار کی طرف آمدورفت شروع کی، یہ لوگ عقیدۃً آلِ محمد کے ساتھ تھے لیکن ظاہرمیں صاحبانِ اقتدارکے تابع فرمان تھے، البتہ ایرانی نسل جس قدر کوفہ میں آباد تھی اورقبیلہ ہمدان سب کا سب جن کی تعداد بیس ہزار سے زائد تھی انہوں نے مختار کی دعوت کو قبول کیا اور اعلانیۃً مختار کے ساتھ ہوگئے، یہ بات عبداللہ بن مطیع کے کانوں تک پہنچی تو اس نے مختار کو طلب کیا لیکن مختار کو اس کی بد باطنی کی پہلے سے اطلاع ہو گئی اس نے حاضر ہونے سے انکار کیا اور اپنی بیماری کا بہانہ پیش کیا اور عبداللہ بن مطیع نے بھی دوبارہ اصرار نہ کیا۔
بعض لوگ اپنے معاملہ میں مذبذب تھے انہوں نے اپنی طرف سے قابل وثوق چند آدمیوں کو مدینہ بھیج دیا تا کہ محمد بن حنفیہ سے اجازت حاصل کریں، بروایت ابن نما محمد بن حنفیہ نے فرمایا ہم اور تم مل کر امام علی زین العابدین ؑ کی خدمت میں چلیں کہ وہ میرے اور تمہارے سب کے امام ہیں پھر ان کے حکم کی اتباع کی جائے گی، چنانچہ امام عالیمقام ؑ کی خدمت میں صورت حال کی حکایت کی گئی تو امام ؑ نے فرمایا اگر کوئی حبشی غلام بھی ہماری نصرت کا علم بلند کرے تو لوگوں پر اس کا ساتھ دینا فرض ہے اور اے چچا بزگوار میں نے یہ معاملہ آپ کے سپرد کیا ہے جو بھی مصلحت ہو آپ اس عمل کریں، وہ لوگ جو اجازت طلب کرنے کی خاطر آئے ہوئے تھے خوش ہو گئے اور واپس آکر انہوں نے اعلان کردیا کہ ہم کو محمد بن حنفیہ اور امام زین العابدین ؑ نے مختار کی نصرت کی اجازت دی ہے۔