التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

ساتویں مجلس -- مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  --  مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ

اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تو زبردستی اپنی طرف جھکاتا لیکن اس نے انسان کو اپنے اختیارات سے عبادت کا حکم دیا ہے وہ اتنا جابر و قادر ہے اگر چاہے تو کنکر سے پہاڑ کو اُڑا دے۔۔ اگر چاہے تو ذرّہ سے عالم کو تباہ کر دے۔۔ اگر چاہے تو مچھر سے نمرود جیسے طاغوت سرکش کو سزادے۔۔ اور اگر چاہے تو ابابیل جیسے چھوٹے پرندوں سے ہاتھیوں کی فوج کا منہ موڑ دے، لیکن بایں ہمہ اس نے اپنے کمال فضل و کرم سے انسان پر کوئی زبرستی نہیں کی اور پورا اختیار دے رکھا ہے چاہے جنت کا راستہ لے چاہے دوزخ کا راستہ لے۔
خداوند نے انسان کو دوزخ کیلئے نہیں بنا یا کیونکہ کوئی صاحب عقل ایک عالی شان محل کو ہزارہا محنت و مشقت سے بنانے کے بعد اُسے نذر آتش نہیں کرتا تو خدا  نے انسان کو نہایت احسن تقویم میں پیدا کر کے کیونکر دوزخ کیلئے بنایا ہے؟ نہیں اس نے جنت کے لئے اس کو بنایا ہے اور انسان خواہ مخواہ شیطان کا پیچھا نہیں چھوڑتا!
خداوند اگر چاہتا تو نافرمانی پر فوری گرفت کرتا لیکن یہ اس کا کام ہے جس کو ڈر ہو کہ آج موقعہ ہاتھ سے نکل گیا تو ممکن ہے کل دشمن ہاتھ میں نہ آئے؟ نیز بعض اوقات جذبات کی تکمیل مجبور کرتی ہے اور خدا وندجذبات سے پاک ہے اور عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر ہے اس کے ہاتھ سے کوئی نکل کر کہیں جا نہیں سکتا لہذا اُس نے اپنے کمال وفضل سے انسان کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا تاکہ وہ جس وقت رجوع کرنا چاہے رکاوٹ نہ ہو۔
اما م زین العابدین ؑ سے کسی نے اپنے گناہوں کا شکوہ کیا تو آپ ؑ نے فرمایا چند کام کرواور پھر بے شک گناہ کرتے پھرو:
ز   خداوند کی زمین سے نکل جائو اور بے شک گناہ کرو۔
ز   اس کے آسمان کے سایہ سے باہر ہو جائو اور جو جی چاہے کرتے پھرو۔
ز   اس کا رزق نہ کھائو اور ہر گناہ کرو۔
ز   اگر طاقت ہو کہ جب اس کا قاصد آئے تو اس کو ہٹادو یعنی ملک الموت کو دور کر دو تو جو جی چاہے گناہ کرو۔
اس نے عرض کیا حضور یہ تو نہیں ہو سکتا؟ آپ ؑ نے فرمایا پھر خدا کی نافرمانی سے شرم کرو اور اپنے نفس پر کنٹرول کرو۔۔ خداوند تو اس قدر مہربان ہے کہ چار سو برس کی سرکشی اور ردائے ربوبیت میں ہاتھ ڈالنے والے فرعون کے سامنے بھی اس نے توبہ کا دروازہ بند نہیںکیا بلکہ حضرات موسیٰؑ و ہارونؑ کو تورات دے کر خصوصی دعوت کے لیے روانہ فرمایا اور نرم لہجہ میں گفتگو کرنے کی فہمائش کی۔۔ یہ فرعون کی بد بختی تھی کہ اس نے اپنے رحیم پروردگار کی دعوت کو ٹھکرا کر خدائی راگ الاپنے سے باز نہ آیا اور آخر کار لقمہ عذاب ہو کر رہا۔
قارون نے زکواۃ کے حکم سے سرتابی کی اور سردارانِ بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ متفق کیا۔۔۔ ایک بد معاش عورت کو لالچ دیا جب حضرت موسیٰؑ پر اس عورت نے اتہام کی کوشش کی اس کی زبان بند ہوگئی اور تین دفعہ ایسا ہونے کے بعد عورت نے توبہ کر لی اور حضرت موسیٰؑ کو راز بتا دیا تو حضرت موسیٰ قارون پر خفا ہوئے اور اس کیلئے عذاب کی دعا مانگی خداوندکریم نے زمین ان کے تابع کردی چنانچہ زمین قارون کو نگلتی گئی اور وہ بھی ہر بار معافی مانگتا رہا لیکن حضرت موسیٰؑ نے معافی نہ دی اور وہ آخرکار زمین میں غرق ہوگیا پس غالباً چالیس روز تک سلسلہ کلام بند رہا اور آخر کار آواز آئی۔۔۔ اے موسیٰؑ اگر وہ بد بخت مجھے خطاب کرکے معافی مانگ لیتا تو میں اب بھی اس کو معاف کردیتا۔
ایک گناہگار کو شہر والوں نے جلا وطن کر دیا اور حضرت موسیٰؑ نے بھی اس کو شہر بدر کر دیا تو وہ مارا مارا پھرتا رہا آخر پہاڑ کے دامن میں آیا اور بیمار ہوا عالم بیماری میں اس نے خدا سے مناجات کی:
اے اللہ!  مجھے شہروالوں نے حتی کہ تیرے موسیٰ نبی نے بھی اپنے شہرسے نکال دیا ہے اگر تو بھی مجھے اپنی حدود سے باہر کردے تو میرا کوئی ٹھکانہ نہیں پس گڑگڑا کر اور رو رو کر توبہ کی۔
 تو خداوند عالم نے اس  کے اعزا و اقربأ کی شکل میں چند فرشتے اس کی تیمارداری کیلئے بھیجے وہ ان کو دیکھ کر حیران ہو گیا تو انہوں نے کہا ہم وہ نہیں جو تو نے سمجھا ہے بلکہ ہم ملائکہ ہیں اور تیری توبہ کی وجہ سے خدا نے ہم کو تیری تیمارداری کے لئے معین فرمایا ہے اور وہ فرماتا ہے  اَیْنَ کُنْتَ فِیْ ھٰذِہِ الْمُدَّۃ  یعنی اتنی طویل مدت تو مجھ سے کیوں دور رہا؟ حالانکہ میں تیرا مہربان خدا ہوں۔
اب ایسے رحیم و کریم بادشاہ سے منہ پھیرنا کس قدر بے حیائی ہے اگر ایک انسان دوسرے پر ذرّہ بھر بھی احسان کر دے مثلاً روٹی کھلادے تو روٹی کھانے والا اس کا ممنون و احسان مند رہا کرتا ہے اگر وہ روٹی بھی کھلائے مکان اور زمین بھی دے پھر تو وہ اور بھی زیادہ زیر احسان ہوگا اب اس کی ناشناسی انتہائی بے شرمی اور ناقابل عفو جرم ہوگا۔۔۔ پس دیکھئے خداوند کریم نے ہماری آمد سے قبل ہمارے لئے سب کچھ بنایا اور ہروقت اپنے رزق سے نوازا اور پھر عمر بھر نعمتوں کی بوچھاڑ رہی لیکن انسان پھر بھی شیطان کا ہو جائے تو افسوس صد افسوس۔
فطری دستور ہے کہ اپنے سے بڑا اگر شرف باریابی دے تو انسان خوشی محسوس کرتا ہے مثلاً کسی کی گورنر سے یا صدر سے ملاقات ہو جائے تو وہ پھولا نہیں سماتا اور ایسی ملاقات کے لئے ہر ممکن قربانی کے لیے تیار ہو جاتا ہے لیکن بغیر کسی کوشش کے اور بغیر کسی خرچ کے خداوندکریم اپنے بندوں کو روازنہ پانچ مرتبہ اپنی بارگاہ میں شرفیابی کا موقعہ دیتا ہے اور اس کی طرف سے بلانے والا دعوت عام بلند مقام پر کھڑے ہو کر دیتا ہے لیکن اس کی آواز کو کوئی کان دھر کر سنتا ہی نہیں ہائے معرفت کے کان ہوں اور عارف دل ہو تو آواز کیوں نہ سنائی دے؟
امام حسین ؑ نے آواز توحید سنی اور اس کی طرف کھچتے گئے یزید چاہتا تھا آواز خالق کو دبادوں اور امام حسین ؑ نے عزم صمیم کر لیا تھا کہ سب کچھ لٹا دونگا لیکن متاعِ توحید نہ لٹنے دوں گا۔۔ سر کٹ جائے گا لیکن جادۂ حق سے قدم نہ ہٹے گا، یزید نے چاہا کہ اسلام کے سر سے وقار کی چادر چھین لوںاور ناموس اسلام کو بے نقاب کردوں لیکن امام حسین ؑ کی شیردل اور سراپا عرفان بہن نے للکار کر جواب دیا اے کمینہ تیرا خیال خام ہے میں اپنی چادر لٹا دوں گی اسلام اور اسلام والوں کے سر پر ناموس و وقار کی چادر چھوڑ جائوں گی۔
حضرت ایوب ؑ کی زوجہ کے سر سے برقعہ کسی نے چھینا نہیں تھا بلکہ ہاتھ تک کس نے نہیں لگایا تھا تاہم حضرت ایوب ؑ کا جام صبر لبریز ہو گیا تھا اور زوجہ ایوب ؑ بھی اس کی تابِ برداشت نہ لاسکی تھی۔
قربان ہمت و استقلال زینب عالیہ!  چادر چھن گئی ہر طرف سے طعنہ زنی کی صدائیں بلند ہوئیںتماشائی شہربہ شہر موجود تھے لیکن پائے ثبات میں لغزش نہ آئی اور آخر کار اپنی صداقت کا لوہا منو ا کے رہی اور بھائی حسین کی بے گناہی سے یزیدیت و بربریت کا غبار ہٹا کے رہی۔۔۔ اس بی بی کو معلوم تھا کہ جس عظیم الشان قربانی کے پیچھے کوئی زبردست محافل عوام میں اس کا پرچار نہ کرے تو حاسد اور ظالم اس قربانی کی عظمت کو کم کر دیتے ہیں بلکہ بعض اوقات اس قربانی کے وجود سے انکار کر جاتے ہیں اور بی بی کو تجربہ تھا کہ آج سے قبل میرے محسن بھائی کی قربانی اور میری ماں زہرا ؑ کا حق بھی ظلم و استبداد کی نذر ہو گیا کیونکہ اس کا پرچار کرنے والا کوئی نہ تھا اس لئے بی بی نے اب ہر مصیبت کو برداشت کیا لیکن امام حسین ؑ کے ناحق خون کو نہ دبنے دیا اور اس کو اس قدر اُبھارا کہ اب قیامت تک اُبھرتا چلا جائے گا۔
عزیزوں کی شہادت اور عزت و احترام کے لٹ جانے اور بے آس ہونے کے بعد ناممکن ہے کہ کسی مرد کے ہوش ٹھکانے رہیں لیکن مستور ہو کر اس فاتحہ مصائب اور فاتحہ کرب و بلا خاتون کا جگر تھا کہ ہر مرحلہ پر امام حسین ؑ کی صداقت کی شہادت دیتی گئی۔۔۔ اور ابن زیاد اور یزید جیسے فراعنہ وقت کے درباروں میں بلا جھجھک اپنی شان کے ایسے خطبے پڑھے کہ سننے والوں کو لہجہ امیرالمومنین ؑ یاد آیا اور لوگ کلیجہ تھام کر روتے تھے۔۔۔ یہانتک کہ امام حسین ؑ کی بے گناہی اور مظلومی کا لوگوں کے دلوں میں نشان قائم ہوگیا۔
یہ مجلسیں اسی مخدومہ بی بی کے خطبوں کی یادگار ہیں اور ہمارے جلوسِ عزا اسی طرح اسی مخدومہ کے جلوس کی شبیہ ہیں جو تا قیام قیامت قائم رہیں گے۔
خدا کی قسم بی بی نے بازار کوفہ میں اپنے بے گناہ بھائی کی عظمت کی گواہی میں وہ مجلس پڑھی کہ یکبار سناٹا چھا گیا اور لوگ چیخیں مار کر رو رہے تھے۔۔ ہائے حسین ؑ!