التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

وہب بن وہب

4 min read
’’آمالی۔۔ صدوق‘‘ سے منقول ہے کہ وہب اور اس کی ماں نصرانی تھے امام حسین ؑ کے ہاتھ پر دونوں اسلام سے مشرف ہوئے۔۔۔ بحارالانوار سے منقول ہے کہ روز عاشور تک وہب کو شادی کئے ہوئے سترہ دن سے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا جب زوجہ وہب نے وہب کو آمادہ جہاد کیا تو عرض کیا اے وہب! مجھے معلوم ہے کہ فرزند رسول کی نصرت میں شہید ہو کر تجھے بہشت میں جگہ ملے گی اور حورانِ جنت سے تو ہم آغوش ہو گا، اب امام حسین ؑ کے روبرو مجھ سے وعدہ کرو کہ کل بروز قیامت بہشت میں مجھ کو اپنے ساتھ رکھنا، پس دونوں خدمت امام ؑ میں حاضر ہوئے تو زوجہ وہب نے عرض کیا اے آقا! میرے دو سوال ہیں:
ایک یہ کہ میرا شوہر عنقریب تلوار و نیزہ کے زخم کھا کر بہشت میں پہنچے گا اور میں اس لق و دق صحرا میں بے کس رہ جائوں گی مجھے اپنے اہل حرم کے سپرد فرمائیے۔
دوسرا یہ کہ وہب شرف شہادت حاصل کر کے بہشت بریں جائے گا تو آپ ؑ  گواہ رہیں کہ کل بروز قیامت مجھے فراموش نہ کرے۔
امام ؑ نے عورت کے درد بھرے کلمات سن کر گریہ کیا اور فرمایا تیری دونوں باتیں قبول ہیں۔۔ پس وہب میدان جنگ میں مصروف جہاد ہوا۔۔ بہت سے ملاعین کو تہِ تیغ کیا آخر میں اس کے دونوں ہاتھ جدا ہو گئے تو وہب کی عورت خیمے کا عمود لے کر میدان میں پہنچی اور وہب سے کہنے لگی شاباش! میرے ماں اور باپ تجھ پر نثار ہوں، حرم نبوی کی حفاظت کے لئے خوب جہاد کرو۔۔ وہب نے کہا اے عورت! ابھی تو مجھے جنگ سے باز رہنے کی دعوت دے رہی تھی اب تو خود کیسے میدان جنگ میں پہنچ کر مصروف جہاد ہو رہی ہے؟ اور مجھے بھی جہاد پر تحریص دے رہی ہے؟ عورت نے جواب دیا میرا دل زندگی دنیا سے اُکتا گیا ہے جب سے میں نے امام حسین ؑ کی بیکسی کے کلمات سنے ہیں کہ فرماتے تھے:
وَا غُرْبَتَاہُ  وَا قِلَّۃَ نَاصِرَاہُ  وَا وَحْدَتَاہُ  اَمَا مِنْ ذَابٍ یَذُبُّ عَنَّا  اَمَا مِنْ مُجِیْرٍ یُّجِیْرُنَا۔
کیا کوئی ہے جو ہماری مدد کرے؟ کوئی ہے جو ہمیں پناہ دے؟
خیمہ گاہ میں یہ کلمات سن کر تمام سادانیاں مشغول گریہ ہیں، پس میں نے اپنے جی میں کہا کہ آل رسول کے بعد زندگی فضول ہے اور پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ جہاد کر کے زندگانی دنیا کو خیرباد کہہ دوں، وہب نے کہا تو واپس جا کیونکہ تجھے جہاد کا حکم نہیں ہے؟ عورت نے جواب دیا میں تیرے ساتھ مل کر خون کے دریا میں غوطہ لگائوں گی، وہب کے ہاتھ چونکہ کٹ چکے تھے اس لئے اپنے دانتوں سے اپنی زوجہ کے دامن کو پکڑا اور واپس پلٹانا چاہا لیکن عورت نے نہ مانا، آخر وہب نے امام حسین ؑ کی خدمت میں عرض کیا آقا! اس کو واپس کیجئے تو حضرت امام حسین ؑ خود بنفس نفیس تشریف لائے اور فرمایا خدا تجھے جزائے خیر دے خیمہ میں واپس آ جا۔۔ تو عورت نے عرض کیا آقا! میرا جی چاہتا ہے کہ لڑ کر شہید ہو جائوں کیونکہ موت بنی امیہ کی اسیری سے مجھے محبوب تر ہے، امام ؑ نے نہایت نرمی اور مہربانی سے حرم سرا میں اس کو واپس پہنچایا۔
وہب کو گرفتار کر کے ابن سعد کے پیش کیا گیا تو ابن سعد نے اس کے قتل کا حکم دیا۔۔ انہوں نے وہب کا سر کاٹ کر وہب کی ماں کی طرف پھینک دیا، وہب کی ماں نے بیٹے کا سر اٹھایا سینے سے لگایا بوسہ دیا اور کہا اللہ کا شکر ہے کہ تیری شہادت سے میں امام حسین ؑ کے سامنے سرخرو ہوئی ہوں، پھر کوفیوں سے متوجہ ہو کر کہا اے امت بدکار! تم سے تو یہود و نصاریٰ اپنے گرجائوں میں بدرجہا بہتر ہیں پس غصے سے وہب کا سر لشکر کوفہ کی طرف پھینکا کہ وہب کے قاتل کو جا لگا اور وہ ملعون اسی صدمے سے فی النار ہوا، پھر عمود خیمہ لے کر ان پر حملہ آور ہوئی اور دو ملعونوں کو واصل جہنم کیا پھر امام حسین ؑ نے اس کو واپس پلٹایا اور فرمایا عورتوں سے جہاد ساقط ہے اور خوشخبری دی کہ تیری اور تیرے فرزند کی جگہ میرے نانا کے پاس جنت میں ہو گی یہ سن کر وہب کی ماں مطمئن ہوئی اور کہا کہ خدایا میری امیدوں کو قطع نہ کرنا تو امام پاک نے فرمایا اے مادر وہب! خدا تیری امیدوں کو قطع نہ کرے۔