یہ شخص حضرت علی ؑ کا خاص شیعہ تھا، ایک دفعہ معاویہ کے پاس گیا تو معاویہ
نے دیکھتے ہی کہا: تو شریک ہے حالانکہ
اللہ کا کوئی شریک نہیں اورتیراباپ اعور (یک چشم) تھا حالانکہ آنکھوں والااعور
(ایک چشم ) سے اچھا ہوا کرتاہے اورنیز توبد صورت ہے اورخوبصورت بد صورت سے بہتر
ہے؟
پس شریک نے جواب میں کہا کہ:
تومعاویہ ہے اورمعاویہ بھونکنے والی کتیاکو کہتے ہیں۔۔۔ اورتوصخر کا بیٹاہے
حالانکہ سہل صخرسے بہتر ہے۔۔۔ اورتو حر ب کا بیٹاہے حالانکہ صلح لڑائی سے بہتر
ہے۔۔۔ اورتو اُمیہ کا بیٹاہے حالانکہ اُمیہ اُمۃکی تصغیر ہے جس کا معنی ہے لونڈیا،
پھر تو مومنوں کا امیر کیسے بن گیا؟ اوریہ اشعار کہتا ہوا باہر اٹھ کر چلا گیا:
فَلاَ تَبْسُطْ عَلَیْنَا یَاابْنَ ھِنْدٍ
لِسَانَکَ اِنْ بَلَغْتَ ذُرَی اْلاَمَِانْی
اے ہند کے بیٹے! اگرتجھے
اقتدارملاہے تواپنی زبان پر کنڑول رکھو۔
وَاِن تَکُ لِلشَّقِاَئِ لَناَ اَمِیْرًا
فَاِنَّالا نُقِرُّ عَلٰی الْھَوَانِیْ
اورہماری بدبختی کہ تو ہمارا حاکم ہے لیکن ہم ذلیل رہنا قطعاً گوارانہ کریں
گے۔
وَ اِنْ تَکُ مِنْ اُمَیّۃٍ فِیْ ذِرَاھَا
فِاِنَّا فِیْ ذَرَی عَبْدُ الْمدَ انِ
اگرتوبنی اُمیہ میں ہونے کا فخر کرے توہم کو عبدالمدان سے ہونے کا فخر حاصل
ہے۔
شریک بن اعور بصرہ میں ابن زیاد کا خاص آدمی تھا اوربصرہ سے بوقت روانگی
یہ ابن زیاد کے ساتھ چلا اورابن زیاد کو اس کے شیعہ ہونے کا بھی یقین تھا لیکن پھر
بھی وہ اس کو بہت چاہتا تھا، بصرہ سے چل کر راستہ میں اس نے اپنے تئیں عمدہ گھوڑے
سے گرادیا تاکہ ابن زیاد اس طرف مشغول ہوجائے اور امام حسین ؑپہلے کوفہ میں پہنچ
جائیں، لیکن ابن زیاد نے بغیر پرواہ کئے سفر کو جاری رکھا، شریک جب کوفہ میں پہنچا
تو ہانی کے گھر میں مہمان ہوا اورہانی کو حضرت مسلم کی اطاعت ووفاداری پر خوب
تحریص کیا۔۔ جب ۲۵ہزارآدمی بیعت
کرچکے اورحضرت مسلم نے خروج کا ارادہ کیا توشریک نے کہا جلدی نہ کیجئے ابن زیاد
میری بیمار پرسی کے لئے آئے گا پس احوال پرسی کے بعد میں پانی مانگوں گا توآپ
پردہ سے اٹھ کر اس کو قتل کردیں اورپھر دارالامارہ پر جاکر قبضہ کرلیں پھر کوئی
بھی مزاحمت نہ کرے گا، حضرت مسلم کو یہ بات پسند آگئی، چنانچہ جب ابن زیاد عیادت
کے لئے پہنچا تواس کا مہران غلام بھی اس کے ہمراہ تھا، ابن زیاد شریک کے سراہنے
بیٹھا اوراحوال پرسی کے بعد شریک نے پانی مانگا لیکن مسلم نہ اٹھے! پھر اس نے چند
اشعاراسی مضمون کے پڑھے جن میں حضرت مسلم کو ابن زیاد کے قتل کرنے کا اشارہ موجود
تھا لیکن پھر بھی حضرت مسلم نے پرواہ نہ کی، ابن زیاد نے پوچھا یہ اشعار کیسے ہیں؟
توہانی نے کہا کل شام سے اس کی یہ حالت ہے کہ ہذیان کہتارہتاہے، جب شریک نے تین
مرتبہ یہ اشعار دہرائے توابن زیاد کے غلام مہران کو شک پڑگیا اورابن زیاد کو اٹھنے
کے لئے اشارہ کیا چنانچہ وہ ملعون اٹھ کھڑا ہوا، شریک نے کہا اے امیر میں ایک وصیت
کرنا چاہتاہوں وہ توسن لے لیکن ابن زیاد نے کہا پھرکسی وقت حاضر ہوں گا اورچلاگیا
پھر راستہ میں اس کو غلام نے متنبہ کیا کہ یہ اشعار تمہارے قتل کی سازش ظاہر کررہے
تھے لیکن ابن زیاد کو پھر بھی باورنہ ہوا۔
ابن زیادکے چلے جانے کے بعد جب حضرت مسلم باہر آئے توشریک نے ابن زیاد کو
قتل نہ کرنے کی وجہ پوچھی؟ توآپ نے فرما یا رسول کی حدیث مجھے یاد آگئی کہ دھوکے
سے قتل کرنامومن کی شان سے بعید ہے بس اس لئے میں نے اس ملعون کو قتل نہیں کیا، اس
بات کا ہانی اورشریک دونوں کو بہت دکھ ہوا لیکن اب وقت ہاتھ سے نکل چکا تھااس کے
تین روز بعد شریک اعور نے داعی اجل کو لبیک کہا،
ابن زیاد کو بعد میں معلوم ہوا کہ شریک لوگوں کو مسلم کی نصرت کی دعوت
دیتاتھا اورپھر اس کو مہران غلام کی بات کا بھی یقین ہوا تویہ ملعون کہتاتھا اگر
شریک کی قبرزیاد کی قبر کے نزدیک نہ ہوتی تو میں اس کے مردہ کو قبرسے نکال کرنذرِ
آتش کرتا لیکن مجھے اپنے باپ زیاد کی قبر کا حیا ہے۔
ابن زیاد کا ایک غلام تھا جس کا نام معقل لکھا ہے اس کو جاسوسی پر معین کیا
گیا کہ کہیں سے مسلم کا سراغ معلوم ہو، چنانچہ اس خبیث نے اپنے آپ کو شیعہ ظاہر
کرکے تین ہزاردرہم نذرانہ کے اُٹھائے اورحیلہ وبہانہ سے امیر مسلم تک جاپہنچا
نذرانہ پیش کیا اورمنافقانہ بیعت بھی کی اوراپنے آپ کو مخلص شیعہ ظاہر کرکے شیعان
کوفہ کے بہت سے راز معلوم کرلئے اورپھر ابن زیاد کو اطلاع دے دی کہ وہ ہانی کے گھر
ہیں اوردیگر معلومات بھی اس کو کافی بہم پہنچائیں۔
ابن زیاد نے محمد بن اشعث۔۔ اسمأ بن خارجہ اورعمروبن حجاج زبیدی کو ہانی
کے بلانے کے لئے بھیجا، ہانی کی زوجہ (ردیحہ) عمروبن حجاج کی لڑکی تھی، ہانی نے
عذر کیا کہ میں بیمار ہوں تو انہوں نے نہایت لجاجت کی کہ آپ ضرور تشریف لے چلیں
ان لوگوں کو ابن زیاد کی دلی راز کا علم نہیں تھا، جب دارالامارہ کے قریب پہنچے
توہانی کے قدم رک گئے تو ان لوگوں نے کہااے ہانی ڈرونہیں ابن زیاد تیری ملاقات سے
خوش ہوگا اورتجھے فائدہ ہوگا آخردربار میں جاپہنچے اورجس خطرہ سے گریز تھا وہ
سامنے آیا جب ہانی نے سلام کہا تو ابن زیاد نے فوراً یہ سوال کیا کہ ہمارے دشمنوں
کو توپناہ دیتاہے اورمسلم تیرے گھر میں ہے اورتولوگوں کو اس کی نصرت پر آمادہ
کرتاہے اورمجھے تیرے متعلق بہت کچھ معلومات حاصل ہیں ہانی نے ظاہر انکار کیا، لیکن
ابن زیاد نے فوراً معقل ملعون کو بطور گواہ کے پیش کردیا معقل نے آتے ہی ہانی سے
سوال کیا کہ ا ٓ پ نے مجھے پہچانا ہے؟ توہانی نے جواب دیا ہاں میں نے جاناہے کہ توکافرومنافق ہے، پس فوراًعذر پیش
کیا کہ مسلم کو میں نے دعوت دے کرنہیں بلایا وہ خود تشریف لائے اورمیں نے ان کو
گھر سے نکالنا مناسب نہ سمجھا، ہاں اگر یہ بات آپ کوگوارا نہیں تومجھے اجازت
دیجئے تاکہ جاکر ان کو گھر سے باہر کردوں، ابن زیاد نے کہا اب جانے کی اجازت نہیں
ملتی جب تک مسلم کو ہمارے حوالے نہ کروگے، ہانی اورابن زیاد کے درمیان بات توتومیں
میں تک پہنچی۔
ابن زیاد کی اجازت سے مسلم بن عمروباہلی ہانی کو علیحدہ لے گیا اورسمجھا نے
لگا کہ مسلم بن عقیل ابن زیاداوریزید کے قریبیوں میں سے ہے اوراس کو کوئی نقصان نہ
پہنچے گا تم اس کو ابن زیاد کے حوالے کرنے میں کوئی خوف محسوس نہ کرو اورنہ اس میں
تمہاری توہین ہے، لیکن ہانی نے جواب دیا کہ جب تک میں زندہ ہوں فرزندرسول کے سفیر
کو (جسے میں نے پناہ دی ہے) دشمن کے حوالہ نہ کروں گا اوراگر میری قوم میری مددنہ
بھی کرے گی تاہم یک و تنہاجان کی بازی لگانے کو تیار ہوں، اگر میرے پاؤں کے نیچے
آلِ رسول کا کوئی بچہ چھپاہوا ہوتو اس پائوں کو نہ اٹھاوں گا جب تک کہ اس کو کاٹ
کر الگ نہ کرلیا جائے، یہ سوال وجواب تلخی اختیار کرگئے اورابن زیاد بھی کا ن دھر
کر خوب سن رہاتھا، اس نے ہانی کو دوبارہ بلوایا اوردھمکی دے کرکہا اگر مسلم کو
میرے حوالے نہ کرو گے توتمہاراسر قلم کردوں گا، ہانی نے جواب دیا تجھ میں یہ تاب
کہا ں ہے؟ قبیلہ مذحج محاصرہ کر کے تجھے اپنے کئے کی سزادے گا، ہانی کو خیال تھا
کہ وہ دارالامارہ کے باہر موجود ہوں گے، ابن زیاد نے غصہ میں آکر تازیانہ سے ہانی
کے سر۔۔ منہ۔۔ ناک کو زخمی کردیا، ہانی نے ایک سپاہی سے تلوار کھینچی لی اورابن
زیاد کے سر پر حملہ کیاچنانچہ اس کا عمامہ قطع ہوگیا اوراس کے سرپر بھی زخم آیا،
پھر اس کا معقل غلام آگے بڑھا توہانی نے اس کے منہ پرتلوارماری اوراس کو بھی زخمی
کرکے گرادیا، لوگ گرفتار کرنے کیلئے آگے بڑھے توہانی نے خوب جرأت کا مظاہر ہ
کیا، یہانتک کہ ۲۵ آدمیوں کو تہِ تیغ
کرڈالا،آخر کار گرفتار ہوا اورزندان میں بھیج دیا گیا۔
قبیلہ مذحج کو معلوم ہوا تووہ چار ہزار مرد میدان فوراًپہنچے اوردارالامارہ
کا محاصرہ کرلیا، ابن زیاد نے شریح قاضی کو بلاکرلوگوں کے منتشر کرنے پرمامور کیا،
چنانچہ اس ملعون نے دارالامارہ سے سرباہر نکال کر کہا اے لوگو! تمہیں کیا ہوگیا ہے
ہانی کوکوئی تکلیف نہیں ہوئی ابن زیاد نے مصلحت کے ماتحت اس کو اپنے پا س بلایا ہے
اوروہ کچھ باتیں کر رہے ہیں تمہیں شوروغوغاکرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس مکارکے کلام
کے دام میں آکر وہ بیچارے دھوکا کھاگئے اورچلے گئے۔
اسمأ بن خارجہ نے ابن زیاد کو ملامت کی کہ تونے ہانی سے دھوکا کیاہے ہم
لوگ اس کو منت کرکے لائے تھے اوراس سے امن کا وعدہ کیا تھا تونے اس کو زخمی کرکے
زندان میں ڈال دیاہے اوراب اسکے قتل کا ارادہ رکھتاہے؟ یہ بات تو نے اچھی نہیں کی،
پس ابن زیاد نے غصہ میں آکر اس کو بھی خوب زدوکوب کیا اور دارالامارہ سے ذلیل
کرکے باہر نکال دیا، پس ابن زیاد نے مسجد میں آکر پھر لوگوں کو اپنے مظالم سے
خوفزدہ کیا۔
حضرت مسلم نے عبداللہ بن حازم کو ہانی کے حالات دریافت کرنے کے لئے بھیجا
چنانچہ اس نے آکر امر واقع کی اطلاع دی توآپ نے عبداللہ کوحکم دیا کہ لوگوں میں
جہاد کی آواز بلند کرو، چنانچہ فوراًہی چار ہزار جنگی مرد جمع ہوگئے
اوردارالامارہ پر چڑھائی کی گئی، جب ابن زیاد نے ہائوہوکی آوازیں سنیں
توفوراًمسجد سے نکل کر دارالامارہ میں پہنچا اوردروازے بند کرادیئے، بیعت کرنے
والوں کی فوجیں یکے بعد دیگرے اس قدر جمع ہوئیں کہ گلی کوچوں میں سے اس وقت ابن
زیاد کے پاس پچاس آدمی سے زیادہ نہیں تھے، اس مکار ملعون نے کثیر بن شہاب اورمحمد
بن اشعث اورچند دیگر افراد کو حکم دیا کہ دارالامارہ سے باہر نکلواورشہر میں اعلان
کرو کہ شام کا لشکرابھی آرہاہے اوران کو خوب ڈرائو دھمکائو تاکہ یہ لوگ منتشر
ہوجائیں، چنانچہ انہوں نے ایسا کرنا شروع کردیا جب سورج قریب غروب ہوا توشام کے
لشکر کی آمدآمد کا شور انہوں نے زیاد ہ بلند کر دیا رفتہ رفتہ امیر مسلم کی فوج
گھروں کو جانے لگ گئی، جب نماز کا وقت آیا توصرف ۲۵آدمی موجود تھے مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر نکلے تو صرف دس
آدمی ساتھی تھے۔۔ جب باب کندہ سے باہر قدم رکھا تواکیلے ر ہ گئے اورکوئی بھی ساتھ
نہ رہا، پس گھومتے گھماتے محمد بن کثیرکے گھر پہنچے اورمحمد بن کثیر اوراس کے لڑکے
کی شہادت کے بعد نصف شب ان کے گھر سے نکل کھڑے ہوئے جیسے کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔
ابن زیاد نے کوفہ کے ہر دروازہ پر اپنے سپاہی مقررکر دئے تھے تاکہ باہر
کوئی نہ جاسکے، چنانچہ حضرت مسلم جس دروازہ کے قریب جاتے تھے وہاں سپاہ موجود ہوتی
تھی پھر واپس پلٹ آتے تھے، آخر کا ررات ختم ہوگئی اوردن کو ایک مسجد میں چھپ گئے
پھر بھوکے پیاسے رات کو نکلے کوئی چارہ کا رنظر نہ آتاتھا، آخر ایک گھر کے
دروازہ پر پہنچے اوراس گھر میں ایک کنیز اُمّ ولد (طوعہ) اوراس کا بیٹا (بلال)
رہائش پذیر تھے، اس دن طوعہ کا بیٹا گھر سے باہر تھا اوروہ بیٹے کی انتظار میں
دروازہ تک آتی جاتی تھی، جب وہ سامنے آئی تومسلم نے سلام کہا اس عورت نے جواب
سلام کہا حضرت مسلم نے پانی مانگا تواس نے جامِ آب حاضر کیا پھر بیٹھ گئے، طوعہ
نے کہا اب رات کا وقت ہے آپ کا یہاں بیٹھنا درست نہیں اپنے گھر چلے جایئے، توحضرت
مسلم نے بچشم گریاں خاموشی اختیار کی پھر طوعہ نے دوبارہ وہی کلمات کہے تو حضرت
مسلم خاموش رہے، اس کے سہ بارہ کہنے پر روکرفرمانے لگے اے کنیز خدامیں اس شہر میں
مسافر ہوں گھر وطن سے دور ہوں اگر مجھے اس رات ٹھہرنے کی جگہ دے دے تو تجھے خدا اس
کی جزادے گا، طوعہ نے پوچھا آپ کون ہیں؟ توفرمایامیں مسلم بن عقیل ہوں لوگوں نے
مجھے دھوکا دیاہے، طوعہ نے سنتے ہی معافی طلب کی اورعزت وتواضع سے اپنے گھر لے
گئی۔۔۔ ایک حجرہ مخصوص میں جگہ دی۔۔۔ کھانا حاضر کیا۔۔۔ بسترہ بنادیا۔۔۔ آپ نے
کھانانہ کھایا اورسوگئے، اتنے میں طوعہ کا بیٹا (بلال) گھر میں آیا اورماں کو
باربار اس حجرہ میں جاتے ہوئے دیکھا تووجہ پوچھی؟ طوعہ نے بتانے سے ہرچنداِنکار
کیا لیکن وہ نہ ماناآخر مجبور ہوکر طوعہ نے بیٹے سے قسم لی کہ ظاہر نہ کرے گا پھر
حضرت مسلم کا حال بیان کیا وہ لڑکا سوگیا اورحضرت مسلم تھوڑی دیر کے بعد اُٹھ
بیٹھے اوررونے لگ گئے، طوعہ نے پوچھا آقا روتے کیوں ہو؟ توفرمایامجھے خواب میں
اپنے چچا بزرگوار حضرت علی ؑ بن ابیطالب ؑ کی زیارت ہوئی ہے اوروہ فرماتے تھے اے
مسلم جلدی جلدی! پس میں یہ سمجھتاہوں کہ آج میری زندگی کا آخری دن ہے اورسفرِ
آخرت کا پہلادن ہے، صبح سویرے طوعہ کے بیٹے نے ابن زیاد کو جاکر اطلاع دے دی
اوربطور انعام ایک سنہری طبق۔۔ ایک تاج اورایک گھوڑا حاصل کیا، ابن زیاد نے محمد
بن اشعث کی زیرسرکردگی پانچ سوسوار مسلم کی گرفتاری کے لئے روانہ کئے، جب گھوڑوں
کے ٹاپوں کی آوازیں مسلم نے سنی تواپنی دعاکو مختصر کیا اورہتھیار لگا کر تلوار
ہاتھ میں لے کرشیر کی طرح حملہ آور ہوئے، عمربن دینار کا بیان ہے حضرت مسلم بن
عقیل کے قوت بازوکا یہ عالم تھا کہ جب ایک مرد کو پکڑ کر ہوا میں پھینکتے تھے تو
وہ مکانوں کی چھتوں سے اُوپر گھومتاہوا دوسری طرف جاپڑتاتھا۔