التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

تیسری مجلس -- مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  --  مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ

خداوند کریم نے انسان کو عبدیت کی دعوت دی ہے۔۔ عبد وہ ہوا کرتا ہے جو کسی شئے کا حتی کہ اپنے وجود کا بھی مالک نہ ہو اور اپنے وجود کے تمام تر منافع اپنے مولا پر وقف کر دے، انسان بھی خدا کا سچا عبد تب ہو گا کہ اپنا تمام مال و متاع بلکہ وجود ی اعضا ٔ اپنے مولا کی رضا کیلئے وقف کر دے، اس کے ہاتھ پائوں اورجملہ اعضا ٔ اُس کی مرضی کے مطابق استعمال ہوں، ہاں جنہوں نے اپنی عبدیت کا دل سے اعتراف کیا بلکہ دعا مانگی:
 وَجَدْتُکَ رَبًّا کَمَا ارْتَضِیْ فَاجْعَلْنِیْ عَبْدًا کَمَا تَرْتَضِی ’’اے اللہ میں نے تجھے ویسے ربّ پایا ہے جس طرح میں چاہتا ہوں تو بھی مجھے ایسا عبد بنا جس طرح تو چاہتا ہے‘‘ اورایک مقام پر ارشاد فرمایا:
کَفٰی بِیْ عِزًّا اَنْ اَکُوْنَ لَکَ عَبْدًا وَکَفٰی بِیْ فَخْرًا اَنْ تَکُوْنَ لِیْ رَبًّا ’’میری عزت کیلئے کافی ہے کہ تیرا عبد ہوں اورمیرے فخر کے لئے کافی ہے کہ تو میرا پروردگار ہے‘‘
پس عبدیت کی ایسی شان دکھائی کہ تمام عباد کو حیران کر دیا۔۔۔ ہاتھ اپنا تھا لیکن رضائے خدا میں ایسا وقف کیا کہ یَدُاللّٰہ  کہلایا، کان اپنے تھے لیکن اپنے پروردگار کی رضامندی کے لئے ایسے وقف کردیئے کہ اُذنُ اللّٰہ  کہلائے اسی طرح آنکھ عَیْنُ اللّٰہ زبان لِسَانُ اللّٰہ اورچہرہ وَجْہُ اللّٰہ کہلائے حتی کہ نفس نَفْسُ اللّٰہ کہلایا۔
عبدیت کا معنی صرف نماز نہیں بلکہ نماز عبدیت کا پہلازینہ ہے۔۔ عبدیت کے فرائض اس سے آگے ہیں، جس طرح سکول میں لڑکوں کی حاضری کے بعد کورس کی تدریس ہوتی ہے پس صف میں کھڑے ہوکر حاضری دینا اورلبیک کہنا اورہے اورکمرہ میں اپنے کورس کو نبھانا اورشئے ہے۔۔ بس ایسا ہی سمجھئے کہ نماز صف میں کھڑے ہوکر حاضری دینے اوراپنے عبد ہونے کا اعتراف ہے اورعبدیت کا کورس اس کے ماسوا کچھ اورہے۔۔ اورخلاصہ یہ کہ اپنے وجود کو رضائے پروردگار کے لئے استعمال کرے اپنی مرضی سے اس کے جسم کاکوئی حصہ حرکت وسکون سے متصف نہ ہو۔
لااِلٰہ ا لّا اللہ اور یا علی ؑ زبان سے کہنا کافی نہیں بلکہ بدن کا ہرعضو یاعلی ؑ پکارے ورنہ اڑھائی من کا وجوددشمن علی ؑ کی سیرت کا آئینہ اورفرعونیت کا مظہر ہو اورصرف ایک تولہ کی زبان کلمہ توحید یانعرہ حیدری کی طرف آئے تو اس کا کیا فائدہ؟ اورکاش کہ یہی زبان ہی یاعلی ؑ پکارتی! انصاف تو یہ ہے کہ اس کا یاعلی ؑ پکارنا بھی صرف ایک تھوڑے سے وقت کیلئے ہوتا ہے ورنہ پورے چوبیس گھنٹے یہ زبان صرف آوارگی کا مظہر رہتی ہے مومن کا شکوہ اسی زبان سے۔۔ کسی کو دشنام دینا اسی زبان سے۔۔ خدا کی ناشکری اسی زبان سے۔۔ دھوکہ ٹھگی وغیرہ اسی زبان سے؟ خدا پناہ!
دیکھئے۔۔۔۔ دودھ نجس برتن میں ڈالاجائے تو وہ شریفوں کے پینے کے قابل نہیں رہتا بلکہ جس برتن کو کتا چاٹ جائے پھر اس میں دودھ ڈالاجائے تو وہ کتے ہی کے کام کا ہوگا جس آنکھ میں غم حسین ؑ کا آنسو موتی بنتا ہے تو اس ظرف کو کتے سے محفوظ رکھنا بھی ہمارا فرض ہے، اس کان میں غم حسین ؑ کو جگہ دینی ہے تو کتے یعنی شیطان سے اس کو بچاناہم پر واجب ہے، اسی طرح اگر زبان سے وردِعلی ؑ کرناہے تو لغویات سے اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے ورنہ ذکرِ اہل بیت ؑ اپنے مقام پر مقدس رہے گا لیکن نجس برتن میں ڈالنے سے ہمیں فائدہ نہ دے گا اسی طرح اگر دل میں امام حسین ؑ کی قبر ہے تو اس دل کو مومن کی عداوت، حسد، بغض وغیرہ سے پاک کرنا ضروری ہے۔
آیئے۔۔۔۔ ہمیں دنیا میں غلام بن کر رہنا ہے آزاد بن کر نہیں رہنا، حضرت امام موسیٰ کاظم ؑ ایک گلی سے گزرے تو گانے کی آواز آرہی تھی آپ ؑ نے اس گھر کی کنیزسے پوچھاکہ کس کا گھر ہے،آزاد کا یا غلام کا؟ تو جواب ملا کہ یہ ایک آزاد کا گھر ہے غلام کا نہیں، پس آپ ؑ نے فرمایا بیشک اگر غلام کا گھر ہوتا تو یہ آزادی نہ ہوتی، جب کنیز نے واپس جاکر اپنے آقا کو امام ؑ کے یہ کلمات سنائے تو وہ شخص تائب ہوگیا۔
نیک نصیب ہے وہ انسان جو بروزقیامت یہ کہنے کی جرأت رکھے کہ میرے اللہ میں نے اپنے اعضا ٔ کو تیری غلامی میں استعمال کیا تھا اوربدنصیب ہوگا وہ جس کے پاس یہ جواب نہ ہوگا۔
بعض غلام اپنے آقاکے سوفیصد ی غلام، بعض اَسّی فیصدی بعض اس سے کم اوربعض صفر فیصدی غلام ہوا کرتے ہیں۔۔ پس سوفیصدی غلام حلال رزق کھا تے ہیں باقی تھوڑے یا بہت حرام خورہی رہتے ہیں، ہم اپنے اندر جھانکیں کہ ہم اللہ کے عبد کس نسبت سے ہیں؟ بیشک جو غلام غلاموں میں سے سوفیصدی غلام ہو وہ باقی غلاموں کا سردار ہے یہی وجہ ہے حضرات محمد وآلِ محمد علیہم السلام چونکہ مقام عبدیت میں سوفیصدی کی حیثیت رکھتے ہیں حتی کہ ان سے ترکِ اَولیٰ بھی نہیں ہوا تو  لَوْلاکَ لَمَاخَلَقْتُ الْاَفْلاک کے خطاب سے خدانے اُن کو نوازا اورتمام جہان کی سرداری عنایت فرمائی اورحضورؐ نے فرمایا:  لَمْ یَبْعَثْ نَبِیٌّ قَطُّ اِلَّا بِوِلایَۃِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْطَالِبکوئی نبی نبی نہیں بن سکاجب تک ولایت علی ؑ کا اقرار نہیں کیا، شب معراج رسالتمآبؐ نے تمام ارواحِ انبیا ٔ سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم سے تین اقرار لیے گئے:   تو حیدخدا ،  رسالت محمد ،  ولایت علی ؑ  (برہان)
کیسا آباد دنیا میں صحن فاطمی ہوا
کس کی نظر لگی کہ یہ گھر ماتمی ہوا
اسی تبلیغِ عبدیت کیلئے سادانیاں جنگلوں، پہاڑوں میں ماری ماری پھرتی رہیں، ممالک اسلامیہ میں کوئی پہاڑ۔۔ جنگل۔۔ آبادی۔۔ ویرانہ ایسا نہیں جہاں کسی غریب اور مسافر سید یاسیدزادی کی مزار نہ ہو،  دیکھئے کجا مشہد۔۔ کجامدینہ۔۔ کجاقم۔۔ کجامدینہ؟
امام موسیٰ کاظم ؑ کی پینتیس اولادوں میں سے کہیں بھی دوکی مزاریں اکٹھی نظر نہیں آتیں؟ ہائے غریب بغداد کی شہزادی فاطمہ! خدامعلوم قم المقدسہ کیسے پہنچی ہوگی؟ اوربی بی کو دفن کس نے کیا ہوگا؟ جب کہ اپنا محرم قریب موجود نہ تھا؟
شہر ساوہ میں پہنچ کر بیمارہوگئیں اوریہاں سے پیغام بھجوایا پس موسیٰ بن خزرج ان کو قم لے گیا اوروہاں اَٹھارہ یااُنیس روز بیمار رہ کرداعی اجل کو لبیک کہا۔۔ جب تجہیز وتکفین کر کے جنازہ پڑھا جاچکا تو دفن کا مسئلہ درپیش تھا، شہر کے ضعیف العمر عالم کو بلوا کر پوچھا گیا آخر کار سب نے بلندی پر جاکر دعاکی اوردوگھوڑے سوار نمودار ہوئے جنہوں نے بی بی کو دفن کیا۔۔ بہت ممکن ہے کہ ایک حضرت امام رضاؑ ہوں اور دوسرے حضرت امام محمد تقی  ؑ ہوں۔