مختار اچھے اعتقاد کامالک تھا اور واقعاتِ بتلاتے ہیں کہ وہ محب اہل بیت
اور خالص و مخلص شیعہ علی ؑ تھا، آقائے شیخ ذبیح محلاتی فرماتے ہیں کہ مختار کے
دَور زندگی پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ محبت ووِلائے اہل بیت میں فنا کے
درجہ تک پہنچا ہوا تھا اور ابتدائے عمر سے اس کو خاندانِ عصمت کے ساتھ وابستگی
تھی، نیز اس کا علم و کمال حضرت محمد بن حنفیہ اور حضرت عبداللہ بن عباس کی شاگردی
کا مرہونِ منت تھا اور خاندان بنی امیہ سے اس کوہمیشہ سے دشمنی تھی، خلاصہ یہ کہ
مختار صحیح الاعتقادشیعہ تھا۔۔۔ واللہ اعلم
اکثر علمائے اعلام نے اعتراف کیا ہے کہ مختارحضرت امام علی زین العابدین
ؑ کی امامت کا قائل تھا مثلاًمحقق
اردبیلیؒ نے حدیقۃ الشیعہ میں۔۔۔ علامہ حلیؒ نے خلاصہ میں۔۔۔ ابن نماؒ نے ذوب
الانظارمیں۔۔۔ قاضی نوراللہ تستریؒنے مجالس المومنین میں۔۔۔ علامہ خوئی ؒ نے شرح
نہج البلاغہ جلدثانی ص۷۴ پر۔۔۔ علامہ سید
محسن عاملیؒ۔۔۔ نے اصدق الاخبار میں۔۔۔ اوران کے علاوہ رجال ابن دائود۔۔۔ رجال
ابوعلی۔۔۔ رجال کشی۔۔۔ نقص الفضائح مصنفہ شیخ عبدالرزاق رازی۔۔۔ تنزیہ المختار
مصنفہ سید عبدالرزاق مقرم۔۔۔ رجال مامقانی اورمنتہمی المقال حائری وغیرہ میں اس
امرکی تصریح موجودہے۔۔۔۔۔ علی ماحکی
اوربعض علمأ نے استدلال کیا ہے کہ اگرمختارکا عقیدہ ومذہب درست نہ ہوتا
توامام ؑ اس کے حق میں رحمت کی دعا نہ کرتے، کیونکہ اگر کوئی عالم کسی شخص کے حق
میں رحمت کی دعاکرتے ہیں تواس سے اس شخص کا مومن ہونا سمجھا جاتاہے تواگر کسی کے میں امام معصوم ؑ رحمت کی دعاکرے اورباربار
کرے توپھراس کے ایمان میں کیا شک ہوسکتاہے؟
بہرکیف علمأ کی ایک جماعت محتار کی مداح ہے اورعلامہ مجلسی اعلی اللہ
مقامہ نے مختارکے متعلق دوطرف کے قول کرنے کے بعد فرمایاہے کہ چونکہ مختار کے
ہاتھوں ایک خیرکثیرکا کام سرزدہواہے اس لئے امیدکی جاسکتی ہے کہ وہ ناجی ہو گا
(جلاء العیون)