التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

ستائیسویں مجلس -- حُبُّ عَلِیٍّ یَّـأ کُلُ الذُّنُوْبَ کَمَا تَـأ کُلُ النَّارَ الْحَطَبَ



حضرت علی ؑکی محبت گناہوں کو اس طرح کھاتی ہے جس طرح آگ خشک لکڑی کو کھا جاتی ہے۔
ہر شئے کے چار وجود ہوتے ہیں اور ان میں سے صرف ایک کار آمد ہوتا ہے:
وجودِ حقیقی   ،   وجودِ ذہنی   ،   وجودِ ملفوظی   ،   وجود ِ مکتوبی
مثلاََ ایک ہے پانی کا وجودِ حقیقی جو دریامیں ہے۔۔ کنوئیں میں ہے یا گلاس میں ہے، دوسرا اس کا وجود کہ جو ہم ذہن میں تصور کرتے ہیں یہ وجود ذہنی ہے اور تیسرا ہم منہ سے بولتے ہیں  پ  ا  ن  ی  یہ وجودِ ملفوظی ہے اور چوتھا جو ہم کاغذ پر لکھتے ہیں یہ اس کا وجودِ مکتوبی ہے۔
اگر کسی کو پیاس لگے تو نہ وجودِ ذہنی اس کو ختم کرے گا ہزارہا پانی کا تصور کیجئے پیاس نہ بجھے گی بلکہ بڑھے گی۔۔۔ اسی طرح ہزار دفعہ منہ سے پانی پانی کہتے رہو پیاس ویسی کی ویسی رہے گی اور کاغذ پر ہزار ہا بار لکھو پانی پانی پیاس نہ بجھے گی بلکہ پیاس کو ختم کرے گا تو صرف پہلا وجود یعنی خود پانی جو کہ پانی کا حقیقی وجود ہے۔
حضرت علی ؑ وہ ذات ِشریف ہے جس کے چاروں وجود کا رآمد ہیں اس کا وجود حقیقی جو حضرت محمد مصطفی ؐ کا قائم مقام ہے ان کے باقی ہر سہ وجود بھی بے کار نہیں، مولا علی ؑکا تصور کرنا اور ان کی محبت کا دل میں رکھنا عبادت (وجودِ ذہنی ) امام علی ؑکا زبان سے ذکر کرنا عبادت اور زبان کے گناہ معاف (وجودِ ملفوظی ) حضرت علی ؑکانام لکھنا اور ان کے فضائل کو قلمبندکرنا عبادت او ر ہاتھ کے گناہ معاف (وجودِ مکتوبی)
حضرت علی ؑ کی محبت گناہوں کو کھاتی ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھاتی ہے اس کی تشبیہ بتاتی ہے کہ جس طرح آگ کے وجود سے پہلے لکڑیوں کا انبار لگا ہو تو جب آگ آئے گی اس انبارکو کھا جائے گی، پھر جب تک روشن رہے گی وہاں نئی لکڑی جنم لے ہی نہیں سکتی۔۔۔۔ تو اس کا مقصد یہ ہے کہ مولا علی ؑکی محبت کے آنے سے پہلے جس قدر گناہ تھے وہ سب جل گئے لیکن اب جب تک امام علی ؑکی محبت کی شمع روشن رہے گی نیا گناہ نہ آسکے گا۔
حضرت علی ؑ کے شیعوں کی یہی شان ہونی چاہیے۔۔۔ دیکھئے ہر غلام اپنے سردار کی زیارت کو جایا کرتا ہے ا ور مولا علی ؑ وہ سردار ہیں جن کی زیارت حضرت آدم ؑسے حضرت عیسیٰؑ تک تما م نبیوں کے لیے باعث فخر ہے، اب کس قدر نیک بخت ہو گا وہ غلام جس کی زیارت کرنے حضرت علی ؑ جیسے سردار خود چل کر جائیں۔
چنانچہ حضرت علی ؑکا دستور تھا کہ میثم تمار کی زیارت کے لیے اس کی دکان پر جایا کرتے تھے۔۔۔ میثم تمار وہ آدمی ہے جس کے جیب میں پیسہ نہیں لیکن دل کا خزانہ دولت ایمان سے پر ہے، منڈی سے کچھ کھجوریں لا کر بازار میں کہیں بیٹھ کر بیچا کرتا تھا جس سے گزر بسر ہوتی تھی، ایک دن حضرت علی ؑ تشریف لائے میثم تمار ضروری کام کے لیے چلا گیا اور دکان مولا ؑکے حوالے۔۔۔ ایک عورت آئی جس نے کچھ پیسے دیئے اور مولاؑ نے اسے کجھوریں دیں، جب میثم تمار واپس پلٹا تو دیکھا کہ وہ پیسے سب کھوٹے تھے حضرت علی ؑ نے فرمایا عادل امام کے ہاتھ کا سودا ہے اگر پیسے کھوٹے ہیں تو اس ہاتھ سے کجھور کا کوئی کھرا دانہ نہ گیا ہو گا۔۔۔ چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد عورت واپس آئی قبلہ! وہ کجھور کے دانے تو اس قدر خراب تھے کہ کھانے کے قابل ہی نہ تھے آپ نے فرمایا تو اپنے پیسے واپس لے جا اور کجھوریں یہاں رکھ دے۔
ایک دن میثم تمار کو حضرت علی ؑ نے فرمایا اگر محبت کا امتحان دینا پڑے تو توکیا کرے گا؟ عرض کیا کہ یہ آنے والا وقت ہی بتلائے گا؟ آپ نے فرمایا فلاں شخص یا خاندان والوں کے دروازہ کے سامنے تجھے سولی پر لٹکایا جائے گا، میثم نے سرِ تسلیم خم کرلیا۔۔ وقت گزرتا رہا۔۔ زمانہ بدلتا رہا اور میثم انتظار کی گھڑیاں گزارتا رہا۔
ایک دن اسی دروازہ سے گزرا تو ایک شخص دروازہ کے سامنے درخت کا پودہ لگا رہا تھا۔۔ میثم نے شکر پروردگار اداکیا کہ مولا ؑکے فرمان کے پورا ہونے کی یہ بھی ایک علامت ہے، ہر روز خود اسے پانی سے سیراب کرتا تھا آخر وہ وقت آیا کہ جب میثم پر محبت ِحضرت علی ؑ کا مقدمہ چلایا گیا اور نتیجہ کے طور پر اسی درخت پر اُسے سولی پر لٹکایا گیا اور ہاتھ پائوں کا ٹ دیئے گئے لیکن اس نے زبان سے ذکرِ علی ؑکو ترک نہ کیا، اگر کسی کہنے والے نے کہہ بھی دیا تو میثم نے انگڑائی لے کر کہا جب تک منہ میں زبان ہے نامِ علی ؑ وِرد رہے گا اور دیواروں پر میرے خون کی رنگینی اور زمین پر میرے خون کا بہتا ہوا ہر قطرہ ایک یادگار چھوڑ جائے گا اور قیامت تک کے شیعوں کو درس دے گا کہ حضرت علی ؑ کے سچے محب اور موالی کا سر باطل کی تلوار سے کٹ سکتا ہے لیکن دشمنِ   علی ؑ کے آگے جھک نہیں سکتا؟ اور نہ حضرت علی ؑ کے مشن سے پیچھے ہٹ سکتا ہے۔
میں نے عرض کیا ہے کہ بعض غلام ایسے ہوا کرتے ہیں جن کی طرف سردار چل کر آتے ہیں۔۔۔ چنانچہ یہاں ایک مومنہ عورت کا ذکر بھی خالی از فائدہ نہیں ہے، وہ جس نے اطاعت رسولؐ میں اپنے پائے استقلال میں لغزش نہ آنے دی اورذاتی جذبات کو کچل کر راہ حق پر ثابت قدم ہوکر صنف ِنازک کیلئے ایک مثال قائم کردی۔
ہم اس زمانہ میں آئے ہیں جب کہ ہر طرف سے کفر اور لا دینی کے بادل ہمارے سروں پر منڈلارہے ہیں؟ ایک وقت تھا جب استارِ کعبہ کو پکڑ کر آنے والے زمانے کے بعض دلسوز حالات پیغمبر اکرم ؐ نے ذکر کئے تو جناب سلمان جیسے صحابہ کی چیخیں بلند ہوئیں آپ نے فرمایا ایسا زمانہ ہو گا جب عورتیں بے لگام ہوں گی اور ان کے سامنے مرد بے بس ہوںگے؟ جناب سلمان نے عرض کیا وہ عورتیں کس مذہب سے تعلق رکھنے والی ہوں گی؟ تو آپ نے فرمایا میری اُمت سے ہوں گی، جناب سلمان سخت روئے لیکن جن حالات کو سن کر جناب سلمان روتے تھے آج وہ حالات ہمارے سامنے ہیں اور ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے؟
ایسے حالات ہیں کہ نصیحت کرنے والے خود گھبراتے ہیں کہ کیا کہا جائے؟ ایسا زمانہ کہ بے دینی دین ہے اور دین پسماندگی کانام ہے؟ انسان جتنا دین سے دور اتنا ترقی یافتہ اور جس قدر دین کے قریب اتنا ہی معتوب اور پسماندہ سمجھا جاتا ہے۔
میںایک عورت کا ذکر کر رہا تھا۔۔۔ مدینہ میںشادی شدہ ایک عورت تھی اس کا شوہر سفر میں تھا، اچانک اس کا باپ بیمار ہو گیا اور اس کو اطلاع پہنچی پس حضرت پیغمبر اکرؐم کی طرف اس نے اپنی کنیز کو بھیجا کہ میرا شوہر سفر میں ہے اور میرا باپ بیمار ہے چونکہ شوہر سے اجازت لینا ناممکن ہے اسلئے آپ دین و شریعت کے وارث  اگر اجازت دیں تو میں اپنے بابا کی احوال پرسی اور عیادت کے لیے چلی جائوں؟ جب اُس کنیز نے پیغمبراکرم ؐ سے درخواست کی تو حضورؐ نے فرمایا جا کر اپنی مالکہ سے کہو کہ میںاللہ تعالیٰ کے دین کو پہنچانے والا ہوں نہ کہ اُس کے دین میں خیانت کرنے والا؟ کہو صبر کرکے بیٹھی رہو میں اللہ کے حکم کو توڑنے کا حق نہیں رکھتا،  چنانچہ اس کا باپ مر گیا۔۔ پھر اس نے کنیز کو بھیجا اور حضور ؐ نے وہی جواب دہرایا،  آخر کار اس کا باپ دفن ہوگیا اور پھر بھی کنیز وہی جواب حضورؐ سے لیکر واپس آئی تو وہ مومنہ عورت خاموشی سے گھر میں باپ کا غم کرتی رہی اور خدا و رسول ؐ کے فیصلہ سے سر تابی نہ کی۔
مومنہ عورت کی اس اطاعت گزاری کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ستر ہزار فرشتے جبریل کی معیت میں بھیجے جنہوں نے حضورؐ کا سلام کرکے عرض کیا اللہ تعالیٰ اس عورت پر راضی ہے اور فرما رہا ہے کہ آپ بنفس نفیس اپنے قدموں سے چل کر اس عورت کو اس امتحان سے کامیابی کی مبارک باد پیش کریں کہ خدا نے تیرے اور تیرے بابا کے گنا ہ بخش دیئے۔۔۔ چنانچہ حضرت پیغمبر اکرؐم ملائکہ کی تعداد کثیر کے ساتھ اس عورت کے گھر کے دروازہ پر پہنچے۔۔ دقُّ الباب کیا۔۔ دروازہ کھلا ۔۔اجازت ملی اور آپ نے اندر قدم رکھا، اس عورت نے بستر بنایا حضوؐر تشریف فرما ہوئے، آپ نے فرمایا مجھ سے آنے کا سبب پوچھو؟ عرض کیا اللہ کی رحمت خود چل کر آئے اور میں کہوں کہ کیوں آئی ہے؟آپ خودفرمائیں تو حضور ؐ نے فرمایا تو نے اللہ کے دین کی لاج رکھی ہے اور اطاعت خدا و رسول کا فریضہ ادا کیا ہے اب اللہ تعالیٰ نے جبریل کو ستر ہزار فرشتوں کے ساتھ بھیجا ہے کہ اس کے صلہ میں اس نے تیرے او ر تیرے بابا کے گناہ بخش دیئے ہیں اور تو اس عظیم امتحان میں کامیاب ہے۔
حضوؐر کا فرمان ہے کہ اگر عورت شوہر کی اجاز ت کے بغیر گھر سے باہر قدم رکھے تو اس پر زمین و آسمان کے فرشتے لعنت کرتے ہیں جب تک واپس گھر میں قدم نہ رکھے اور گھر سے باہر اس کی کوئی عباد ت بھی قبول نہیں اگر شوہر کی اجازت نہیں۔۔۔ لیکن آج کل کی زہریلی فضا میں کنیز انِ بتول کا اللہ محافظ؟
جناب سلمان رورہے تھے کہ حضرت پیغمبر ؐ نے اپنے آخری وصی حضرت مہدی ؑو ہادی کا ذکرکیا کہ وہ آئیں گے تو زمین کو عدل و انصاف سے بھریں گے جس طرح ظلم وجور سے بھر چکی ہو گی، جناب سلمان نے عرض کیا کہ میں تین سو سال کا بوڑھا تو نہ دیکھ پائوں گا کہ وہ وقت کیسا ہو گا؟ آپ نے فرمایا خدا تجھے دوبارہ زندہ کرے گا۔۔ جناب سلمان نے عرض کیا یہ دلجوئی ہے یا وعدہ ہے؟ تو آپ نے فرمایا دلجوئی نہیں بلکہ وعدہ ہے اور صرف میرا نہیں بلکہ میرا اور میرے اللہ کا او رمیرے اوصیا ٔ کا بھی وعدہ ہے کہ صرف تو نہیں بلکہ جو مومن حضرت مہدی ؑکے زمانہ کی انتظار میں مرجائے گا اس وقت اللہ ان سب کو دوبارہ زندہ کرے گا۔۔۔ حضرت مہدی ؑ خود اس انتظار میں ہیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اذن دے اور میں قاتلانِ حسین ؑ سے بدلہ لوں کیونکہ ان کو بھی شب وروز روتے گزرتے ہیں۔
میرا بیان یہی تھا کہ حضرت علی ؑ کی محبت گناہوں کو مٹا سکتی ہے یعنی جہاں آپ ؑ کی محبت ڈیرہ جمالے وہاں گناہ جا ہی نہیں سکتے۔۔ اسلئے کہ محبت ِعلی ؑ جلوہ گر ہے؟ پس محبت ِعلی ؑ خود ایک واعظ ہے جو دل میں موجود ہے، اگر آنکھ غلط نگاہ کرنا چاہے تو دل میں محبت ِعلی ؑ موجود ہے وہ روک دے گی، اسی طرح کان اگر غلط آواز سننا چاہے گا  تو محبت علی ؑاس کو روک دے گی، اسی طرح زبان۔۔ ہاتھ۔۔ پائوں۔۔ وغیرہ تمام اعضا ٔ کو محبت ِعلی ؑ خود روک دے گی۔
اگر دعویٰ ہو حضرت علی ؑکی محبت کا لیکن اس کو محبت علی ؑان بدکاریوں سے روک نہ سکے تو سمجھے کہ محبت کمزور ہے پھر اس کا علاج سوچنا چاہیے، پس عالم کا فرض ہے کہ معاشرتی اصلاح کے لیے زبان کھولے لیکن آجکل کا مبلّغ یہ سوچتا ہے کہ مجھے یہ لوگ کیا دیں گے؟ اس نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ میں ان کو کیا دوں گا؟ اور واعظ دوسروں کو تب ہی وعظ کرے گا جب اپنے وعظ پر خود عامل ہوگا کیونکہ آپ لوگوں کے کان میری آواز کودور سے سن رہے ہیں لیکن میرے اپنے کان میری آواز کو بہت نزدیک سے سن رہے ہیں۔
ایک دفعہ حضرت پیغمبرؐ کے پاس ایک عورت اپنے بچے کولائی اور عرض کیا کہ میرے بچے کو شہد کے زیادہ استعمال سے روکیں؟ آپ نے فرمایا اس کو کل لے آنا، چنانچہ وہ دوسرے دن حاضر ہوئی تو آپ نے بچے سے فرمایا بیٹا ! ماں کی اطاعت کرنا فرض ہے شہد کو جس طرح وہ حکم دے ترک کردو، بچے نے حضور ؐ سے وعدہ کرلیا تو اس عورت نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اتنی سی بات اگر آپ کل ہی فرمادیتے تو میرا بیٹا یہی وعدہ کر لیتا اور انکار نہ کرتا؟ آپ نے کل نہ فرمایا بلکہ آج کے آنے کی فرمائش کی، آپ نے فرمایا تیرے آنے سے پہلے میں خود شہد کھا چکا تھا اور مجھے شرم آتی ہے کہ کسی کو ایسی چیز سے کیسے منع کروں جس کو میں خود کر چکا ہوں؟ کل جس وقت سے تم گئی ہو میں نے اس وقت سے اب تک شہد کو استعمال نہیں کیا کیونکہ نصیحت کرنے والے کی نصیحت تب کامیاب ہوتی ہے جب خود اس پر عامل ہو۔
اسلئے معصوم ؑنے فرمایا ہماری امت کے غلط کار علما ٔ کا حشر فرعون اور نمرود وغیرہ کے ساتھ ہوگا اور نیک علما ٔ کا حشر انبیا ٔ و اولیا ٔ کے ساتھ ہو گا اور علما ئے سُو کو یہود کے  علما ئے سُو کے مشابہ قرار دیا گیا۔
ایک حدیث میں ہے جب علما ٔ کو اُمرأ کے دروازوں کا طواف کرتے ہوئے دیکھو تو سمجھ لو کہ بد ترین علما ٔ ہیں اورجب اُمرا ٔ کو علما ٔ کے دروازوں کا طواف کرتے دیکھو تو سمجھ لو کہ وہ بہترین اُمرا ٔہیں۔
خداوندکریم ؐ حضرت قائم آل محمد ؑ کے ظہور میں تعجیل فرمائے تاکہ نیک لوگوں کا وقار بلند ہو اور باطل کا علَم سرنگوں ہو۔۔۔۔ پڑھنے والا سمجھتا ہے مجلس وہ مقبول ہے جسے عوام قبول کرلیں حالانکہ معیار مقبولیت عوام نہیں بلکہ درحقیقت مجلس وہ مقبول ہے جسے آئمہ طاہرین علیہم السلام قبول فرمائیں، اگر ایک آدمی بھی کلمات ِحق اور وعظ سن کر ایک گناہ سے توبہ کر لے تو مجلس کی مقبولیت کی وہ سند ہے۔
دین کے لیے کیا کیا مصائب جھیلے آل محمد علیہم السلام  نے؟ دل کانپتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔۔۔ ہائے کوفہ کا بازار اور زینبؑ جیسی پردہ دار؟ بلکہ تبلیغ دین کیلئے بی بی نے سب کچھ برداشت کیا، جب کوفہ کے کھچا کھچ بھرے بازار سے گزر ہوا اور لوگوں کا ہر طرف ہجوم دیکھا تو بی بی نے اونٹ کی پشت پر ایک خطبہ دیا:
پہلے فرمایا اے اہل کوفہ خاموش!   اس لفظ میں اس قد ر تاثیر تھی ہوا کی سرسراہٹ اور پرندوں کی پھڑپھڑاہٹ رُک گئی اور آدمی تو بجائے خود اُونٹوں کی گردنوں میں بندھی ہوئی گھنٹیاں بھی خاموش ہوگئیں۔۔۔ پس بی بی نے حضرت علی ؑ کے لہجہ میں آواز بلند کی لوگو! آئو نبی زادیوں کا تماشہ دیکھ لو؟ جن کو باغی کہہ کر مغالطہ دیاگیا تھا سب سمجھ گئے کہ یہ باغی نہیں بلکہ خاندانِ رسولؐ کی شہزادیاں ہیں، پس ایک کہرام بپا ہوا اور گریہ کی صدا آسمان تک پہنچی۔۔۔ کہتے ہیں ام ّحبیبہ بھی چھت پر چڑھ کر قیدیوں کا تماشہ دیکھ رہی تھی کہ قریب سے گزرتے ہوئے جناب سکینہ ؑ کے خشک ہونٹوں پر نگاہ ڈالی پس کہنے لگی اے کم سن قیدن شہزادی! میں تجھے پانی پلاتی ہوں میرے لیے تین دعائیں کرو:
ز   جیسے تو کمسنی میں قید ہوئی خدا میری اولاد کو اس مصیبت سے محفوظ رکھے۔
ز   جس طرح تو یتیم ہوئی خدا میری اولاد کو یتیمی میں مبتلا نہ کرے۔
جناب سکینہ ؑ نے یہ دونوں دعائیں دیں اور پوچھا کہ تیسری دعا کیا ہے ؟
ز   امّ حبیبہ نے عرض کیا میں مدینہ میں رہ کر آ ئی ہوں اور جناب زینب ؑبنت علی ؑ سے بہت کچھ سیکھا ہے، جب سے کوفہ میں آئی ہوں میں اپنی مرشد زادی کی زیارت کیلئے ترس رہی ہوں دعا کرو کہ خدا مجھے حج نصیب کرے تاکہ مکہ کے بعد مدینہ جائوں اور اپنی مخدومہ زینب ؑبنت علی ؑ کی زیار ت کر لوں؟
یہ سننا تھا کہ جناب سکینہ ؑخاتون نے اپنے گریہ پر کنٹرول کرتے ہوئے فرمایا اگر تجھے زینب ؑ بنت علی ؑکی زیارت یہاں نصیب ہوجائے تو مدینہ جانے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ کہنے لگی آوارہ ماحول اور کثیف بازار میں تو میری مرشدزادی کا نام لینا بھی ان کی شان کے خلاف ہے بازار کجا اور وہ پردہ کجا؟ جناب سکینہ ؑ خاتون نے فرمایا وقت بدلتے رہتے ہیں اور زمانہ کروٹیں لیا کرتاہے اگر سوئے اتفاق سے بی بی یہاں ہو تو تم اسے پہچان لو گی؟پس جناب سکینہ ؑ نے پھوپھی کی طرف دیکھا تو جناب زینب ؑ خاتون نے خود فرمایا اے امّ حبیبہ! بچی سے کیا پوچھتی ہو؟ میری طرف دیکھو اور مجھے پہچاننے کی کوشش کرو؟ امّ حبیبہ نے جواب دیا چہرہ دیکھا ہوا ہے لیکن پہچان نہیں سکتی۔۔ بی بی نے سر کے پریشان بالوں کو جھٹکا دے کر ایک طرف کیا اور فرمایا میں زینب ؑ بنت علی ؑ ہوں اور سامنے نیزہ پر میرے بھائی حسین ؑکا سر ہے اور عباس ؑو اکبر ؑو قاسم ؑو عون ؑو محمد ؑ سب مارے گئے اور میں اُجڑ کر اسیرہ ہو کر تیرے شہر میں آئی ہوں۔
دربارِ شام میں داخلہ ہوا تو شرابی حاکم شرا ب کے نشے میں مست تھا، پس کھڑے کھڑے قیدیوں کو کافی دیر ہوئی تو اس کمینے نے امام حسین ؑ کے سر کی ایسی بے ادبی کی کہ تمام قیدیوں میں صدائے گریہ بلند ہوئی۔۔ اس نے طشت طلا میں موجود امام حسین ؑ کے سر پر سے رومال ہٹایا اور اپنے ہاتھ کی چھڑی سے دندان مبارک پر چوٹ لگائی۔۔۔ ہائے ہائے کی صدا بلند ہوئی۔
امام محمد باقرؑ کا سن چھوٹا تھا تقریباََ ۴ برس کے قریب اور اپنی ماں فاطمہ بنت حسن ؑ ان کو اٹھائے ہوئے تھیں، تھکا ہوا بچہ ماں کی گود ی ٹھنڈک پاکر ماںکے کندھے پر سر رکھ کر سو گیا۔۔۔ جب یہ گریہ کی آواز بلند ہوئی اورماں کے گرم گرم آنسو امام محمد باقرؑ کے رخساروں پر پڑے تو آنکھ کھلی اور دریافت کیا اماں رونے کا سبب کیا ہے؟ کیا دربار کی پیشی سے گھبرا گئی ہو؟ فرمایا نہیں میرے لعل میںاکیلی نہیں تیری دادی زینب ؑ اور تما م بیبیاں بھی رو رہی ہیں اور تیر ابابا سجاد ؑبھی محو ِگریہ ہے، شہزادہ نے عرض کیا ماں اگر دربار کی پیشی سے گھبرائی ہو تو یہ خیال کرو کہ دادی زہرا ؑ بھی تو دربار میں پیش ہوئی تھیں اورکوئی دوسری وجہ ہے تو فرمائیے؟ بی بی نے فرمایا سامنے فرعونِ وقت تخت پر ہے اور ساتھ تیرے دادا کا سر طشت طلا میں ہے، ہم سب اسلئے رو رہے ہیں کہ وہ کمینہ شراب کے نشہ میں امام حسین ؑ کے دندانِ مبارک پر چھڑی مار کر کہتا ہے اے حسین ؑ کیا یہی شراب حرام ہے؟ اور پھر پیالہ میں بچا ہوا شراب اوپر گرا دیتا ہے؟
وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مُنْقَلَبٍ  یَّنْقَلِبُوْن