التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

چودھویں مجلس -- مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ


چودھویں مجلس
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ

جب بھی اس موضوع پر بیان جاری کیا جائے تو لوگ کہتے ہیں یہ موضوع خشک ہے اوراس موضوع پر بیان کرنے سے مجلس میں خشکی آجاتی ہے؟ اگر ایسا صحیح ہے تو پھر قرآن خشک۔۔ نبوی فرمان خشک۔۔ اوردین سارے کا سارا خشک۔۔ لیکن در حقیقت یہ سب کچھ تر ہے فقط انہیں خشک قرار دینے والے دماغ خشک ہیں۔
جو قرآنی احکام کے رائج کرنے کیلئے امام حسین ؑ نے عظیم الشان قربانی دی تھی کہ جس امام مظلوم ؑکا قصہ آجکل کے بیان کرنے والوں کیلئے لقمہ تر کا موجب ہے کیا وہ امام انہی خشک احکام کامبلّغ تھا؟ اگر اُسی امام کا زمانہ اقتدار ہوتا تو بے نماز کو قتل کیا جاتا اور زانی کو رجم کیا جاتا۔۔ اس وقت دیکھیں کون کہتا ہے کہ حکومت خشک ہے؟
حضرت علی ؑ امام برحق ہیں اورمیں تو سمجھتا ہوں کہ یہ خشک احکام ہیں ہی صرف ان لوگوں کیلئے جو حضرت علی ؑ کو امام سمجھتے ہیں۔۔۔ ورنہ جولوگ مولا علی ؑ سے تعلق نہیں رکھتے ان کو تو اعمال سے فائدہ نہیں، قرآن میں ہرمقام پر ایمان کے بعد عمل کو قید لگا دی گئی ہے اورایمان والوں کو اعمالِ صالحہ کی دولت دی گئی ہے اگر ایمان ولائے علی ؑ کا نام ہے تو نماز ہے ہی مولا علی ؑ والوں کیلئے ۔۔۔۔ و علیٰ ہذالقیاس
دیکھئے۔۔ زبان سے علی علی کہنا عبادت ہے لیکن حضرات یہ خیال رہے کہ باقی اعضا ٔاس نعرہ کی مخالفت کرکے دشمن علی ؑ کا نعرہ نہ لگانے لگ جائیں جناب رسالتمآبؐ نے اہل بیت ؑ کو کشتی نوحؑ کی مثال دی اوران کو کشتی نجات ٹھہرایا۔۔ اب کشتی نوحؑ سے علیحد گی کرنے والا اگر چہ فرزندہے لیکن وہ غرق ہی ہوا اور قرآن نے اس کی وجہ یہ بیان کی  اِنَّہُ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ کہ اس کے اعمال خراب تھے یہ صاف اعلان ہے کہ بدعملی کشتی نجات سے دور کردیتی ہے خواہ کشتی والے کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو؟ اورنجات کے لئے صرف کشتی کی تعریف اورملاحوںکی تعریف کا فی نہیں جب تک ان کی ہدایت کے ماتحت انسان سوار نہ ہو۔۔ بس اہل بیت ؑ کشتی نجات ہیں اور ان کی ہدایت پر عمل کرنا موجب نجات ہے۔
میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اعمال کا بروزِ محشر سوال ہی حضرت علی ؑ والوں سے ہوگا کیونکہ جب پہلے موقف پر ایمان کا جائزہ لیا جائے گا تو تو حید کے دشمن سے نماز کا سوال بے معنی ہے اور نبوت کے منکر سے عبادات کا سوال فضول ہے نیز ولایت کے دشمن سے بھی عبادات کی پرسش بیکا ر ہے کیونکہ توحید ونبوت اورولایت کے دشمن تو بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔۔ ان کے جہنم کے داخلے کیلئے ان کا شرک کفر اورنفاق ہی کافی ہے، کیونکہ ان کے باقی اعمال حبط و ضائع قرار دیئے جائیں گے پس جب تو حید۔۔ نبوت اور ولایت کے سوالات سے فارغ ہو کر مومن اگلے موقف پر پہنچے گا تو دریافت کیا جائے گا کہ نماز بھی پاس ہے یا نہیں؟ تو روزہ دار ہے یا نہیں؟ وعلیٰ ہذاالقیاس
چنانچہ جب بہشتی اوردوزخی اپنے اپنے ٹھکانے لگ جائیں گے اوراپنے بعض جہنمیوں سے بہشتی لوگ ترس کھا کر پوچھیں گے تم جہنم میں کیسے آئے؟ تو وہ جہنمی یہی جواب دیں گے کہ کفر وشرک ونفاق کی وجہ سے ہم جہنمی نہیں ہوئے بلکہ لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْن ہم میں خامی یہ تھی کہ نماز نہیں پڑھتے تھے اور مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے یعنی بصورت وجوب خمس و زکواۃ نہیں ادا کرتے تھے۔۔۔ یہ بہشتی لوگ خود ولائے علی ؑ کے قائل ہوں گے تو جہنمیوں سے پوچھیں گے ورنہ مشرک و کافر ومنافق کا جہنم میں جانا تو باعث تعجب ہی نہیں؟
مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ ایک پلیٹ فارم پر دو گاڑیاں بیک وقت جمع ہوجائیں اور ایک طرف کا ٹکٹ جیب میں ہو تو صرف ٹکٹ منزلِ مقصود تک پہنچانے کیلئے کافی نہیں جب تک اس گاڑی پر سوار نہ ہو جو اس منزل کی طرف جاتی ہے؟ اسی طرح اس دنیا میں جہنم اور جنت کی طرف دو گاڑیاں بیک وقت روانہ ہیں جنت کی طرف جانے والی گاڑی کے ڈرائیور امام حسین ؑہیں اور جہنم کی طرف جانے والی گاڑی کا ڈرائیور یزید ہے۔۔ اب اگرچہ جنت کی ٹکٹ (ولائے علی ؑ) آپ کے پاس ہے تب بھی ٹکٹ جنت تک لے جانے کیلئے کافی نہیں جب تک کہ گاڑی میں سوار نہ ہوں۔۔۔۔ اور علامتیں دونوں طرف موجود ہیں ایک طرف اسلام دوسری طرف نفاق ایک طرف دین دوسری طرف بے دینی۔۔۔۔ ایک اور مثال یوں سمجھئے کہ اگر کوئی سخی ہمارے دامن میں کوئی چیز ڈال دے تو اس کو باحفاظت منزل تک لے جانا ہمارا فرض ہے۔۔۔ اسی طرح امام حسین ؑ نے قربانی دے کر دین اسلام اور قرآن و شریعت ہمارے دامن میں رکھ دئیے اب انہیں محفوظ لے کر آگے بڑھنا ہمارا فرض ہے۔
پس ذاکر اور واعظ کے بیان میں صرف یہی فرق ہے ورنہ مقصد دونوں کا ایک ہے ذاکر کہتا ہے کہ اسلام امام حسین ؑ کے دروازہ سے ملتا ہے اور واعظ کہتا ہے کہ اس کو ضایع نہ کرنا بلکہ اس کی حفاظت کرنا۔۔۔ نیز ذاکر کہتا ہے کہ جنت کی ٹکٹ مولا علی ؑ کے دروازہ سے ملتی ہے اور واعظ کہتا ہے کہ وہ ٹکٹ تو مل گیا اب ذرا مقامِ عمل میں بھول کر دوسری گاڑی پر سوار نہ ہونا؟
ہم نے دیکھا ہے جو بھی اس گاڑی پر سوار ہوئے وہ پار ہوئے۔۔ ہمارے سامنے شہدائے کربلا کی طولانی فہرست موجود ہے مرد تو بجائے خود اس قافلہ کی مستورات نے جوجو قربانیاں پیش کیں مردوں کا دل ہلادینے کیلئے کافی ہیں!   امام حسین ؑ نے شب دہم جائزہ لیا تو دیکھا ہر بی بی اپنی قربانی کو تیار کر رہی تھی: جناب لیلیٰ اپنے لخت جگر ہمشکل پیغمبر شہزادہ علی اکبر کو۔۔۔ حضرت امّ فروہ اپنے نور نظر شہزادہ امیر قاسم کو اسی طرح جناب زینب عالیہ اپنے دونوں شہزادوں عون و محمد کو تیار کر رہی تھیں۔۔۔ہائے رے قسمت جناب امّ کلثوم؟ جیسا کہ عام طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ جناب امّ کلثوم اپنی قسمت پر رو رہی تھیں۔

نوحـہ
ہائے مخدومہ دو عالم دی کیوں وچ دربار بلائی گئی ہے
بازاراں دے وچ بنت علی دی کیوں تشہیر کرائی گئی ہے
ڈسو آل نبی دا جرم ہا کیا کیوں شام دے وچ اے ظلم تھیا
کیوں دھی مظلوم مسافر دی ہک چولے وچ دفنائی گئی ہے
جئیں شہر مدینہ ٹر نہ ڈٹھا اُکوں شہر دمشق اچ ٹرنا پیا
کیوں بنت علی بازاراں وچ ہر موڑ اُتے رکوائی گئی ہے
پچھیا عبداللہ ڈس بی بی کیوں گسنیاں تے ہن گس بی بی
فرمایا زینب قید رہی ہاں میکوں سخت زنجیر پوائی گئی ہے
بہوں دل وچ درد ہن کیا بو لا ں آوے مہدی راز سارے کھولاں
 جیڑھی ٹر ناھی سگدی گھر دے وچ کیوں نو نو میل ٹرائی گئی ہے
ہے ملکہ ملک شرافت دی اَتے ناصرہ پاک شریعت دی
تائیں علَم شبیر دی عظمت دا وچ شام دے نصب کرا گئی ہے