التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

پانچویں مجلس -- مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  --  مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ

میں نے جنوں اورانسانوں کو نہیں پیداکیا مگر اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں یامجھے پہچانیں۔۔ عبادت فرع ہے معرفت کی اورپھر جس قدر معرفت ہوگی اسی قدر عبادت ہوگی مثلاً جو شخص شیر کو نہیں پہچانتا اس سے نہیں ڈرتا اورجب پہچان لیتا ہے تو خوف اس کے اندر آجاتا ہے اسی طرح اگر حکومت کاوعدہ ہوکہ فلاں عمل پر اس قدر انعام ہوگا اورفلاں جرم کی اس قدر سزا ہوگی تو یقین حاصل کرنے کے بعد انعام کی طرف قدم بڑھے گا اورجرم سے طبیعت کنارہ کش ہوگی حالانکہ دنیاوی حکومت میں خلاف وعدہ کا احتمال بھی ہوا کرتا ہے لیکن خدامیں یہ بات نہیں ہے کیونکہ خلاف وعدہ کے لئے کوئی داعی چائیے کہ خزانہ کی کمی کاخطرہ، تہی دستی کا بہانہ یاکوئی مجبوری لیکن وہاں کوئی خطرہ نہیں وہ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر ہے، نہ اس کی سزا سے کوئی بچائو ممکن ہے اورنہ اس کی جزا سے کوئی رکاوٹ ہوسکتی ہے اوروعدہ بھی بار بار کیا ہے تو کیا وجہ ہے کہ انسان اس کی اطاعت کی طرف قدم نہیں اُٹھاتا؟ پس سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کی ذات کی معرفت نہیں ہے۔
سب سے پہلے انسان سوچے کہ مجھے جو اس نے پیدا کیا ہے کیا یہ اس کا لطف وکرم اوراحسان نہیں ہے؟ اس اللہ کو کیا ضرورت تھی؟ نہ اس کو دشمن کا خوف، نہ ملک کے سلب ہونے کا ڈر، نہ وحشت وتنہائی کا خطرہ اورنہ قوت وفوج حاصل کرنے کاطمع حتی کہ نہ عبادت واطاعت کی ہوس و تشنگی۔۔۔ کیونکہ اس سب کچھ کے بغیر بھی وہ جامع جمیع صفاتِ کمال تھا اوراب بھی ہے پس صرف احسان وفضل سے سب مخلوق کو پیدا کیا اورجس طرح پیدا کرنے میں وہ کسی کا محتا ج نہیں اب سب مخلوق کے باقی رکھنے میں بھی وہ کسی کا پابند نہیں ہے اورنہ مجبور ہے بلکہ جس طرح اس کو پیدا کرنے میں دیر نہیں لگی اسی طرح فنامیں دیر نہیں لگے گی یعنی جس طرح  کُنْ  سے ایجاد واقع ہوئی اسی طرح وہ کُنْ سے فنا بھی کرسکتا ہے اورخداوند کریم نے اپنی عبادت کی تحریک کیلئے تین ذرائع بیان فرمائے ہیں:  احسان کا ذکر ،  اطاعت کے بدلہ میں جنت کی پیشکش،  نافرمانی کی سزا جہنم کا ذکر۔
دیکھئے اس نے تین ظلمتوں میں انسان کی تصویر کشی کی۔۔۔۔ چنانچہ فرمایا:  فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ     اپنا پردہ ،  رحم کا پردہ ،  شکم کا پردہ
اس تاریک درتاریک مقام میں تصویر اتنی کامل کہ کوئی نقص نکالنے کی جرأت نہ کرسکے حالانکہ فوٹو کیلئے روشنی کی ضرورت ہوا کرتی ہے اورلطف یہ کہ منہ کے تھوڑے سے رقبہ میں کروڑہا شکلیں بنائیں کہ ایک دوسری کے مشابہ نہیں بلکہ ہرعضو انسانی دوسرے انسان کے اس عضو سے جدا شکل میں خلق فرمایا اورانسان اگر اپنی بدنی کیفیات میں دھیان دے تو اسے ہر کیفیت اپنے خالق و مدبر کا پتہ دیتی ہے، بدن کے ایک حصہ میں درد کھڑا ہو جائے تو یہ انسان اس کے ختم کرنے کے لئے ہزار جتن کرتا ہے خود کوشش کرتا ہے، پیر ومرشد سے دم کراتا ہے، مسجد وروضہ کا طواف کرتا ہے اورپھر بھی اس کی تکلیف ساری کائناتِ جسم کے لئے جان لیوا بنی رہتی ہے تو انسان کے لئے تنبیہ ہے کہ یہ عضو تیری ملکیت میں نہیں کیونکہ اگر تیرا مملوک ہوتا تو تجھے اس قدر ذلیل نہ کرتا؟ پس وہ اپنی زبانِ بے زبانی سے صاف پکاررہاہوتا ہے کہ یہ خداکی ملکیت ہے وہ جوچاہیے اس میں تصرف کرسکتا ہے اورانسان کی ملکیت صرف زبردستی اورتحکم کی حیثیت رکھتی ہے۔
لطف تب ہے کہ انسان اپنے اختیار سے پہلے اپنے اعضا ٔ کو خداکی ملکیت قرار دے۔۔ آنکھ آنکھ رہ کر اس کی ہوجائے ورنہ نابیناہونے کے بعد تو بہ کرنے کا کیا فائدہ؟ اسی طرح ہاتھ۔۔ پائوں۔۔ کان۔۔ زبان۔۔ وغیرہ بحالت تندرستی اس کی اطاعت کا دم بھریں تو لطف ہے:
درجوانی توبہ کردن شیواء پیغمبری
وہ اللہ جس نے کتم عدم سے انسان کو خلعت وجودعطا فرمایا، انسان کی دنیا میں آمد سے قبل اس کے ماں باپ کو رحیم دل عطا فرمایا جومدت سے اس نووار د مہمان کی انتظار میں شب وروز گھڑیاں گن رہے تھے۔۔ آرام کیلئے ماں کی نرم گود موجود، خدمت کے لئے باپ کی توانائی حاضر، محبت کے لئے اقربا ٔ کا رحیم دل موجود،غذا کیلئے اس کی طبیعت کے موافق و معقول انتظام موجود، غرضیکہ اس نووارد کو ذرّہ بھر تکلیف نہیں کرنی پڑتی اوربسم اللہ پڑھ کے بلانے والے پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔۔۔ شکم مادر میں خون جو بچہ کی خواراک بنتا ہے اس کو بصورت دودھ ماں کے سینے کی دونہروں سے خدا طاہر فرمادیتا ہے تاکہ جس ماحول سے آیا ہے اسی ماحول کی غذاکچھ عرصہ تک کھائے اوراس پاکیزہ زندگی میں پہلے سے زبان کو دودھ جیسی پاک غذا کا عادی بنائے کیونکہ وہ دنیاکی سخت غذائوںکا متحمل نہیں ہوسکتا، نیز یہ بھی اشارہ ہے کہ آئندہ چل کر اس منہ کو ناپاک غذائوں کا عادی نہ بنائے اورمنہ کو پاک رکھنے کی ابتدأ خاک شفا یاشہد سے کرائی جاتی ہے تاکہ بعد میں اس کو طہارت کا احساس رہے اورپھر ماں کے سینے سے اس کی غذا کا سلسلہ جاری ہوتا ہے جواس کی طبیعت کے لئے موزوں ومناسب ہوتا ہے۔
 امام علی رضاؑ کے طبی اصولوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسافراگر دورانِ سفر اپنے وطن کی مٹی ساتھ رکھے اورپانی میں ذرّہ بھر ملاکراس کو پیتا رہے تو مخالف آب وہوا کا اس پر اثر نہ ہوگا۔
خدا وند کریم نے بچے کی سابقہ غذا (خون) کو دودھ کی شکل میں تبدیل کر کے یہاں مہیا کیا ہے تاکہ اس ماحول کی آب و ہوا اس کی مخالف نہ ہو۔۔۔ پھر رفتہ رفتہ جب ماحول سے مانوس ہو چُکتا ہے تو آہستہ آہستہ دنیاوی غذائوں کا عادی بنایا جاتا ہے۔
ابتدأ میں اس کا نازک حلق چونکہ دودھ کی تیز دھار کے برداشت کے قابل نہیں ہوتا اسلئے خدا وند کریم نے اپنی حکمت کاملہ سے دودھ کی ہر نہر کو سولہ سولہ سوراخوں میں منقسم کر دیا ہے تاکہ مناسب مقدارمیں مناسب رفتار سے دودھ خارج ہو اور بچے کا نازک حلق اس کو آسانی سے برداشت کر سکے اور رفتہ رفتہ جب بچہ دنیا کی سخت غذائوں کوہضم کرنے کے قابل ہوتا ہے توخدا اس کے منہ میں دانت پیدا کرتا ہے تا کہ سخت غذائوں کو نرم بنا سکے ظاہری دانت کاٹنے کیلئے اور پہلو والے چبانے کیلئے ہوتے ہیں تاکہ غذا کا معدہ پر بوجھ نہ پڑے پس اس کی خلقت کی لطافت و دقت پر نظر دوڑانے سے خالق حکیم کی عظمت کا پتہ چلتا ہے اور یہ چیز انسان کو اپنے خالق کے سامنے جھکنے پر مجبور کرتی ہے۔
لیکن وائے ہو انسان پر کہ وہ حسن کے سامنے جھک جاتا ہے،طاقت کے سامنے جھک جاتا ہے،معمولی سے معمولی فائدہ کے سامنے جھک جاتا ہے اور اس محسن حقیقی کے سامنے نہیں جھکتا جس نے کتم عدم سے خلعت وجود سے نوازا؟
قدم قدم پر سالکہ منزل عرفان جناب زینب کی منازل درد کا تصور سامنے آجاتا ہے۔۔۔ اللہ رے اس مخدومہ کی عظمت بھائی کی لاش سے ہٹ کر کہہ رہی ہیـــ اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنَّا ھٰذَا الْقَلِیْلَ الْقُرْبَان اے اللہ زینب کی اس مختصر سی قربانی کو منظور فرما۔
ہائے پر ارمان بی بی!  میں کہا کرتا ہوں بھائی جوان عزیز ہوتے ہیں لیکن جوان بہن شرفا کو زیادہ عزیز ہوتی ہے اگر بھائی کو کوئی جھڑک دے تو دل برداشت کر لیا کرتا ہے لیکن بہن۔۔۔۔؟ ہائے مولا حسین ؑ یہ تیرا ہی کام تھا اسی طرح شریفوں کو جوان بیٹے سے جوان بیٹی زیادہ عزیز ہوا کرتی ہے۔۔۔ بیٹے کا جھڑکا جانا برداشت کیا جاتا ہے لیکن بیٹی کا جھڑکا جانا برداشت نہیں ہوتا ہائے امام حسین ؑ نامعلوم سکینہ نے کس طرح فریاد کی ہوگی اور تو نے کس طرح برداشت کیا ہوگا؟ شب یاز دہم شہزادی نے بابا کی لاش پر پہنچ کر کیسے کہا ہوگا  بابا تیرے بعد مجھے ظالم جھڑکتے ہیں  میرے دُرّ کانوں سے اتار لئے گئے ہیں؟
 امام سجاد ؑ کیوں نہ روتے کسی کے پردہ دار بازار سے گزر کر دیکھیں تو پتہ چلے؟ خدا کی قسم ہزار قسم کے پردہ کے انتظامات ہوتے ہیں کاروں میں تانگوں میں لیکن پھر بھی شریف کا دل برداشت نہیں کر سکتا وہ چاہتا ہے کہ کوئی نظر اٹھا کر نہ دیکھے حالانکہ انتظامات موجود ہوتے ہیں  ہائے زینب۔۔ نہ چادر۔۔ نہ مقنعہ اور ہاتھ بھی رسن بستہ اور ہر طرف اعدا کا مجمع ؟
ایک مرتبہ کسی نے امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں عرض کیا حضور آپ ؑ روتے کیوں ہیں؟حالانکہ قتل ہوتا تو آپ کا فخر ہے؟ آپ ؑ نے فرمایا تو نے انصاف نہیں کیا بے شک قتل ہونا تو ہمارا  ورثہ اور ہمارے لئے باعث فخر ہے لیکن کیا مائوں، بہنوں، پھوپھیوں،بیٹیوں کا قید کر کے بے پردہ در بدر پھرایا جانا بھی ہمارا فخر ہے؟