التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

اَٹھائیسویں مجلس -- اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ


بروز چہلم ۲۰ صفر المظفر بمطابق ۱۴  اکتوبر ۱۹۸۷؁

اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو مجھ (محمد مصطفیؐ) کی اتباع کرو پھر اللہ تعالیٰ بھی تم سے محبت کرے گا۔
لوگو!  اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو تمہیں یہ محبت ہر گز فائدہ نہ دے گی جب تک وہ تم سے محبت نہ کرے، اسلئے کہ میں جس سے محبت کروں مجھے اس محبت کا کوئی فائدہ نہیں جب تک وہ مجھ سے محبت نہ کرے۔
یاد رکھئے!  محبت یا نفرت بغیر سبب کے نہیں ہوا کرتی، ویسے مادّہ محبت اور نفرت ہر انسان میں ہے لیکن اس کا وجود میں آنا محتاجِ اسباب ہے۔۔ اگر اسبا ب کے بغیر محبت ہوتی تو ہر ایک کو ہر ایک سے ہوتی، اسی طرح نفرت بغیر اسباب کے ہوتی تو بھی ہر ایک کو ہر ایک سے ہوتی، کسی سے ہونا اور کسی سے نہ ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ جہاں اسباب محبت ہوں گے وہاں ہوگی ورنہ نہ ہوگی۔
ہر انسان کے ذہن میں سبب محبت الگ الگ ہے۔۔ اسی لئے محبت الگ الگ ہے، یعنی ہر انسان نے محبت کے لیے ایک معیار مقر کیا ہوا ہے اور اس کی محبت اسی معیار کے ماتحت ہوتی ہے، کسی کے نزدیک میعار حسن ہے تو محبوب وہی ہو گا جو حسین ہو۔۔ کسی کے نزدیک میعار محبت علم ہے پس محبت وہاں ہوگی جہاں علم ہو۔۔ کسی کے نزدیک معیار محبت وفا ہے پس محبت وہاںہو گی جہاں وفا ہو۔۔ کسی کے نزدیک معیار محبت دولت ہے محبت وہاں ہوگی جہاںدولت کی امید ہو۔۔ کسی کے نزدیک معیار محبت کرسی ہے تو محبت وہاں ہو گی جہاں کرسی ملنے کا امکان ہو اور کسی کے نزدیک معیار محبت ایمان ہے تو محبت کامحور ِایمان ہو گا اور کسی کے نزدیک محبت کا معیار دین ہے محبت دین والے سے ہوگی۔
اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ ہر مختلف الخیال طبقہ کے معیار کے مطابق میں ہر ایک کے محبوب بننے کی صلاحیت رکھتا ہوں اسلئے کہ میں ہر معیار پر پورا اُترتا ہوں کیونکہ محبت کا جو بھی معیار تجویز کرو گے وہ مجھ میں موجود ہے، حسن کا خالق ہوں۔۔ دولت کا مالک میں ہوں۔۔ اقتدار کی کرسی میرے ہاتھ میں ہے بہرحال وہ کونسی شئے ہے جس کے تم طالب ہو؟ اور وہ میرے پاس موجود نہ ہو؟
اے اغراض کے ماتحت محبت کرنے والو!  یاد رکھو۔۔ تم کبھی بغیر غرض کے محبت نہیں کرتے بلکہ باپ بھی بیٹے سے اگر محبت کرتا ہے تو غرض ملحوظ ہوا کرتی ہے اگر بیٹا باپ کی غرض پر پورا نہ اُترے تو بیٹا عاق کر دیا جاتا ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں ہر صاحب غرض کی غرض کو پورا کرسکتا ہوں لہذا مختلف الخیال ہوتے ہوئے بھی تم لوگ اگر مجھ سے محبت کرو تو میں لائق محبت ہوں۔
میرے ساتھ محبت کرو کیونکہ میں محبت کے قابل ہوں، لیکن کیا تم بھی محبت کے قابل ہو کہ میں تم سے محبت کروں؟  یکطرفہ محبت ناکام محبت ہے اگر تم محبت کرو او ر میں تم سے محبت نہ کروں تو تمہاری محبت کس کام کی؟
نالائق ہے وہ محب جو محبوب میں تو اپنا معیار پرکھے اور اپنی اغراض کو ڈھونڈے لیکن اپنے اندر محبوب کی محبت کا معیار پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے اور یہ نہ سوچے کہ جس سے میں محبت کرتا ہوں آیا اس کا بھی کوئی معیار ہے تاکہ وہ میرے اندر ہو؟ اور وہ بھی مجھ سے محبت کرے؟
ہم نے ہر دعویدارِ خدائی کو خدا نہیں مانا بلکہ جس میں معیارِ خداوندی یعنی صفاتِ ثبوتیہ اور سلیبہ موجود ہیں اس کو خداتسلیم کیا۔۔ اسی طرح ہر مدعی نبوت کے سامنے نہیں جھکے بلکہ جس میں معیارِ نبوت تھا اس کا کلمہ پڑھ لیا۔۔ اسی طرح ہمارا امامت کے بارے میں بھی معیار مقر ر ہے ہم اُسی کو امام مانتے ہیں جو معیارِ امامت پر پورا اُترتا ہو لیکن یہ کبھی نہیںخیال کیا کہ آیا شیعہ او ر مومن ہونے کا بھی کوئی معیار ہے جس پر ہم نے پورا اُترنا ہے؟ خداو رسول و آئمہ کے نزدیک مومن اور شیعہ کیلئے کونسی صفات کا ہونا ضروری ہے؟ تاکہ وہ صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
ہماری خداو رسول و امام سے اغراض وابستہ ہیں۔۔ لہذا ہم ان سے محبت کرتے ہیں اور یہ فطرت ہے کہ دینے والے سے محبت کی جاتی ہے لینے کے لالچ میں اور مارنے والے سے محبت کی جاتی ہے اس کی گرفت سے بچنے کے لیے، چنانچہ باپ کی اطاعت کرنے میں اولاد کی تین قسمیں ہیں:
ز   وہ ہے جو باپ کی اطاعت اس لیے کرتی ہے کہ وہ کچھ دے گا۔
ز   وہ ہے جو باپ کی فرمانبردار ہے کہ نہ کرنے کی صورت میں وہ سزا دے گا۔
ز   لائق اولاد وہ ہے جو باپ کی اطاعت اسلئے کرتی ہے کہ وہ باپ ہے۔
 اسلئے کہ لالچ میںآکر اطاعت کرنے والے کی اطاعت مزدور جیسی ہے جس طرح مزدور کام کرتا ہے کچھ لینے کے طمع میں  اور  سزا کے ڈر سے اطاعت کرنے والا غلام کی مثل ہے جو آقا کے ڈر سے اس کی اطاعت کرتا ہے۔
اس مقام پر حضرت علی ؑ کا نظریہ ملاحظہ فرمائیے کہ بارگاہِ ربوبیت میں عرض کرتے ہیں اے اللہ!  میں تیری اطاعت تیری جنت کے لالچ میں نہیں کرتا اور نہ اسلئے اطاعت کرتا ہوں کہ مجھے جہنم کاڈر ہو بلکہ اس لیے تیری عبادت کرتا ہوں کہ تو عباد ت کے لائق ہے یعنی میں تیری اطاعت میں نہ مزدور ہوں اور نہ غلام بلکہ اس معاملہ میں آزاد ہوں اور تجھے عبادت کے لائق جان کر ہی تیری عباد ت کرتا ہوں۔
چنانچہ ایک مقام پر امام علی ؑکا ارشاد ہے اے اللہ! میرے فخر کے لیے اتنا کافی ہے کہ تو میرا پروردگار ہے اور میری عزت کے لیے کافی ہے کہ میں تیر ا عبد ہوں۔
ایک مقام پر فرمایا اے اللہ!  تو میرا وہ ربّ ہے جس کو میں پسند کرتا ہوں اور مجھے اپنا ایسا عبد بنا جسے تو پسند کرتا ہے۔۔ یعنی تو میر ا ربّ مرتضیٰ ہے اور مجھے اپنا عبد مرتضیٰ بنا دے۔
اسی لئے بعض عارفین نے کہا نے کہ اوّلین وآخرین کے عارفانہ کلمات کو اگر اکٹھا کر کے کتابوں کے طومار لگا دیئے جائیں تو حضرت امیر المومنین ؑ کے ایک کلمہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔۔ یعنی اگر ترازوئے عدل پر تولا جائے تو تمام عارفین کے تمام جملے ایک پلڑے میں ہوں اورحضرت علی ؑ کا صرف ایک جملہ دوسرے پلڑے میں ہو تو تمام عارفین کے معرفت آموز کتابوں کے طومار کا پلڑا اُٹھتا نظر آئے گا اور حضرت علی ؑ کے صرف ایک یہ جملہ کا پلڑا جھکتا نظر آئے گا۔
معاشرتی عدل کی تمام جزئیات کو صرف ایک جملہ میں بند کرتے ہوئے آپ نے سمندر کو ایک کوزے میں بند کر دیا۔۔ چنانچہ امام حسن مجتبیٰؑ سے فرمایا بیٹا ! لوگوں سے برتائو کرنے میں اپنے نفس کو معیار قرار دو، پس لوگو ں کے لئے وہ پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو اور ان کے لئے وہ چیز پسند نہ کرو جو اپنے لئے پسند نہیں کرتے، یعنی جس طرح اپنے لئے احسان کو پسند کرتے ہو اور ظلم کو پسند نہیں کرتے  اسی طرح لوگوں کے ساتھ بھی تمہارا برتائو احسان کے ساتھ ہو ظلم کے ساتھ نہ ہو اور جس طرح اپنے لئے گالی گلوچ پسند نہیں کرتے بلکہ ذکرِ خیر کو پسند کرتے ہو اسی طرح تمام لوگوں کے لئے گالی گلوچ کو پسند نہ کرو بلکہ ذکرِ خیر کو پسند کرو، جس طرح اپنے لئے عفوو درگزر کو چاہتے ہو لوگوں کے لیے بھی عفو و درگزر کا برتائو رکھو، یعنی تمام معاشرتی معاملات میں اپنے نفس کو معیار قرار دو۔۔۔۔ گویا آپ نے نہایت مختصر پیرا میں معاشرہ کے تمام احکام کی جزئیات کو سمو کر رکھ دیا۔
اس مقام پر حضرت علی ؑ کے ایک شاگردِ خصوصی کا تذکرہ کردوں جس کا نام ہے جناب ابو ذر غفاری، جس کے متعلق حضرت پیغمبرؐ نے فرمایا تھا  مَا أقَلَّتِ الْغَبْرَ وَ لا أظَلَّتِ الْخَضْرَائَ عَلٰی ذِیْ لِھْجَۃٍ أصْدَقُ مِنْ أبِیْ زَر یعنی زمین کے خاکی فرش کے اوپر اور آسمان کی نیلی چھت کے نیچے کسی ماں نے ایسا بچہ نہیںجنا جو ابو ذر سے زیادہ سچی زبان رکھتا ہو۔
جناب ابوذر کا ربذہ میں ایک راہگزر مسافر مہمان ہوا تو انہوں نے اپنا قیمتی اونٹ نحر کرکے اس کی ضیافت کی۔۔ اس مہمان نے گزارش کی کہ میں تو بہت کم کھا سکتا ہوں اس پورے اونٹ کو نحر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ تو آپ نے جواب دیا مال کے چار طالب ہیں:
ز   موت مال کو طلب کرتی ہے کہ خدا جانے کس وقت مالک مرے۔
ز   چوراس کا طالب ہے کہ کس وقت مالک غافل ہو اور وہ لے جائے۔
ز   وارث اس کا طالب ہے کہ کب مالک مرے گا اور میں مالک بنوں گا۔
ز   خود مالک۔۔ تو وہ کس قدر کمزور مالک ہے جو قدرت رکھنے کے باوجود باقی تین امیدواروں کے لیے مال کو چھوڑدے اور اس کو اپنے استعمال میں نہ لائے؟
جناب ابوذر کے جواں سال فرزند ذَر کا ربذہ میں انتقال ہوا تو اس کی قبر کے سرہانے بیٹھ کر انہوں نے ایک درس آموز جملہ فرمایا اور وہ یہ کہ اپنے بیٹے کے لیے دعا ئے مغفرت کرتے ہوئے عرض کیا اے پروردگار!  یہ مرنے والا میرا بیٹاہے اور تیرا بندہ ہے میں اس کا باپ ہو کر اس پر عائد شدہ تمام فرائض و حقوق کو معاف کرتا ہوں اور جب میں باپ ہوکر اس کو معاف کرتا ہوں تو خالق ہوکر اپنے اس بندے کو کیسے معاف نہیں کرے گا؟ بس تو بھی معاف کردے۔
بہر کیف میں اس بات کو بیان کررہا تھا کہ ہم اللہ تعالیٰ سے تو محبت کرتے ہیں کہ وہ محبت کے قابل ہے دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم بھی اس قابل ہیں کہ وہ بھی ہم سے محبت کرے؟ اور ہم کس معیار پر پورے اتریں تاکہ وہ ہم سے محبت کرے اور ہم فَاذْکُرُوْنِیْ أذْکُرُکُمکے مصداق ہوجائیں، پس ہم فرشِ زمین پراس کا ذکر کریںاور وہ عرشِ بریں پر بزمِ ملائکہ میں ہمار اذکر کرے۔
قرآن مجید میں خداوند نے اپنی محبت کا معیار بتایا ہے کہ اے میرے حبیب! ان لوگوں سے کہہ دیجئے اگر تم مجھ سے محبت کرو او رچاہو کہ اللہ بھی تم سے محبت کرے تو میرے محمدمصطفی کی اتباع کرو پس میں تم سے محبت کرلوںگا، کیونکہ حضرت محمد مصطفی کے دوست کو میں اپنی محبت سے محروم نہیں رکھتا اور حضرت محمد مصطفی کے دشمن کو اپنی محبت کے قابل نہیں جانتا۔
پس شیعہ قوم کے نزدیک دین ہے حضرت محمد مصطفی کے قول و عمل کی متابعت (تابعداری) ہم قلت و کثرت کو معیار نہیں سمجھتے بلکہ حضرت محمد مصطفی کی اطاعت ہی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔۔ پس ہمار ا دین جذبات کی پیروی نہیںبلکہ حضوؐر کی اطاعت ہے اور ہماری محبت بھی جذباتی نہیں بلکہ حضورؐ کے فرمان کے تابع ہے، پس اُن سے محبت کریں گے جن کے متعلق یقین ہو کہ حضوؐر کی اُن سے محبت تھی او ر اسی کا نام تولیٰ ہے اور اُن سے نفرت کریں گے جن سے حضوؐر کو نفرت تھی اور اس کا نام تبرا ہے۔۔۔ پس تولیٰ یا تبرا گالی گلوچ کا نام نہیں نہ کسی پرہٹ اور نہ کسی کی توہین مقصود ہوتی ہے بلکہ یہ دین ہے کہ ہر نیک اور نیکی سے محبت ہو اور ہر بد اور برائی سے نفرت ہو، پس اگر ہمارا اپنا بیٹا حضرت محمد مصطفی کا غلام نہ ہو تو ہم اپنے بیٹے کو چھوڑدیں گے او راگر ہمارا خاندان آپؐ کا غلام نہ ہوا تو وہ خاندان چھوڑ دیں گے اور اگر ہمارا باپ بھی حضور ؐ کا غلام نہ ہو تو ہم اس سے بھی قطع تعلقی کر لیں گے لیکن حضور ؐ کی اطاعت و تابعداری کو چھوڑنا ہم کسی قیمت پر برداشت نہ کریں گے۔
حضرت علی ؑ سے اسلئے محبت کرتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی کو ان سے محبت تھی، پس امام علی ؑ سے محبت جذباتی نہیں بلکہ مشیّاتی ہے اور ہمار ا علی ؑ علی ؑ کرنا دکانداری نہیں بلکہ ایمانداری ہے۔۔ پس حضرت علی ؑ کی محبت ہماری جان ہے۔۔ ہماری آن ہے۔۔ ہماری شان ہے۔۔ ہمارا ایمان ہے اور مولا علی ؑ کا دشمن ہمارے نزدیک فرعون ہے۔۔ ہامان ہے۔۔بے ایمان ہے او رشیطان ہے۔
ہم جنابِ بتول معظمہ خاتونِ جنت سے محبت رکھتے ہیں کیونکہ حضوؐر کی ان سے محبت تھی، پس ہم جنابِ زہرا ؑ کے روح کو خطاب کر کے عہد کرتے ہیں اے بنتِ رسول اور امام حسین ؑکی ماں!  ہمار ا عہد ہے کہ ہم ہر آدمی سے صلح کر سکتے ہیں لیکن آپ کے دشمن سے نہ ہمارے بزرگوں نے صلح کی نہ آج ہم صلح کرتے ہیں اور نہ قیامت تک آنے والی ہماری نسلیں ان سے صلح کریں گی۔۔۔ اپنے بچوں کے قاتل کو شاید ہم کسی وقت معاف کردیںلیکن آپ کی اولاد کے قاتلوں کو ہم کبھی معاف نہ کریں گے۔
کیونکہ اپنے بچوں کے قاتلوں کو معاف کرنا جذبات کشی ہے اور آپ کی اولاد کے قاتلوں کو معاف کرنا ایمان کشی ہے۔۔۔ ہم اپنے جذبات پر تو پانی پھیر سکتے ہیں لیکن ایمان کشی نہیں کر سکتے۔
ہم امام حسین ؑ سے اس لئے محبت کرتے ہیںکہ حضوؐر کو ان سے محبت تھی، ایک شاعر نے ایک نعت لکھی ہے:
تیری خیر ہووے پہرے دارا روضے دی جالی چم لینڑ دے
اَساںویکھڑاں اے رب دا نظارہ روضے دی جالی چم لینڑ دے
غالباََ اس شخص نے روضہ رسول ؐ کے سامنے کھڑے ہوکر یہ نعت لکھی ہے کیونکہ نجدی لوگ قبر رسول ؐ یا روضہ نبی کو بوسہ دینا بدعت کہتے ہیں اور جو بھی پیغمبرؐ کے روضہ کی جالی کو چومے بدعت بدعت کہہ کر اسے پیچھے دھکیلتے ہیں اورجو ضد کرے اسے تازیانے مارتے ہیں۔۔۔ تو غالباََ اس شاعر صاحب کو بھی روکا گیا ہو گا تو اس نے عرض کیا تیری خیر ہو مجھے یہ جالی چومنے دے۔
میںاس شاعر سے کہوں گا کہ سارا زمانہ اسے بدعت کہے شیعہ قوم بدعت نہ کہے گی اور نہ شرک کا فتویٰ دے گی۔۔۔ کیونکہ چومنے والا تو جالی کو حضرت محمد مصطفی ؐ سمجھ کر چومتا ہے نہ کہ اس کو اپنا خدا مانتا ہے تو شرک کیسے؟ البتہ چونکہ اس جالی کو حضور ؐ سے نسبت ہے لہذا جالی کا چومنا صرف نسبت کا ہی احترام ہے۔
لیکن میں گزارش کروں گا اے جالی کو چومنے والے!  یہ جالی جس کو چومنے کا تو خواہش مند ہے نہ تو حضورؐ نے اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی او رنہ یہ جالی حضور ؐ کے جسم اطہر سے مس ہونے کا شرف رکھتی ہے؟ تاہم نسبت کا احترام ہے بیشک جالی کو بوسہ دو لیکن یہ یاد رکھو کہ امام حسین ؑ وہ ہیں جن کو جالی والا خود چومتاتھا۔۔ اُٹھا اُٹھا کر۔۔ گود میں بٹھا بٹھا کر۔۔ سینے پر لٹا لٹا کر اور گلے سے لگا لگا کر پیار کرتا تھا۔
ایک دن امام حسین ؑآئے تو حضورؐنے اپنے سینے پر لٹا کر منہ اور گلا چوما۔۔ سینے کا بوسہ دیا۔۔ پھر پہلو سے قمیص الگ کر کے پہلو پر بوسہ دیا، بتول معظمہ نے روکر عرض کیا بابا ! بچوں کا منہ ہر ایک چومتا ہے لیکن باقی اعضا ٔ کے چومنے کا کیا مقصد؟ روکر فرمایا میں ان مقامات کو بوسہ دے رہا ہوں جہاں تیر۔۔تلواریں اور نیزے پڑیں گے۔
ایک دفعہ ایک بی بی نے منافقت کو چھپا کر پیار کے انداز سے عرض کیا حضور ؐ ! یہ بچہ آپ کو تنگ کر تا ہے میں اس کو آپ کے سینے سے اٹھا کر الگ کر دوں؟ تو آپ کے تیور بدلے اور فرمایا تو اس بچے کو کیا سمجھتی ہے؟ جب تیری قوم خواب غفلت میں ہو گی اور دین ظلم کے طوفانوں میں گھر جائے گا تو میرا یہ بچہ اپنا سب کچھ قربان کرکے میرے دین کی حفاظت کا بندوبست کرے گا۔۔۔ پس جس شخص نے اس کے حق کو جانتے ہوئے اس کی شہادت کے بعد اس کی قبر کی زیارت کرلی تو اس کو میرے ساتھ کئے ہوئے حج کے برابر حج کا ثواب ملے گا،تو اس نے ازراہِ حیرت کہا حج کا ثواب؟ تو آپ نے فرمایا دو حجوں کا ثواب۔۔ پھر اس نے ازراہِ تعجب اپنا سوال دہرایا کہ دو حجوں کا ثواب؟ تو آ پ نے فرمایا پانچ حجوں کا ثواب۔۔ بہر کیف اس کا تعجب بڑھتا گیا اور زبانِ وحی ترجمان سے ثوابِ زیارت میں اضافہ ہو تاگیا حتیٰ کہ حضور ؐ نے فرمایا جو میرے اس بے گناہ مقتول فرزند کے مزار کی زیارت سے مشرف ہوا تو اس کو ستر یا باختلاف روایات نو ّے ہزار حج کا ثواب نصیب ہو گا جبکہ میرے اس بیٹے کی معرفت بھی رکھتا ہو۔
 تو میں کہوں گا اے روضہ رسول ؐ کی جالی کو بوسہ دینے کی خواہش رکھنے والو! سوچو سمجھو بے شک اس روضہ کی جالی کو بوسہ دو لیکن اس کے ذکر کو بدعت نہ کہو جس کو رسول اللہ خود بوسہ دیا کرتے تھے، یہ ماں۔۔ بہن اور بیوی میں فرق امام حسین ؑ نے بتایا اگرامام حسین ؑ نہ ہوتے تو یہ تمیز کون بتاتا؟ اور نکاح میں حلال و حرام کا پتہ کیسے چلتا ؟ امام حسین ؑ نے سب کچھ قبول کرکے نکاح کو بچالیا ہے، تو یہ کہتا ہے کہ امام حسین ؑکی مجلس سننے سے نکاح ٹوٹتا ہے؟ اپنے آپ کو دھوکا نہ دو بلکہ یہ کہو کہ امام حسین ؑ کی مجلس سننے یا نہ سننے سے حلالی اور حرامی کی پہچان ہوتی ہے۔
امام حسین ؑکی بہن جناب زینب عالیہ ؑنے کن کن حالات سے گزر کر اور اپنی چادر لٹا کر تیری مائوں۔۔ بہنوں۔۔ بہوئوں اور بیٹیوں کے پردے بچائے، ہائے کہاں جناب زینب عالیہ ؑاور کہاں بازار؟ کہاں یہ پردہ دار اور کہاں دربار؟
بقول بعض واعظین امام حسین ؑ کی خاموش رہنے والی بہن جناب امّ کلثوم ؑ بھی دربارِ شام میں خاموش نہ رہ سکی۔۔ جب زوجہ یزید نے پردہ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سر برہنہ دربار میں حاضر قیدیوں کا جائزہ لیا تو یزید نے فوراََ اس کو پردہ میں چلے جانے کا حکم دیا اور اس کے سر پر ردا ڈالی۔۔ پس امّ کلثوم ؑ سے رہا نہ گیا اور فرمایا  اے یزید!  أمَائُکَ وَرَائَ السَّتُوْرِ وَ نَحْنُ بَنَاتُ رَسُوْلِ اللّٰہ  آج تیری کنیزیں بھی پردہ میں ہیں اور نبی زادیاں ننگے سر تیرے دربار میں کھڑی ہیں؟
کہتے ہیں بے غیرت یزید نے پوچھا امام حسین ؑکی بہن کہاں ہے ؟ تو جواب ملا کہ قیدیوں میں ہے۔۔ تو اس ظالم نے زبان نجس کو حرکت دیتے ہوئے کہا کہ وہ کہاںہے مجھے نظر نہیں آرہی؟ شمر نے کہا ایک کنیز اس کا پردہ بنا کر کھڑی ہے، تو  (بقولے ) یزید نے کہا اس کنیز کو ہٹائو تو سپاہیوں نے کنیز سے ہٹ جانے کو کہا لیکن جناب فضہ نے قدم نہ ہٹایا۔۔ پس پشت پر ہاتھ رکھ کر جناب زینب عالیہ ؑ نے فرمایا اے میری ضعیفہ کنیز تم ہٹ جائو میں بھرے دربار میںاپنے مظلوم بھائی کی بے گناہی کو ثابت کروں گی۔
کہتے ہیں حبشیوں نے جو دربار میں موجود تھے پوچھا تم کس خاندان سے تعلق رکھتی ہو؟ تو کنیز نے اپنا حسب و نسب بیان کیا۔۔ پس حبشیوں نے تلواریں کھینچ لیں اور درباریزید میں ہلچل مچا دی، پس اس موقع پر بعید نہیں کہ جناب زینب عالیہ ؑ نے فریا د کی ہو کہ نانا !  جناب فضہ کے تو وارث آگئے لیکن ہمارا کوئی وارث نہیںہے؟
مشہور یہی ہے کہ قید سے آزادی کا حکم ہوا تو جناب زینب عالیہ ؑ نے فرمایا ہمیں ایک حویلی خالی کرادی جائے تاکہ ہم امام حسین ؑ کا جی بھر کر ماتم کر لیں چنانچہ سات دن تک یا کم و بیش ماتم ہوتارہا۔
کربلا میں چہلم کے روز پہنچی تو بھائیوں کی قبروں پرکیا کیا بین کئے ہوں گے؟ یقینا کہا ہو گا بھیا حسین ؑ ! تیری بہن شام کی قید سے آزاد ہوکر آگئی ہے ممکن ہے قبر سے آواز آئی ہو میری یتیم بچی کہاںہے؟ تو جناب زینب عالیہ ؑ نے جواب دیا ہو گا اُسے شام میں دفن کر کے آئی ہوں۔۔ پس تین دن کر بلا میں رہیں اور روانہ ہوتے وقت کہا اے کربلا کی زمین زینبؑ خود اُجڑ گئی لیکن حسین ؑ جیسا بھائی دے کر تجھے آباد کر کے خود خالی واپس جارہی ہوں۔
وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مُنْقَلَبٍ  یَّنْقَلِبُوْن

نہ کوئی نام حسین ؑدا دم بھرسی جیویں بھینڑ حسین ؑدی بھر گئی
اکھیں کھول امت مرحوم دیاں بند اَپڑیاں اکھیاں کر گئی
پڑھ خطبے سر اسلام اُتے احسان دی دنیا دھر گئی
ودا جگ نظرایا نت روسی میڈی سینڑ تاں لونہدے مر گئی