التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

نویں مجلس -- مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  --  مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ

عبد وہ ہے جس کے اندر اپنے مالک کے فرامین کا اثر اور اس کے وجود پر معبود کی تجلیات کا پر تو ہو۔۔۔ اور یقین جانئے کہ خدا وند کریم کے اسمائے عظمی اور صفاتِ علیا میں سے ایک اسم اعظم یا ایک صفت کامل کا پرتو اگر کسی بندے پر پڑ جائے تو وہ بندہ کائنات عالم میں اپنی حکومت کا سکہ قائم کر سکتا ہے اللہ کے اسما و صفات کا زبانی ورد کمال حاصل کرنے کیلئے نا کافی ہے جب تک کہ انسان اس صفت میں رَچ بس نہ جائے اور اس صفت کا سراپا ہو نہ جائے مثلاً کبریائی اللہ کی صفت ہے اور اس کی ردا ہے اگر بندہ اپنے مولا میں یہ صفت تسلیم کرتا ہے اس کا مطلب صرف زبانی ودر اللہ اکبر نہیں بلکہ اپنے وجود سے پوری طرح سے کبریائی ختم کردے نہ اس کی زبان میں تکبر رہے نہ اس کے ہاتھ میں کبریائی رہے نہ اس کی آنکھ میں بڑا پن ہو بلکہ کھانے میں انکساری، پہننے میں عاجزی، چلنے میں خضوع، اس طرح سفر و حضر میں فروتنی کا مرقع بن جائے کسی وقت وہ تکبر کی خواہش نہ کرے اور متکبر صرف اللہ کو ہی تسلیم کرے جب اس طرح تکبر اپنے پورے وجود سے عادات واطوار سے اور اعمال و کردار سے نکال دے گا تو اس کے بدن کے خون کا قطرہ قطرہ اور جسم کی رگ رگ خد ا کی کبریائی کی قائل ہو گی اب اس مرحلہ میں پہنچ کر اس کے لئے کبریائی کا نعرہ اللہ اکبر اسم اعظم کا کام دے گا اور اس کے افعال تقدیر بن کر ظاہر ہوں گے اس طرح اگر خدا صادق ہے تو اس کو اپنے لئے اسم اعظم تب ہی بنا سکتا ہے کہ زبان اور اس کے علاوہ تمام اعضا ٔ میں صداقت کا پر تو ہو۔
علی ھٰذا لقیاس۔۔۔ خدا ستّارہے تو بندہ اپنے اندر ستّاریّت کی صفت پیدا کر ے وہ غفور ہے تو بندہ اپنے اندر معاف کرنے کی صفت پیدا کرے وغیرہ (اس کی تفصیل تفسیر انوار النجف کی جلد ۶ میں اسمائے حسنیٰ کی بحث میں ملاحظہ فرمائیں)
ہاں۔۔۔ بیشک اللہ والے یہی شان رکھتے ہیں حضرت مالک اشتر کا گزر بازار کوفہ سے ہوا تو کسی نا اہل نے ان کی نقل اتاری اور لوگوں کو ہنسایا بعد میں معلوم ہوا کہ یہ شخص مالک اشتر تھا تو نقل اُتارنے والا فوراً معافی کیلئے دوڑا دیکھا تو حضرت مالک اشتر محلہ کی مسجد میں نماز پڑھ رہے ہیں جب فارغ ہوئے تو اس نے معافی چاہی حضرت مالک نے جواب دیا میں نے دو رکعت نفل بھی تیری بخشش کیلئے پڑھی ہے اور دعا بھی تیرے لیے کر رہا ہوں کہ خدا تجھے معاف کرے اور گناہ سے توبہ کی توفیق دے۔
امام زین العابدین کو کسی نے برا بھلا کہا تو آپ چند صحابہ کو ساتھ لیکر اس کے گھر گئے دروازہ کھٹکھٹایا اجازت ملنے پر اندر داخل ہوئے وہ شخص شرمسار ہوا تو آپ نے فرمایا جو کلمات تو نے مجھے کہے ہیں اگر ان کا سزاوار ہوں تو خدا سے معافی چاہتا ہوں اور تجھ سے بھی معافی مانگتا ہوں اور اگر میں سزاوار نہیں بلکہ تیری غلطی ہے تو میں تم کو معاف کرتاہوں اور خدا سے تیری معافی کی درخواست کرتاہوں۔
امام حسن ؑ کو ایک شامی نے ناسزا الفاظ کہے تو آپ نے فرمایا اگر تو بھوکا ہے تو میں کھانا کھلائوں۔۔ اگر پیاسا ہے تو پانی دوں۔۔ اگر برہنہ ہے تو لباس دوں۔۔ اگر مکان نہیںتومکان بنوا دوں۔۔ اگر کنوارہ ہے تو شادی کرادوں۔۔ غرضیکہ جو حاجت ہو بیان کرو خواہ مخواہ ناراض کیوں ہو؟ وہ شخص فوراً یہ اخلاق دیکھ کر قدموں پرگر پڑا اور نعمت ایمان سے مالا مال ہوا۔
ہم میں سے اگر کوئی شخص بڑا ہو جائے اور پیسہ زیادہ ہو جائے تو وہ غریب طبقہ  کی پرواہ نہیں کرتا اور اس کو اپنے پاس بٹھانا پسند نہیں کرتا لیکن خانوادہ عصمت کی یہ شان تھی کہ مساکین کو پاس بٹھا کر کھانا کھلاتے تھے۔۔۔۔ حضرت امام رضا ؑ نے خراسان جاتے ہوئے کھانے کے وقت غلاموں کو بلایا تو انہوں نے عرض کیا آقا ہم آپ کا پس خوردہ کھا لیں گے آپ ؑ نے فرمایا یہ اسلامی تعلیم نہیں بلکہ اکھٹے مل کر کھاناسنت نبوی ہے۔
حدیث میں ہے بدترین ہے وہ آدمی جس کے پیچھے جوتوں کی آہٹ ہو اور وہ اس پر خوش ہو؟ ضروری نہیں کہ تکبر کی بد عادت صرف پیسہ والوں کو ہو بلکہ ہر طبقہ میں اپنی حیثیت کے موافق تکبر ہوا کرتا ہے، ذاکر میں ذاکری کا تکبر۔۔ واعظ میں وعظ کا تکبر۔۔ عالم میں علم کا تکبر۔۔ مومن میں ایمان کا تکبر۔۔ نمازی میں نماز کا تکبر۔۔ بہر کیف کوئی تکبر اچھا نہیں بلکہ انسان کو نعمت خدا وندی پر شکر بجا لانا چاہیے۔
چنانچہ ایک مرتبہ حضرت ایوب ؑ نے عرض کیا بارالہا!  اس زمین پر میں بڑا عبادت گزار ہو ں میرا یہ امتحان ختم کر دے کہ لوگ طعنہ زنی کرتے ہیں؟ تو سر کے اوپر سے بادلوں کے ٹکڑے سے آواز آئی اے ایوب ؑ!  تو اپنی عبادت مجھے جتلاتا ہے یہ بتا تجھے عابد کس نے بنایا؟
ایک مرتبہ حضرت رسالتمآبؐ نے بچوں کی اچھی عادات میں سے بھی بیان فرمایا کہ بچے زمین پر بیٹھنا معیوب نہیں سمجھے نیز بچوں میں کینہ نہیں ہے اگر لڑتے ہیں تو ایک دوسرے سے خود بخود راضی ہو جاتے ہیں آپ کی مناجات تھی:   اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ مِسْکِیْنًا وَ اَمِتْنِیْ مِسْکِیْنًا وَ احْشُرْنِیْ فِیْ زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْنِ
اے اللہ!  مجھے مسکین زندہ رکھ اور مسکینی کی موت دے اور بروز محشر مسکینوں کے زمرہ میں محشور فرما۔
حضرت امیر المومنین ؑ مملکت اسلامیہ کے تاجدار غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول فرماتے تھے صحا بہ کے ہمراہ زمین پر تشریف رکھتے تھے اور اپنے کپڑوں کو خود دھویا کرتے تھے۔۔۔ چنانچہ ابوسحاق سبیعی روایت کرتا ہے کہ میں بچپنے میں اپنے باپ کے کندھوں پر سوار تھا مسجد کوفہ میں حضرت علی ؑ کو خطبہ دیتے ہوئے دیکھا کہ آستین کو حرکت دے رہے تھے تو میں نے باپ سے اس کی وجہ دریافت کی کہ کیا حضرت علی ؑ کو گرمی ہو رہی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضرت علی ؑ کو گرمی یا سردی تکلیف نہیں دیتی بلکہ آج جمعہ کا روز ہے اور لباس تازہ دھو کر تشریف لائے ہیں اور دوسری قمیص نہیں تھی جس کو پہن کر آتے بس آستین کو حرکت دے کر اس کو خشک کر رہے ہیں (فرسان الہیجا درحالاتِ بُریر )
ہم بدن پر پیوند لگا کپڑا توہین محسوس کرتے ہیں لیکن آپ ؑ فرماتے ہیں میں نے اپنی قمیص کو اس قدر پیوند لگائے ہیں کہ اب درزی سے شرم محسوس ہوتی ہے  اور فرمایا خدا کی قسم اس پیوند دار قمیص کے علاوہ میرے پاس دوسری قمیص نہیں ہے۔
چہل حدیث میں علامہ مجلسی نے حضرت رسالتمآبؐ سے نقل کیا کہ فرمایا:  یاعلی ؑ کسی کو بگڑے ہوئے نام سے نہ بلایا کرو اس میں تکبر کا شائبہ ہے اور اس کی توہین ہے۔۔ نیز آپؐ کاارشاد ہے اگر چاہوں تو کھانے کیلئے خالص شہد اور پہننے کیلئے ریشمی لباس استعمال کرسکتا ہوں لیکن ھَیْھَاتَ اِنْ غَلَبَنِیْ ھَوَایَ  یعنی نا ممکن ہے کہ علی ؑ کو خواہش نفس دھوکا دے۔۔ میں جانتا ہوں میری بعض رعایا ایسی ہوگی جن کو کھانے کیلئے خشک آٹا بھی جی بھر کر میسر نہ ہوگا۔
حضرت امّ کلثوم ؑ نے اُنیسویں کی شب افطاری کے وقت جَو کی روٹی، دودھ کا پیالہ اور نمک حاضر کیا تو فرمایا بیٹی اس سے پہلے بھی کبھی تیرے باپ نے ایک وقت میں تین تین کھانے کھائے ہیں؟ یہ تھی حضرت علی ؑ کی عبدیت۔۔۔۔ اب شیعانِ علی ؑ ذرا اپنے اندر جھانک کر دیکھیں حرام کھانا تو درکنار مولا علی ؑ حلال غذا سے بھی پیٹ بھر کر نہیں کھاتے تھے۔
 باقی انبیا ٔکے پاس خدائی صفات میں سے ایک ایک یا دو دو تھیں اور حضرت علی ؑ صفاتِ خداوندی کے پورے مظہر تھے۔۔۔ شاید یہ حدیث اس امر کی طرف اشارہ ہو کہ جس نے آدمؑ کو علم میں۔۔ نوحؑ کو خشیت میں۔۔ ابراہیم ؑکو خلت میں۔۔ موسیٰؑ کو ہیبت میں۔۔ عیسیٰؑ کو زہد میں۔۔ ایوب ؑکو صبر میں۔۔ دیکھنا ہو وہ میرے بھائی علی ؑ کے چہرہ کو دیکھے کیونکہ اس میں خصالِ انبیا ٔ میں سے نو ّے خصلتیں موجود ہیں۔
اما م حسن ؑ اور امام حسین ؑ اپنے بابا کودفن کرکے واپس آئے ایک خرابہ سے گزر ہوا تو رونے کی آواز کان میں آئی قدم رک گئے اور شہزادے اس طرف گئے دیکھا کہ ایک جھونپڑی میں ایک بیمار لاغر رو رہا ہے وجہ پوچھی تو کہا کہ میں آقا کے فراق میں رو رہا ہوں۔۔ آپ ؑنے پوچھا وہ کون تھا ؟ تو جواب دیا مجھے ایک برس ہوا ہے یہاں پہنچا ہوں ایک شخص میرے قریب بیٹھ گیا اور مجھے کھانا کھلایا اور اسی طرح میرے ساتھ پیا ر کیا جس طرح ماں بچے سے کرتی ہے اور یہ آواز دی: مِسْکِیْنٌ جَالَسَ مِسْکِیْنًا مسکین کو مسکین کی مجلس مل گئی اور مجھے فرمایا کہ جب تک میں ہوں تیری خبر گیری کرتا رہوں گا۔۔۔ امام حسین ؑ نے پوچھا کوئی اور علامت بیان کرو تو اس نے جواب دیا زبان ذکرِ خدا سے ہر وقت معطر تھی، دونوں بھائی باپ کو یاد کر کے روئے اور امام حسن ؑ نے فرمایا اے بندۂ خدا !  میں اس کا فرزند ہوں اور وہ میرا باپ تھا لیکن تجھے یہ کیسے معلوم ہوا کہ وہ رحلت فرماگئے ہیں؟ تو اس نے جواب دیا کہ وہ ماہِ رمضان میں سحری کے وقت تشریف لاتے اور مجھے کھانا دیتے تھے پرسوں سے وہ تشریف نہیں لائے جس سے میں سمجھا ہوں کہ وہ دنیا سے چلے گئے ہیں، امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ دونوں بہت روئے۔۔۔۔ غالباً بعض روایات میں ہے کہ اس نے درخواست کی کہ مجھے مزار پر لے جائو۔۔ چنانچہ شہزادوں نے حضرت امیر المومنین ؑ کی قبر پر پہنچایا اس نے سلام کہا اور قبر کے پاس سو کر عرض کیا اے آقا!  تیرے بعد دنیاوی زندگی مجھے نامنظور ہے مجھے اپنے پاس بلائیں چنانچہ وہ وہیں مر گیا۔
یہ تھا سادات کا دستور کہ اپنا ماتم چھوڑ کر دوسروں کے غمگسار ہوتے تھے لیکن ہائے ان کے ساتھ مسلمانوں کا کیا دستور رہا؟ کہ مرنے کے بعد قبروں میں بھی ان کو چین سے نہ سونے دیا! چنانچہ بتولِ معظمہ اپنی قبر میں اب بھی گریہ و ماتم میں مشغول ہیں اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ دورِ استبداد میں جب سادات کے کسی گھر سے ان کے بزرگ کا انتقال ہوتا تھا تو کسی پر سانِ حال کی آمد تو بجائے خود ظلم کے پنجے سے بچنے اور اپنی پردہ داری کو برقرار رکھنے کی فکر دامن گیر ہو جاتی تھی کیونکہ لوگوں نے جب بتولِ معظمہ کے ساتھ یہی سلوک کیا تو کسی بتول زادی کی وہ کیوں پرواہ کرتے؟ اگر مسلانوں میں احسان شناسی ہوتی تو بتول عذرا ؑ اپنے زخمی پہلو پر ہاتھ رکھ کر دنیا سے نہ جاتی!

نونہہ خاتون معظمہ دی اَتے ملک وفا دی سین اے
ناموس امامت سمجھ کرے ہا جیندا ادب حسین دی بھین اے
رہی سال برابر دھپ تے روندی کیتے قبر حسین تے وین اے
کیویں تَسّہ دُھپ تے سم گیا ہو سیں زہرا دے دل دا چین اے