ان کی والدہ ماجدہ بقول ابن قتیبہ دینوری در معارف ایرانی النسل تھی، حضرت
عقیل کی تمام تر اولاد میں جناب مسلم شجاع ترین انسان تھے، مناقب ابن شہر آشوب سے
منقول ہے کہ جنگ صفین کے موقعہ پر ماہِ صفر
۳۷ ھ میں حضرت امیر ؑ نے جب اپنی فوج کی ترتیب دی
تومیمنہ پر امام حسن ؑ۔۔ امام حسین ؑ۔۔ عبداللہ بن جعفر اور مسلم بن عقیل کو مقرر
فرمایا تھا اورمیسرہ پر محمد بن حنفیہ۔۔ محمد بن ابی بکر اورہاشم بن عتبہ مرقال کو
تعینات کیا اورقلب لشکر عبداللہ بن عباس۔۔ عباس بن ربیعہ۔۔ مالک اشتر اوراشعث کے
حوالہ کیا اورمقدمہ لشکر سعید بن قیس ہمدانی۔۔ بد یل بن ورقاخزاعی۔۔ رفاعہ بن
شدادبجلی اورعدی بن حاتم کے سپر د فرمایا اورکمین گاہ پر عماریاسر۔۔عمروبن حمق
خزاعی۔۔ عامربن وائلہ کنانی اورقبیصہ بن جابر اسدی کو نامزد کیا۔
اس سے صاف پتہ چلتاہے کہ حضرت مسلم جنگ صفین کے موقعہ پر آزمودہ کار جنگی
سپاہی تھے ورنہ حضرت امیر ؑ جنگ صفین جیسے سخت مقام میں ان کو ذمہ داری کا عہدہ نہ
تفویض فرماتے؟ اوراس سے اندازہ ہوتاہے کہ عقیل کی اولاد میں سب سے بڑے حضرت مسلم
تھے، نیز حضرت مسلم کو امام حسن ؑ کے اصحاب خاصہ میں سے بھی شمار کیا گیا ہے۔
حضرت مسلم کے فرزندعبداللہ کا ذکر (ص۱۱۴)ـپر گذر چکا ہے کہ واقعہ کربلامیں نہایت دلیر ی اوربیباکی سے
آزمودہ کا رانِ حرب وضرب سے لڑا اور۹۰ملاعین
کو قتل کیا، اس سے پتہ چلتاہے کہ حضرت مسلم سن رسیدہ بزرگ تھے اورفتوح الشام سے
معلوم ہوتاہے بوقت شہادت حضرت مسلم کی عمر ساٹھ برس سے کم نہ تھی بنابریں یہ کہنا
کہ حضرت عقیل کو معاویہ نے ایک کنیز خرید کرکے دی تھی جس سے حضرت مسلم پیدا ہوئے
اوربوقت شہادت وہ بالکل نوجوان تھے بالکل غلط اورسراسربے بنیاد ہے۔
حضرت مسلم کی زوجہ جناب رقیہ خاتون بنت امیرالمومنین ؑتھی اوررقیہ کی والدہ
اُمّ حبیبہ تغلبیہ تھی، رقیہ کے شکم سے حضرت مسلم کا ایک فرزند تھا جس کا نام
عبداللہ تھا جو میدانِ کربلا میں شہید ہوا، نیز ان کا ایک فرزند محمد نامی جس کی
والدہ اُمّ والدتھی وہ بھی کربلا میں شہید ہوا اوران کے دوفرزند محمد وابراہیم
جوکوفہ میں شہید ہوئے وہ جناب رقیہ کے علاوہ کسی دوسری بیوی کے شکم سے تھے، نیز
آپ کی ایک شہزادی تھی جو کربلاوکوفہ وشام کے مصائب میں جناب زینب علیا کی شریک
رہی بنابریں حضرت مسلم کی نسل واقعہ کربلا میں ختم ہوگئی۔
جب امام حسین ؑ کے پاس مکہ میں کوفیوں کے پے درپے خطوط ودعوت نامے پہنچے
حتی کہ تین سوقاصد اور ۱۲ہزار خطوط تک نوبت
پہنچ گئی توامام عالیمقام ؑ نے ان کو جواب لکھا کہ تمہارے خطوط پہنچے، لہذا اپنے
معتمد اورچچا زاد مسلم بن عقیل کو تمہاری طرف بھیج رہا ہوں اگر انہوں نے تمہارے
حالات وواقعات سے تمہارے تحریری مضامین کی تصدیق کی اورمجھے اطلاع دی تومیں فور اًپہنچ
جائوں گا، پس حضرت مسلم کو بلا یا اوران کو اپنی خصوصی ہدایات سے نوازا اورکوفہ کی
طرف روانہ فرمایا، چنانچہ آپ ۱۵رمضان
مبارک کو مکہ سے روانہ ہوگئے ۔
آخری بار جب امام ؑ کو وداع کے لئے حاضر ہوئے توغمگین تھے امام ؑ نے وجہ
پوچھی تو عرض کیا اے فرزند رسولؐ مجھے ڈر ہے کہ شاید اس کے بعد آپ ؑ کے جمال بے
مثال کا دیدار نصیب نہ ہو اس لئے دوبارہ بغرض زیارت حاضر ہوا ہوں پس سامنے آکر
حضرت کے ہاتھ اورپائوں کو بوسہ دیا اورسخت گریہ کیا امام ؑ نے رورو کر ان کو سینہ
سے لگالیا اوررخصت فرمایا، چنانچہ حضرت مسلم روتے ہوئے روانہ ہوئے۔
بمطابق روایت ناسخ اسی عالم حزن میں رات کے وقت واردمدینہ ہوئے روضہ رسولؐ
میں چند رکعت نماز ادافرمائی رشتہ داروں اوردوستوں سے ایک بار ملاقات کی اوروہاں
سے اپنے دونو ں فرزند وں محمدوابراہیم کو ساتھ لیا ااوربنی قیس کے دوآدمی ہمراہ
لئے تاکہ وہ غیر معروف راستہ سے کوفہ لے جائیں، چنانچہ وہ دونوں راہ سے بھٹک گئے
اوربالآخر تشنگی سے مرگئے، حضرت مسلم نے امام ؑ پاک کو اس صورت حال سے بھی آگاہ
کیا توامام ؑ نے جواب میں لکھا کہ تجھے جو حکم دیا گیا ہے اس کی تعمیل کرو۔۔۔ طے
منازل کے بعد ۵شوال نصف شب کو داخل
کوفہ ہوئے اورمختار کے گھرمیں قیام فرمایا۔
کوفہ والوں کو اطلاع ہوئی تو گروہ گروہ ہوکر آنے لگ گئے، حضرت مسلم نے
امام حسین ؑ کا خط ان کو سنایا تولوگوں نے خوشی خوشی بیعت شروع کردی یہاں تک کہ ۱۸ہزار نے بیعت کی اوروفاداری کا عہد کیا۔۔۔۔۔ عابس بن شبیب
اورحبیب بن مظاہرنے کھڑے ہوکر پر جوش تقریر یں کیں اورلوگوں کوعہد کی وفاکی تلقین
فرمائی۔
بروایت ابی مخنف بیعت کرنے والوں کی تعداد جب اَسّی ہزار تک پہنچی توامام ؑ
پاک کو حضرت مسلم نے خط لکھا کہ واقعی کوفہ والے ہمارے ساتھ ہیں اوریزید کے اعمال
سے سخت متنفرہیں اورمجھے انہوں نے اپنی وفاداری کا یقین دلایاہے۔
نعمان بن بشیر جویزید کی طرف سے کوفہ کاگورنر تھا لوگوں نے اس کو امرواقعہ
کی اطلاع دی تو اس نے اعلان عام کرکے مسجد جامع میں منبر پر ایک خطبہ پڑھا
اورلوگوں کو یزید کی وفاداری پر آمادہ کیا اورفتنہ وفسادسے بچنے کی تلقین کی۔
بنی امیہ کا ایک کاسہ لیس جس کا نام عبداللہ بن مسلم حضرمی لکھا ہے نے کھڑے
ہوکر کہا اے نعمان! اس قسم کی بزدلانہ باتوں سے انتظام درست نہیں ہوا کرتا، جرأت
ودلیری کا مظاہرہ کرو تو نعمان نے جواب دیا میں ظالموں سے نہیں ہونا چاہتا یہ کہہ
کر منبر سے اترا تو عبداللہ بن مسلم نے خفیہ طور پر یزید کو اطلاع دے دی اورحالاتِ
حاضرہ کی سب رپورٹ اس کو لکھ بھیجی اورلکھا کہ نعمان بن بشیر بزدل آدمی ہے اگر
کوفہ کی ضرورت ہے تو کسی سخت ترین انسان کو اس جگہ کی حکومت دو اوریزید کو اسی
مضمون کا خط عمر بن سعد اورعمارہ بن عقبہ وغیرہ نے بھی لکھا۔
معاویہ کا ایک سرجون رومی غلام تھا جس کو اپنی وفاداری کے پیش نظر معاویہ
نے عہدۂ وزارت دے دیا تھا اوراس کی موت کے بعد یزید نے بھی اس کی وزارت کو برقرار
رکھا چنانچہ ہراہم معاملہ میں اس سے مشورہ طلب کیا کرتاتھا، جب اہل کوفہ کے خطوط
پہنچے تویزید نے سرجون غلام سے رائے طلب کی، یہ جانتاتھا کہ ابن زیاد کے سواکوئی
دوسرا آدمی اہل عراق پر قابونہ پاسکے گا لیکن یزید چونکہ ابن زیادسے ناراض تھا اس
لئے اس کا نام لینا بھی مناسب نہ سمجھا اس لئے اندازکلام کو بدلتے ہوئے کہنے لگا
اے یزید! اگر معاویہ زندہ ہوجائے اوراس معاملہ میں تجھے کچھ کہنا چاہے تو کیا اس
کی بات توقبول کرے گا؟ یزید نے جواب دیا کیوں نہیں، توسرجون نے جیب سے ایک خط
نکالا کہ یہ معاویہ کی طرف سے عہد نامہ ہے کہ حکومت ابن زیاد کو دی جائے۔۔
لہذاتجھے باپ کے فرمودہ پر عمل کرنا چاہیے۔
یزید کو غلام کی بات پسند آئی اورفوراً ابن زیاد کو ایک خط لکھا جس میں
کوفہ کے حالات کا تذکرہ کیا اورکہا توفوراً کوفہ پہنچ کر حضرت مسلم کو قتل کردے یا
وہیں سے اس کو باہر نکال دے اورخط کو مسلم بن عمروباہلی کے حوالہ کرکے روانہ کیا،
پھر فوراً دوسرا خط لکھا جس میں بہت جلد ابن زیاد کو کوفہ پہنچنے کی دعوت دی
اورکوفہ وبصرہ دونوں کی حکومت اس کے سپرد کی اورلکھا کہ علی ؑ کی اولاد میں سے کسی
کو زندہ نہ چھوڑو اور مسلم کا سرقلم کرکے مجھے بھیج دو، جب یہ خطوط پہنچے تو ابن
زیاد کو بصرہ و کوفہ کی حکومت کی بڑی خوشی ہوئی، جامع مسجد بصرہ میں تمام لوگوں کو
جمع ہونے کا حکم دیا اوربالآخر منبر پریہ تقریر کی:
مجھے یزید نے بصرہ کوفہ دونوں کی حکومت دے دی ہے اب ہنگامی حالات کے تحت
مجھے فوراً کوفہ جانا ہے اوریہا ں اپنا قائم مقام اپنے بھائی عثمان بن زیاد کو
مقررکرتاہوں، اس کی اطاعت کرنا تمہارا فرض ہوگا اگر میں نے سنا کہ کسی نے اس کی
مخالفت کی ہے تو اس کے سارے خاندان کو تہِ تیغ کرنے سے دریغ نہ کروںگا۔
پس دوسرے روز اپنے خصوصی عملے کے ساتھ بصرہ سے روانگی اختیار کی اس کے
مخصوصین میں مسلم بن عمروباہلی۔۔ شریک بن اعور حارثی اورمنذربن جارودتھے، سیاہ
عمامہ باندھا۔۔۔ تلوارحمائل کی۔۔۔ تیر کمان بازوسے لٹکا یا۔۔۔ تازیا نہ ہاتھ میں
لیا اورسوار ہوکر روانہ ہوا، اور بہت جلد اس سفر کو طے کرکے کوفہ میں بروز جمعہ
پہنچا، اوراس ملعون نے امام حسین ؑ کا حلیہ بنایا ہوا تھا، کوفہ سے باہر تھوڑا سا
آرام کیا، ادھر لوگوں کو اطلاع پہنچ گئی کہ شہر سے باہر کوئی قافلہ آیا ہوا ہے
غالباًوہ حضرت حسین ؑ ہی ہوںگے۔
غروب شمس کے دوگھنٹے تاریکی میں داخل شہر ہوا، دائیں بائیں اورسامنے سے
لوگوں کو چلنے کا حکم دیا تاکہ قریب آکر کوئی پہچان نہ لے، لوگوں کو چونکہ گمان
تھا کہ یہ حسین ؑ ہیں لہذا کوفہ کے زن ومرد فرزند رسول کہہ کر سلام دیتے تھے اوریہ
ملعون سوائے جواب سلام کے اورکچھ نہ کہتاتھا، لوگوں نے یہ بھی کہا مرحبااے فرزند
رسول ہماری چالیس ہزارتلواریں آپ کے ساتھ ہیں اوریہ ملعون دل ہی دل میں کڑھتاتھا
لیکن بولتانہیں تھا، جب دارالامارہ کے دروازہ پر پہنچے اورنعمان بن بشیر کو اطلاع
ملی تو اس نے دروازہ بند کرلیا اوپر سے جھانک کرکہنے لگا اے فرزند رسول!
دارالامارہ میں گھسنے سے گریز کیجئے میں آپ کے خون میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتا،
لوگوں نے باہرسے شور مچایا کہ اے نعمان! فرزندرسول کے لئے دروازہ کھول دواوراس کو
فحش گالیاں بھی دیں، اتنے میں ابن زیاد کے منہ سے نقاب اٹھایا اورنعمان سے بات کی
تب نعمان کو یقین ہوا کہ یہ ابن زیاد ہے، پس دروازہ کھولاجب لوگوں نے آواز پہچانی
توایک دوسرے کو کہنے لگے یہ ابن مرجانہ ہے، پس اس کو اوریزید کو گالیاں دیتے ہوئے
واپس چلے گئے۔
صبح سویرے لوگوں کو مسجد میں جمع ہونے کا حکم دیا گیا اورابن زیاد نے تقریر
کی: کہ مجھے یزید نے کوفہ کی حکومت سپرد کی ہے۔۔ یادرکھو! میں اطاعت گذار کے لئے
پدرمہربان کی طرح ہوں گا اورنافرمان کے لئے میری تلواروتازیانہ موجود ہیں، لوگو
ڈرو اورمسلم بن عقیل کو بھی اطلاع دے دو کہ وہ شہر کو چھوڑ کر چلے جائیں پھر اپنے
مخصوص اطاعت گذاروں کو حکم دیا کہ جوبھی یزید کی اطاعت سے باہر جائے اس کو قتل
کرواورسولی پر لٹکائو۔۔۔ لوگوں کو سخت تردھمکیا ں دے کران کو بیعت یزید پر ثابت
قدم رہنے کی تلقین کرو۔۔۔ اوریہ بھی اعلان کیا گیا کہ ابھی یزید کی طرف سے فوج
پہنچنے والی ہے جو مخالفت کرنے والوں کے جان ومال کو مباح کردے گی اوران کی عورتوں
کو قید کرلے گی، پس لوگ اس وہشت ناک تہدید سے سہم گئے اورامام حسین ؑ کی بیعت پر
نادم ہوکر گھروں کو چلے گئے۔
ادھر حضرت مسلم نے مختار کے گھر میں رہنا خلافِ مصلحت سمجھااوروہاں سے خفیہ
طور پر ہانی کے گھر چلے گئے ہانی کو بڑی خوشی ہوئی، لوگ خفیہ آکر بیعت کر تے رہے
ابن زیاد ہانی کو اپنے ہاں بلاتا رہا لیکن ہانی نے اپنے بیماری کا کا غذپیش کیا
اورحضرت مسلم سے عرض کیا کہ ابن زیاد میری بیمار پرسی کے لئے ضرور آئے آپ پردہ
کے اندر بیٹھ جائیں جب میں کلاہ سرسے اتاروں توفوراًنکل کر اس کو قتل کردیں ادھر
لوگوں نے ابن زیاد کو ہانی کی بیماری کی اطلاع دی اورہانی نے خود بھی پیغام بھیجا
کہ میں سخت بیمار ہوں ابن زیاد نے خبر بھیجی کہ میں نمازعشا کے بعد آؤں گا،
چنانچہ اپنے غلام کے ہمراہ ہانی کے گھر پہنچا احوال پرسی کے بعد ہانی نے اپنا
عمامہ سر سے اتارا لیکن حضرت مسلم باہر نہ آئے پھر چنداشعار پڑھے تاکہ حضرت مسلم
کو اپنا عہد یاد آجائے اوراس ملعون کو قتل کردے، ابن زیاد کو ہانی کے شعروں پر شک
گذر ا لیکن لوگوں نے کہا شدت مرض کی وجہ سے اس کو ہذیان ہے آخرابن زیاد اُٹھ
کرچلاگیا۔
یہ واقعہ ناسخ نے ہانی کا لکھا ہے لیکن بعض مورّخین اس کو شریک بن اعور کی
طرف منسوب کرتے ہیں۔