التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

پہلی مجلس -- مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  --  مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ

میں نے جن و انسان کو پیدا نہیں کیا مگر اس لئے کہ میری عبادت کریں کوئی کسی سے اگر اپنی اطاعت طلب کرے تو اس کیلئے کوئی وجہ و علت و سبب ضروری ہے مثلاً یا تو اس کا احسا ن ہو یا وہ صاحب فضل ہو یا حق حکومت رکھتا ہو وغیرہ، ورنہ اطاعت دیوانگی و بے عقلی ہوگی۔
اور خدامیں وہ تمام وجوہ و اسباب پائے جاتے ہیں جو اطاعت کے داعی ہو سکتے ہیں اگر اطاعت احسان کیلئے ہے تو اُس سے بڑھ کر محسن نہیں، اگر اطاعت لالچ کی خاطر ہے تو اس کے پاس جنت موجود ہے، اطاعت گزاروں کے لئے اگر اطاعت ڈر سے ہے تو نافرمانوں کے لئے اس کی سزا جہنم ہے، اسی طرح اسباب اطاعت میں سے طاقت ۔۔ جبر و قہر۔۔ فضل و کمال وغیرہ سب اس کے پاس بدرجہ ٔ اتم موجود ہیں لہذا وہ اطاعت کا سزاوار تر ہے اور یہ سب کچھ تب ہو سکتا ہے جب اطاعت کرنے والا معرفت رکھتا ہو ورنہ سبب کی موجودگی کافی نہیں ہے مثلاً جو شخص حاکم وقت کو پہچانتا نہ ہو وہ کیسے اس کی اطاعت کرے گا؟ پس عبادت سے قبل خدا کی معرفت کا حاصل کرنا ضروری ہے اور جنہوں نے پہچانا ان کو عبادت میں اس قدر لذت محسوس ہوئی کہ ان کو کمی کی دعوت دی گئی لیکن وہ آگے ہی بڑھتے گئے:
 طٰـہَ مَـا اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰی اور سلطانِ اقلیم معرفت کا قول ہے کہ  مَا عَبَدْنَاکَ خَوْفًا مِّنْ نَّارِکَ وَ لا طَمْعًا فِیْ جَنَّتِکَ بَلْ وَجَدْتُکَ اَھْلًا لِّلْعِبَادَۃِ فَعَبَدْتُکَ  میں نے تیری عبادت دوزخ کے ڈر سے نہیںکی (کیونکہ یہ غلامانہ عبادت ہے) اور نہ ہی جنت کے طمع سے کی (کیونکہ یہ مزدور کی عبادت ہے) بلکہ میں نے تجھے عبادت کے لائق پایا ہے اس لئے تیری عبادت کی ہے۔
حالانکہ جنت کے طمع یا دوزخ کے ڈر سے عبادت کرنا بھی باعث قربت ہے لیکن معرفت کی منزل بہت آگے ہے۔۔۔ معرفت سے لذت پیدا ہوتی ہے جبھی تو امام حسین ؑ آخری وقت میں فرما رہے ہیں:
تَرَکْتُ الْخَلْقَ طُرًّا فِیْ ھَوَاکَ
وَ اَیْتَمْتُ الْعَیَالَ لِکَیْ اَرَاکَ
میں نے تیری محبت کی خاطر تمام مخلوق سے قطع تعلق کر لیا اور عیال کو یتیم کیا تاکہ تیرا دیدار کر سکوں۔
اور سچ ہے کہ لذت جس قدر بڑھتی جاتی ہے وہ اپنے سے کمزور تکلیفوں کے احساس کو ختم کر دیتی ہے مثلاً سر دردی کے مریض کو بیٹے کی رہائی کی خبر ملنے پر اس کی سر دردی ختم ہو جائے گی، یہی وجہ ہے کہ امام حسین ؑ کی ظاہری تکالیف پر لذتِ وصالِ خداوندی غالب تھی کہ جسمانی تکالیف بلکہ اعزاو اقربا ٔ کی شہادت بھی امامؑ کے قدموں میں لغزش کا باعث نہ بن سکی اور قدم آگے بڑھتا ہی گیا۔
پس معرفت خداوندی سے عبادت میں لذت آ جاتی ہے اور حدیث میں ہے کہ مومن کی سزا میں سے ہے کہ اس کے دل سے عبادت کی لذت اُٹھا لی جاتی ہے کیونکہ عبادت کی لذت کا ختم ہونا محبت کی کمزوری کی علامت ہے اور واضح رہے کہ طرفین کی محبت باہمی مکالمہ کی لذت کی موجب ہوتی ہے اور جب مکالمہ میں لذت نہ رہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ محبت میں فرق آ گیا ہے، خداوند کریم ہمیں اپنی عبادت کی لذت عنایت فرمائے۔۔ آمین۔
جناب زینب عالیہ ؑ کی عظمت
یہ بی بی سالکہ منزلِ عرفان تھی جبھی تو مصائب کو پائوں کے نیچے روندتی ہوئی آگے بڑھتی گئی۔۔۔ کجا زینبؑ کجا کوفہ کجا زینبؑ کجا شام ؟
جب کربلا و شام کے مصائب جھیل کر واپس آئی تو سگا بھائی محمد بن حنفیہ نہ پہچان سکا۔۔۔ حالانکہ بقولے فقط تین اونٹ کی سواریاں تھیں جب معلوم ہوا کہ میرا ایک بھائی محمد بن حنفیہ مجھے ملنے آیا ہے تو بھائی کی گردن میں باہیں ڈال کر روئی بھائی نے پوچھا ہو گا کیا گزری تو بی بی کیا بیان کرتی؟ کیونکہ عورت اپنے مخصوص مصائب صرف ماں یا شوہر کو ہی بتا سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ ماں کی قبر پر آئی تو سب کچھ بتایا کہ میں قید گزار کر آ گئی ہو ں وغیرہ۔