التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

نصر بن ابی نیزر

3 min read
نصر کا باپ ابو نیزر بقول مبرّد سلاطین عجم کی اولاد میں سے تھا اور علامہ نوری سے ’’مستدرک‘‘ میںمنقول ہے کہ نجاشی کی اولاد میں سے تھا، بچپنے سے اسلام قبول کر کے مدینہ میں آیا اور شرف صحابیت رسول ؐ حاصل کیا، حضرت رسالتمآبؐ بنفس نفیس اس کی سر پرستی فرماتے تھے اور اس کے اخراجات برداشت فرماتے تھے، جب نجاشی کا دنیا سے انتقال ہوا تو حبشہ کے لوگ اس کو لینے کیلئے آئے تاکہ اس کو باپ کے تخت کا وارث بنا کر شاہی تاج اس کے سر پر رکھیں۔۔ لیکن اس نے یہ الفاظ کہہ کر ان کی خواہش کو ردّ کر دیا کہ حضرت رسالتمآب کی ایک گھنٹہ کی نوکری عمربھر کی حکومت  سے مجھے محبوب تر ہے۔۔ جناب رسالتمآبؐ کے بعد جناب بتول فاطمہ ؑ کے دروازۂ اطہر کی ملازمت اختیار کی اور حسین ؑ کی غلا می کی اپنا مایہ زندگی قرار دیا، حضرت امیر ؑ   مزرعہ بغبغیہ اور مزرعہ ابی نیزر کی نگہداری اس کے سپر د فرمائی تھی۔
ابو نیزر کہتا ہے ایک روز حضرت امیر ؑ اپنی کھیتی میں تشریف لائے اور فرمایا  اے ابو نیزر تیرے پاس کھانے کی کو ئی چیز ہے تا کہ چاشت تناول کریں؟ میں نے عرض کیا اے آقا! آپ ؑ کے پیش کرنے کے قابل تو میرے پاس کچھ نہیں البتہ اِسی کھیتی سے ایک کدو لے کر میں نے پکایا ہواہے آپ ؑ نے فرمایا کوئی حرج نہیں وہی لائو پس میں نے کدو پیش کیاآپ ؑ اٹھے اورتالا ب سے ہاتھ دھو کر کھاناکھایا پھر ریت مَل کر اپنے ہاتھ صاف کئے اور چُلّو سے پانی پیا، پھر فرما یا یہ ہاتھ پانی پینے کا بہترین برتن ہیں پھر اپنے ہاتھ مبارک شکم اطہرپر پھیرتے ہوئے فرمایا کہ جس پیٹ میں حرام کی غذا ہو گی وہ آتش جہنم میں جائے گا اور رحمت پرورد گار سے دور رہے گا اس کے بعد کلنگ اٹھایا اور کنواں کھودنے میں مشغول ہوئے جب تھک گئے تو آکر بیٹھ گئے پیشانی نورانی سے پسینہ جاری تھا جس کو ہاتھ کی انگلیوں سے صاف فرماتے تھے جب تھکان اُتر گئی تو دوبارہ کلنگ لے کر کنوئیں میں اترے اور کھودنا شروع کیا یہاں تک کہ پانی نکل آیا آپ ؑ باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ خدا کو شاہد بناتا ہوں کہ یہ صدقہ ہو گا پس کاغذ دوات طلب کیا اور تحریر لکھی:
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم  یہ وہ ہے جو علی ؑ بن ابیطالب نے صدقہ کیا ہے اور وہ دو باغنچے ہیں ایک عینِ ابی نیزر اور دوسرا بغبغیہ، یہ فقرائے مدینہ اور مسافرین کیلئے صدقہ ہے تا کہ قیامت کے روز کی حرارت کے لئے ڈھال ہو نہ کسی کو اس کے بیچنے کا حق ہے اور نہ بخشنے کا حق ہے یہاں تک کہ خدا خود اس کو سنبھال لے اور وہی بہتر وارث ہے، ہاں اگر حسن ؑ و حسین ؑ کو کسی وقت ان کے فروخت کی ضرورت لاحق ہو تو ان کو حق حاصل ہے ان کے علاوہ کسی کو اس کے بیچنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
محمد بن ہشام کہتا ہے کہ معاویہ نے امام حسین ؑ کو دو لاکھ دینا ر دے کر عینِ ابی نیزر کے خرید نے کی خواہش کی تھی تو امام ؑ نے فرمایا کہ یہ میرے والد بزرگوار کی طرف سے حصول ثواب کیلئے صدقہ ہے میںاس کو ہرگز فروخت کرنا پسند نہیںکرتا، غالباً شب عاشور امام حسین ؑ نے عمر سعد کو اسی جائیداد کی پیشکش کی تھی تاکہ وہ قتل سے باز آجائے لیکن اس بے حیا نے نہ مانی جیساکہ عمروبن قرظہ انصار ی کے بیان میں گزر چکا ہے، روایت گرچہ خارج از مطلب تھی لیکن اس کو افادہ کیلئے ذکر کر دیا ہے، بہر کیف یہ نصر اسی ابی نیزر کا فرزند تھا جو شجاع دلیر اور شہسوار تھا حضرت امیر ؑ کے بعد امام حسن ؑ کی خدمت میں رہا اور پھر امام حسین ؑ کی غلامی میںآگیا، مدینہ سے ہی امام عالیمقام ؑ کے ہمرکاب ہو کر عراق میں آیا اور عاشور کے روز حملہ اولیٰ میں شرف شہادت سے مشرف ہوا۔