التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

سترہویں مجلس -- جَائَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا



حق آیا اور باطل گیا کیونکہ حق کے مقابلہ میں باطل کے قدم ہمیشہ اُکھڑ جایا کرتے ہیں، حق کا واقعہ سے تعلق اور صدق کا زبان سے تعلق۔۔۔ اگر واقعہ حق ہے توزبان کا بیان صدق کہلائے گا اور واقعہ باطل تو بیان کذب ہوگا۔
اللہ ایک ہے یہ واقعہ ہے اور اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ اس کا بیان ہے چونکہ واقعہ حق ہے لہذا اس کا بیان صدق ہے۔۔ اسی طرح محمد رسول اللہ واقعہ میں حق ہے تو اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدَ رُّسُوْلُ اللّٰہ بیان صادق ہے۔۔ اسی طرح علی ولی اللہ واقعہ میں حق تو اَشْھَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَّلِیُّ اللّٰہ بیان صادق ہے۔
ظاہر ہے کہ واقعہ پہلے ہو گا اور بیان بعد میں ہوگا لہذا حق پہلے اور صدق بعد میں کیونکہ صدق جو ہے وہ حق کا ترجمان ہوا کرتا ہے پس یہ نہیں ہو سکتا کہ بیان پہلے ہو اور حق بعد میں ہو یا ترجمان پہلے ہو اور واقعہ کا ظہور بعد میں ہو؟
یہ نا ممکن ہے کہ ہم  لا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ پہلے کہیں اور توحید بعد میں ہو۔۔ یا ہم محمدؐ کی رسالت کی گواہی پہلے دیں اور بعد میں وہ رسول ہوں۔۔ یا ہم علی ولی اللہ پہلے کہیں اور وہ درجہ ولایت پر بعد میں فائز ہوں؟
لہذا ماننا پڑگیا کہ صدق حق کے تابع ہے کیونکہ صدق کا تعلق بیان سے ہے اور حق کا تعلق واقعہ سے ہے اور واقعہ بیان سے پہلے ہو تا ہے اب پیغمبر اکرمؐ کے اس فرمان پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ عَلِیٌّ مَّعَ الْحَقِّ وَالْحَقُّ مَعَہُ یَدُوْرُحَیْثُمَا دَارَ یعنی علی ؑ حق کے ساتھ ہے (حق کے پیچھے ہے ) اور حق علی ؑ کے ساتھ ہے (علی ؑ کے پیچھے ہے ) وہ اُدھر مڑتاہے جدھر علی ؑ مڑے۔
 اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ حق کا تقدم دلیل لمی کے طور پر ہے اور علی ؑ کا تقدم دلیل انی کے طور پر ہے یعنی حق کا وجود علی ؑ کے کردار کی علت ہے یعنی وہ حق تھا لہذا علی ؑ کو اس کے ماتحت ایسا کرنا پڑا اور اس کے بر عکس علی ؑ کا کردار حق کی علت نہیں بلکہ حق کا کاشف ہے یعنی چونکہ علی ؑ نے ایسا کیا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ حق یہی تھا
جس طرح کہا جائے نبض کی تیزی بخار کی دلیل ہے اور بخار کا ہونا نبض کی تیزی کی دلیل ہے یہاں بخار نبض کی تیزی کی علت ہے اور نبض کی تیزی بخار کی کاشف ہے۔
لیکن پیغمبر کا دونوں کو مساوی حیثیت دینا اور آخر میں یہ فرمانا کہ حق، اس طرف جاتا ہے جس طرف علی ؑ جاتا ہے  یہ نہیں فرمایا کہ حق اس طرف ہوتا ہے جس طرف علی ؑ جاتا ہے دونوں طرف سے علیت کو ظاہر کرتا ہے گویا جس طرح یہ حق کے تابع ہیں اسی طرح حق بھی ان کے تابع ہے اور اس کی متعد دمثالیں موجود ہیں:
حضرت امام حسن ؑ نے جب اپنا مقام ولایت بیان فرمایا اور کسی منافق نے شک کیا تو آپ نے فرمایا کہ اے عوت مردوں کے مجمع سے نکل جا؟ یہاں امام کا فرمان جس واقعہ کا بیان ہے وہ پہلے موجود نہیں تھا تاکہ یہ حق کے تابع ہو بلکہ امام کے فرمانے پر واقعہ بن گیا پس واقعہ نے حق ہو کرگواہی دی کہ وہ ان کے تابع ہے۔
اسی طرح حضرت امیر المومنین ؑ کا ایک شکی منافق کو فرمانا اے کتے نکل جائو حالانکہ وہ پہلے کتا نہیں تھا لیکن اب کتا بن گیا پس واقعہ نے حق بن کر ثبوت دے دیا کہ حق علی ؑ کے ساتھ ہے۔
اسی طرح اما موسیٰ کاظم ؑ نے دیوار پر لٹکی ہوئی شیر کی تصویر کو حکم دیا کہ فلاں کو نگل جا تو حق نے واقعہ کا لباس فوراً پہن لیا اور تصویر نے شیر بن کر دشمن کو ہڑپ کر لیا اور کپڑوں سمیت اس کو کھا گیا حالانکہ شیر کی فطرت گوشت خوری ہے نہ کہ لباس خوری؟
اسی طرح امام حسین ؑ کے اشارہ سے دیوار کا سونا بن جانا ثابت کرتا ہے کہ ان کا بیان ہمیشہ حق کا ترجمان نہیں ہوتا بلکہ حق کی علت بھی ہوا کرتا ہے۔
اسی طرح جب بچوں نے لباس طلب کیاتو فاطمہ زہراؑ نے فرما دیا تمہارا لباس درزی کے پاس ہے پس واقعہ بن گیا اور تھوڑی دیر بعد رضوان جنت نے درزی کی حیثیت ظاہر کر کے سلے ہوئے لباس پیش کر دیئے اور ثابت کر دیا کہ حق ان کے تابع ہے۔
ان کا مقام تو بہت بلندہے ان کی کنیز نے پیغمبر کو مدعو کر لیا تو واقعا ًکھانا تیار ہو گیا اور در پر پہنچ گیا۔
اسی طرح امام زین العابدین ؑ کا بلخی زوار کو کہنا کہ یہ ہیرے موتی جواہر اٹھا لو حالانکہ پہلے پانی کے قطرات تھے پھر لعل و جواہربن گئے اور ثابت ہوگیا جس طرح یہ واقعہ کے ترجمانی میں صادق ہیںتو واقعہ بھی ان کے قول کو حقیقت کا لباس دے کر حق بنتا ہے بس یہ حق کے ساتھ ہیں اسی طرح واقعہ ان کے بیان کو حق کا لباس دے کر ان کے ساتھ ہوتا ہے۔
یہ واضح ہے کہ باطل تشدد سے دب جاتا ہے اور ختم ہو جاتاہے لیکن اس کے برعکس حق تشدد کے بعد طاقت پکڑتا ہے اور زیادہ ابھرتا ہے حق میں تصنع نہیں اور باطل کا بغیر تصنع کے چار نہیں اس لیے کہ حق کے پاس دلائل ہوتے ہیں اور باطل تشدد کو استعمال کرتا ہے۔
طاقت حق نہیں حق طاقت ہے۔۔۔ طاقت میں حق نہیں حق میں طاقت ہے، طاقت سے حق نہیں ملتا بلکہ حق سے طاقت ملتی ہے
حق و باطل کی جنگ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی لیکن جس طرح ہمیشہ باطل تشدد کو سامنے لاتا رہا اور حق کے سامنے نہ جھکا اس کے مقابلہ میں حق نے بھی  ہر قسم کا تشدد برداشت کیا لیکن باطل کے سامنے جھکا نہیں؟
چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ نے آگ میں جانا قبول کر لیا لیکن باطل نمرود کے سامنے سرنگوں نہ ہوا؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعونیوں کا قتل کرکے حضرت شعیب کے پاس پناہ لی اور دس سال کے بعد حضرت شعیب ؑ کی لڑکی صفورا سے شادی کر کے واپس پلٹے تو کوہ طور کے دامن سے گزر رہے تھے کہ دور سے آگ کو دیکھا بیوی کو وہاں روک کر خود تشریف لے گئے دیکھا تو درخت زیتون کی شاخوں سے آگ کے شعلے نمودار ہیں جب آگ والی شاخ کی طرف ہاتھ بڑھاتے تو وہ شاخ پیچھے ہٹ جاتی رات پرنم تھی سردی زوروں پر تھی آخر نداآئی  ان اللہ رب العلمین   اللہ نے فرمایا فرعون کی طرف تبلیغ کیلئے جائو تو حضرت موسی نے ۶ سوالات کئے:
۱      میں نے ان کا قتل کیا ہوا ہے اس کا کیابنے گا؟
         اللہ نے فرمایا اس کی فکر نہ کرو
۲      تبلیغ کے لئے دستاویزچاہئے؟
        اللہ نے تورات عطافرمادی
۳      میری زبان میں لکنت ہے؟
        اللہ نے فرمایا اس کی پرواہ نہ کرو
۴      معجزہ چاہیے؟
        اللہ نے فرمایا عصا کو ڈالو اذدہابنے گا
  ۵    کو ئی اورمعجزہ؟
        فرمایا ہاتھ کو بغل میں ڈالو ید بیضا ہوگا
۶      میں اکیلا ہوں ساتھی عطافرما؟
        اللہ نے فرمایا جو چاہو
        عرض کیا (یار نہیں ) بھائی چاہیے
        اللہ نے فرمایا ہارون کو ساتھ لو اورجائو
ایک مرتبہ ایک شخص نے معصوم سے یہی وجہ پوچھی کہ موسیٰ وحضرت ابراہیم ؑ دونوں اولوالعزم پیغمبر تھے اور دشمن بھی دونوں کے سرکش تھے لیکن جب موسیٰ کو حکم ہوا کہ تبلیغ کے لئے جائو تو انہوں نے یکے بعد دیگرے ۶دفعہ معذرت پیش کی اوراللہ نے تسلی کرائی تب گئے لیکن اس کے برعکس جب حضرت ابراہیم ؑ کو حکم ہو تو فوراً عرض کیا اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْن اورعذر پیش نہ کیا آپ  نے فرمایا حضرت ابراہیم ؑ کی پیشانی میں محمد وآل محمد کا نور تھا
   حضرت پیغمبر نے بھی ایک دفعہ علی ؑ سے فرمایا یاعلی ؑ تیری جرأت کا کیا کہنا کہ سورۂ برأت کی تبلیغ کے لئے جب بھیجا گیا تو تونے مکہ میں کوہِ صفاو کی چوٹی پر کھڑے ہوکر اہل مکہ سے اپنا تعارف کرایا اورکہا کہ میں علی ؑ بن ابیطالب ہوں (حالانکہ گھر گھر سے ان کے اکابر کو آپ قتل کر چکے تھے ) اورپھر جرأت مندانہ انداز سے سورہ برأت کا پڑھنا یہ آپ کا ہی حصہ ہے اورمنفرد کار نامہ ہے حالانکہ حضرت موسیٰ نے ایک ہی قتل کیا تھا اورفرعون کے پاس مبلّغ بن کر جانے سے ڈرتے رہے؟
اس سے مجھے ایک اور بات یاد آئی کہ فتح مکہ کے دن حضوؐر نے بعض لوگوں کے قتل کی عام اجازت دی تھی خواہ وہ استار کعبہ ہے بھی چمٹے ہوئے ہوں تو دو آدمی جناب امّ ہانی کے گھر میں پناہ گزین تھے حضرت علی ؑ نے کپڑے سے منہ لپیٹ کر تلوار علم کرکے امّ ہانی کے گھر میں ان دونوں کو قتل کرنے کے لئے گھر میں داخل ہونا چاہاتو امّ ہانی نے بازو پکڑ لیا اورکہا کہ میں اندر نہ جانے دوں گی ا وررسول اللہ سے تیری شکایت کروں گی علی ؑ  نے منہ سے کپڑا ہٹایا تو امّ ہانی نے پہچانتے ہوئے معانی مانگ لی اتنے میں وہ دونوں کا فرفرار ہوئے اورجب رسول اللہ کے سامنے امّ ہانی نے یہ ما جرا بیان کیا تو پیغمبر نے علی ؑ سے پوچھا حضرت علی ؑ نے جواب دیا کہ امّ ہانی نے اس زور سے میرا بازو پکڑا تھا کہ چھڑاتے چھراتے وہ دونوں کافر نکل کر بھاگ گئے پس پیغمبر نے فرمایا اگر تمام لوگ حضر ت ابو طالب کی نسل سے ہو تے تو دنیا کا کوئی آدمی بزدل نہ ہوتا ؟
بہر کیف حق بہت بڑی طاقت ہے اور تشدد و طاقت سے گردنیں جھکائی جاتی ہین لیکن حق دلوں کو جھکا لیتا ہے حضرت امام حسین ؑ نے اعلان جنگ قبول کرنے کے بعد اپنی کم تعداد فوج کو چھٹی دے دی حالانکہ سلاطین کا قطعاً یہ دستور نہیں کیونکہ حسین ؑ یہ یقین دہانی کرانا چاہتے تھے کہ حق کی جیت طاقت سے نہیں بلکہ دلائل سے ہوتی ہے اور باطل کی جیت ہمیشہ کثرت فوج اور طاقت کے استعمال سے ہوتی ہے۔
امام حسین ؑ نے اپنا خواب بیان فرمایا کہ موت تیزی سے ہماری طرف آرہی ہے تو علی اکبر ؑ نے عرض کیا ألَسْنَا عَلٰی الْحَقّ کیا ہم حق پر نہیں؟ اما م نے فرمایا بے شک ہم حق پر ہیں تو علی اکبر ؑ نے جواب دیا اِذَنْ لا نُبَالِیْ پھر ہمیں موت کی کوئی پرواہ نہیں۔
گویا شہزادے نے اپنے دادا کا جملہ دہرایا جب محمد بن حنفیہ نے پوچھا تھا کہ آپ باریک لباس میدان جنگ میں کیوں زیب تن فرماتے ہیں ہیں تو علی ؑ نے جواب دیا تھا  أبُوْکَ لا یُبَالِیْ وَقَعَ عَلٰی الْمَوْتِ اَمْ وَقَعَ عَلَیْہِ الْمَوْت  یعنی اے فرزند تیرے باپ کو پراوہ نہیں کہ موت پر کود پڑے یا موت اس پر آپڑے
جب شہزادہ قاسم سے امام نے دریافت کیا کہ موت کیسی چیز ہے؟ تو قاسم نے جواب دیا کہ أحْلٰی مِنَ الْعَسَل  یعنی موت شہد سے بھی شریں تر ہے
حبیب بن مظاہر نے مسلم بن عوسجہ سے کہا اگر مجھے اپنی زندگی کا یقین ہوتا تو تجھ سے وصیت کی خواہش کرتا پس مسلم نے جواب دیا آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اگر مجھے آپ کی زندگی کا یقین ہوتا تو میں اپنے گھر والوں کی وصیت کرتا ؟ہر گز بلکہ اُوْصِیْکَ لِھٰذَا الرَّجُلْ میں تو اس شخص (حسین ؑ) کی وصیت کرتا ہوں کہ اس کو نرغہ اعدأ میں چھوڑ کر نہ جانا۔
مسلم بن عوسجہ کا غالباً نو عمر فرزند تھا جس نے امام کو قدموں پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیا تو امام نے فرمایا اپنے باپ کی شہادت کے بعد مجھے اپنا باپ سمجھو بچے نے عرض کیا پرسہ لینے کی غرض سے میں حاضر نہیں ہوا بلکہ اس لئے آیا ہوں کہ آپ مجھے جہاد کا اذن عطا فرمائیں آپ نے فرمایا تیری بیوہ ماں تیرا داغِ مفارقت برداشت نہ کر سکے گی؟ تو بچے نے عرض کیا وہ سامنے خیمہ کے دروازہ پر میری ماں کھڑی ہے جس نے مجھے میدان جنگ کے لئے تیار کر کے بھیجا ہے بالوں پر کنگی کی  آنکھوں میں سرمہ لگایا اور چھوٹی سی تلوار میرے گلے سے لٹکائی اور بار بار کہتی تھی کہ میں اس وقت راضی ہوں گی جب تیری لاش میرے قدموں میں پہنچے گی۔
جب زینب عالیہ نے حسین ؑ سے عرض کیا کہ کافی لوگ چھوڑ کر جاچکے ہیں اب جو بچے ہیں یہ تو نہ چھور جائیں گے؟ پس حبیب بن مظاہر کو خبر ہوئی تو تمام صحابہ کو جمع کر کے با ب زینبیہ پر لایا اور آواز دی اے خاندانِ عصمت کی شہزادیو! یہ غلام دروازہ پر موجود ہیں اگر آپ کو ہماری وفا کا یقین نہیں آتا تو ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی گردنیں کاٹ کر آپ کے قدموں میں ڈالنے کیلئے تیار ہیں جب بی بی نے سنا تو اصحاب کے حق میں دعائے خیر دی۔
 بی بی جب روئی تو امام حسین ؑ نے ازراہِ تسکین فرمایا پہلے چار بزرگ چلے گئے تو آپ نے صبر کیا  اب میں چلا جائوں تو صبر کرنا بی بی نے عرض کیا حسین ؑ ! ان کے جانے میں اور آپ کے جانے میں بڑا فرق ہے
جب نانا کی رحلت ہوئی تو اماں جان کا سہارا تھا اور اماں کے بعد بابا جان کا سہارا تھا پھر بابا جان کے بعد حسن ؑ بھیا کا سہارا تھا اور حسن بھیا کی شہادت کے بعد آپ کا سہارا رہا اب جب آپ جائیں گے تو فرمایئے میرا سہارا کون ہوگا؟ اس کے بعد سخت گریہ کیا۔
حسین اچانک خیمہ سے باہر نکلے اور تلوار علم کے کر خیمہ کے پیچھے کی طرف چند قدم گئے اور رُکے ایک بلند جگہ پر کھڑے ہو کر تلوار کی نوک کو زمین میں گاڑھا اور دوسرے ہاتھ سے ریش اقدس کو پکڑا اپنی بہن کے خیمہ کی پشت کو کافی دیر تک دیکھتے رہے۔۔۔۔ نافع بن ھلال جملی کا بیان کہ میں بھی حسین ؑ کے پیچھے آکر قریب  کھڑے ہو کر دیکھتا رہا اچانک حسین ؑ نے سرد آہ کھینچی اور رونا شروع کردیا نافع کہتا ہے میں نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا مولا !  کیا وجہ ہے کہ آپ نے خیمہ زینبیہ کی پشت پر نظر جما کر سرد آہ کھینی اور رو دیئے آپ نے فرمایا جب زینب جیسی بہن ہو تو حسین ؑ جیسا بھائی کیوں نہ روئے جبکہ میں سوچ رہا ہوں کہ کل جب ہم سب شہید ہو جائیں گے تو اس پردہ دار کے پردہ کا کیا بنے گا؟
وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مُنْقَلَبٍ  یَّنْقَلِبُوْن