التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

بارہویں مجلس --- مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ


بارہویں مجلس
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ

انسان کیلئے سوچنے کا مقام ہے کہ میں کیا تھا اور کیا ہوگیا؟حضرت امیر المومنین ؑ کا فرمان ہے مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہ جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے خدا کو پہچانا۔۔۔ اور فرمایا مَا لِبَنِیْ اٰدَمَ وَ الْفَخْر اَوَّلُہٗ النُّطْفَۃ وَ اٰخِرُہُ جِیْفَۃ  انسان اور فخر کا کیا جوڑ ہے وہ انسان جس کی ابتدأ نجس پانی سے ہے اور انتہا نجس مردہ ہے؟ درمیانی منزل میں وہ تکبر اور فخر کیوں کرے؟اسے تو اپنے محسن کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جس نے اس کو پستی سے نکال کر بلندی عطا فرمائی۔
خواہشاتِ نفس نے انسان کو اپنے اللہ کی راہ سے دور کر دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انسان کے ہر عمل پر خواہشات کی مہر لگی ہوئی ہے اور لوگ خوابِ غفلت میں سو رہے ہیں جب موت آئے گی تو پتہ چلے گا جیسا کہ آپ نے فرمایا  اَلنَّاسُ نِیَامٌ اِذَا مَاتُوْا اِنْتَبَھُوْالوگ غفلت کی نیند میں سوئے ہیں جب موت آئے گی تو آنکھ کھلے گی، اگر کوئی مرنے کے بعد واپس آتا اور بعد کے حالات سے آگاہ کرتا تو ناممکن ہے کہ انسان سے اطاعت خدا میں کوتاہی ہوتی۔
حضرت امیر المومنین ؑ کی طرف یہ شعر منسوب ہے:
لَہُ مَلَکٌ یُّنَادِیْ کُلّ یَوْمٍ
لِدُوْا لِلْمَوْتِ وَ ابْنُوْ لِلْخَرَاب
یعنی ہر روز ایک فرشتہ صدا دیتا ہے اے انسانو! موت کیلئے بچے جنو اور خراب ہونے کیلئے مکانات تعمیر کرو۔
حضرت علی ؑ ایک مرتبہ چند صحابہ کے ہمراہ وادی السلام میں تشریف لے گئے اور اہل قبور کو سلام کرکے فرمایا اے اہل قبور!  تمہارے اونچے اونچے محلات اب غیروں کے قبضہ میں چلے گئے اور تمہاری بیویاں نئے شوہروں کے قبضہ میں آگئیں اور تمہاری جائیدادوںپر غیروں کا قبضہ ہے۔۔ بتائو تمہارے ہاتھ بھی کچھ ہے؟پھر صحابہ سے مخاطب ہو کر فرماتے تم جانتے ہو کہ ان کی طرف سے جواب کیا ہے؟ پھر خود فرماتے اگر ان کے بولنے کی اجازت ہوتی تو یہ کہتے اِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی اے لوگو!  آخرت کیلئے بہتریں زادِراہ تقویٰ ہے۔
انسان جب کشتی میں سوار ہو اور کشتی تلاطم میں آجائے تو اہل کشتی غمزدہ ہو جاتے ہیں لیکن اگر ملاح کہہ دے کشتی والو! غمگین نہ رہو کیونکہ معمولی تلاطم ہے اس سے بڑے بڑے تلاطم میں ہم آجایا کرتے ہیں گھبرائیے نہیں تو سب سوار مطمئن ہوں گے۔۔۔ لیکن کیا حال ہو گا اس کشتی والوں کا جب کشتی کا ملاح ہتھیار ڈال دے اور سواریوں سے کہے خود خبردار رہو اور اپنے بچائو کا سامان تلاش کرو؟
آئیے!  جس سفینہ پر تم سوار ہو یہ آلِ محمد کا سفینہ ہے اور اوّل سے آخر تک سب ملاح خبردار، خبردار کہتے گئے ہیں بلکہ جب نماز کا وقت آتا تھا تو امام حسین ؑ کا رنگ زرد پڑ جاتا تھا اور فرماتے تھے احکم الحاکمین کے دربارکی پیشی ہے۔۔ اور حضرت امیر المومنین ؑ شب تاریک میں اپنی ریش کو پکڑ کر روتے تھے اور تڑپتے تھے جس طرح مارگزیدہ انسان تڑپتا ہے اور فرماتے تھے آہْ مِنْ قِلَّۃِ الزَّادِ وَ بُعْدِ الطَّرِیْقِ وَ طُوْلِ السَّفَر ہائے زادِراہ کم ہے۔۔ راستہ دور ہے اور سفر لمبا ہے۔
آئمہ طاہرین  علیہم السلام  سے متعدد روایات منقول ہیں کہ جو نماز نہیں پڑھتا وہ ہمارا نہیں۔۔۔ بلکہ ایک روایت میں ہے کہ امام جعفر صادقؑ نے فرمایا جب تمہاری بدکرداریاں ہمارے سامنے آئیں تو ہمارے چہرے شرم سے جھک جاتے ہیں اور بد کردار کا جعفری کہلوانا ہمارے لیے باعث شرم ہے۔۔ لیکن اگر کوئی نیک کام کرے تو اس کا جعفری کہلوانا ہی ہمارے لیے باعث راحت ہے اور فرمایا اگر محلہ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ آباد ہوںاور ایک ہمارا شیعہ بھی آباد ہو پس پوچھنے والا شخص پوچھے کہ یہاں کوئی دیانت دار، نمازی اور امین موجود ہے توسب لوگ اسی کی طرف اشارہ کریں اگر ایسا ہوتو ہمارا شیعہ ہے (تفسیر انوار النجف جلد۶)
اصول کافی میں اس قسم کی احادیث بکثرت موجود ہیں اورفرمایا اے شیعو!  ہماری زینت بن کر رہو ہمارے لیے داغ نہ بنو۔۔۔ دیکھئے نالائق شاگرد کی وجہ سے استاد باعث ملامت بن جاتے ہیں اور نالائق اولاد کی وجہ سے ماں باپ باعث ملامت بن جاتے ہیں محمد وآلِ محمد علیہم السلام ہمارے آبا بھی ہیں چنانچہ حدیث نبوی میں ہے   اَنَا وَعَلِیٌّ اَبَوَا ھٰذِہٖ الْاُمَّۃِ  یعنی میں اور علی ؑ اس امت کے باپ ہیں اوراستاد بھی ہیں۔۔ لہذا شیعوں کی بدنامی ان کی بد نامی کی موجب ہے۔
دیکھئے ذاکر اور واعظ کا کام ہے یاد دِلانا۔۔ وہ اپنے کانوں کو بھی سناتا ہے اور حاضرین کے کانوں تک بھی اپنی آواز پہنچاتا ہے خداوندکریم کہنے سننے والوں کو توفیق توبہ مرحمت فرمائے (آمین)
آخر مرنا ہے اور یہی زمین پکارپکار کرکہتی ہے اے میری پشت پر چلنے والے انسان ہوش سنبھال؟ اگر بدکار اور گنہگار ہوتو کہتی ہے بے شک میری پشت پر اکڑ اکڑکر چل پھرلے آخر ایک دن میرے شکم میں تجھے آنا ہوگا اورتجھ سے بڑے بڑوں کے تکبر میں نے مٹی میں ملادئیے پھر تم کون ہو؟ اور اگر نیک آدمی اس کی پشت پر چلے تو آواز آتی ہے اے بندۂ مومن!  چند روز تکلیف کی دنیا میں رہ کر گزارلے مجھے تیری تکلیف کا احساس ہے تجھ سے بڑے بڑے اولیاء ُ اللہ میری پشت پر صبر کرکے گزار گئے ہیں آخر ایک دن تو نے میرا مہمان ہونا ہے تو تجھے اس طرح اپنی گود میں سلائوں گی کہ دنیا کی تمام تکالیف بھول جائیں گی۔
مروی ہے قبر میں جب انسان پہنچتا ہے تو عباداتِ الٰہیہ انوار بن کر اس کی حفاظت کرتے ہیں۔۔ چنانچہ مرتے وقت تین چیزیں پیش آتی ہیں مال، رشتہ دار اور اعمال،مال کی طرف حسرت بھری نگاہ سے دیکھتا ہے تو جواب ملتا ہے اب میں تیری کوئی امداد نہیں کرسکتا مجھ سے صرف کفن ملے گا۔۔ اور رشتہ داروں کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھتا ہے تو جواب ملتا ہے ہم صرف قبر تک ہی لے جائیں گے اور بس اس کے علاوہ اور کوئی مدد نہیں ہوسکتی۔۔ پھر اعمال کی طرف نگاہِ حسرت اُٹھاتا ہے تو جواب ملتا ہے اگرچہ دنیا میں تونے ہمیں بد دلی سے ادا کیا تاہم اب تیرا مشکل وقت ہے ہم قبر میں بھی تیرے ساتھ ہیں اور میدانِ محشر میں بھی تیرے ساتھ رہیں گے۔
قبر میں جب عبادات کے انوار موجود ہوں گے تو کنارہ قبر پرایک نور جلوہ گر ہوگا پیشانی کے برابر کے نور سے پوچھے گا تو کون ہے؟ تو جواب ملے گا میں نماز مومن ہوں وہ پوچھے گا تو کمزور کیوں ہے؟ تو جواب دے گی اس مومن نے مجھے خشوع و خضوع کی خوراک سے محروم رکھا ہے اور جہاں محشر میں انبیا ٔ، صلحأ اور اولیأ کی نماز میں موجود ہوں گی وہاں اس صف میں کھڑا ہونے سے ڈرلگتا ہے۔۔ پھر منہ کے برابر کے نور سے پوچھے گا تو کون ہے؟ تو جواب ملے گا میں اس مومن کا روزہ ہوں اور پہلی قسم کے سوال وجواب ہوں گے۔۔ اسی طرح خمس، زکواۃ، حج وغیرہ سے سوال و جواب ہوگا تو آخر میں کہے گا تم بے خوف رہو میدانِ محشر کی پیشی کا ذمہ دار میں ہوں۔۔ وہ انوار پوچھیں گے تو کون ہے ؟ تو جواب دے گا میرا نام ہے ولائے علی ؑ۔
میں نے ایک کتاب میں دیکھا ہے قبر کے کنارے پر ایک اور نور بھی موجود ہوگا جب سب احباب دفن کرکے واپس چلے جائیں گے اور رونے والے چپ ہوجائیں گے تو وہ اس کے سرہانے روتا ہے مومن پوچھتا ہے تو کون ہے؟ جب میرے رونے والے تھک چکے ہیں تو تیرا گریہ شروع ہورہا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں تیرا وہ مظلوم امام ؑ ہوں جس کی یاد میں تو رویا کرتا تھا۔۔ بے شک امام حسین ؑ اپنے عزاداروں کوبھلاتے نہیں اور امام حسین ؑ کی ماں بتولِ عذرا ؑبھی ممنونِ احسان ہوتی ہے اس کی جوغم حسین ؑ میں آنسو بہائے۔
نجف اشرف کی عزادار کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ہر سال صف ِ عزا بچھاتی تھی ایک سال اس کے پاس کچھ نہ تھا وہ مایوس تھی اور محرم کا چاند نظر آیا تو اکیلی رو رہی تھی کہ دروازہ پر دستک ہوئی دروازہ کھولا تو سیاہ پوش مستور داخل ہوئی، پس صاحب خانہ کے ساتھ مل کر رات بھر ماتم کیا اور ہر رات یہی دستور رہا۔۔ جب دسویں کی رات ہوئی تووہ سیاہ پوش بی بی اس طرح روئی جیسے کسی کا جوان بیٹا آنکھوں کے سامنے دم توڑکر مرگیا ہو۔۔ جب صبح کو رخصت ہونے لگی تو گھر کی مالکہ نے ایک گٹھری میں کچھ پارچہ جات لپیٹ کر پیش کئے اور کہا کہ اس سے زیادہ نذرانہ میں نہیں ادا کر سکتی اور معذرت چاہتی ہوں، اس سیاہ پوش بی بی نے منہ کربلا کی طرف کر لیا اور روتے ہوئے آواز دی اے بیٹا حسین ؑ!  گواہ رہنا تیری عزادار تیری ماں کو تیرے ماتم کا نذرانہ پیش کر رہی ہے۔
ایک دوسری عزادار کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ عشرہ کی مجالس کے بعد وہ اپنے بیٹے کی قبر پس حسب عادت آئی دیکھا تو اس کے بیٹے کی قبر کے سرہانے ایک سیاہ پوش مستور رو رہی ہے جیسا کہ اپنے بیٹے پر رویا جاتا ہے۔۔ اس بی بی نے اس کے قریب جاکرعرض کیا اے بی بی یہ تو میرے بیٹے کی قبر ہے تیرے بیٹے کی قبر کوئی اور ہوگی تو اس خاتون نے رو کر جواب دیا ارے میں حسین ؑ کی دکھیاری ماں ہوں تو نے میرے بیٹے کا ماتم کیا اور میں تیرے بیٹے کا ماتم کرنے آئی ہوں۔
حدیث میں ہے کہ شب جمعہ بتولِ معظمہ کربلا میں تشریف لاتی ہیں اور اپنے بیٹے کے عزاداروں کو جنت کی ٹکٹیں تقسیم فرماتی ہیں خداوندکریم یہ آنسو قبول فرمائے خاتونِ جنت کو مرنے کے بعد بھی آرام نہیں بلکہ قبر میں کبھی اٹھتی ہیں کبھی بیٹھتی ہیں۔
 مروی ہے کہ حضرت حسن مجتبیٰؑ کی زہر آلود قمیص ایک کندھے پر اور امام حسین ؑ کا خون آلود کرتہ دوسرے کندھے پر ہوتا ہے اور بابا کی مزار کی طرف منہ کرکے کہتی ہیں بابا تیری امت نے میرے بے گناہ بیٹوں کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے؟
نہ معلوم بی بی نے کہاں کہاں اپنی اولاد کا ماتم کیا؟ جنگلوں میں۔۔ پہاڑوں میں۔۔ آبادیوں میں۔۔ ویرانوں میں۔۔ تلواروں کے نیچے۔۔ زندانوں میں۔۔ بازاروں میں۔۔ دیواروں میں۔۔ ہائے اولادِ بتول کو مسلمانوں نے کس قدر ستایا؟ کبھی بی بی نے خولی کے گھر بین کئے تو کبھی دروازۂ شام پر گریہ کیا؟
کہتے ہیں ایک مرتبہ زندان بان نے پوچھا کہ آقائے بیمار تمہارا کوئی پردہ دار رات کو باہر رہ جاتا ہے لہذا احتیاط سے رات کو اپنے آدمیوں کی مردم شماری کرلیا کریں کیونکہ میں کئی راتوں سے دیکھتا ہوں درزندان پر ایک سیاہ پوش مستور رو رہی ہوتی ہے امام نے فرمایا ہائے وہ میری جدۂ ماجدہ جناب فاطمہ زہراؑ ہے جو ساری روتی رہتی ہے۔

پارے مصحف ناطق دے جڈاں اُترے وچ صحرائے
باد سموم دی تیزی توں تھئے اکثر ورق جدائے
سرنامے ہر ہر آیت دے جڈاں رحل سنان تے آئے
تفسیر کھلی بازاراں وچ جڈاں خطبے سینڑ سنڑائے