التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

مختاراورعبداللہ بن زبیر

4 min read
مختار نے عبداللہ بن زبیر سے کہا کہ تین شرطوں سے تیری بیعت کرتاہوں:
  •        میری اطلاع کے بغیرتمہیں کسی کام کے کرنے کا حق نہ ہوگا۔
  •        تیری مجلس میں پہلی حاضری میری ہوگی اورمجلس سے آخری رخصت ہونے والامیں ہوں گا۔
  •        جب تیری خلافت کا معاملہ درست ہوجائے تومجھے بہترین کام پرتعینات
         کرنا جومیں خود پسند کروں۔
{مختار۔۔ ابن زبیر کو خلیفہ بر حق نہیں سمجھتاتھا لیکن چونکہ بنی اُمیّہ سے خون حسین ؑ کے انتقام کا جوش اس کے دل میں تھا اوردیکھا کہ ابن زبیر کوبھی بنی امیّہ سے دشمنی ہے پس ابن زبیر کی بیعت کو اقتدارحاصل کرنے کا بہانہ بنارہاتھا تاکہ بنی امیّہ پر تسلط حاصل کرسکوں ورنہ اس کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ابن زبیر بنی ہاشم کا دشمن اورپکا عثمانی ہے، اسی بنا پر بیعت کی شرط رکھی کہ تیری مجلس میں حاضر ہونے والا پہلا شخص میں ہوں گا یعنی مجھے عہدۂ وزارت دیا جائے اورآخری شرط یہ تھی کہ معاملہ خلافت کی درستی کے بعد حسب دلخواہ عہدہ دیا جائے اس سے مراد کوفہ کی حکومت تھی تاکہ بنی امیّہ خصوصاً قاتلان امام مظلوم ؑ سے انتقام لینا آسان ہوا}
ابن زبیر۔۔ مختارکے ارادہ کو بھانپ گیا لہذا اس نے یہ شرطیں منظور نہ کیں اورمختارمکہ سے طائف (پرانے وطن) کی طرف چلا گیا اورایک سال وہاں رہا پھر جب سال کے بعد واپس مکہ میں آیا تو ابن زبیر نے اِنہی شرائط کے ماتحت مختار  سے بیعت لے لی، ان دنوں یزید نے مسلم بن عقبہ کی سرکردگی میں ایک لشکربھیجا تھا جنہوں نے تین روز تک مدینہ کو تار اج کیا اوریہ واقعہ تاریخ میں ’’واقعہ حر ّہ‘‘ کے نام مشہور ہے، مدینہ نبوی میں خونریزی اورآبروریزی کا یہ واقعہ بنی امیّہ کی غیرت سوز تاریخ میں ایسا سیا ہ ترین دھبہ ہے جس نے اقوام عالم کے سامنے اپنی اسلامی دشمنی کا ایک ایسا محکم ثبوت فراہم کیا ہے کہ بنی امیّہ کے ہوا خواہ تاقیام قیامت اپنی انتہائی عرق ریزیوں اورانتھک کوششوں کے باوجود اس کی تردیدیاتاویل کی راہ نہیں نکال سکتے؟ بہر حال مسلم بن عقبہ مدینہ کی تاراجی کے بعد مکہ کی طرف روانہ ہوا لیکن راستہ ہی میں راہی دوزخ ہوا اورحصین بن نمیر کواپنا قائم مقام مقررکیا، چنانچہ حصین اورابن زبیر کے درمیان خوب لڑائی ہوئی مختار نے ابن زبیر کی فوج میں رہ کر خوب جوہر شجاعت دکھائے اوراسی جنگ کے دوران یزید واصل جہنم ہوا اور تمام ملک حجاز پر ابن زبیر کا تسلط ہوگیا اورلوگوں نے اس کی بیعت کرلی، پس ابن زبیر نے اپنی جانب سے عبداللہ بن یزیدکو والی کوفہ مقررکیا۔
ابن زبیر نے اب قاتلانِ امام مظلوم ؑ سے انتقام لینے کی پالیسی تبدیل کرلی، مختار پانچ ماہ اس انتظا ر میں ابن زبیر کے ساتھ رہا جب دیکھا کہ مطلب حاصل نہیں ہوتا بلکہ ابن زبیر نے صرف ملک گیری کی ہوس میں ہی ابتداء ً خونِ حسین ؑکے انتقام کا نعرہ بلند کیا تھا، انہی ایام میں ہانی بن حیہ نامی ایک شخص کوفہ سے مکہ میں عمرہ اداکرنے کے لئے آیا مختار نے اس سے کوفہ کے حالات پوچھے تواس نے جواب دیا کہ لوگوں نے ظاہر اً ابن زبیر کی بیعت تو کرلی ہے لیکن اکثر یت ایسی ہے کہ اگر ان کوکوئی صحیح قائد مل جائے تو وہ عراق حجاز وشام پر غالب آسکتے ہیں، مختار نے کہا پھر میں ہی وہ شخص ہوں جولوگوں کوایک علَم کے نیچے جمع کروں گا پس ابن زبیر کو چھوڑکر کوفہ کوروانہ ہوا۔
جمعہ کے دن دریا ئے حیرہ کے کنارے پر پہنچا، غسل کرکے عمدہ لباس پہنا اور عمامہ سرپر رکھ کر تلوارکوحمائل کر لیا اورگھوڑے پرسوار ہوکر شہر کوفہ میں اپنی پوری آن بان کے ساتھ تلوارکو ہوا میں لہراتاہوا داخل ہوا اورنعرہ لگا رہا تھا کہ خداکی قسم میں اولادِ پیغمبر کا قاتلین سے انتقام لوں گا اورکہتاتھا کہ لوگو! تم کوبشارت ہوکہ تمہاری نصرت اورکشائش کا وقت آگیا ہے، یہ وہ زمانہ تھا جب کہ سلیمان بن صردخزاعی، مسیب بن نخبہ فزاری اورعبداللہ بن دال تمیمی فرزندرسول کے خون کے انتقام کے لئے خروج کررہے تھے، چنانچہ  ۶۴ھ؁ میں انہوں نے یہ منصوبہ تیار کیا تھا کہ شام پرچڑھائی کی جائے اوراسی پروگرام کے ماتحت  ۶۵ھ؁ اوّل ماہِ ربیع الاول میں یہ لوگ کوفہ سے روانہ ہوئے، پہلے پہل امام مظلوم ؑ کی قبر پرآکر اپنی عدم نصرت پر اظہار غم کیا اورمعافی مانگی، پھر امام کی غربت وبے کسی کویاد کرکے اس قدر روئے کہ قریب تھا جان جسم سے پرواز کرجائے، پھر وہاں سے چل کرہیت میں گئے وہاں سے قرقیسا اوروہاں سے عین الوردہ میں قیام پذیر ہوئے اوراسی کو اپنی فوجی چھائونی قراردیا۔
یزید جب واصل جہنم ہوا تو اس کا بیٹا معاویہ مسند خلافت پر آیا، لیکن اس مرد مومن نے چالیس دن کے بعد اپنا استعفا پیش کردیا، پس مروان بن حکم خلافت کے لئے نامزد کیا گیا اورشامیوں نے اس کی بیعت کرلی اس نے پہلے پہل ابن زیاد کو عین الوردہ کی طرف لشکر کشی کا حکم دیا، چنانچہ یہ ملعون ایک بھاری فوج کے ساتھ روانہ ہوا اوروہاں پہنچ گیا پھر سخت جنگ ہوئی اورسلیمان بن صرد۔۔ مسیب بن نخبہ اوردیگر بہت سے تائبین وہاں شہید ہوگئے۔
’’بحارالانوار‘‘ میں ہے کہ امام حسین ؑ کی شہادت کے بعد تین سال دوماہ اورچاردن یزید زندہ رہ کرواصل جہنم ہوا، اس کی عمر ۳۸سال تھی اورروزِ وفات ۱۴ ربیع الاول  ۶۳ھ؁  جمعرات کا دن تھا۔