التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

اکیسویں مجلس -- وَ مَا أرْسَلْنَاکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِلْعَالَمِیْنَ

ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کی رحمت کے طورپر۔۔ پس حضورؐکا وجود ذی جود صر ف انسانوں تک محدود نہیں بلکہ جس طرح اللہ عالمین کاربّ ہے اسی ۔۔۔

ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کی رحمت کے طورپر۔۔ پس حضورؐکا وجود ذی جود صر ف انسانوں تک محدود نہیں بلکہ جس طرح اللہ عالمین کاربّ ہے اسی طرح آپ عالمین کیلئے رحمت ہیں۔۔ وہ جن جن کا ربّ ہے یہ ان سب کیلئے رحمت ہیں لہذا انسا نو ں۔۔جنوں۔۔ فرشوں۔۔ نبیوں اورولیوں سب کیلئے رحمت ہیں ویسے تو ہر نبی اپنی امت کیلئے رحمت ہوتا ہے لیکن جو نبیوں کیلئے بھی رحمت ہیں؟

انسان کی ارتقائی منازل کا تھوڑا ساجائزلیجئے تو واضح ہوگا کہ حضوؐر کس طرح رحمت ِکل ہیں؟ دیکھئے!  ارتقائی سیر کے لحاظ سے حیوان میں جمود ہے اورانسان میں حرکت پائی جاتی ہے۔۔ حیوان میں جمود اسلئے ہے کہ عقل سے بہرہ ور نہیں اگر اس میں عقل ہوتی تو وہ بھی ارتقائی منازل کی طرف آگے بڑھتا لیکن انسان میں عقل ہے لہذا اس کا کل آج سے الگ ہے کل کیا تھا؟ اور آج کہاں پہنچاہے؟ اس میں زمین وآسمان کا فرق ہے حیوان کے جس جوڑے نے روزاوّل سے جو طرزِ زندگی قبول کیا ہے اس کی اولاد ہزاروں سال گزرنے کے باوجود ایک بال برابر بھی آگے نہیں بڑھی مثلاً جس حیوان نے پہلے دن سے درختوں پر بسیرا قبول کیا اس کی اولاد آج تک درختوں پر ہے۔۔ جس جانور نے پہاڑوں میں رہائش قبول کی آج تک اس کی اولاد پہاڑوں میں ہے۔۔ اسی طرح جس جوڑے نے پہلے دن دانہ کو خوراک بنایا اس کی اولاد ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی دانہ کھاتی ہے اور جس جانور نے پہلے دن سے گھاس کو غذا قرار دیا آج تک اس کی اولاد گھاس کھاتی ہے، گویازندگی کے کسی شعبہ میں کسی حیوان نے تبدیلی نہیں نہ خوراک میں۔۔ نہ رہائش میں بلکہ اپنے آبائی طریقہ پر کار بند ہے اور اپنے آبائی گرزِ زندگی کے خلاف سوچ ہی نہیں سکتا اور یہی ہے اس کا جمود۔

انسان وہ ذات ہے جس نے زندگی کے ہر شعبہ میں حرکت کی اور ہر آئے دن ارتقائی منازل کی طرف قدم بڑھاتا رہا۔۔ چنانچہ اگر صرف ایک سو سال پہلے کا انسان آج دوبارہ پلٹ کر آجائے تو وہ حیرت کے سمندر میں ڈوب جائے گا کہ میں کہاں تھا اور میری یہ نسل کہاں تک پہنچ گئی؟ انہوں نے زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کی راہ اختیار کی، باپ دادا کی غذا کیا تھی اور اس کی غذا کیا ہے؟ ان کی سواری کیا تھی یہ کس پر سوار ہے؟ ان کا لباس کیسا تھا اور یہ کس لباس میں ہے؟ ان کا مکان کیسا تھا اور اس کا مکان کیسا ہے؟ گویا زندگی کے ہر شعبہ میں اس کا آج کل سے بہت آگے نکل چکا ہے۔

اگر آج سے ہزار سال پہلے کا انسان پلٹ کر آجائے تو وہ اس دنیا کو ایک عجوبہ قرار دے گا پھر اس سے پیچھے جائیں تو کہاں وہ زمانہ جب یہی انسان پہاڑوں کی غاروں میں درختوں کے پتوں کو لباس قرار دے کر رہتا تھا کہاں آج کا انسان جس نے فضا اور خلا میں اپنی حکومت کا ڈنکہ بجا دیا ہے؟ اسی انداز سے آپ سوچیں کہ دورِ آدم ؑمیں جب آدمیت کی ابتدا تھی انسان کس منزل پر ہوگا اور اس کی سوچ کیا ہوگی؟

پس حضرت آدم ؑ آدمیت کی پہلی کلاس کے استاد تھے اور حضرت محمد مصطفی عالمی انسانی یونیورسٹی کے آخری چانسلر ہیں، آدم ؑان آدمیوں کیلئے نبی تھے جو انسانیت کے الف وبا میں تھے اور محمد مصطفی اس قوت اور ان انسانوں کے نبی ہیں جو انسانیت کی ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے ایک بلند مقام پر فائز ہیں جب ایک مدرسہ میں دس درجے ہوں تو پہلی کلاس آخری کلاس میں کتنا فرق ہو تا ہے؟ لیکن جہاں ایک لاکھ چوبیس ہزار کلاسیں ہوں تو پہلی کلاس اور آخری کلاس میں کتنا فرق ہو گا؟ اس سے پتہ چلے گا کہ پہلی امت اور اس امت میں کتنا فرق ہے؟ پہلی امت کے کورس صحیفہ آدم اور اس امت کے کورس قرآن میں کس قدر فرق ہے؟ اسی ترتیب سے حضرت آدم ؑاور حضرت سلطان الانبیا ٔکے درمیان کتنا فرق ہوگا؟

البتہ نام نہیں بدلا کرتا پہلی کلاس کے استاد کو بھی استاد کہا جاتا ہے اور آخری کلاس کے پڑھانے والے کو بھی استاد کا نام دیا جاتا ہے اسی طرح پہلی کلاس میں پڑھنے والا بھی طالب علم کہلاتا ہے اور آخری جماعت میں بیٹھنے والا بھی طالب علم ہوتا ہے لیکن لیاقت کے اعتبار سے آخری کلاس کا طالب علم پہلی کلاس کے استاد سے بھی فائق ہوتا لیکن پھر بھی اِس کو طالب علم کہیں گے اور اُس کو استاد کہیں گے۔

 یہاں پہلے معلم کو نبی کہا جاتا ہے اور آخری معلم بھی نبی ہے پہلی جماعت بھی امت ہے اور آخری جماعت بھی امت ہے لیکن جس طرح پہلی امت اور آخری امت میں علمی اعتبار سے فرق ہے اسی طرح پہلے نبی اور آخری نبی میں بھی اسی نسبت سے فرق ہوگا اور صحیفہ آدم ؑاور قرآن مجید کے علوم میں بھی یہی فرق ہوگا۔

اس ترتیب ِارتقا ٔکو سمجھنے کے بعد میں یہ بات آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ آخری کلاس کا استاد پہلی تمام کلاسوں کو علمی اعتبار سے مطمئن کر سکتا ہے کیونکہ وہ پورے سکول اور ادارہ کا انچارج ہے لیکن پہلی کلاسوں کے اساتذہ اپنی اپنی کلاس کو اور اپنے درجہ سے نچلی کلاس کو تو پڑھا سکتے ہیں اور ان کو مطمئن کر سکتے ہیں لیکن اپنے درجے سے اوپر والی کلاس کو وہ ہرگز مطمئن نہیں کر سکتے۔

اس سے واضح ہو گیا کہ حضرت محمد مصطفی جو عالمی اسلامی یونیورسٹی کے انچار ج ہیںاور پوری اسلامی علمی یونیورسٹی کے لئے رحمت ِکل ہیں تو وہ یقینا سابقہ تمام امتوں کو بلکہ انبیا ٔ کو بھی پڑھا سکتے ہیں لیکن وہ ان کی جگہ نہیں لے سکتے کیونکہ ان  کے علوم جزئی ہیں اور ان کا علم ان کے مقابلہ میں کلی ہے۔

آخری استاد اگرچہ پہلی تمام کلاسوں کو پڑھا سکتا ہے لیکن اس کو اپنی کرسی سے ہٹاکر اگر پہلے استاد کی کرسی اور کلاس دی جائے تو یہ استاد کی تنزلی اور توہین ہے اور اس کے برعکس اگر پہلے استاد کو آخری استاد کی کرسی سونپی جائے تو یہ کرسی کی توہین ہے۔۔ اسی طرح اگر آخری نبی کو پہلی امت یعنی آدمیت کی الف با پڑھانے کی ڈیوٹی دی جائے تو یہ ان کے مقام نبوت کی ہتک ہے اور پہلے نبی کو جو انسانیت کی الف با پڑھانے آیا تھا اس کو ختم الانبیا کی سیٹ دی جائے تو مقام ختم الانبیا اور کرسی محمد مصطفی کے خلاف ہے۔

پس جب حضرت آدم ؑسے لے کر حضرت عیسیٰؑ تک تمام انبیا ٔکو محمد مصطفی کی کرسی پر جگہ دینا حضرت محمدمصطفی کی کرسی اور منبر کی توہین ہے حالانکہ وہ انبیا تھے تو کسی خاکی اور امتی عام انسان کو پکڑ کر کرسی نبوت پر بٹھانا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟

اب اگر محمد مصطفی اپنی کرسی کوبحکم پروردگار خالی کریں گے تو ان کی جگہ پر سابق انبیا ٔ کے برابر کا آدمی تو نہیں بٹھایا جا سکے گا اس جگہ تو وہ بیٹھے گا جو سابق انبیا ٔ سے علم میں برتر ہو اور ان سے افضل ہو۔۔ چنانچہ حضرت پیغمبرؐ نے خود امام علی ؑ کا تعارف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا  مَنْ أرَادَ أنْ یَّنْظُرَ اِلٰی اٰدَمَ فِیْ عِلْمِہٖ۔۔ ( الحدیث) یعنی جو شخص آدم ؑکو علم میں۔۔ نوحؑ کو خشیت میں۔۔ ابراہیم ؑ کو خلَّت میں۔۔ موسیٰؑ کو ہیبت میں۔۔ عیسیٰؑ کو زہد میں۔۔ ایوب ؑکو صبر میں اور یوسف کو حسن وجمال میں (اَوْکَمَا قَالَ) دیکھنے کا خواہشمند ہو تووہ علی ؑکے چہرہ کو دیکھے فَاِنَّ فِیْہِ لَتِسْعِیْنَ خَصْلَۃً مِنْ خِصَالِ الْأنْبِیَائِ علی ؑمیں انبیا ٔ کی صفات میں سے نو ّے صفتیں موجود ہیں جو اُن میں ایک ایک یا دو دو تھیں علی ؑان سب کا جامع ہے۔

پس پیغمبر اکرؐم کی جگہ وہ بیٹھ سکتا ہے جو سابق انبیا ٔ کی اُمتوں کو بھی درس دے سکے؟ حضرت امیر المومنین ؑ نے منبرِ کوفہ پر واشگاف الفاظ میں ببانگ ِدہل ارشاد فرمایا سَلُوْنِیْ سَلُوْنِیْ قَبْلَ أنْ تَفْقُدُوْنِیْ مجھ سے پوچھو پوچھو جو چاہو قبل اس کے کہ مجھے نہ پائو میں تو آسمان کے رستوں کو زمین کے راستوں سے زیادہ جانتا ہوں،   ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

 لَوْثُنِّیَتْ لِیَ الْوَسَادَۃُ وَ جَلَسْتُ عَلَیْھَا وَ سَئَلُوْنِیْ أھْلِ التَّوْرَاۃِ بِتَوْرَاتِھِمْ وَ أھْلِ الْاِنْجِیْلِ بِاِنْجِیْلِھِمْ وَ أھْلِ الزَّبُوْرِ بِزَبُوْرِھِمْ وَ أھْلِ الْفُرْقَانِ بِفُرْقَانِھِمْ لَأجِبْتُ کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمْ بِکِتَابِہٖ۔( الحدیث)

یعنی مسند بچھا دی جائے اور تکیہ لگا دیا جائے اور مجھے اطمینان سے بیٹھنے کا موقعہ مل جائے تو میں بلا جھجھک کہہ سکتا ہوں کہ بیشک تورات والے تورات لائیں۔۔ انجیل والے انجیل لائیں۔۔ اہل زبور اپنی کتاب زبور لائیںاور قرآن والے قرآن کو ساتھ لایں اور مجھ سے سوال کریں تو میں ہر صاحب کتاب کو اس طرح جواب دوں گا کہ ان کی کتاب خود میری تصدیق کرے گی۔

گویا تورات پڑھوں گا تو تورات کا حرف حرف۔۔ لفظ لفظ۔۔ آیت آیت۔۔ رکوع رکوع اور پارہ پارہ گواہی دے گا کہ علی ؑنے وہی کچھ بیان فرمایا ہے جو کتاب میں ہے اور اگر انجیل پڑھوں گا تو چرخِ چہارم سے عیسیٰؑ داد دیں گے اور زبور پڑھوں گا تو لحنِ دائودی نثار ہو گا اور اگر قرآن پڑھوں گا تو خود محمد مصطفی پکار اُٹھیں گے کہ قرآن علی ؑ کے ساتھ ہے اور علی ؑ قرآن کے ساتھ ہے۔

ایک اشتباہ کو دور کردوں۔۔ یہ وہ کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جبریل محمد مصطفی کا استاد ہے؟ حالانکہ میرے عقیدے میں جبریل آپ کا خادم ہے تو میں عقلی سطح پر اس کو واضح کرتا ہوں:

دیکھئے۔۔۔ میرے سابق بیان کے ماتحت آخری استاد پہلے تمام اساتذہ سے علم میں برتر ہواکرتا ہے تو بتائیے جو شخص پہلی کلاس کے استاد سے علم میں پست ہو کیا وہ آخری استاد کی برابر ی کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں دیکھئے جب اللہ نے اعلان فرمایا وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلا ئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْأرْضِ خَلِیْفَۃ یعنی اللہ نے فرشتوں سے فرمایا میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں تو تمام فرشتے یک زبان عرض گزار ہوئے  قَالُوْا أ تَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَ یَسْفِکُ الدِّمَآئَ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ کہنے لگے تو ایسے کو خلیفہ بنا تا ہے جو زمین میں فساد اور خونریزی کرے گا؟ حالانکہ ہم تیری تسبیح و تقدس کرتے ہیں، یہ دستور ہے کہ اگر کوئی کسی کو ایک عہدہ دینا چاہے اور کوئی معترض اعتراض کرتے ہوئے اس کے عیوب اور اپنی خوبیاں گنوانے لگ جائے تو اس کا مقصد صاف یہ ہے کہ یہ معترض خود اس عہدہ کا خواہشمند ہے۔۔ چنانچہ فرشتوں کا یہ طرزِ گفتگو کہ وہ فسادی ہوگا اور ہم عبادت گزار ہیں اسی امر کی طرف اشارہ ہے کہ اس عہدہ کیلئے ہم موزوں ہیں اور وہ اَن فٹ ہے۔

تو اُن کو اللہ نے یہ کہہ کر خاموش کر دیا کہ اِنِّیْ أعْلَمُ مَا لا تَعْلَمُوْن میں جو کچھ جانتا ہوں تم نہیں جانتے ، مقصد یہ تھا کہ تم نے معیارِ خلافت زہد و تقویٰ اور تسبیح و تقدیس کو سمجھ رکھا ہے جبکہ میرے نزدیک معیارِ خلافت علم ہے۔۔ کیونکہ علم تقویٰ پر غالب ہے، علم سے تقویٰ حاصل ہو سکتا ہے لیکن تقویٰ سے علم حاصل نہیں ہو سکتا، اگر تم لوگ خلافت کے خواہشمند ہو تو اپنا تقویٰ پیش کرنے کی بجائے علمی میدان میں آدم ؑکا مقابلہ کرو؟ چنانچہ علمی امتحان میں سب فرشتوں نے اپنی ہار تسلیم کرلی  قَالُوْا لا عِلْمَ لَـنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا یعنی ہمیں کچھ علم نہیں سوائے اس کے جو تو نے ہمیں تعلیم فرمایا ہے۔

اس کے بعد آدم ؑ کی تخلیق ہوئی اور اس میں روح پھونکی گئی تو تمام فرشتوں کو حکم ہوا  فَقَعُوْا لَہٗ سَاجِدِیْن یعنی تم سب کے سب سجدہ کرتے ہوئے آدم ؑکے سامنے جھک جانا پس وہ جھک گئے۔۔ یعنی ان میں جو آدم ؑپر برتری کا خیال اور تصور تھا سب کو حضرت آدم ؑکے سامنے سرنگوں کر کے ان سے علمی طور پر آدم ؑکی برتری منوائی اور یہ نہیں کہ صرف زمین کے فرشتوں نے سجدہ کیا تھا بلکہ سَجَدَ الْمَلَآ ئِکَۃُ کُلُّھُمْ أجْمَعُوْنَ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا تھا۔۔ تو وہ جبریل جو انسانیت اور آدمیت کو الف و با پڑھانے والے پہلے استاد کا علمی سطح پر مقابلہ نہ کر سکا وہ ایک لاکھ چوبیس ہزار مدارج طے کر کے نبوت کی آخری کرسی پر جلوہ گر ہونے والے نبی کا استاد کیسے بن سکتا ہے؟ یہ عقیدہ خاتم الانبیا کی ناقدر شناسی کا ہی نتیجہ ہے۔

اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ملاحظہ ہو۔۔۔۔ حضرت علی ؑسے کسی کہنے والے نے کہا    ئَ أنْتَ مُحَمَّدٌ کیا آپ ؑمحمدؐ ہیں؟ تو آپ ؑنے فرمایا ایسا مت کہو أنَا عَبْدٌ مِّنْ عَبِیْدِ مُحَمَّد میں تو محمد مصطفی کے غلاموں میں سے ایک غلام ہوں۔

ایک دن حضرت جبریل پیغمبر اکرؐم کے پاس تھے کہ حضرت علی ؑدروازۂ مسجد سے داخل ہوئے فوراً جبریل تعظیم و تکریم کیلئے قیام کیا۔۔ آپؐ نے دریافت فرمایا    لِمَ تَقُوْمُ لِھٰذَا الْفَتٰی اس جوان کیلئے تم کیوں کھڑے ہوئے ہو؟ تو جبریل نے عرض کیا اس کا میرے اوپر استادی کا حق ہے۔۔ آپؐ نے پوچھا وہ کیسے؟ تو جبریل نے عرض کیا روزِ ازل جب ذاتِ پروردگار نے مجھے خلعت ِوجود سے نوازا اور زیورِ تخلیق سے آراستہ فرمایا تو پہلا سوال اس کی جانب سے تھا مَنْ أنَا وَ مَنْ أنْتَ بتائو تم کون ہو اور میں کون ہوں؟ تو میں نے جواب میں عرض کیا أنْتَ أنْتَ وَ أنَا أنَا تو تو ہے اور میں میں ہوں۔۔ پھر سختی کے لہجہ میں خطاب ہوا صحیح بتائو  أنَا وَ مَنْ أنْتَ پھر بھی میں نے  أنْتَ أنْتَ وَ أنَا أنَا  تو تو اور میں میں کا جواب دیا۔۔ تو تیسری دفعہ پھر خطاب ہوا میں حیران تھا کہ کیا جواب دوں؟ اچانک عالمِ انوار سے ایک نو ر برآمد ہوا اور کہا جبریل وہ جواب نہ دہرائو بلکہ کہو أنَا عَبْدُ الذَّلِیْل وَ أنْتَ رَبُّ الْجَلِیْل اِسْمُکَ الْجَلِیْل وَ اِسْمِیْ جِبْرِیْل میں عبد ِ ذلیل ہوں اور تو ربّ جلیل ہے تیرا نام جلیل ہے اور میرا نام جبریل ہے۔۔۔ چنانچہ میں نے یہ جواب دیا تو تاجِ ملکوتیت میرے سر کی زینت بنا۔۔ اب یہ جوان جو کہ درِ مسجد سے داخل ہوا ہے میں نے فوراً پہچان لیا ہے کہ یہ وہی ہے جس نے مجھے عالمِ انوار میں درس دیا تھااس لئے مجھ پر فرض ہے کہ اپنے استاد کی تعظیم کیلئے کھڑا ہو جائوں۔

آپؐ نے دریافت کیا یہ کس زمانہ کی بات ہے جب علی ؑنے تجھے توحید کا درس دیا تھا؟ جبریل نے عرض کیا میں اتنا عرض کر سکتاہوں کہ جانب عرش ستر ہزار سال کے بعد ایک ستارہ طلو ع کرتا ہے اور میں اپنی زندگی میں اس کو ستر ہزار بار دیکھ چکا ہوں۔

اب انصاف فرمائیے۔۔ حضرت علی ؑاپنے آپ کو محمدمصطفی کا غلام ظاہر کرتے ہیں تو جو جبریل حضرت محمدؐ کے غلام کا عالمِ ازل میں شاگرد رہا ہے وہ اس سلطان کا استاد کیسے ہو سکتا ہے جو امام علی ؑکا بھی استاد و آقا تھا؟ پس محمد مصطفی کی جگہ پر وہی آسکتا ہے جوجبریل جیسے فرشتوں کا بھی استاد ہو کیونکہ حضوؐر عالمین کیلئے رحمت کل ہیں تو ان کا جانشین وہی ہوگا جو عالمین کیلئے رحمت کل ہو۔

چونکہ جمہوری دَور ہے لہذا کوئی اصر ار کرے کہ حضوؐرکی جگہ پر الیکشن سے کسی کو بٹھایاجاسکتا ہے۔۔۔۔۔ تو میں عرض کروں گا کہ الیکشن سے حکمران تو تجویز کیا جاسکتا ہے لیکن الیکشن سے استاد نہیں چناجاسکتا۔۔ کیونکہ استاد کے لئے علم کی ضرورت ہے اورالیکشن سے کسی کو علم حاصل نہیں ہوسکتا، جس طرح فرشتوں کے جواب میں اللہ نے فرمایاکہ خلافت کا معیار علم ہے عبادت نہیں کیونکہ علم عبادت کو لاسکتا ہے لیکن عبادت علم کو نہیں لاسکتی۔۔ اسی طرح الیکشن جمہوری اقتدار کو تولاسکتا ہے لیکن علم کو نہیں لاسکتا یاجاہلوں کاچناہوا آدمی کرسی اقتدار توحاصل کرسکتا ہے لیکن جمہوریت اس کو علم نہیں دے سکتی اورخلافت کے لئے علم کی ضرورت ہے، ہزار گنہگارکسی کو چنیں تو چناہوا بندہ گنہگارہی رہے گا وہ معصوم نہیں بنے گا اورخلیفہ معصوم ہوناچاہیے۔

ایک معمولی سکول کا ہیڈماسٹر اگر تبدیل ہوتو اس کی جگہ سکول کے لڑکے اجتماع کرکے کسی کو نہیں بٹھا سکتے ہیں ہم صاف کہتے ہیں کہ یاتواللہ اس رسول کو اپنے ہاں نہ بلائے یہاں رہنے دے۔۔ اوراگر اس کو واپس بلانا ہے تو اس کاقائم مقام وہ خود ہی دے کیو نکہ یہ تو کوئی احمق حکمران بھی نہیں کرسکتا کہ ایک عہدہ دارکو تبدیل کرے اورلوگوں سے کہے کہ اس کا قائم مقام خود چن لو میں منظوری دے دوں گا؟ بلکہ تبدیل ہونے والے کی جگہ پر فقط وہی آئے گا جس کے پاس اُس جیسی سند اور ڈگری ہو۔۔ پس محمد مصطفی کے بعد اس کی کرسی کو وہی سنبھالے گا جو اس حکومت کی طرف سے سند یافتہ ہو جس حکومت نے حضوؐر کونامزد فرمایاتھا۔  

اگر جمہوریت سے ہی معاملہ طے کرنا ہے توچلو ہم مان لیتے ہیں لیکن جمہوریت کیلئے بھی تو قواعد وضوابط ہیں۔۔ اگر ایک شہرکا ممبر ہے توشہر والے ووٹ دیں، ملک کا صدرہے تو ملک والے ووٹ دیں، جتنی حدود کے لئے وہ منتخب ہے وہ سب اس کے حق میں ووٹ دیں۔۔۔ یہ کس طرح جائزہے کہ نبی ہوعالمین کے لئے اوراس کے جانشین کے لئے ووٹ دیں صرف مدینے والے؟

محمد مصطفی چونکہ عالمین کے لئے نبی ہیں تو ان کا قائم مقام بھی عالمین کاہادی ہوگا، پس جانشین پیغمبر وہ ہوگا جس کو تمام اہل زمین۔۔ جن وانس اپنا فرمانروا تسلیم کریں۔۔ چرند پرند جس کے سامنے جھکیں۔۔ آدمؑ تا عیسیٰؑ سب نبی اس کی عظمت کو تسلیم کریں۔۔ ادنیٰ سے اعلیٰ تمام عالم ملکوت اس کو اپنا مولا مانے۔۔ جس کے لئے آسمان سے اُترکر ستارہ گواہی دے اورسورج پلٹ کر جس کی امامت کو تسلیم کرے وہ عالمین کے سلطان کاقائم مقام ہوگا۔

اس لئے شیعوں نے دوسرے مسلمانوں سے اختلاف کیاہے۔۔ مسلمان کہتے ہیں محمد مصطفی کے بعد جسے چاہیں گے ہم نبی کاقائم مقام بنالیں گے لیکن ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ جس ہستی نے محمد مصطفی کو بھیجاہے وہی اس کے قائم مقام کا خود انتظام کرے گا۔۔ پس ذات احدیت نے حضرت علی ؑکو چنا اورحضرت محمد مصطفی نے مقام غدیر میں ان کی ولایت کا اعلان کردیا۔۔ وہ علی ؑجو تمام عالمین کارہبر اورمحمد مصطفی کا صحیح جانشین ہے اس کے مقام کو سمجھناہماری طاقت سے بالاتر ہے، ہم تو اپنے آپ کو نہیں سمجھ پاتے کہ ہم کیاہیں؟ اسی بنا ٔپرمولاامیر المومنین ؑ  نے فرمایا مَنْ عَرِفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرِفَ رَبَّہُ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔

میں شیشہ دیکھ کراپنی شکل کو پہچان سکتا ہوں لیکن یہ نہیں جان سکتا کہ میں خود کیا ہوں؟ دیکھئے۔۔۔ ایک ہے میں اورایک ہے میرا، میں مالک اورمیرا مملوک اب میرے ظاہری اورباطنی تمام اعضا ٔ میرے ہیں یعنی میرے مملوک ہیں جس طرح میرا لباس۔۔ میری زمین۔۔ میرا مکان وغیرہ سب میرے ہیں لیکن میں نہیں، اسی طرح میرا سر۔۔ میرامنہ۔۔ میرا سینہ۔۔ میراجگر۔۔ میرا دل۔۔ میرا دماغ وغیرہ یہ سب میرے ہیں ان میں میں نہیں، کوئی ڈاکٹر آپریشن کرکے بھی مجھے نہیں ڈھونڈسکے گا اندر اورباہر سب میرے ہیں بس میں ہر ایک میں ہوں اورکسی ایک کا پابند نہیں میرے ہونے کی دلیل یہ ہے کہ میرے سب اعضا ٔ حرکت میںہیں اگر میں چلاجائوں تو یہ سب جامد اورساکن ہوجائیں گے پس ان کی حرکت میرے وجود کی دلیل ہے ورنہ میں خود اپنی آنکھ کو بھی نظر نہیں آسکتا اسی طرح پوری کائنات کا حرکت میں ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ ہے تو جوانسان خود اپنی ذات کونہیں پہچان سکا وہ حضرت علی ؑکی ذاتیات کو کیسے پہچانے گا؟

اس لئے معصوم ؑ نے خود فرمایا لا یُقَاسُ بِنَا أحَدٌ ہمیں کسی سے قیاس نہیں کیا جاسکتا۔۔ گویاہم نہ اللہ جیسے نہ تم جیسے، اللہ خالق ہم مخلوق اورتم خاک ہم نور، پس اللہ جیسا نہ کہواوراپنے جیسا بھی نہ سمجھو، جو ہمیں اللہ جیسا کہے وہ مشر ک اور جو اپنے جیسا سمجھے وہ کافر۔۔۔ پس ہم اپنی مثال آپ ہیں، محمدؐ علیؑجیسا علی ؑمحمد ؐجیسا۔۔ حسن ؑحسین ؑجیسا اورحسین ؑحسن ؑجیسا۔۔ سجاد ؑباقرؑجیسا اورباقرؑسجاد ؑجیسا۔۔ صادقؑ کاظم ؑجیسااورکاظم ؑ صادقؑ جیسا۔۔ تقیؑ رضاؑ جیسااوررضاؑ تقیؑ جیسا۔۔ نقیؑ عسکریؑ جیسا اورعسکریؑ نقیؑ جیسا اورمہدیؑ کل جیسا۔۔۔۔ چنانچہ ارشادہے اَوَّلُنَا مُحَمَّدٌ وَّاٰخِرُنَا مُحَمَّدٌ وَ أوْسَطُنَا مُحَمَّدٌ وَکُلُّنَا مُحَمَّدٌ ہم سب کے سب محمد ہیں۔

روایت میں ہے کہ دنیا سے کوئی مومن کوچ نہیں کرتا جب تک کہ اپنی زندگی میں اپنے امام وقت کی زیارت نہ کرلے۔۔۔ گویا ہرمومن زیارت کرتاہے البتہ پہچانتا نہیں، کسی نے کربلا میں دیکھا ہوگا۔۔ کسی نے نجف میں۔۔ کسی نے مکہ میں دیکھا۔۔ کسی نے مدینہ میں لیکن پہچانا نہ ہوگا۔

جب امام عالیمقام ؑپردۂ غیب سے نکل کرکرسی اقتدار سنبھالیں گے اورہردور کا مومن زندہ ہوکر زیارت سے بہرہ ور ہوگا تب پہچانیں گے، کوئی کہے گا میں ان کو نجف میں دیکھا تھا۔۔ کوئی کہے گا یہ وہی ہیں جن کو عرفات میں دیکھا تھا۔۔ وعلیٰ ہٰذاالقیاس۔

قائم آلِ محمد عج اللہ فرجہٗ کے چہرہ پر ہر معصوم کی جھلک ہوگی، حسن ؑعسکری کے زمانے کا مومن کہے گا حسن ؑعسکری ہے۔۔ علی نقیؑ کے زمانہ کا مومن اسے علی نقیؑ سمجھے گا۔۔ محمد تقیؑ کے زمانے والا محمد تقیؑ سمجھے گا۔۔ امام رضا ؑکے زمانے والا اسے علی رضا ؑجانے گا۔۔ موسیٰ کا ظم ؑکے دور کا مومن موسیٰ کا ظم ؑسمجھے گا۔۔ جعفر صادقؑ کے زمانے والا کہے گا یہ جعفر صادقؑ ہے۔۔ محمد باقرؑ کے زمانہ کامومن کہے گا باقرالعلوم ہے۔۔ حضرت سجاد ؑ کے زمانے والا اسے زین العابدین کہے گا۔۔ حبیب ابن مظاہرکہے گا یہ تو حسین ؑ ہے۔۔ حسن ؑکے زمانے کا مومن کہے گا حسن ؑہے۔۔ ابوذر اُٹھے گا تو کہے گا علی ؑہے۔۔ سلمان کو کہنا پڑے گا یہ محمدؐ ہے۔

اللہ تعالیٰ سے ہروقت دعاہے کہ ان کا ظہور ہو اورظلم کی چکی میں پسی ہوئی انسانیت کو سکون کا سانس ملے۔۔۔ ان کا ظہور جلدی ہو تاکہ ہم غم کی بجائے عید دیکھیں اوررات کو سوکر کب صبح اٹھیں تو یہ ندا گونج رہی ہو کہ زہرا ؑکا معصوم بیٹا آج سربراہِ مملکت ہے، اے اللہ!  وہ دن ہمیں کب نصیب ہوگا جب تاریکی میں ڈوبی ہوئی زہراؑ کی قبر پرروشنی ہوگی؟ ہائے آج ہرمزار پررات کو روشنی ہوتی ہے ایک زہراؑ  کی قبرایسی ہے جس پر تاریکی برستی ہے اور مایوسی چھائی ہوئی نظر آتی ہے؟

ایک وقت تھا جب بنت ِزہرا ؑ کو شب یازدہم ہر سو تاریکی پھیلی ہوئی نظر آتی تھی لیکن آج مظلوم کربلا کی قبر پر بھی بجلی کے قمقمے ہیں۔۔ صرف رسول اللہ کی شہزادی کی قبر ہی ہے جس پر آج تک چراغ جلانا مسلمانوں کے نزدیک بدعت ہے؟ رسول اللہ کے دور سے آج تک بی بی کو کبھی خوشی نصیب نہیں ہوئی۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ آلِ محمد کو کون نہیں مانتا؟ میں کہا کرتا ہوں اگرسب مانتے ہوتے تو زہرا ؑکا ہاتھ پہلو پر نہ ہوتا؟ آدم ؑسے لے کر آج تک کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے کہیں نہ ملے گا کہ ۱۸ برس عمر ہو اور سر کے تمام بال سفید ہوں؟ پورا ایک گھنٹہ کرسی اقتدار کے سامنے کھڑی رہی اور لوگ دیکھتے رہے لیکن کسی کو بی بی کے مطالبہ کی تائید کی جرأت نہ ہوئی اور کسی نے نہ کہا کہ تھک گئی ہو گی بیٹھ جا۔

وہ درخت کاٹ دیا گیا جس کے نیچے جا کر گریہ کرتی تھی۔۔ رات کو روتی تو کہا جاتا تھا رات کو نہ روئے ہمارے آرام میں خلل ہوتا ہے اور دن کو روتی تو حکم ملتا کہ ہمارے کاروبار متاثر ہوتے ہیں لہذا رونا بند کر دو۔۔۔ بڑے درد بھرے لہجہ میں بی بی نے ایک نوحہ پڑھا:

صُبَّتْ عَلَیَّ مَصَائِبٌ لَوْأنَّھَا

صُبَّتْ عَلٰی الْأیَّامِ صِرْنَ لَیَالَیَا

میرے اُوپر مصائب کے ایسے پہاڑ گرائے گئے کہ اگر دنوں پر گرائے جاتے تو وہ راتیں بن جاتے۔۔۔ ابھی تک بابا کے غم سے فارغ نہیں ہوئی تھی کہ اچانک دروازہ پر شور وغل سنائی دیا۔۔ برقعہ پہن کر تشریف لے گئیں اور فرمایا میں اُس کی بیٹی ہوں جس کا کلمہ پڑھتے ہو ایک سنگدل شخص نے کہا دروازہ کھولو، فرمایا تیرا کیا مطلب ہے؟ کہا میں اندر آئوں گا اپنے ملزم پکڑنے ہیں؟ تو بی بی نے شاید کہا ہوگا یہ آیت تطہیر کا محل نزول ہے ملزموں کا اڈہ نہیں۔۔۔۔ کسی شقی القلب نے حکم دیا لکڑیاں جمع کرو سپائی نے پوچھا کس لئے؟ کہا میں اس دَر کو آگ لگاتا ہوں؟

بلکہ ایک روایت میں ہے کہ اس نے بی بی سے خطاب کر کے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ تیرے بابا کو تجھ سے کس قدر محبت تھی؟ تاہم یہ چیز مجھے تیرے دروازہ کو جلا دینے سے مانع نہ ہوگی، ورنہ ان کو نکالو جن سے ہم نے بیعت لینی ہے، غالباً شبلی نعمانی نے عذر پیش کیا ہے کہ یہ دھمکی تھی۔۔ تو میں کہوں گا زہرا ؑاور دھمکی؟ یہ تو وہ بی بی ہے جس کی تعظیم خود رسول اللہ کرتے تھے۔

مدینہ والوں نے آگ کے شعلے دیکھے دھواں اُٹھا۔۔ دروازہ جلا۔۔ بس باہر سے ایک ظالم نے دروازہ کو دھکا دیا چنانچہ جلتا ہوا دروازہ گرا، اُدھر دیوار اِدھر دروازہ   درمیان میں حسنینؑ کی ماں۔۔ ایک چیخ بلند ہوئی با با۔۔ بابا۔۔ با با پھر فرمایا  یَا فِضَّۃُ اِلَیْکِ فَخُرِیْنِیْ وَاِلٰی صَدْرِکِ فَسَنِّدِیْنِیْ وَاللّٰہِ لَقَدْ قَتَلُوْا مَا فِیْ أحْشَائِیْ اے فضہ! مجھے سینہ کا سہارا دو اللہ کی قسَم میرا محسن شہید ہو گیا ہے۔۔۔ جب فضہ پہنچی تو دیوار کے پہلو میں آنکھیں بند تھیں اُٹھانا چاہا تو دھیمی آواز سے فرمایا مجھے اُٹھانے کی کوشش نہ کرو مجھے بابا کی امت نے ختم کر دیا ہے؟

کافی دیر تک خاموش رہی جب آنکھ کھولی تو دیکھا صحن خالی ہے نامحرموں کے قدموں کے نشانات باقی ہیں۔۔۔ پوچھا ہوگا علی ؑکہاں ہیں؟ تو جواب ملا ان کو مسلمان ساتھ لئے گئے ہیں۔۔ توبی بی نے فرمایا اب میرے لئے محسن کے صدمہ سے یہ صدمہ سخت ہے۔۔ اے فضہ!  تبرکات والی صندوق سے مجھے بابا کا عمامہ اُٹھا دو اور بابا کی قمیص لائو اور حسنین ؑکو ساتھ لیا۔۔دربار میں جا کر پہلے توعلی ؑ سے جاکر لپٹ گئی اور فرمایا  خَلُّوْا عَنْ اِبْنِ عَمِّیْ وَ اِلَّا لَأنْشُرَنَّ شَعْرِیْ وَ لَأضْمَعَنَّ قَمِیْصَ رَسُوْلِ اللّٰہِ عَلٰی رَاسِیْ میرے شوہر اور حسنینؑ کے بابا کو چھوڑدو  ورنہ اپنے سر کے بال پریشان کروں گی اوررسول اللہ کی قمیص کو اپنے سرپررکھ کربددعا کروں گی، زبان کو زیب نہیں دیتا اوردل کانپتا ہے کیسے کہوں؟ ایک ظالم قنفذ نے تازیانہ کو حرکت دی اوراسی تازیانہ سے بی بی کے بازو کی طرف اشارہ کیا۔۔ چنانچہ بی بی کے ہاتھ حضرت علی ؑکی عبا کے دامن سے مجبوراً چھوٹ گئے اورخودزمین بوس ہوئی۔

قبررسول پر آئی اور اس قدر روئی کہ قبرِ نبی  بتول کے آنسوئوں سے تر ہوگئی حسنینؑ شریفین سے فرمایا یہ کس کی قبر ہے؟ توشہزادوں نے عرض کیا نانا محمد مصطفی کی قبر ہے۔۔ بی بی نے فرمایا نانا کو صدا دے کر کہو کہ نانا تیری قبر کے سرہانے ماں رورہی ہے۔۔۔ پھر بی بی نے دعا شروع کی اے اللہ!  حضرت صالحؑ کی ناقہ کی عزت مجھ سے زیادہ نہیں اوراس کے بچے کی عزت میرے حسنینؑ سے زیادہ نہیں، میں تیرے نبی کی اکلوتی بیٹی ہوں میرے بابا کی امت نے میرے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ پس عذاب کے آثار نمودار ہوئے اورمسجد نبوی بنیادوں سے اتنی بلند ہوئی کہ گھوڑا سوار دیوارکے نیچے سے گزر سکتا تھا۔۔ امام علی ؑنے دیکھا تو فرمایا اے سلمان!  یہ عذاب کے آثار ہیں جائو دیکھو کہیں حسنین کی ماں نے بددعا تو نہیں کی؟ اگر نہیں کی تو کہو بددعانہ کرنا۔

چنانچہ جب جناب سلمان پہنچے تو ہاتھ دعاکے لئے بلند تھے عرض کیا بی بی تو رحمۃللعالمین کی شہزادی ہے بددعانہ کرنا۔۔۔ بی بی نے کہاچچا تم بھی روکتے ہو؟

میرا حق غصب ہوا میں خاموش رہی۔

میرے گھر کی بے ادبی ہوئی میں خاموش رہی۔

میرے بچے پریشان کئے گیے میں خاموش رہی۔

میرا پہلوزخمی ہوا میں خاموش رہی۔

میرا دروازہ جلا میں خاموش رہی۔

اب علی ؑدربار میں پیش ہے تو کس جرم میں؟

جناب سلمان نے بی بی کی خدمت میں عرض کیا کہ مولا علی ؑفرماتے ہیں بددعانہ کریں وقت گزر جائے گا۔۔ بس یہ سنتے ہی ہاتھ نیچے کر دیئے اورکہا علی ؑکاحکم ہے تو میں تابعدار،  یہ ہے عصمت ِزہراؑ ؟

لیکن اس مقام پر روحِ زہرا کو خطاب کرکے ایک درخواست پیش کرتا ہوں، اے میری مخدومہ!  میرے سامنے سب تیرے غلام موجود ہیں۔۔ یہ مستورات تیری کنیزیں ہیں۔۔ بانی مجلس تیرا غلام اورنوکرہے۔۔ میں ان سب کی طرف سے باادب دست نیاز جوڑ کر عرض کرتا ہوں کہ اے زہرا ؑ !  آپ ؑکو علی ؑکادربار میں جانا گوارا نہ ہوا اورآپ برداشت نہ کرسکیں حالانکہ علی ؑمرد تھا۔۔ ہائے وہ منظر آپ نے کیسے برداشت کیا ہوگا جب آپ کی تیرہ یاسترہ شہزادیاں۔۔ بہو۔۔بیٹیاں۔۔ پوتیاں سب بے مقنعہ وچادر ایک شرابی کے دربار میں پیش ہوئیں اوروہ کمینہ شراب کے نشہ میں بار بار پوچھ رہاتھا زہرا ؑکی بیٹی زینب ؑ کہاں ہے؟ جبکہ بیبیوں کے ہاتھ پس گردن رسن بستہ تھے؟

وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مُنْقَلَبٍ  یَّنْقَلِبُوْن

 

جے تثلیث دے سانچے وچ تصویر نہ فسق دی ڈھلدی

ملکہ ملک شرافت دی اَتے خالی مول نہ ولدی

ایہہ خونی سنگ سقیفے دا بنیاد ہائی جنگ کربل دی

ایہا چڑنگ مسلسل دکھدی رہی ڈٹھی ہر کینہ کربل بلدی

ایک تبصرہ شائع کریں