پارہ نمبر۲
رکوع نمبرابحث تحویل قبلہ
سَیَقُوْلُ جب بنی اسرائیل کو اسلام پر انے کی دعوت دی گئی تو
انہوں نے ایک اعتراض تو یہ کیا کہ حضرت ابراہیم ؑواسمعیل ؑواسحق ؑویعقو بؑ
اوران کی نیک اولادسب یہود یت یا نصرانیت کے دین پر تھے گذشتہ آیات میں ان کے اس
اعتراض کا جواب دیا گیا
اس کا دوسرا اعتراض تحویل قبلہ سے پہلے تو یہ تھا
کہ اگر ہمارا دین باطل ہے تو آپ ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز کیوں پڑھتے ہیں
پس جب قبلہ ہمارا درست ہے تو باقی دین ہمارا کیونکر غلط ہے اورجب تحویل قبلہ کا
حکم ہوا اوربیت المقدس کی بجائے کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم ہوا تو
اعتراض اس طرح کرنے لگے کہ قبلہ تمہارا پہلا ٹھیک تھا تو دوسرے قبلہ (کعبہ) غلط ہے
آپ ٹھیک کو چھو ڑ کر غلط راستہ کیوں لے رہے ہیں اوراگر اللہ کے نزدیک یہ دوسرا
قبلہ کعبہ ٹھیک ہے تو اس وقت تک آپ اس غلط قبلہ (بیت المقدس) کی طرف نماز کیوں
پڑھتے رہے ہیںخداوندکر یم نے ان کے اس اعتراض کو ان کی بے وقو فی سے تعبیر فرمایا
ہے اور بعد میں ان کے اعتراض کا جواب ذکر فرمایا ہے
قُلْ
لِلّٰہِ الْمَشْرِقُ۔ مشرق و مغرب سب اللہ کے لئے ہیں ۔ اور وہ جس طرف منہ کر کے
عبادت کرنے کا حکم دے اس میں کو ئی قباحت نہیں اور اُس کے حکم کی اطاعت کرنا ہی
سیدھا راستہ ہے
۲۔کَذَالِکَ
جَعَلْنَا کُمْ جس طرح ہم نے تم کو اپنا علیحدہ قبلہ (کعبہ) عطا فرما کہ صراط ِ
مستقیم پر ثابت قدم رکھا ہے اسی طرح ہم نے تمہیں اُمتوں میں سے بہترین اُمت بھی
بنایا ہے کہ تم لوگوں پر حجت خدا بنو اور رسول تمہارے اوپر حجت ہو یا تم لوگو ں پر
شاہد ہو اور رسول تمہارے اُوپر شاہد رہے ۔ تحویل قبلہ کے انعام سے اُمت وسط بنانے
کے انعام کو تشبیہ دی یعنی جس طرح یہ اُ مت تمان اُمتوں سے ممتاز ہے اُ ن کا قبلہ
بھی تمام اُمتوں کے قبلہ ہائے نماز سے افضل وممتاز ہے گو یا یہ بنی اسرائیل کے
اعتراض کا دوسرا جواب ہے میں نے اُن کے لئے کعبہ کو قبلہ قرار دے ان
پراحسان وانعام کیا ہے جس طرح اُمتوں میں سے میں نے ان
کنت علیھا الا لنعلم من یتبع الروول ممن ینقلب علی
عقبیہ وان کانت لکبیرۃ الا علی الذین ھدی اللہ وما کان اللہ لیضع ایما نکم ان اللہ
بالناس کرون رحیم ۱۲۳
ثابت تھے
مگر اس جئے کہ جائیںکہ کو ان اتبع کرتا ہے رسو ل کی اورکون پیچھے پلٹتا ہے
آپ نی ایڑیوں پر تحقیق یہ بڑا بوجھ ہے مگر ان لوگوں پر جن کو ہدایت اللہ نے
فرمائی اورخدا نہیں ضائع فرماتا تمہاری سابقہ نمازیں تحقیق اللہ لوگوں پر شفیق
ومہر بان ہے
کو امت وسط قرار دیاہے
وَمَاجَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الخ یعنی کھرے اور کھوٹے کو الگ لگ کرنے کے لئے ہم
نے تحویل قبلہ کا حکم دیا تاکہ عام پتہ چل جائے کہ رسول کی اطاعت دل وجان سے کرنے
والے کون کون ہیں اورپیچھے ہٹنے والے کون ہیں تفسیر برہان میں امام حسن عسکری علیہ
السلام سے مروی ہے کہ مکہ والے چونکہ کعبہ سے زیادہ محبت رکھتے تھے اس لئے ان کی
خواہشات کے خلاف بیت المقدس کو قبلہ قرار دینے کا حکم ہوا تاکہ خواہش کی اطاعت
کرنے والے اوررسول کی اطاعت کرنے والے الگ الگ ہو جائیں اورجب آپ مدینہ میں ہجرت
کرکے تشریف فرماہوئے تو یہاں کے لوگ بیت المقدس سے مانوس تھے (کیونکہ مدینہ کے
یہودی بیت المقدس کی طرف منہ کرتے تھے پس انکی خواہشات کے خلاف کعبہ کی طرف منہ
کرنے کا حکم دے دیا تاکہ رسول کے اطاعت گذار اورخوہش نفس کے پیچھے چلے والے الگ
الگ ہو جائیں اگر چہ یہ بات بڑی گراں اوربھاری تھی لیکن جن پر اللہ کی مہربانی ہو
اوراس کی ہدایت وتوفیق شامل حال ہو توکوئی بڑی بات نہیں پس معلوم ہوا کہ خدااپنی
عبادت انسان کی مرضی کے خلاف چاہتاہے تاکہ مخالفت خواہش میں اس کا اطاعت گذار ہونا
معلوم ہو(مُرادی ترجمہ)
۴۔
وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَا نَکُمْ تفسیر عمدۃ البیان ہیں ہے جس
کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانو ں کوور غلانے اور گمرہ کرنے کے لئے یہودیوںنے مسلمانوں
کے دلوں میں یہ شکوک پیداکرنے شروع کئے تھے وہ تمہاری گذشتہ نماز یں سب ضا ئع ہو
گیئں کیو نکہ وہ قبلہ تمہارادرست نہ تھا اور مولوی اشرف علی تھانوی کے ترجمہ پر
محشی نے ذکر کیا ہے کہ حیٰ بن اخطب یہودی مسلمانوں میں اس قسم کے مکروں پر و پگینڈ
ے کرتا تھا تو خداوند کریم نے ان کے اس اعتراض کا جواب دیا ہے کہ تمہاری گذ شتہ
نمازیں خداضائع نہیںکرتا بلکہ اپنے وقت پر وہ قبلہ مشیت خدا وند ی کے ماتحت درست
تھا اور اب مصلحتِ ایزدی اس قبلہ میں ہے لہذا اب یہ درست ہے پس وہ نمازیںبھی درست
تھی اور یہ بھی صحیح ہیں
تفسیر سے مروی ہے کہ جب تحویل قبلہ کا حکم ہوا تو
مسلمانوں نے جناب رسول خدا سے دریافت کیا کہ ہماری گذشتہ نمازیں ضائع تو نہیں یا
جوہمارے مسلمان بھائی اس زمانہ میں انتقال کرگئے ان کو تو کوئی گرفت نہ ہوگی
پس یہ ایت نازل ہوئی کہ خداتمہارے ایمان (نماز کو) ضائع مہیں کرتا۔
تفسیر برہان میں امام حسن عسکری علیہ السلام سے
مروی ہے جس کا مختصر مطلب یہ ہے کہ جب تک جنا ب رسالتمآب مکہ میں قیام پزیر رہے
تو اُن کو بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز قائم کرنے کا حکم تھا تو آ پ نماز کے
وقت کعبہ کو کو بیت المقدس کی طرف منہ کیا کرتے تھے اور تیرہ سال کی مکہ کی زندگی
میں یہی طرزِ رہا پھر جب مدینہ میں نزولِ اجلال فرمایا تو ۱۶ماہ
یا ۱۷ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی پس یہویوں نے اعتراضات
شروع کر دیئے کہ عجیب بات ہے کہ ؐمحمد کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ ہمارے یعنی یہود
کے قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتا تھااپ پر یہ بات شاق گذری اورتحویل قبلہ
کے لئے دعامانگی اوراللہ نے اس کو شرف قبولیت بخشا چنانچہ کعبہ کو قبلہ قرار دینے
کا حکم نازل ہوا یہودیوں نے پھر اعتراض کرنا شروع کیا اگر وہ حق تھا تو اسے ترک
کیوں کیا اوراگر یہ حق ہے تو پہلے غلطی کیوں کی جواب میں ارشاد ہوا کہ مشرق ومغرب
اللہ کے لئے ہے لہذا اس پر اعتراض کرنا بیوقوفی ہے وہ اپنے اوامر کی مصلحتوں کو
خود بہتر جانتا ہے لہذا تمہیں اس پر نکتہ چینی کا کوئی حق نہیں جناب رسالتمآبؐ نے
یہودیوں کو الزامی جواب بھی دیا وہ یہ کہ آپ نے فرمایاکہ تم کو خدانے مچھلی کے
شکار سے سنیچر کے دن منع فرمایا تھا اورباقی ایام میں تمہارے لئے جائز قرار دیا
تھا اگر مچھلی کا شکار جائز تھا تو سینچر کے دن کو منع کیوںکیا اورناجائز تھا تو
باقی ایام میں رواکیوں رکھا انہوں نے کہاکہ دونوں حکم جائز اورتابع مصلحت خداوندی
تھے پس آپ نے فرمایاتحویل قبلہ کی بھی یہی صورت ہے کہ اپنے وقت میں وہ بھی صحیح
تھا اوراب یہ بھی صحیح ہے اورمصلحت خداکے تابع ہے اس کے بعد ان کے دیگر شکوک کا
جواب دینے کے بعد آپ نے فرمایا اے اللہ کے بندے تم بیمار کی حیثیت سے ہو اوراللہ
طبیب کی حیثیت سے ہے تمہیں شفایابی کی ضرورت ہے خواہ طبیب علاج کا جو طریقہ بھی
اختیار کرے اوربیمار کی شفایابی ہمیشہ طبیب کی منشاء کے مطابق علاج کرنے سے ہوتی
ہے نہ کہ مریض کی رائے سے پس اللہ کے حکم کو تسلیم کرو اسی میں ہی فائدہ ہے