شہدا ء کی زندگی
یَآیُّھَا الَّذِیْنٰ اٰمَنُوْ ۱۹۷
تفسیر برہان میں بطریق مخالفین بروایت موفق بن احمد بن عباس سے منقول ہے کہ
جناب رسالتمآبؐ نے فرمایا کہ قرآن مجید میں جس جس جگہ آیت کی ابتداء
یاایھا الذین امنو ااستعینو ابالصبراوالصواۃ ان
اللہ مع الصبرین () اے ایمان والو مدد طلب کرو اللہ سے سا تھ صبر اورنماز کے تحقیق
اللہ ساتھ صابرین کے ہے
ولاتقولوالمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء
ولکن لاتشعرون
اورنہ
کہوان کو جو الہ کی راہ میں قتل کئے جائیں مردہ بلکہ وہ زندہ ہیں تم نہیں جانتے
ولنبلونکم بشی من الخوف والجوع ونقص من
الاموال والانفس والثمرات
اورہم ضرور ازمائیں گے تم کو کسی قدر خوف سے
اوربھوک سے اورمولوں کی کمی سے اورنفسوں کی کمی سے اورپھلوں کی کمی سے
یَااَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا سے ہے
تو اس کا ریئس وامیر حضرت علی ؑہیں ایک اورروایت میں ہے کہ اس کا شریف وامیر حضرت
علی ؑہے
ایک روایت میں ہے کہ حضرت امام محمد باقر علیہ
السلام نے فضیل کو فرمایا کہ جس جگہ تمہاری ہمارے موالیان سے ملاقات ہو ان کو میرا
سلام کہنا اوریہ پیغام بھی پہنچا دینا کہ میں اللہ کی طرف سے تمہاری کسی چیز کا
ضامن وذمہ دار نہیں ہوں مگر پرہیز گاری اورتقواے کے ساتھ پس اپنے ہاتھوں اورزبانوں
کو قابو میں رکھو اورصبر ونماز کو لازم پکرو خداصابرین کا ساتھی ہے اورنیز ایک
روایت میں یہاں صبر سے مراد روزہ ہے
بَلْ اَحْیَٓائٌ علامہ طبرسی نے اپنی
تفسیر میں بیان فرمایا ہے کہ صحیح مذہب یہ ہے کہ شہداء حقیقۃ زندہ ہیں اوراس کی
تائید میں تہذیب الاحکام سے ایک روایت بھی انہوں نے نقل فرمائی ہے کہ حضرت امام
جعفر صادق علیہ السلا م نے ایک حدیث میں یونسؑ راوی حدیث کو فرمایااے یو نسؑ خداجب
مومن کی روح کو قبض فرماتاہے تو اس کو دنیا وی جسم کیطرح ایک جسم عنایت فرماتاہے
پس مومنین وہاں کھا تے ہیں اورپیتے بھی ہیں اورکوئی مومن ان پر وارد ہوتا ہے تو اس
کو اسی صورت سے پہچانتے ہیں جو اس کی دنیا میں تھی اورایک حدیث میں آپ نے ابو
بصیر سے فرمایاکہ جنت میں مومنین کی صورتیں دنیاوی صورتوں کی طرح ہوں گی کہ اگر ان
کو تو دیکھے تو پہچان لیکہ یہ فلاں آدمی ہے
ان روایات سے تویہ معلوم ہوتا ہے کہ شہداتو بجائے
خود عام مومنین بھی مرنے کے بعد مردہ نہیں ہوا کرتے پس آیت مجیدہ میں صرف راہ
خدامیں شہید ہونے والوں کو زندہ کہنا ان کی عظمت شان کیلئے ہے اوراس سے ان کی
افضلیت کا ظاہر کرنا مقصود ہے ورنہ حدیث میں ہے مَنْ مَّاتَ عَلٰی حُبِّ
آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ شَھِیْدً ایعنی جو شخص ال محمد کی محبت میں مرتا ہے وہ شہید
مرتا ہے
وبشرالصبرین ()
اورخوشخبری دو صبر کرنے واالوں کو
لذین اذااصابتھم مصیبۃ قالواانا للہ وانا الیہ
راجعون ()
جن پر جب مصیبت ائے کوئی سی مصیبت تو کہیں تحقیق
ہم اللہ کے لئے ہیں اوربیشک اس طرف پلٹنے والے ہیں
اولئک علیھم صلوات من ربھم ورحمۃ واولئک ھم
المھتدون ()
ان لوگوں پر صلوات ہے اپنے رب کی طرف سے اوررحمت
اوروہ لوگ صحیح راہ پانے والے ہیں
سوال ہم ظاہر میں دیکھتے ہیں کہ لوگ راہ خدامیں قتل ہو
تے ہیں یا بستر کی موت مرتے ہیں ان میں کوئی حس وحرکت نہیں ہو تی لہذاان کا زندہ
ہونا اورنعمات خداوندی سے بہرہ ور ہونا سمجھ میں نہیں اتا
جواب ان کی زندگی مثلی اجسام کے ساتھ
ہوتی ہے اورروح ان مثالی اجسام کے ساتھ نعمات خداوندی سے ہمکنار ہو تی ہے جس طرح
گزشتہ روایات میں صراحت سے مزکور ہے
یہ ضروری نہیں کہ اگر جسم ظاہری طور پر خاموش ہو
تو واقعا بھی وہ مردہ ہو جس طرح سویا ہوا آدمی ظاہری صورت میں بالکل خاموش ہو تا
ہے اس میں کوئی حس وحرکت نہیں ہو تی حالانکہ درحقیقت وہ زندہ ہوا کرتا ہے اورخواب
میں اطراف مملکت کی سیر میں مشغول ہوا کرتا ہے اورلذات وسرور میں منہمک ہو تا ہے
جس سے ظاہر والے بے خبر ہوا کرتے ہیں اورخود جاگنے کے بعد اپنی بیداری سے ناخوش
ہوتا ہے اورکہتا ہے کہ کاش میری نیند طویل ہوتی اورمیں جی بھر کر لذات سے بہرہ
ہوتا پس اسی طرح مرنے والے مومنین یاراہ خدامیں قتل ہونے والے شہداء کو ظاہری طور
پر ہمارے سامنے ان کے اعضاخاموش ہوا کرتے ہیں جن میں کوئی حس وحرکت نہیں ہو تی
لیکن در حقیقت وہ نعمات خداوندی کے ساتھ لذت اندوز ہوا کرتے ہیں چنانچہ بعض احادیث
میں ہے کہ اس کوکہا جاتاہے نِمْ نَوْمَۃُ الْعَرُوْس اے مومن اب سوجا جس طرح
تازہ شادی شدہ ہو تے ہیں پس قبر کے سوال وجواب اورمومن کی جزا اورکافر کا عذاب جس
طرح مذہب امامیہ کا اعتقاد ہے بالکل درست اورحق ہے
وَلَنِبْلُوَنَّکُمْ آیت مجیدہ کا
ظاہر یہ ہے کہ خوف بھوک جانی ومالی نقصان اورثمرات کا خسارہ اس سے عام پھل مراد
نہیں بلکہ اولاد مراد ہے کیونکہ عام پھلوں کا نقصان مالی نقصان میں اچکا ہے
اوراولاد بھی انسان کا میوہ دل ہوا کرتی ہے ان سب چیزوں سے خداوندکریم مومنین کا
امتحان کرتا ہے اوران حالات پر صبر کرنے والوں کو جنت کی بشارت دیتا ہے اوران پر
اپنی صلوات ورحمت نازل فرماتاہے
تفسیر بیضاوی میں جناب رسالتمآبؐ سے مروی ہے کہ
جب کسی انسا ن کا فرزند مرجائے توخد اوند کریم ملائکہ کو فرماتا ہے کہ کیا تم نے
میرے بندے کے فرزند کا روح قبض کیا ہے وہ جواب میں ہاں کہتے ہیںتو پھر ارشاد ہو
تاہے کہ کیا تم نے اس کے میوہ دل کو توڑلیا ہے ملائکہ کہتے ہیں کہ ہاں پھر
خدافرماتاہے کہ اس میرے بندے نے کیاکہاتھا تو فرشتے جواب دیتے ہیں کہ تیری حمد ادا
کی تھی اورکلمہ اِنَّالِلّٰہ پڑھا تھا پس ارشاد ہو تا ہے کہ میرے بندے کا
گھر جنت میں تعمیر کرو اوراس کا نام بیت الحمد رکھو
تفسیر برہان میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
سے بطریق اباء طاہرین جناب رسالتمآبؐ سے منقول ہے کہ جس شخص میں چار صفتیں پائی
جائیں وہ خداکے نور اعظم میں ہوا کرتا ہے
اس کا تمسک شہادت توحید ورسالت سے ہو
جب اس پر کوئی مصیبت ائے تو زبان پراِنَّا لِلّٰہِ
وَاِنَّ ااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کو جاری کرے
جب اس پر کوئی خداکی نعمت ہو تو کلمہ حمد پڑھے
جب اس سے گناہ سر زد ہو تو اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ
رَبِّی وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ زبان پر جاری کرے
آیت مجیدہ کی یہ تفسیر ظاہری تھی لیکن باطنی
تاویل کے متعلق آئمہ علیہم السلام سے منقول ہے کہ یہ چیز یں علاء ظہور حضرت قائم
آل محمد علیہ السلام سے ہیں کیونکہ اں جناب کا جب ظہور قریب ہو گا تو لوگوں میں
خوف وبدامنی زیادہ ہوگی اورقحط سالی بھی ہو گی جس سے بھو ک عام اورمالی نقصان
زیادہ ہو گا وبائی امراض زیادہ ہوں گی جس سے جانی نقصان بہت ہو گا اورجو مومن ہوں
گے وہ صبر سے کام لیں گے اوریہ بشارت ان لوگوں کیلئے ہے جو ان حالات کا صبر سے مقابلہ
کریں گے
بعض تفاسیر میں ان ایات کا باطنی مصداق حضرت امام
حسین علیہ السلام کو قرار دیا گیا ہے اوریہ درست بھی ہے بلکہ ان ایات کا مصداق ان
سے بڑھ کر شایدہی کوئی اورہوا ہو کیونکہ آیت مجیدہ میں ہے بِشَیٍٔ مِنَ
الْخَوْفِ الخ یعنی ہم قدرے خوف اورقدرے
بھو ک اورقدرے جانی مالی نقصان اورقدرے موت اولاد سے ازمائیں گے اورصبر کرنے والوں
کے لئے بشارت جنت بھی ہے اوران پر اللہ کی صلوات ورحمت بھی ہے کیونکہ من تبیض کے
لئے ہے اوراسکا معنی ہوتا ہے تھوڑا سااورقدرے تو جب ان چیزوں کے تھوڑے سے اورقدرے
نقصان پر صبر کرنے والوں کی یہ جزا ہے تو ان چیزوںکے زیادہ سے زیادہ نقصان پر صبر
کرنے والوں کی جزا کا سوائے خداکے اورکون اندازہ کرسکتاہے اورتاریخ شاید ہے کہ
حضرت امام حسین علیہ السلام پر جس قدار مصائب ائے اس قدر کسی پر نہیں گذرے خوف کا
ہی عالم تھا کہ ہر طرف دشمن ہی دشمن کھائی دیتے تھے بھوک وپیاس کا ہی عالم تھاکہ
دسویں محرم کی شب بچوں کوکہیں ارام نہ تھا پانی کے خالی جام اٹھاکرخیام کا طواف
کرتے رات گزاری خشکی سے زبانیں تالو سے چمٹ گئی تھیں مالی نقصان کی تو حد ہوئی کہ
مردوں کے قتل ہو جانے کے بعد دشمنوں نے گھروں کو اگ لگا دی سامان لوٹ لیا حتی کہ
عوتوں کے سروں سے چادریں بھی چھین لیں بچوں کے گوشوارے تک کانوں سے اتار لئے جانی
نقصان اس سے زیادہ اورکیا ہو گا کہ ششماہے شیر خوار سے لے کربوڑھوں تک سب قتل ہو
گئے اورانتہایہ کہ ان کو بے غسل وکفن صحرائے کر بلا کی تپتی ہوئی ریت پر چھو ڑکر
پردہ داروں کو ان کی لاشوں پر رونے تک نہ دیا گیا ااورباوجود ان تمام مصائب کے صبر
کا یہ عالم تھا کہ اخر دم تک رضائے خداکے سامنے سر تسلیم خم رہااورجس قدر مصائب
ائے زبان پر جاری رہااورمرد تو بجائے خود عورتوں اوربچوں نے بھی ان مصائب کا ایسا
دلیر انہ مقابلہ کیا کہ رہتی دنیا تک فرزندان توحید کیلئے ان کا کردار صبروحوصلہ
اورعزم واستقلال مشعل راہ کاکا م دیتا رہے گا