ہلاکت سے بچنے کا حکم
وَ لا تُلْقُوْا: اس کے کئی معانی کئے گئے ہیں:
(1) بخل کر کے ہلاکت میں اپنے ہاتھ نہ ڈالو
(2) حدسے زیادہ خرچ کر کے اپنے ہاتھ ہلاکت (بھوک ) میں نہ ڈالو
(3) گناہوں کے ارتکاب سے اپنے ہاتھ ہلاکت میں نہ ڈالو
(4) بلا وجہ لڑائی چھیڑ کر ہلا کت میں نہ پڑو
بہر کیف تمام معانی مراد لیے جاسکتے ہیں۔
سوال: اس آیت کی رو سے جس طرح جناب رسالتمآب نے حدیبیہ میں حضرت امیر المومنین ؑ نے صفین میں اورحضرت امام حسن ؑ نے معاویہ سے صلح کر لی تھی تو حضرت امام حسین ؑ نے صلح کیوں نہ کر لی؟
جواب: اسبابِ ظاہریہ اورحالاتِ حاضرہ سے حضرت امام حسین ؑ کو یقین تھا کہ عبید اللہ بن زیاد میرے قتل سے باز نہ آئے گا جس طرح کہ اس نے حضرت امیرمسلم ؑ کو شہید کرادیا تھاپس ان حالات میں صلح کر نا ذلت کی موت خرید نے کے مترادف تھا اورصلح نہ کرنا عزت کی موت پسند کرنے کا نام تھا پس آپ ؑ نے ذلت کی موت سے عزت کی موت کو ترجیح دی۔
وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰہِ ط فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْی ِج وَ لا تَحْلِقُوْا رُئُ وْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْھَدْیُ مَحِلَّہ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِہ ٓ اَذًی مِّنْ رَّاسِہ فَفِدْیَة مِّنْ صِیَامٍ اَوْصَدَقَةٍ اَوْنُسُکٍ فَاِذَآ اَمِنْتُمْ وقفة فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلٰی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْی ِج فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلثَةِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ اِذَا رَجَعْتُمْ تِلْکَ عَشْرَةکَامِلَة ذٰلِکَ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلُہ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ (196) ع
ترجمہ :
اورتمام کرو حج اورعمرہ کو اللہ کے لئے پس اگر تم روک دیئے جاوبوجہ بیماری یادشمن کے) تو جو میسّر ہو قربانی کردو اورنہ منڈواﺅ اپنے سر یہاں تک کہ پہنچ جائے قربانی اپنے مقام پر پس جو شخص تم میں سے بیمارہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو (تو سر منڈوا لے ) اورفدیہ دے روزے یاصدقہ یاقربانی پس جب تم باامن ہو تو جو شخص تمتع کرے ساتھ عمرہ کے طرف حج کے تو جو کچھ میسر آئے قربانی (کرے) لیکن جس کو نہ مل سکے تو روزے رکھے تین دن دروانِ حج میں اورسات روزے جب واپس آﺅ یہ ہیں دس پورے یہ اس شخص کے لئے ہے جس کے اہل خانہ مسجد الحرام کے قریب نہ ہوں اوراللہ سے ڈرو تحقیق اللہ سخت سزادینے والاہے o