التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

شانِ نزول -- اَمْ حَسِبْتُمْ-- آزمائش کی پیش کش -- دعوت جہاد

شانِ نزول -- اَمْ حَسِبْتُمْ-- آزمائش کی پیش کش
4 min read

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوْا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَاتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ مَسَّتْھُمُ الْبَاْسَآئُ وَالضَّرَّآئُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہمَتٰی نَصْرُاللّٰہِ اَلآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْب (214)یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ۵ط قَلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہ عَلِیْم  ( 215 ) کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ کُرْہ لَّکُمْ وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْر لَّکُمْ وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّھُوَ شَرّلَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لا تَعْلَمُوْنَ (216) ع
ترجمہ:
کیا تم نے گمان کیا ہے کہ داخل ہوجا گے جنت میں اورنہ آئے گی تم پر آزمائش مثل ان لوگوں کے جوتم سے پہلے گزرچکے ہیں جن کو مس کیا سختی اورتکلیف نے اوران کو جھنجھوڑا گیا حتی کہ پکار اُٹھے رسول اوروہ لوگ جو ان کے ساتھ ایمان لائے تھے کہ کب آئے گی اللہ کی مدد؟آگاہ تحقیق اللہ کی مددقریب ہےo آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟ فرمادیجئے جو بھی خرچ کرو خیر سے پس والدین اور قرابت داروں اوریتیموں اورمسکینوں اورمسافروں کے لئے ہے اورجوبھی نیکی کرو پس تحقیق اللہ اس کو جانتاہےo فرض کیا گیا تم پر لڑنا حالانکہ وہ ناپسند ہے تم کو اورہوسکتاہے کہ تم ناپسند کرو ایک چیز کو اور(درحقیقت) وہ تمہارے لئے اچھی ہو اورہوسکتاہے کہ تم چاہو ایک شئے کو اور(درحقیقت) وہ بری ہو تمہارے لئے اورخداجانتا ہے اورتم نہیں جانتےo

شانِ نزول
اَمْ حَسِبْتُمْ: بعض لوگ کہتے ہیں کہ جنگ خندق کے موقعہ پر اوربعض کہتے ہیں کہ جنگ اُحد کے موقعہ پر نازل ہوئی جبکہ مومنین شدت اورتکلیف سے گھبرا گئے تھے خدانے ان کو یہ آیت بھیج کر تسلی دی ہے اورایک قول یہ ہے کہ مہاجر ین جب اپنا وطن ترک کر کے مصائب جھیل کر مدینہ میں وارد ہوئے تو ان کی تسلی کے لئے یہ آیت نازل ہوئی۔ 
جناب رسالتمآب کا ارشاد ہے: حُفَّتِ الْجَنَّةُ بِالْمَکارِہ وَحُفَّتِ النَّارُ بِاالشَّھَوَاتِ یعنی جنت مصائب میں گھری ہوئی ہے اوردوزخ شہوات کے اندر محصور ہے مقصد یہ ہے کہ جنت میں پہنچنے کےلئے مصائب کو جھیلنا پڑتا ہے اورشہوات کی اتباع جہنم تک پہنچاتی ہے۔
تفسیر عمدة البیان میں ہے کہ وہب بن منبہ سے مروی ہے کہ میں نے بعض حواریین کی کتاب میں لکھا ہوا دیکھا ہے اے فرزند آدم! جب خداتجھے مصائب میں مبتلاکرے تو خوش ہوکیونکہ یہ طریقہ انبیا واولیا ¿ کا ہے اور جس وقت تجھے آسودگی اور خوشحالی ہو تو غمزدہ ہو کیونکہ تیرے ساتھ وہ سلوک کیا گیا جو انبیا و اولیا کے ساتھ نہیں کیا گیا تھا اورجناب رسالتمآب سے مروی ہے کہ جنت میں بعض درجات ایسے ہیں جو نیک اعمالیوں سے حاصل نہیں ہوسکتے بلکہ وہ مصائب وآلام میں صبر کرنے والوں کےلئے ہیں یہانتک کہ انسان جب ان مراتب کو دیکھے گا توکہے گا کہ کاش دنیا میں میرا جسم مقراض سے ریزہ ریزہ کیا جاتا تاکہ مجھے یہ درجات نصیب ہوتے بہر کیف مصائب وآلام پر صبر کرنے کے درجات زیادہ ہیں، خداوندکریم تمام مومنین کو آئمہ طاہرین علیہم السلام کے اسوہحسنہ پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے اورمصائب پر صبر کی طاقت عنایت کرے۔ 

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنَ الصَّابِرِیْنَ وَاحْشُرْنَا فِیْ زُمْرَةِ الصَّابِرِیْنَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَّ آلِہ الطَّاھِرِیْن 
یَسْئَلُوْنَکَ: مجمع البیان میں اس کے شانِ نزول کے متعلق لکھا ہے کہ ایک شخص جس کانام عمروبن جموح تھا بہت بوڑھا اورمالدار تھا خدمت سرکار رسالت میں پہنچ کر عرض کیا یارسول اللہ! میں کون سی چیز راہ خدامیں خرچ کروں؟ اورکیسے لوگوں کودوں؟ تب یہ آیت اتری گویا نزول اس کا اس ایک واقعہ سے تعلق رکھتا ہے لیکن حکم اس کا قیامت تک کےلئے جاری اورباقی احکام قرآنی بھی سب اسی طرح ہیں۔ 
 مَا اَنْفَقْتُمْ: بعض لوگوں نے کہاہے کہ یہ زکوٰة کا حکم ہے لیکن زکوٰة کا مصرف چونکہ والدین نہیں ہوا کرتے لہذا اس کو صد قاتِ واجبہ ومستحبہ سے عام قرار دیا جائے تو بہترہے کیونکہ اولاد پر والدین کانفقہ واجب ہو اکرتا ہے جب وہ احتیاج رکھتے ہوں حالانکہ زکوٰة نہیں لے سکتے اورعلامہ طبرسی نے اسی کو اختیار فرمایاہے۔ 
وَ ھُوَ خَیْر لَّکُمْ: کیونکہ جنگ میں فتح کی صورت میں کامیابی کی خوشی اورمال غنیمت کاحصول ہوتاہے اورقتل کی صورت میں شہادت وجنت عطاہوتی ہے پس ہردوصورتیں خیر ہیں۔ 
وَ ھُوَ شَرّلَّکُمْ: دنیاوی برائی یہ ہے کہ فقروفاقہ کی ذلت کے علاوہ ہمیشہ کفارسے سہمے رہنا بدترین زندگی ہے اوراُخروی خسارہ یہ ہے کہ نعمات آخرت سے ان کو قطعاً محروم کیا جائے گا۔ 

مسئلہ جہاد واجب کفائی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر سارے مسلمان ترک کردیں تو سب گنہگارہوں گے اوراگر اس قدر مسلمان مصروف جہاد ہوجائیں جو دشمن کے مقابلہ کےلئے کافی ہوں تو باقیوں سے وجوب ساقط ہے بشرطیکہ امام وقت کا خصوصی حکم کسی فرد کےلئے صادر نہ ہو ورنہ اس فرد پر جہاد واجب عینی ہوجائے گا۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں