وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ: اس کے شانِ نزول کے متعلق اہل علم کااتفاق ہے کہ حضرت علی ؑ بن ابی طالب کے حق میں اتری جبکہ شب ہجرت بستر رسول پر سوئے تھے اورواقعہ یوں ہے کہ کفار قریش نے مشورہ کیا تھاکہ جناب رسالتمآب کو اپنے مقام پر قتل کردیا جائے اورچونکہ ظاہر ہو کر ایک آدمی یا ایک قبیلہ کا قتل کرنا مشکل ہے کیونکہ بنی ہاشم مشتعل ہوجائیں گے اورخواہ مخواہ قصاص لیں گے لہذا بہتری اسی میں ہے کہ تمام خاندانوں میں سے ایک ایک آدمی منتخب کرلیا جائے اوروہ سب مل کر آنحضور کو قتل کردیں اس صورت میں اگر بنی ہاشم مشتعل ہوں گے تو ان کو خون بہا پر راضی کرلیا جائے گا کیونکہ تمام خاندانوں سے قصاص لینا ان کے لئے مشکل ہو گا پس حضرت جبرائیل نازل ہوئے اورقریشیوں کے خبث باطن کی آنجناب کو خبر دی اورحکم سنایا کہ اپنے بستر پر حضرت علی ؑ کو سلادیں اورخود بنفس نفیس مدینہ کی طرف تشریف لے جاویں، پس آپ نے ایساہی کیا حضرت علی ؑ بستر رسول پر سوگئے جو انانِ قریش اپنے مشورہ کے ماتحت جب پہنچے تو انہیں یہ یقین تھا کہ حضور خود بستر پر سوئے ہوئے ہیں پس جب انہوں نے جگایا تو حضرت علی ؑ کو سویا ہوا پایا پوچھنے لگے محمد کہاں ہیں ؟ آپ نے فرمایامجھے کیا معلوم پس وہ خائب وخاسروہاں سے چلے گئے۔
تفسیر ثعلبی سے منقول ہے کہ جناب رسالتمآب نے فرمایاکہ خداوند کریم نے جبرائیل ومیکائیل کی طرف وحی فرمائی کہ میں نے تم دونوں کو ایک دوسرے کابھائی قرار دیا ہے اورایک کی عمر دوسرے سے زیادہ مقرر کی ہے، پس دونوں میں سے کون اپنی عمر کے کچھ حصہ کی قربانی پیش کرتاہے؟ تاکہ اس کے حصہ سے کاٹ کر اس کے بھائی کے حصہ میں شمار ہوجائے؟ یہ سنتے ہی دونوں فرشتے خاموش ہوگئے پس خدا کی جانب سے وحی ہوئی کہ تم میرے ولی علی ؑ بن ابی طالب کی مثل کب ہو سکتے ہو کہ میں نے اس کے اوراپنے نبی محمدکے درمیان بھائی چارہ قائم کیاہے پس وہ اپنے بھائی پر اپنی جان قربان کر کے سورہاہے؟ پس تم دونوں زمین پر اتر واوردشمنوں سے اس کی حفاظت کرو پس دونوں فرشتے اترے، جبرئیل جانب سر بیٹھا اورمیکائیل جانب قدم بیٹھ گیا اورجبرئیل نے کہنا شروع کیا :
بَخٍّ بَخٍّ مَنْ مِثْلُکَ یَاابْنَ اَبِیْ طَالِبٍ وَاللّٰہُ یُبَاھِیْ بِکَ الْمَلائِکَةِ
مبارک مبارک اے ابوطالبؑ کے فرزند تیرا ہمسر کو ن ہو سکتا ہے کہ خداملائکہ پر بھی تیرے ایثار کا فخر کررہاہے؟
حضرت امیرالمومنین ؑ سے دریافت کیا گیا کہ رات کے وقت آپ ؑ کو نیند نہ آئی ہو گی کیونکہ موت کا خطرہ تھا تو آپ ؑ نے فرمایا خداکی قسم آج کی شب کی طرح مجھے عمر بھر نیند نصیب نہیں ہوئی۔
بعض لوگوں نے اس آیت مجیدہ کے شان نزول کو دوسرے صحابہ سے متعلق کرنے کی کوشش کی ہے لیکن جن کو قدرے علومِ اسلامیہ میں دخل ہے تو اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ اس آیت میں علی ؑ کا اورشریک کوئی نہیں ہے خود حضرت امیر المومنین ؑ نے مجلس شوری میں عثمان طلحہ زبیر عبدالرحمن بن عوف اورسعد بن ابی وقاص کے سامنے جب اپنی یہ منقبت بیان فرمائی تو سب نے سرجھکالئے اوراس کے انکار کی جرات کسی سے نہ ہوسکی۔
معاویہ کے زمانہ میں جب حدیث سازی کا کام شروع ہوا تو سمرہ بن جندب کو حکومت نے چار لاکھ درہم صرف اس انعام میں دئیے کہ اس نے وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُک علی ؑ کے حق میں اورمِنَ النَّاسِ مَن یَّشْرِی ابن ملجم کے حق میں اترنے کی روایت گھڑ کر پیش کی تھی (سوانح عمری حضرت عمر حصہ اوّل نقلاًازشرح نہج البلاغہ ابی الحدید)