نماز خوف کا بیان
فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً اَوْ
رُکْبَانًا: کافی بابِ صلوٰة عبدالرحمن بن ابی عبداللہ روایت کرتا ہے کہ میں نے
حضرت امام جعفر صادقؑ سے اس آیت مجیدہ کے متعلق سوال کیا کہ نماز کس طرح پڑھے
اورکیا پڑھے درحالیکہ چور یا درندہ کا خطرہ ہو؟ آپ ؑ نے فرمایا تکبیرةُ الاحرام
کہے اورپھر اشارہ سے پڑھتا جائے۔
نیز بروایت ابوبصیر آپ ؑ نے فرمایاکہ اگر تم
خوفناک زمین میں ہو اورچور یادرندہ کا ڈر ہو تو ایسی حالت میں سواری کے اوپر نماز
پڑھ لیا کرو۔
نیز بروایت علی بن جعفر حضرت امام موسی کاظم
ؑ سے مروی ہے راوی نے سوال کیا ایک شخص کے سامنے درندہ آجائے اورنماز کاوقت ہو
اوردرندہ کے ڈر سے کہیں جانہ سکتا ہو اگر نماز پڑھتا ہے تو رکوع وسجود میں درندہ
کے حملہ کا خطرہ ہے اوردرندہ بھی قبلہ کے خلاف جانب میں ہے اگر قبلہ کی طرف منہ
کرتا ہے تو درندہ سے ڈرتا ہے پس وہ شخص ان حالات میں کیا کرے؟ آپ ؑ نے فرمایاکہ وہ
درندہ کی طرف متوجہ رہے اورنماز شروع کر دے اورقیام کی حالت میں ہی ساری نماز پڑھے
رکو ع وسجود کےلئے اشارہ کرتا رہے۔
پس قرآن مجید کے اس فرمان کا مطلب معلوم
ہوگیا کہ فرماتا ہے کہ اگر تم کو ڈر ہو تو پیدل یا سوار جس طرح ممکن ہو نماز پڑھ
لیا کرو۔
خداوند کریم نے احکامِ شرعیہ میں انسان کی
طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ نہیں رکھا چنانچہ ایک مقام پر فرماتاہے یُرِیْدُاللّٰہُ
بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لایُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْر تحقیق خداتمہاری آسانی چاہتا ہے
اوروہ تمہاری تنگی نہیں چاہتا۔
پس اگر امن کی حالت ہوتو باقاعدہ پورے خشوع
وخضوع سے عبادت کو تمام شرائط کے ساتھ بجالانا ضروری ہے جیسا کہ خود فرمارہاہے:
فَاِذَا اٰمِنْتُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہ کہ جب تم امن کی حالت میں ہوجاﺅ تو خداکو اسی طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں تعلیم دی ہے اوراگر ایسا نہ
ہوتو جس قدر ممکن ہو اورجیسے ممکن ہو اپنے فرائض کو ادا کرو۔