ضرورتِ نبی
گزشتہ بیان سے واضح کردیا جاچکا ہے کہ انسان طبعی وفطری طورپر استخدام وتسخیرِ موجودات کاحق رکھتا ہے اوراس کی بدولت انسان کی معاشی زندگی میں اختلاف وفساد کی بنیاد پڑتی ہے لہذا اجتماعی زندگی اورتمدنی بقا کےلئے قوانین کی ضرورت ہے جن کی پابندی انسان کو اپنے کمال وسعادت پر فائزکرسکے، پس ایسے قوانین کی تشکیل یاتو خود فطرت ہی کرے گی یا کوئی ایسی ذات کرے گی جوفطرت کے تقاضوں کو جاننے والی اوراس کی تمام تر صلاحیتوں پر نگاہ رکھنے والی ہو تو ظاہر ہے کہ فطرت جو خود منبع ہے ان تمام اختلافات کا وہ رفع اختلاف کا زینہ نہیں ہو سکتی لہذا فطرتِ انسانی کے علاوہ ہی وہ ذات ہونی چاہیے جو اصلاحِ انسانیت کےلئے قوانین مرتب کرے، تو وہ سوائے خالق کائنات کے اورکوئی ہو نہیں سکتا پس ضروری ہے کہ خدااپنے ا نتخاب سے ایسے افراد کو اصلاحِ خلق کے لئے مامور فرمائے جن کو ان قوانین کا پوری طرح علم دیا گیا ہو اوروہ ان قوانین کے نفاذ میں بلا لومةِ لائم اپنی خدمات پیش کرنے والے ہوں۔
پس نبوت وہ عہدہجلیلہ ہے جو خدا اصلاحِ خلق کےلئے کسی اپنے خاص بندے کوعطا فرماتاہے اوراس سے یہ بات خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے کہ جس کو خدایہ عہدہ جلیلہ عنایت فرمائے گا وہ خود اس قسم کی بے اعتدالیوں سے پاک ومنزہ ہوگا جن کی اصلاح کےلئے وہ مبعوث ہوا ہے ورنہ اگر اس عہدہ پر فائز ہونے والابھی عام لوگوں کی طرح جورواعتساف سے کام لینے والاہو تو اس کی اصلاح کےلئے کسی دوسرے مصلح کی ضرورت ہوگی اوراگر وہ بھی ویسا ہو تو پھر اس کےلئے کسی تیسرے کی ضرورت ہو گی اوریہ سلسلہ ختم نہ ہوگا اوراسی کو تسلسل کہتے ہیں جو کہ اتفاقاً محال ہے نیز اگر فرستادہ خداخود اُمت کی غلط کاریوں سے ملوث ہو تو اس کے موعظہ کا عامةُ الناس پر کوئی اثر نہ ہوگا لہذااس کی بعثت خالی ازفائدہ ہوگی، نیز ایک غلط کار انسان پراصلاحی ذمہ دار یوں کا بوجھ ڈالنا کسی عام عاقل انسان سے بعید ازقیاس ہے چہ جائیکہ خدوندحکیم ایسے فعل کا ارتکاب کرے کیونکہ نہ سدھرے ہوئے کو دوسروں کے سدھارنے پر مامور کرنا وقارِ علم وحکمت ذاتِ اقدس الٰہی پر ایک ایسا بدنما دھبہ ہے جو چہرہ تو حید ودامن عدل کو شکو ک وشبہات کی بے پناہ تاریکی وسیاہی میں پوشیدہ کرنے کےلئے کافی ہے پس ثابت ہوا کہ اصلاحِ خلق کے لئے خداوند عدل وحکیم کی طرف سے ایسے افراد مامور بہ تبلیغ ہوںجن کادامن ہر قسم کی غلط کاریوں سے پاک ومنزہ ہو بلکہ جس رستہ پر چلنے کی دعوت دینے کےلئے مامور ہوں وہ خود اس پر اس طرح گامزن ہوں کہ اس راستہ پر ان کی امت میں سے ان سے سابق کوئی نہ ہو اوراسی کو عصمت کے مقدس نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ہم نے مقدمہ تفسیر انوار النجف میں ایک مستقل باب کے ذیل میں اس مسئلہ کو تفصیل سے لکھا ہے نیز اس بحث کی تفصیل کیلئے ہماری کتاب ”اسلامی سیاست“ کا مطالعہ ضروری ہے۔