وَ
الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ
اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلٰی الْمَوْلُوْدِ لَرِزْقُھُنَّ وَکِسْوَتُھُنَّ
بِالْمَعْرُوْفِ لا تُکَلَّفُ نَفْس اِلَّا وُسْعَھَا لا تُضَآرَّ
وَالِدَةمبَوَلَدِھَا وَلامَوْلُوْد لَہ بِوَلَدِہ وَعَلٰی الْوَارِثِ مِثْلُ
ذٰلِکَ فَاِنْ اَرَادَ فِصَالاً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْھُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلا
جُنَاحَ عَلَیْھِمَا وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْآ اَوْلادَکُمْ
فَلاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَا اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ
وَاتَّقُوْا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْر 233)
ترجمہ:
اورمائیں دودھ پلائیں اپنے بچوں کو دوسال
پورے (یہ مدت ) اس کےلئے ہے جو پوری مدت دودھ پلانا چاہے اورباپ پر ان ( ماﺅں) کاکھانا ا ورکپڑا (لازم ہے) ساتھ نیکی کے (مناسب حال) نہیں تکلیف
دیاجاتا (خدائی احکام میں ) کوئی شخص مگر بقدرِ وسعت نہ ضرردیا جائے ماں کو اس کے
بچے کی وجہ سے اورنہ باپ کو اس کے بچے کی وجہ سے اور(باپ کی عد م موجود گی میں) جو
بچہ کاوارث ہو اس پر اسی جیسے (احکام) ہیں پس اگر دونوں( ماں باپ قبل ازمدت) دودھ
چھڑانا چاہیں باہمی رضامندی اورمشورہ سے تو پس ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں اوراگر
تم ( ماں کے علاوہ کسی اورعورت کا دودھ) پلانا چاہو اپنے بچوں کوتو تم پر کوئی
گناہ نہیں جبکہ تم دے دو جو تم نے دینا کیا ہے ساتھ نیکی کے (حسب حال) اورخداسے
ڈرو اورجانوکہ تحقیق اللہ اس چیز کو جو تم کر رہے ہو دیکھنے والاہے o
مطلقہ کا حق رضاع اورنان
ونفقہ
وَالْوَالِدٰتُ: رضاع کے بیان میں ماں باپ
اوربیٹے کےلئے اُمّ اَب اورابن کا استعمال نہیں کیا گیا بلکہ والدہ والد اورولد کی
لفظوں سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ امّ کامفہوم والد ہ سے عام ہے اوراب کامفہوم
والد سے عام ہے اوراسی طرح ابن کا مفہوم ولد سے عام ہے، چنانچہ دادے اوردادی پر اب
اورامّ کااطلاق ہوسکتا ہے لیکن انہیں والد اور والدہ نہیں کہا جاسکتا اورپوتے پر
ابن کا اطلاق ہو تاہے لیکن اسے ولد نہیں کہا جاتا، پس اس مقام پر چونکہ حکم
کااختصاص صرف ماں باپ اوربیٹے کے ساتھ تھا لہذاان خاص لفظوں سے تعبیر کیا گیا۔
یُرْضِعْنَ: فعل مضارع کاصیغہ ہے لیکن یہاں
امر کے معنی میں ہے یعنی دودھ پلائیں اوراس مقام پر امر استحباب کے لئے ہے کیونکہ ماں
پر بچے کادودھ پلانا واجب نہیںہے یہاں مقصد یہ ہے کہ بچے کو دودھ پلانے کےلئے پہلے
ماں کاحق ہے اگر وہ نہ پلانا چاہے یادوسری پلانے والیوں کی بہ نسبت اُجرت زیادہ
طلب کرے تو پھر باپ کسی اوردایہ کی طرف رجوع کرسکتا ہے اسی طرح اگر ماں دودھ کی
اجرت طلب کرے اورکوئی دایہ مفت پلانے کےلئے مل سکتی ہو تب بھی باپ دایہ کی طرف
رجوع کرسکتاہے۔
حَوْلَیْنِ کَامِلِیْنِ: دوسال پورے یعنی چوبیس ماہ اس سے معلوم
ہواکہ کم از کم حمل کی مدت چھ ماہ ہے، کیونکہ ایک اورمقام پر ارشاد فرماتا ہے کہ
حمل اوردودھ پلانے کی مجموعی مدت تیس ماہ ہے پس جب صرف دودھ پلانے کی کامل مدت دو
سال ہے تو حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہوگی۔
اسی بنا پر یہاں اختلاف ہے کہ آیا ہر بچے کو
دودھ پلانے کی مدت دوسال ہے؟ یادوسال کا عرصہ اس بچے کے لئے ہے جو چھ ماہ کاپیدا
ہو تاکہ حمل اوررضاع مل کر تیس ماہ پورے ہوجائیں؟ ابن عباس سے یہی منقول ہے کہ یہ
مدت صرف اسی بچہ کےلئے ہے جو چھ ماہ کا پیدا ہواگر بچہ سات ماہ کا پیدا ہو اس کی
دودھ کی مدت تیئس ماہ ہوگی اوراگر بچہ نو ماہ کا پیدا ہوتو اس کی دودھ کی مدت اکیس
ماہ ہوگی۔
بہر کیف دودھ پلانے کی مدت اس قدر ہوگی کہ
حمل کی مدت کے ساتھ مل کرتیس ماہ پورے ہوں اسی بنا پر ہمارے علماروایت فرماتے ہیں
کہ بچے کو اکیس ماہ سے کم پلانا بچہ پر ظلم ہے (کیونکہ عام طور پر انتہائی مدت حمل
نوماہ ہی ہوا کرتی ہے لہذا کم از کم مدت رضاع اکیس ماہ ہونی چاہیے اوراس سے کم
کرنا بچے کی حق تلفی ہوگی) اوربعض کہتے ہیں کہ ہر بچے کی دودھ پلانے کی مدت دوسال
ہے اوراس سے کمی یابیشی ناجائز ہے لیکن لِمَنْ اَرَادَا اَنْ یُّتِمَّ
الرَّضَاعَةَ کے ظاہر ی الفاظ بتلاتے ہیں کہ دوسال کاعرصہ رضاع کی آخری حد ہے، پس
جوشخص پور اکرنا چاہے بیشک کرلے لیکن جو نہ پورا کرنا چاہے تو اس پر مدت کاپورا
کرنا لازم نہیں البتہ بچے کی مصلحت کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
مسئلہ چونکہ
رضاع کی حد اخیر دوسال ہے لہذا علمائے امامیہ کے نزدیک دوسال کے بعد کی رضاعت شرعی
طور پر احکام رضاع پر اثر انداز نہ ہوگی لہذا رضاع کےلئے جو احکام حرمت نکاح کے
متعلق ہیں وہ دوسال کے اندر ہونے والے رضاع کےلئے ہیں اوردوسال کے بعد کا رضاع
حرمت نکاح کا موجب نہ ہوگا۔
اَلْمَوْلُوْدِ لَہ یعنی وہ شخص جس کابچہ ہے
اوروہ باپ ہی ہو تا ہے اسی بنا پر میں نے مرادی ترجمہ (باپ ) ہی کیا ہے۔
رِزْقُھُنَّ وَکِسْوَتُھُنَّ
بِالْمَعْرُوْفِ: اکثر مفسرین سے منقول ہے کہ اس سے مراد وہ بچہ دار عورتیں ہیں جن
کو شوہروں نے طلاق دے دی ہو چنانچہ اس سے پہلے طلاق کا ذکر بھی اسی کاقرینہ ہے
تاکہ بیان کے تسلسل میں فرق نہ آئے اوراس آیت کی روسے بچے کی تربیت کاحق زمان
رضاعت میں ماںکو حاصل ہے لہذااس مدت تک اس کاخرچہ یعنی روٹی کپڑا باپ پر واجب ہے
اگر چہ عدت کے بعد مطلقہ ہونے کی حیثیت سے مرد سے اس کانان ونفقہ ساقط تھا اوریہ
دوسراقرینہ ہے کہ یہاں ان ماﺅں کا ذکر ہے جن کو اپنے شوہروں نے طلاق دے دی ہو
ورنہ اگرمطلقہ نہ ہوتیں تو نان ونفقہ کے ذکر کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ زوجہ کانان
ونفقہ مرد پر واجب ہے خواہ بچے کودودھ پلائے یانہ پلائے اوربالمعروف سے مراد ہے کہ
روٹی کپڑے میں مرد کی پوزیشن کا لحاظ رکھا جائے یعنی خوشحالی یابدحالی کی حالت میں
اپنی حیثیت کے لحاظ سے اس کو خرچہ ادا کرے۔
لاَ تُضَآرَّ وَالِدَة بِوَلِدِھَا
وَلَامَوْلُوْد لَہ بِوَلِدِہ: ترکیب کے
لحاظ سے اس فقرہ کے کئی معنی ہوسکتے ہیں کیونکہ لاتُضَآرُّ فعل نہی کا صیغہ ہے
معلوم بھی ہوسکتا ہے اورمجہول بھی ہو سکتا ہے اگر معلوم کاصیغہ ہو تو اصل میں
لاتُضَارِرُ ہوگا اوراگر مجہول کاصیغہ ہو تو اصل میں لاتُضَارَرُ ہو گا اسی طرح
بائے جارہ سببیّت کے معنی میں بھی ہوسکتی ہے اورزائد بھی ہو سکتی ہے، نیز یہ فقرہ
گزشتہ فقرہ لاتُکَلّف سے بدل بھی بنایا جاسکتا ہے چنانچہ بعض قاریوں نے اسی بنا پر
لاتُضَآرُّ رفع کے ساتھ فعل نفی مجہول کاصیغہ قرار دے کر پڑھا ہے پس آیت میں معانی
کی تفصیل یہ ہے:
(1)لاتُضَآرُّ: فعل نہی معلوم کا صیغہ قرار دیا جائے اوربائے جارہ
کو سببیّت بنایا جائے تو معنی یہ ہوگا نہ ضرر دے بچے کی والدہ بسبب بچے کے یعنی
بچے کے باپ پر ناراض ہو کر بچے کو دودھ پلانا نہ چھوڑ دے کیونکہ اس سے بچے کے باپ
کو بھی ضرر ہوگی اوربچہ بھی ضرر کانشانہ بن جائے گا اوراسی طرح مَوْلُوْد لَہ کے
لئے بھی اس مناسبت سے فعل محذوف ہوگا یعنی لایُضَآرُّاورمعنی ہوگا کہ نہ ضرر دے
بچے کاباپ بسبب بچے کے یعنی بچے کی ماں سے ناراض ہو کر اس سے بچہ چھین نہ لے تاکہ
اس کی ماں کو ضرر پہنچے کیونکہ اس ضرر میں بچہ بھی شریک ہوگا ان دونوں صورتوں میں
بچہ ضرر میں اس لئے شریک ہے کہ ماں کی شفقت سے دور ہوجائے گا، اورنیز ان صورتوں
میں بابِ مفاعلہ کا صیغہ مبالغہ کےلئے ہے ورنہ فعل ضرر صرف ایک جانب سے ہے
(2)لاتُضَآرُّ: فعل نہی معلوم کا صیغہ اوربائے جارہ کو زائد ہ قرار
دیا جائے پس معنی یہ ہوگا کہ نہ ضرر دے ماں بچے کو کہ اس کودودھ پلانا چھوڑ دے
اورنہ ضرر دے باپ بھی اپنے بچے کوکہ ماں سے جدا کرکے کسی اوردایہ کے حوالہ کردے
(3)لاتُضَآرُّ: فعل نہی مجہول کا صیغہ قرار دیا جائے اوربائے جارہ
سببیّت کے معنی میں ہو پس معنی یہ ہو گا کہ نہ ضرر دی جائے والدہ کو بوجہ اپنے بچے
کے کہ بلاوجہ اس سے بچہ چھین لیا جائے اورکسی دوسری دایہ کے حوالہ کیا جائے اورنہ
ضرر دیا جائے بچے کاباپ بسبب بچے کے کہ ماں اس کو دودھ پلانا چھوڑدے
(4)لاتُضَآرُّ: ترکیب صرفی ونحوی وہی اورمعنی یہ کہ نہ ضرر دی جائے
والدہ کو مرد کی طرف سے ترک مجامعت کی بوجہ بچہ کے یعنی مرد عورت سے ہمبستر ہونا
بچہ کی وجہ سے ترک کردے تاکہ حمل نہ ہوئے جس سے عورت کو ضرر ہو تو ایسا نہیں ہو نا
چاہیے اسی طرح نہ ضرر دیا جائے مرد عورت کی جانب سے ترک مجامعت کی بسبب بچے کے
یعنی عورت بچے کے لحاظ سے مرد کے پاس جانا چھوڑ دے حمل کے ڈر سے جس سے مرد کو ضرر
ہو تو ایسی صورت سے گریز کیا جائے اورآئمہ ؑ سے یہی معنی مروی ہے
(5)لاتُضَآرُّ: صیغہ نفی مجہول ہوکہ لاتُکَلّف سے بدل ہو تو معنی
یہ ہوگا کہ احکام شرعیہ میں کسی نفس کو وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی یعنی بچے
کی پرورش میں بھی بچے کے ماں اوربا پ کو
وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی کہ بچہ کے وجہ سے ان کو ضرر حاصل ہو یہ احتمال
بیضاوی نے بیان کیا ہے، چار احتمالات علامہ طبرسی نے بیان فرمائے ہیں اورآخرمیں
فرمایا ہے کہ ان احتمالات کے درمیان آپس میںکوئی منافات نہیں ہے لہذ ا آیت کو ان
تمام معانی پر محمول کرلینابہتر ہے
وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ: یعنی بچے
کا باپ اگر مرجائے تو باپ کی طرح بچے کی دودھ پلانے والی کا خرچہ اورترک ضرر کے
احکام اس شخص پر عائد ہوں گے جو بچے کاوار ث ہو گا یعنی اگر بچے پر موت آجائے تو
جوشخص اس کاصحیح وارث متصور ہوگا ان چیزوں کاذمہ دار بھی وہی ہے اوربعض نے وارث سے
مراد مرنے والے باپ کا وارث لیا ہے اورعلامہ طبرسی نے پہلے مطلب کو ترجیح دی ہے۔
فَاِنْ اَرَادَ فِصَالاً : یعنی اگر میاں
بیوی باہمی مشورہ و رضا مندی سے دوسال سے پہلے بچے کادودھ چھڑانا چاہیں تو اس میں
ان پر کوئی گناہ نہیں کیونکہ ملحوظ اس میں بچے کی مصلحت ہے اوران معلاملات کو بہ
نسبت باپ کے ماں اچھا سمجھ سکتی ہے اورہر دو کامشورہ ورضا مندی بچے کےلئے زیادہ
فائدہ مند ہے پس اگر میاں بیوی میں اختلاف ہوجائے تو پھر دوسال کی مدت کو پورا کیا
جائے گا۔
وَاِنْ اَرَدْتُمْ: اگر ماں بچے کو دودھ
پلانے سے انکارکردے یادودھ کی اجرت طلب کرے اورکوئی دوسری عورت مفت دودھ پلانے
پرحاضر ہو یاماں دوسری دودھ پلانے والیوں سے زیادہ اجرت طلب کرے یاماں بیمار ہو
یااس کادودھ نہ ہو یااس کادودھ اتنا کم ہو کہ بچہ نہ پل سکتا ہو تو ان حالات میں
بچے کاباپ دودھ پلانے کے لئے کسی اوردایہ کی طرف رجوع کرسکتا ہے اورخدوندکریم اس
کے متعلق فرماتاہے کہ اگر تم دوسری عوتوں سے بچوں کو دودھ پلوانا چاہو تو اس میں
کوئی گناہ نہیں ہے۔
اِذَا سَلَّمْتُمْ مَااٰ تَیْتُمْ
بِالْمَعْرُوْفِ: اس فقرہ کے کئی معانی کئے گئے ہیں یعنی دوسری عوتوں سے پلواﺅ:
بشرطیکہ جس عرصہ تک بچہ ماں کادودھ پیتا رہا
خوش اسلوبی اورانصاف پسندی سے اسکو اس مدت کی اجرت دے دو
بشرطیکہ دووہ اُجرت جو تم نے دینی کی ہے خیر
وخوشی اورمنصف مزاجی کے ساتھ (حسب حیثیت)
بشرطیکہ تسلیم کرو بچہ جو دوسری عورت کو
رضاع کےلئے دے رہے ہو ساتھ معروف کے یعنی آپس کی خوشی ورضامندی سے نہ کہ ماں کی
ضررکی خاطر ایسا کرو
مسئلہ ماں
پر واجب ہے کہ ولادت کے بعد پہلادودھ بچے کو ضرور پلائے اوربعض علمانے اس کی
حدّتین دن مقرر کی ہے اس وجوب کامطلب یہ نہیںکہ ماں مفت پلائے بلکہ اگر چاہے تو
مرد سے اس کی اجرت وصول کرسکتی ہے لیکن اس دودھ کاپلانا اس پر ضروری ہے اوراس کے
بعد دوسال تک بچے کو دودھ پلانا ماں پر مستحب ہے اگر چہ اس کی اُجرت وصو ل کرسکتی
ہے۔
مسئلہ رضاع
کے زمانہ میںبچے کی تربیت کازیادہ حق ماں کو حاصل ہے اوردودھ چھڑانے کے بعد بنا بر
فتویٰ مشہور کے سات برس تک لڑکی کی تربیت میں ماں کا حق مقدم ہے اورلڑکی کاسات برس
کے بعد اورلڑکے کا دودھ چھڑانے کے بعد تابلوغ باپ کاتربیت کاحق مقدم ہے اورما ںباپ
کی عدم موجود گی میںدادا اوراس کی عدم موجود گی میں بچے کاقریب ترین رشتہ دار حق
تربیت میں دوسروں سے مقدم ہے۔
مسئلہ بچے
کو دودھ پلانے کےلئے مومنہ عاقلہ خوشروخوش اخلاق اورپاک دامن عورت کاانتخاب مستحب
ہے، کیونکہ دودھ کا طبیعت اخلاق اورشکل پر اثر ہوا کرتا ہے اور آئمہ معصومین علہیم
السلام سے اسی مضمون کی متعدد احادیث واردہیں۔
مسئلہ بچے
کو دودھ پلانے کےلئے ثواب کے متعلق جناب رسالتمآب سے مروی ہے کہ عورت کا بچے کوایک
دفعہ دودھ پلاناایسا ہے جیساکہ راہ خدامیں غلام آزاد کیا جائے اورجب بچے کا دودھ
چھڑائے تو خدا کی طرف سے ایک منادی ندا کرتا ہے کہ اے عورت تیرے گزشتہ گناہ معاف
ہوگئے۔
تنبیہ
بچے پر ماں کی تر بیت کا کافی اثر ہوتا ہے
اورخصوصا ماں کی صورت وسیرت بچے کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہیں اورصرف ماںکی گود کی
تربیت ہی بچے پر موثر نہیں بلکہ شکم مادر میں بھی بچہ پر ماں کے اخلاق
وکردارکاکافی اثر پڑتاہے جس طرح اچھی غذا اندرون شکم بچے کی جسمانیت پر اچھے اثرات
ظاہر کرتی ہے اسی طرح غذاکی پاکیزگی اوراس کی حِلّیت بچے کی روحانی صلاحیتوں کے
لئے سنگ بنیاد ہوتی ہے۔
نیز ماں کی اپنی پاکیزگی نیک کرداری نیک
چلنی اخلاق حمیدہ اور عادات شریفہ سے آراستگی بچے کے نیک اطوار اور خوش کردار ہونے
کا پیش خیمہ بنتی ہے اوربعد از ولادت جب تک بچہ کی غذا کاخزینہ اپنی ماں کاسینہ
رہتا ہے لازمی طور پر بچہ پر سابق اثرات کا تواردتکوینی طور پر ہوتا رہتا ہے اوراس
دوران میں ماں کی ظاہری طہارت بچے کی ظاہری وباطنی برتری کےلئے اساس وبنیاد ہوا
کرتاہے اوراس کے برعکس حمل اوررضاع کے زمانہ میں ماں کی غیر محتاط روش (طہارت ونجاست
میں لاپرواہی اور حِلّیت وحرمت غذا میں بے توجہی) تکوینی اوروضعی طور پر بچے پر
برے اثرات کی موجب بنتی ہے اگر اس دوران میںتربیت شستہ ہو گی تو نتیجةً بچے کی
شستگی طینت معرض ظہور میں آئے گی اورزمانِ رضاع کے بعد کی تربیت کا اگر چہ اولاد
پر اثر ہوتا ہے لیکن اس کی حیثیت اکتسابی ہوا کرتی ہے وہ قطعاً بچے کی طینت وفطرت
پر اثر انداز نہیں ہوسکتی۔
پس زہے نصیب اس بچے کے جس کی فطری واکتسابی
صلاحیتوں کے لئے اس کے ماں باپ اچھے اثرات کے موجب بنیں رضا ع کے شرائط اوراس کے
باقی احکام اپنے مقام پر حسب ضرورت بیان ہوں گے۔