التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

مسئلہ مساوات کی مزید توضیح

مسئلہ مساوات کی مزید توضیح
4 min read
مسئلہ مساوات کی مزید توضیح
حقوق میں عورت ومرد کی مساوات کا یہ مطلب نہیں کہ ہر معاملہ میں عورت مرد کے برابر قرار دی جائے مثال کے طور پر بچہ بوڑھا اورجوان سب کی حیثیت یکساں ہے، لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ انسانی فرائض کی بجاآوری میں بچہ جوان اوربوڑھا سب کی حیثیت یکساں ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ جسمانی ساخت اورمناسب قوت برداشت کو ملحوظ رکھ کر ہر ایک کو تمدن میں حصہ دیا جائے یعنی حصہ بقدر جثہ اسی طرح فطری احساسات اورجبلّی رجحانات کے موزوں ومناسب تقاضے عورت اورمرد کو تمدنی زندگی میں تقسیم کار پر مجبور کرتے ہیں، پس عورت فطری طور پر اپنی مناسب شان سے جس گوشہ زندگی میں رہنے کی حقدار ہے اسے اس حد سے پیچھے ہٹانا تفریط اورآگے بڑھانا افراط ہے اورمرد قدرتی طورپراپنی موزوں اقدار کے ماتحت زندگی کے جس میدان میں قدم رکھنے کا سزاوار ہے اس کا اس حد سے پیچھے رہنا فرض ناشناسی اورکوتاہ اندیشی ہے اورآگے بڑھنے کی کوشش کرنا حدود سے تجاوز اوراقدار الٰہیہ سے کھلی ہوئی بغاوت ہے۔
ز مرد کی ساخت خشو نت آمیز ہے اوراس کے مقابلہ میں عورت کی وضع لطافت ونزاکت کامرقع ہے
ز مرد قوت وتوانائی کا مظہر ہے بخلاف اس کے عورت کمزوری وتوانائی کا مجسمہ ہے
ز مرد میں چستی وہوشیاری اس کی نوعی خصوصیت ہے اورعورت میں سستی اورتساہل شعاری اس کی صنفی اقتضاہے
ز مرد کو دل وگردہ مضبوط دیا گیاہے جو مصائب وآلام میں کوہ ِگراں کی طرح جم کر گردشِ دہرکے طوفانی بگولوں کو سر سے گزارسکتاہے اورانتہائی کڑی اورسنگین منزلوں میں پوری دل جمعی سے حوادثِ زمانہ کا ثبات قدم کے ساتھ مقابلہ کرسکتا ہے لیکن عورت کے قلب وجگر میں یہ تاب کہاں؟ وہ تو معمولی سے معمولی گھر یلومعاملات کی پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانا تو درکنار الٹا ان کے الجھا کا موجب بنتی ہے اورتارِ عنکبوت کی طرح انہیں اپنی گردن کا پھندا بنا کراپنی زندگی بھر کے لمحات کو نیم مردنی حالت میں تبدیل کرلیتی ہے اورایک ادنیٰ ترین مصیبت کی چوٹ اس کے جگر کو پاش پاش کرنے کےلئے کافی ہوتی ہے اگر اس کے دل کاغبار اورجگر کادھواں سحابِ غم بن کر آنکھوں سے برس نہ پڑتا تو ذرّہ سی مصیبت اس کے لئے جان لیوا ہو جاتی ہے اورہر مصیبت وتکلیف ناقابل برداشت ہوکر اس کے حرکت قلب کے بند ہو جانے کا بہانہ بن جاتی۔
مزاج کے لحاظ سے مرد میں قوتِ مفکّرہ اس کو بلند کرداری کی دعوت دیتی ہے لہذا وہ اصلاح وتسخیر عالم میں اپنی قوتوں کو صرف کرکے عالم میں نمایاں مقام حاصل کرنے کے درپے ہوتاہے لیکن عورت کی قوت مفکّرہ کا محیطِ نظراوراس کی سوچ بچار کی آخری منزل جسمانی نمائش ظاہر ی حسن سحر ٓافرین وضع قطع اورجاذب نظر شکل وصورت تک محدود ہوا کرتی ہے جس کا پس منظر صرف تسخیرقلوب اورعمومی نتیجہ تعمیر قصر محبت وشہوت اورتخریب منزل معرفت ومروّت ہوتاہے بالجملہ مرد کا نتیجہ فکر ہے دین یادنیا میں سرفرازی یانام ونمود میں سر بلندی اور عورت کا نتیجہ فکر ہے محبت بازی اور فریب نگاہی پس اس کے لئے سریر آرائی اور اس کے لئے حسن آرائی موزوں تر ہے، نیز مرد میں خود اعتمادی خود داری اوراحساس برتری کاجوہر اس کافطری نشان ہے لیکن بخلاف اس کے عورت ان صفات سے یکسر محروم ہے بلکہ عورت کی صنفی پوزیشن ان صفات سے منافی اورمتصادم ہے۔
اس قسم کے بے حدوحساب فطری امتیازات موجود ہیں جو مطالعہ قدرت سے زن ومرد کے باہمی تفاوت کی نشاندہی کرتے ہیں اگر صفاتِ نفس میں آپ غور فرمائیں تو بعض صفات جو مردوں میں موجب کمال ہیںوہ عورتوں میں نقص شمار ہوتے ہیں اوراس کے بر عکس بعض صفات جو مرووں میں باعث نقص ہیں وہ عورتوں میں موجب کمال شمارہو تے ہیں کیونکہ فطری طور پر عورت ومرد میں کمال کامعیار الگ الگ ہے، ہاں بعض مردوں میں ان کے شایان شان صفات کا فقدان اورنامناسب رجحانات کا وجود یابعض عورتوں میں مردوں کی سی بعض صفاتِ کمال کا ظہور ان کے باہمی صنفی تفاوت پر اثر انداز نہیں ہوسکتا لہذا نوع انسانی کے فلاح وبہبود کےلئے وضع شدہ قواعدِکلیہ اورضوابطِ عامہ اس قسم کے جزوی اورشاذ ونادر افراد کی خاطر نہ نظر انداز کئے جاسکتے ہیں اورنہ قابل تخصیص یا ترمیم ہو سکتے ہیں، مسئلہ مساوات کی مکمل وضاحت ہماری کتاب اسلامی سیاست میں ملاحظہ فرمائیں۔
بنابریں نوعِ انسانی کی نشو ونما اوربقاو ارتقا کے لئے جب زن ومرد کا باہمی اختلاط صنّاعِ فطرت کے حکیمانہ تدبّر نے ضروری قرار دیا جس کاقرآن مجید نے بطورِ ارشاد کے اعلان فرمایاہے تو تمدنی اورمعاشرتی اصول کے ماتحت حاکم ومحکوم کے تعیّن اورافسر وماتحت کے فرق کا انہی فطری اقدار کے ماتحت بطورِ ضابطہ کے قرآن کی زبان سے کھلے لفظوں میں اعلان فرمادیاکہ اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَائِ (مرد عورتوں پر حاکم ہیں) اس میں نہ عورت کی حق تلفی ہے اورنہ مرد کی پاسداری بلکہ یہ فطری اورمناسب تقسیم کار میں ایک اصولی اوربرمحل انتخاب ہے اوراعلانِ خالق صرف ارشادکے طور پر ہے ورنہ عقل سلیم خودعورت کو اس کی فطری پوزیشن کے ماتحت مرد پر حاکمانہ تسلط عطا کرنا انسانیت کی تو ہین بلکہ موت سمجھتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں