عدت کی مصلحت
طلاق یا موت کی صورت میں عورت کو عدت کا
پابندکیا گیا ہے تا کہ عورت کی حیثیت عام حیوانات کی طر ح نہ سمجھی جائے کہ ایک
ملکیت کے زائل ہونے کے بعد فوراً دوسری ملکیت کا پھندا اس کی گردن میں ڈال لیا
جائے، نیز اس کی محکومانہ ز ندگی کے پیش نظر ا س کو سوچنے کا موقعہ دیا گیا ہے کہ
سابقہ تجربات کے ماتحت جدید شوہر کے ا نتخاب میں اپنے مستقبل کی بہبود کاخیال رکھے
اوراندھا دھند دوسرے شوہر کے انتخاب میں عجلت سے کام نہ لے، بخلاف اس کے مرد کی
چونکہ حاکمانہ پوزیشن ہے لہذا اس کو اتنی مدت کی انتظار کا پابند نہیں کیا گیا
کیونکہ ناخوشگواری کی صورت میں طلاق سے اس کی گلوخلاصی آسانی سے ہوسکتی ہے بخلاف
عورت کے کہ بے سوچے سمجھے نکاح کرلینے کے بعد ناخوشگوار حالات کے رونماہونے کی
صورت میں مرد سے اس کا طلاق کی خواہش کرنا اس کے وقار کے منافی ہے اوراس کی عفت
وپاکدامنی کے لئے موردِطعن ہے کیونکہ مرد کاعورتوں کو باربار طلاق دینا اتنا معیوب
نہیں جتنا کہ عورت کا مردوں سے متواتر طلاق حاصل کرکے ایک کے بعد دوسرے کے نکاح
میں جانامعیوب ہے کیونکہ یہ عورت کی خست مزاجی اورگستاخانہ ذہنیت کی دلیل ہے، لہذا
شریعت مقدسہ نے ایک مرد سے آزاد ہو جا نے کے بعد عورت کو عدت کا عرصہ آزادنہ طور
پر سوچنے کے لئے عطافرمایا کہ وہ ازدواجی زندگی کے نشیب وفراز کوخوب سوچ کر شوہر
سابق سے عملی تجربہ جو اسے ہوچکا ہے اس کے ماتحت پوری طرح غور وخوض کر کے عقدجدید
کا فیصلہ کرے اورہر امکانی طریقہ سے ایسی ناخوشگوار فضامیں دیدہ دانستہ کود پڑنے
سے گریز کرے جس کا نتیجہ اختلاف وافتراق ہو اورظاہر ہے کہ عدتِ وفات یاعدتِ طلاق
میں عورت کےلئے وقار کا جو پہلومضمر ہے وہ بلاتاخیر ایک مرد سے دوسرے مرد کی طرف
منتقل ہونے میں نہیں ہے۔
اورعلاوہ بریں عورت میں حمل کا احتمال بھی
اس امر کا مقتضی ہے کہ اس کو ایک شوہر سے فراغ کے بعد ایک مدت تک آزاد رہنا چاہیے
اوربعض مقامات پر حمل کے نہ ہونے کا یقین ایک کلیہ قاعدہ اورعام قانون کےلئے باعث
تخصیص نہیں ہوسکتا بالجملہ وفات یاطلاق کے بعد عورت کا عدت کی انتظار کرنااورمرد
کا انتظار نہ کرنا عورت کی حق تلفی یامرد کی پاسداری پر مبنی نہیں بلکہ فطرت
انسانی کاتقاضا یہی ہے، قانون نکاح کی خلاف ورزی کرنے میں جس طرح عورت مجرم ہے اسی
طرح مرد مجرم ہے اورہر دو برابر طور پر سزا کے مستحق ہوا کرتے ہیں اورتوبہ کا
دروازہ بھی ہر دو کےلئے یکساں کھلاہے وَعَلی ہذَا الْقِیَاس