پارہ
۳ -- تفسیر رکوع ۱
تِلْکَ
الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ مِنْھُم مَّنْ کَلَّمَ اللّٰہُ وَ
رَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ وَ اٰتَیْنَا
عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنّٰتِ وَ اَیَّدْنہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ وَ لَوْ
شَآئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِیْنَ مِنم بَعْدِھِمْ مِنم بَعْدِ مَاجَآئَ
تْھُمُ الْبَیِّنٰتُ وَ لٰکِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْھُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَمِنْھُمْ
مَنْ کَفَرَ وَ لَوْ شَآئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلُوْا وَلکِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ
مَا یُرِیْدُ (253)ع
ترجمہ:
ان رسولوں میں سے بعض کو بعض پر ہم نے فضیلت
دی بعض ان میں سے ایسے ہیں جن سے اللہ نے کلام کیا اور بلند کیا ان میں سے بعض کو
درجات کے لحاظ سے اور دیں ہم نے عیسیٰؑ بن مریم ؑ کو واضح دلیلیں اور اس کی تائید
کی روح القدس کے ذریعے اور اگر اللہ چاہتا تو نہ لڑتے وہ لوگ جو ان کے بعد تھے بعد
اس کے کہ ان کے پاس واضح دلیلیں آ چکی تھیں لیکن انہوں نے اختلاف کیا پس بعض ان
میں سے ایمان لائے اور بعض کافر ہوئے اور اگر اللہ چاہتا تو وہ لڑائی نہ کرتے لیکن
اللہ جو چاہتا ہے سو کرتا ہے o
تفسیر
رکوع ۱
فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ: کل انبےا جن کی
تعداد اےک لاکھ چوبےس ہزار ہے پر ایمان لانا ضروری ہے ان میں سے ایک کا انکار کرنے
والا ایسا ہی کافر ہے جیسا سب کا انکار کرنے والالہذا یہ فرق کرنا کہ کسی کو نبی
ماننا اور کسی کا انکار کرنا کفر ہے، لیکن ان انبیا کے لیے بعض کی بعض پر فضیلت کا
اقرار کرنا ایمان ہے کیونکہ انبیا میں سے حضرت نوحؑ حضرت ابراہیم ؑحضرت عیسیٰؑ اور
حضرت محمد مصطفےٰ اولوالعزم پیغمبر ہیںاور با قی سب غیر اولوالعزم ہیں اور
اولوالعزم ان سب سے افضل ہیں اور پھر ان سب سے حضرت محمد مصطفےٰ کو افضلیت حا صل
ہے کیونکہ وہ صرف انسانوں پر مبعوث تھے اور محدود قوم و قبیلہ و علاقہ کے نبی تھے
اور آنحضرت عالمین (جن و انس) کے رسول ہیں اور اس آیت مجیدہ میں خداوند کریم یہی
بیا ن فرماتا ہے کہ انبیا و رسل میں سے بعض سے بعض افضل و برتر ہیں۔
وَ مِنْھُمْ مَنْ کَلَّمَ: اس سے بظاہر حضرت
موسیٰ ؑ مراد ہیں کلامِ خدا میں علم کلام کے ماہرین کافی بحث تمحیص کیا کرتے ہیں،
مختصر طور پر اس قدر جان لینا کافی ہے کہ انسان چونکہ مدنی الطبع ہے اور افہام و
تفہیم کے لیے ایک ذریعے کا محتاج ہے اور سوائی کلام کے اس بارے میں اور کوئی مفید
اورکار آمد ذریعہ نہیں ہو سکتا لہٰذا انسان اپنے مافی الضمیر کو دوسروں تک پہنچانے
کے لیے کلام کا محتاج ہے اگر انسان میں یہ اجتماعی اور تمدنی زندگی نہ ہوتی تو
کلام کی ضرورت بھی نہ ہوتی، حیوانات میں سے بھی بعض حیوان دوسرے بعض حیوانات کو
اپنے مافی الضمیر سے مطلع کرتے ہیں لیکن حروف سے مرکب الفاظ کے ذریعے نہیں بلکہ
مہمل سی آوازوں سے یا آنکھوں کے ذریعے یا قوتِ شامہ کے واسطے سے و علیٰ ہذاالقیاس
اور یہ طریقہ ان کا آپس میں کلام کہا جاسکتا ہے، اسی طریقہ سے جنات و ملائکہ کا
کلام اپنی مخصوص نوعیت سے ہوگا۔
پس موجوداتِ عالم میں سے ہر ایک کے ساتھ
اللہ کا کلام کرنا ان کی اپنی اپنی جداگانہ نوعیت واستعداد کے اعتبار سے ہے پہلے
بعض خطابات میں اس کے قول یا کلام سے مراد امر تکوینی ہے جس طرح زمین یا آسمان یا
اسی قسم کی روح و ارادہ نہ رکھنے والی مخلوق سے عہد اطاعت طلب کرنا اور ان کو قبول
کرنا اور صاحبانِ روح و ارادہ اور حاملانِ عقل دانش مثلاً جنات ملائکہ اور انسان وغیرہ
سے اس کے کلام کرنے کا مطلب ہے ہر وہ طریقہ جس سے اس کے اوامرونواہی و جملہ خطابات
کا مطلب سمجھا جاسکے، پس انسانو ں سے اس کا کلام حروف سے مرکب الفا ظ کے ذریعہ سے
ہوگا چنانچہ ان کے لیے افہام وتفہیم کا سہل طریقہ یہی ہے اور جنات و ملائکہ کے
ساتھ کلام اس لب و لہجہ یا طرز و طریقہ سے ہو گا جو ان کی تفہیم کے لیے ضروری ہو
بہر کیف موجوداتِ عالم کی ہر ہر صنف اور ہر ہر نوع کے ساتھ کلام ہر ایک کی جداگانہ
حیثیت کے لحاظ سے اسی کے مخصوص انداز میں مقصد کی تفہیم کانام ہے۔
پس حضرت موسیٰؑ کا کلیم اللہ ہو نا باعتبار
مجاز نہیں بلکہ باعتبار حقیقت ہے اور ان کے ساتھ کلام سے مراد وحی یا القایا کوئی
اور طریقہ نہیں بلکہ کلامِ حقیقی ہے ورنہ ان کی خصوصیت نہیں رہے گی کیونکہ باقی
انبیا بھی وحی یا القایا الہام وغیرہ سے تو نواز ے گئے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ
خدا کا کلام منہ یا زبان سے صادر ہو نے والا کلام ہو کیونکہ یہ صورت مستلزم حدوث
ہے اور خدا اس صفت سے مبرّا اور منزہ ہے بلکہ مراد ہے کلام کا ایجاد کرنا خواہ اس
کا جو طریقہ اور جو لب و لہجہ بھی ہو اور اس کے کلام کی کنہ کو جاننا اور اس کی
کماحقہ ، کیفیت سے مطلع ہو نا انسانی امکان سے باہر ہے، نیز کلام خدا کی صفاتِ ذات
سے نہیں جس طرح علم قدرت اور حیات وغیرہ بلکہ یہ صفاتِ افعال میں سے ہے جو کہ محدث
ہیں اور احادیث آئمہ ؑ اسی معنی پر دلالت کرتی ہیں۔
رَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ: یہاں بعض سے
مراد حضرت محمد مصطفےٰ لئے گئے ان کو تمام وہ معجزات عطا کئے گئے ہیں جو گزشتہ
نبیوں کو دئیے گئے تھے اوران کا قرآن مجید کا معجزہ تمام معجزات سے افضل ہے کیونکہ
باقی معجزات ظاہر ہونے کے بعد ختم ہوگئے اور قرآن کا معجزہ قیامت تک باقی ہے۔
تفسیر برہان میںکتب امامیہ معتبرہ سے بروایت
اصبغ بن نباتہ منقول ہے کہ حضرت امیر المومنین ؑ نے ایک روایت میں فرمایا کہ
خداوند کریم نے انبیا میں پانچ روحیں خلق فرمائی ہیں:
روح القدس ، روح الایمان ،
روح الشہوة ، روح القوة ، روح البدن
روح القدس کے ذریعہ ان کو نبوت یا رسالت عطا
ہوئی اور اسی کی بدولت ان کو چیزوں کا علم مرحمت ہوا
روح الایمان کے ذریعہ انہوں نے ا للہ کی
عبادت کی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ تسلیم کیا
روح القوة کے ذریعہ وہ دشمنوں سے جہاد کرتے
رہے اور اسی سے اپنے معاشیات کا انتظام فرماتے رہے
روح الشہوة کی وجہ سے انہوں نے بعض اوقات
اچھا کھانا بھی کھایا اور جو ان عورتوں سے نکاح بھی کیا
روح البدن کے ذریعے ان کا سلسلہ نشوو نمائے
دنیاوی انجام پذیر ہوا پیدا ہوئے اور بڑے ہوئے
وَ لَوْ شَآئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلَ
الَّذِیْن: یعنی خداوند کریم دین میں کسی کو مجبور نہیں فرماتا ورنہ اگر ایسا کرتا
تو پھر دلائل واضحہ کے بعد کوئی کیوں گمراہ ہوتا؟ اور جہاد و قتال تک نوبت کیوں
آتی؟ لیکن خداوند کریم کی جانب سے ایمان قبول کرنے اور نہ کرنے میں انسانوںکومجبور
نہیںکیا گیا لہذا ہر دور میں انبیا کے بعد اختلاف ہوتا رہا، بعض ایمان لاتے اور اس
پر ثابت قدم رہتے اور بعض کافر ہو جاتے تھے اور اس وجہ سے سلسلہ جہاد و قتال قائم
رہا۔
برہان میں آمالی شیخ سے بروایت اصبغ بن
نباتہ منقول ہے کہ ایک شخص حضرت امیر ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ مولا
! یہ فرمائیے کہ جن لوگوں کے ساتھ ہم لڑ رہے ہیں ہمارا اور ان کا دین ایک رسول ایک
نماز ایک اور حج ایک ہے تو ان کے متعلق ہم اعتقاد کیا رکھیں؟ آپ ؑ نے فرمایا ہمارا
ان کے متعلق وہی عقیدہ ہے جو خدا نے قرآن میں بیان فرمایا ہے اس نے دوبارہ پوچھا؟
تو آپ ؑ نے یہی آیت مجیدہ پڑھی اور فرمایا کہ جب اختلاف واقع ہو گیا تو چونکہ ہم
خدا اور سول خدا کے ساتھ اَولیٰ ہیں لہذا ہم اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے مصداق ہیں
اور وہ اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا کے مصداق ہیں، پس ان لوگوں سے لڑنا مشیت و ارادہ
خداوندی سے ہے ایک اور روایت میں ہے کہ اس سائل نے جنگ جمل کے موقعہ پر سوال کیا
تھا اصبغ کہتاہے کہ میں پاس موجود تھا پس جب آپ ؑ نے دلیل قرآنی کے ساتھ جواب فر مایا
تو اس شخص نے کہا ربّ کعبہ کی قسم وہ لوگ یقینا کافر ہیں یہ کہ کر میدانِ کارزار
میں کود پڑا اور لڑ کر درجہ شہادت پر فائز ہوا۔
سوال: انبیا
کی بعثت کے بعد جنگ و جدال امتوں میں کیوں باقی رہا؟ حالانکہ اس کو ختم ہو جانا
چاہیے تھا جس کی وجہیں دو /۲ ہیں:
1 خداوند کریم نے انسان کی سعادتِ دنیوی و اُخروی
کے لئے انبیا بھیجے جن کو واضح معجزات اور آیات بینات عطا کی گئیں پس انبیا کی
دعوتِ اسلامیہ کے بعد یقینا نزاعات کا قلع قمع ہو جانا ضروری تھا، خصوصاً اسلام کا
دائرہ وسیع ہو جانے کے بعد تو جھگڑا فساد تو برائے نام بھی نہ رہتا کیونکہ اتحاد و
اتفاق اسلام کا خصوصی رکن ہے؟
2 اسلام کی حقیقت کا
دلوں پر چھا جانا کدوراتِ قلبیہ کو ختم کر دیتا ہے لہذا استقرارِ دعوتِ نبوت کے
بعدقتل و مقاتلہ کی کوئی گنجائش نہیں رہتی؟
جواب: آیت
مجیدہ میں رسل کی بعثت اور ان کا باہمی تفاضل ظاہر کرنے کے بعد سوال مذکور کے جواب
کا بیان ہے کہ چونکہ تمام امور کو خداوند نے علل و اسباب کا تابع بنایا ہے اور قتل
و مقاتلہ کی علت ہے اختلافات کا وجود پس اگر اختلافات ختم ہو جاتے تو لڑائیاں بھی
ختم ہوجاتیں، لیکن نہ اختلاف ختم ہوا اور نہ لڑائی ختم ہوئی، ہاں اگر خدا چاہتا تو
سرے سے امور کو اسباب کا تابع نہ بناتا یا اسباب کو غیر موثر قرار دیتا پس قتل و
قتال وغیرہ کا خاتمہ ہو جاتا لیکن اس میں جبر لازم آتا اور خدا کی مشیت کے وہ
منافی ہے۔