اشتراکیت کاپس منظر
انسان کے مدنی الطبع ہونے کے پیش نظر
اجتماعی زندگی کے اصول کی تشکیل میں نظریات ہمیشہ سے متصادم رہے ہیں اورہر دور کے
عقلا انسانی تمدن میں اصلاح وفلاح کےلئے قوانین مرتب کرکے اجتماعی نظام کی بھلائی
کااعلا ن کرتے چلے آئے ہیں لیکن روز اوّل سے لے کر قیامت تک کے لئے اسلام نے
اجتماعی زندگی کا جو نظام پیش کیاہے وہ عقلائی تدابیر اورامکانی مصالح پر حاوی ہے۔
اشتراکیت کا ڈھونگ بھی منجملہ انہی نظریات
کے ہے جو سیاست مدنیہ اوراجتماعی نظام کی خوبی کےلئے منظر عام پر آئے جس کا مقصد
یہ ہے کہ دنیاکی ہرشے ہر ایک کےلئے ہے اورہر چیز میں ہر فرد برابرکا شریک ہے، اس
نظر یئے میں صرف انسان کے حیواناتی پہلوکالحاظ رکھا گیا ہے اوراس کے امتیازی نشان
کو سرے سے نظر انداز کیا گیا ہے کیونکہ ہر شئے کا ہرایک کے لئے ہونا مسلم طور پر
حیوانی متخیلات میں سے ہے، حیوان کے نظرئیے میں زمین کی کسی پیداوار میں ملکیتی
رنگ ناجائز تصرف ہے وہ ماکول ومشروب اورازدواجی تعلقات میں تخصیصا ت کے دشمن ہیں،
لیکن بخلاف اس کے انسان میں عقل وادراک کا جوہر جو حیوانی زندگی میں اشتراکی
نظرئیے کے مقاصد کو سمجھتا ہے اس نے ملکیتی نظریہ اپنایا اورعقول انسانی اسی
نظرئیے کے ماتحت تمدن واجتماع کی اصلاح کےلئے ہمیشہ قوانین مرتب کرکے نافذ کرتے
رہے لیکن انسان بحیثیت ممکن کے ہزار داناہو اورلاکھ دانشمند ہو انسانی اجتماعی
زندگی کی جملہ خوبیوں پر محیط نظر اورحاوی مطالعہ تو رکھ نہیں سکتااورنہ تمام
مصالح ومفاسد پر عبور اس کے حیطہ امکان میںہے یہی وجہ ہے کہ عقلا زمانہ کے وضع
کردہ قوانین ہر دور میں تنسیخ وترمیم کی زد میں آتے رہے ہیں اورایک دور میں جو
قانون انتہائی سوچ بچار کے بعد مبنی براصلاح قرار پاکر نفاذ پاتا ہے فوراً کچھ
عرصہ بعد اس کے مفاسد سامنے آ کر اس کی تنسیخ کی طرف متوجہ کرتے ہیں اورقوانین
تمدن میں یہ جوڑ توڑ ہمیشہ سے رہاہے اوراس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہر مقنن اپنے ذاتی
جذبات سے ورحجانات کے ماحول میں تمدن کی اصلاح سوچتاہے اورمتعددافراد کے جذبات
وخواہشات میں وحدت ویکسانگی نہایت مشکل ہے پس ایک دور میں جب یک گونہ جذبات میں
اکثریت رونماہوجائے تو اقلیتی جذبات ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں پس اکثر یتی
رحجان کے ماتحت اجتماعی قانون پاس ہوجاتا ہے اورتھوڑا عرصہ بعد جب اقلیتی فرقہ
اپنی تحریک میں اکثریت کا رنگ حاصل کرلیتاہے تو وہ اس قانون کے مقابلہ میں بغاوت
کا علم بلند کرکے دوبارہ مجلس مشاورت کے انعقاد کی دعوت دیتاہے اورحسب موقعہ اپنی
خواہشات کے ماحول میں قانون کو نیالباس پہناکر اپنی ذہنی فتح اور دماغی کامیابی پر
فخردمباہات کرتا ہے اوریہی سلسلہ جاری وساری رہاکرتا ہے، بس قانون تمدن جذبات کے
اکثریتی میلان کانام ہے اس میں فرق نہیں جمہورت ہو یا شخصیت قانون سازی کی رفتار
یہی ہے اورلطف یہ کہ ہر قانون میں ذاتی مفاد کےلئے اوراپنے تئیں اس کی زد سے بچانے
کے لئے بعض شِقّیں ایسی رکھ دی جاتی ہیں جو بوقت ضرورت کام میں لائی جاسکیں اسی
وجہ سے عوام میں ایک مقولہ مشہور ہے کہ قانون چھوٹے طبقہ پر سوار ہوتاہے اوربڑا
طبقہ قانون پر سوار ہوتاہے۔
اسلامی قوانین چونکہ خالق کائنات کی طرف سے
وضع شدہ ہیں جو عالمی مصالح پرحاوی بھی ہیں اورجذبات وخواہشات کے ماحول سے بلند
وبالابھی ان میں یہ امکان نہیں کہ کسی قانون میں کوئی مصلحت عمداًجذباتی طور پر
یاسہواً اورلاعلمی کے رنگ میں نظر انداز کردی گئی ہو تاکہ ترمیم یاتنسیخ کو اس میں
سراغ مل سکے، البتہ رفتار زمانہ اورگروش دہرکے پیش نظر بعض مصالح عامہ میں تبدیلی
ناگزیر ہے جو قانون میں ترمیم وتنسیخ کو دعوت دیا کرتی ہے اوریہی وجہ ہے کہ ادیانِ
گذشتہ یکے بعد دیگر ے منسوخ ہوتے رہے اوردور اسلام تک نوبت پہنچی، اب اس دین کے
بعد خداکی طرف سے کسی نئے دین نے قدم رکھنا نہیں لہذا اس کے قوانین میں وہ پختگی
ودوام ملحوظ رکھ دیا گیا کہ َادوار واَزمنہ کا تفاوت ان کی مصالح میں تبدیلی پیدا
کرکے ان کو قابل نسخ نہ بناسکے۔
چونکہ خدائی قوانین میں شخصی وانفرادی جذبات
وخواہشات کو ملحوظ نہیں رکھا گیا اورنہ ان میں برسراقتدار طبقہ کےلئے بعض شقیں
ایسی رکھی گئی ہیں کہ بوقت ضرورت ان سے فائدہ اٹھا سکیں بلکہ ان میں تو وہ یکسانیت
ملحوظ ہے کہ چھوٹے سے لے کربڑے تک اورفقیر سے لے کر شہنشاہ تک سب کے سب برابر طور
پر اس کی زد میں آتے ہیں اورکسی کی ذرّہ بھر رعایت نہیں ہوتی۔
لہذا ہر دور میں انسانوں کا اکثریتی طبقہ
اسلامی نقطہ نگاہ سے باغی رہاہے اورتمدنی قوانین میں اپنی رائے کو استعمال کرتا
چلاآیا ہے تاکہ حکمران طبقہ کے جذبات کا احترام ہوسکے اورکوئی قانون ان کی خواہشات
کو کچل نہ سکے جس کالازمی نتیجہ یہی سامنے آتارہاہے کہ قانون نت نئے جنم لیتاہے
اورقانون سازی کی مشین نت نئے پرزے تیار کرتی ہے اورانسانیت کو کبھی اطمینان وسکون
کا سانس نصیب نہیں ہوسکا اورنہ تمدن واجتماع میں اصلاح کا پروگرام مرتب ہوسکابلکہ
ہر نیادن نئے خطرے کا اِلارم لے کریا اوردنیا روز افزوں ترقی سے بے اطمینانی اوربے
چینی کی منزلیں طے کرتے ہوئے ہلاکت کے قریب سے قریب تر ہوتی گئی اوربایں ہمہ خدائی
قانون اوراسلامی نظریہ اپنانے کی جرات تک نہیں کی گئی کیونکہ اس میں جذبات کا اُلو
سیدھا نہیں ہوتا اوردوسری طرف خود ساختہ قوانین اپنی داخلی بیماریوں اوراندرونی
کمزویوں کے پیش نظر تمدن کی اصلاح اورامن عامہ کی بحالی سے خود قاصر ہیں، لہذا
انسانوں کا ایک امن پسندطبقہ اٹھااورانہوںنے اشتراکیت کا جھنڈا بلند کردیاکہ
انسانوں کو اپنی موجودہ حیثیت سے ایک قدم پیچھے ہٹ کر حیوانی ماحول میں پلٹ جانا
چاہیے ممکن ہے کہ وہاں کچھ اطمینان وسکون نصیب ہوجائے، گویا انتہائی مطمع نظر
اورمحطِ فکر صرف یہی نکتہ ہے کہ جذبات وخواہشات کو بھی ٹھیس نہ لگے اورتمدن کی
راہیں بھی ہموار رہیں، حالانکہ یہ اجتماع ضدین ہے کیونکہ انفرادی جذبات اورشخصی
خواہشات کاباہمی اختلاف تضاد بلکہ تصادم تک پہنچ کر اشتراکیت میں بھی چین نہیں
لینے دے گا اورنظریہ اشتراکیت میں بھی صرف بڑے بڑوں کے جذبات کااحترام ہوگا چھوٹے چھوٹوں
کےلئے وہی ظلم وتشددکے آہنی شکنجے تیار رہیں گے، اچھے محل عمدہ بیویاں خوبصورت
لباس اعلےٰ مشروبات نفیس کھانے آرام دہ سواریاں اورقیمتی سامان یہ سب کچھ صرف
صاحبانِ اقتدار کےلئے اورانہی لوازم زندگی میں سے ردّی وناقص اشیا عوام طبقہ کےلئے
مخصوص ہوں گی اوربایں ہمہ زبان پر بلاتا مل اشتراکیت کی رٹ جاری ہے کہ ہرشئے ہر
فرد کےلئے ہے۔
بہر کیف تمدنی قوانین کے متعلق یہ نظریئے
ہیں جو عمومی اجتماعی زندگی سے وابستہ ہیں اور ان کا تعلق صرف اس فانی اور چار
روزہ زندگی سے ہے اور بس ان اجتماعی قوانین میں قطعاً اس امر کو ملحوظ نہیں رکھا
جاتا کہ اس دور فانی کے بعد انسان کاکوئی اور ٹھکانا بھی ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے
تو ہمیں اس کے لئے کیا کرنا ہے؟
اسلامی قوانین کی نظر چونکہ صرف اسی فانی
دور تک محدود نہیں بلکہ اس کی نظریں اُخروی دور پر بھی ہیں بلکہ اُخروی دور ہی در
حقیقت اس کا مطمع نظر ہے یعنی اسلامی نگاہوں میں دنیا وی زندگی صرف عبوری دور ہے
اور اُخروی زندگی قیام و سکون کی حقیقی منزل ہے لہذا اسلام اس فانی زندگی کی اصلاح
اس باقی اور غیر فانی زندگی کے لئے کرتا ہے بنابریں وہ اس زندگی کی خواہشات و
جذبات کو پنپنے کی کھلی اجازت نہیں دیتا مگر اس حد تک کہ بغیر اس کے گزارہ نہ
ہوسکے اور اسلام سے باغی ذہنیتّیں چونکہ حیات اُخروی کے مفہوم سے نا آشنا ہیں اور
وہ مآل زندگی اسی چند روزہ قیام کو قرار دیتی ہیں اور جذبات و خواہشات کی تکمیل کے
لئے ان کی نظر میں کوئی دوسرا محل مناسب تو ہے نہیں لہذا وہ کسی قیمت پر اپنے
جذبات تعیش کو کچلنے پر آمادہ نہیں ہو سکتے اور حصول اقتدار کو تکمیل جذبات اور
تتمیم شہوات کا زینہ قرار دے کر اس کےلئے ہر ممکن قربانی کےلئے تیار ہوتے ہیں اور
اس کے بعد اشتراکیت و ملوکیت کے نظریئے اور عمومی اصلاح و فلاح کے قوانین اور
اجتماعی و تمدنی زندگی کے ضوابط صرف اقتدار کی بحالی کے حیلے اور حربے ہیں اور
درحقیقت تسکین خواہشات اصل مقصد ہے کیونکہ اس دور فانی کے بعد وہ کسی ایسی زندگی
کو تصور نہیں کرتے جو سکون و اطمینان کی زندگی ہو یا اگر اس زندگی غیر فانی کاتصور
کرتے بھی ہیں تو عقیدہ اتنا ناقص ہوتا ہے کہ اس اُخروی زندگی کے مفاد کو اس فانی
زندگی پر ترجیح نہیں دے سکتے اور نہ اس کے حصول کےلئے اس عبوری دور کی خواہشات و
جذبات کی قربانی کر سکتے ہیں۔
لیکن اسلام چونکہ اسی حیات جاودانی کے پر
سکون و پر اطمینان ماحول میں ابدیت اور لا زوال انتفاع کی خوشخبری سناتا ہے لہذا
اس زندگی کی تعمیر کو اُس زندگی کی تعمیر کا زینہ بناتا ہے پس اسلام کی نظر میںیہ
زند گی عبوری دور ہے اور آخرت مقصد سفر ہے لہذا اجتماعی زندگی کی بھلائی کے ساتھ
ساتھ اسلام نے نفسی اصلاح اور خانگی بہبود کے لئے بھی قوانین و ضوابط پیش کئے ہیں،
نفسی اصلاح و فلاح کے ضوابط کا نام ہے علم الاخلاق اور خانگی اصلاح کے قواعد و
ضوابط کا نام ہے تدبیر منزل اور زن و مرد کے باہمی تعلقات اور ازدواجی زندگی کے
اصول و فروع اور اس کی فلاح و کامیابی کے ضوابط تدبیر منزل کے ماتحت ہیں۔
اسلام سے بر سر پیکار طبقہ چونکہ اُخروی
حیثیت کو ملحوظ نہیں رکھتا اور صرف ظاہری تمدن ان کے سامنے ہے لہذا وہ عورت کے لئے
تحریک آزادی صرف ظاہری تعیش اور اسی فانی سکون و آرام کی خاطر کرتے ہیں اور اسی
میں تمدن کی بھلائی سمجھتے ہیں اور اشتراکیت کا پس منظر بھی یہی ہے اورچونکہ صرف
یہی ظاہری پہلوان کا مطمع نظر ہے لہذا عفت وپاکدامنی عصمت وشرافت اورغیرت وحمیت
وغیرہ فاضلہ صفات ان کی نگاہوں میں فضول اوربے فائدہ ہیں اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں
کہ دنیاصرف لذت اندوزی اورتعیش مزاجی کےلئے ہے اورکامیاب انسان وہ ہے جو لذت ز
ندگی سے جی بھر کر سیر ہوسکے، پس حیا شرافت اورعفت وغیرہ یہ صفات ان کے نزدیک مفاد
زندگی سے متصادم ہیں لہذا وہ ان کو راستے سے ہٹا کرظاہری زندگی کو صاف اورپر لطف
بنانے کے درپے ہوتے ہیں اورعورت کی تحریک آزادی کا صرف یہی ہے مطلب ہے لیکن اسلام
چونکہ اس دنیا کو عبور گا ہ قرار دیتا ہے جیسے کشتی پر سوار انسان کیونکہ کشتی اس
کے لئے منزل نہیں بلکہ منزل کشتی کے ساحل پر پہنچنے کے بعد آتی ہے اورحقیقی زندگی
وہی ہے جو اس عبوری دور کے بعد نصیب ہوگی، لہذا عورت کےلئے حیا شرافت اورعفت وغیرہ
تمام صفات حسنہ گو اس فانی دورمیں تعیش مزاجی کےلئے سدّراہ ہیں لیکن یہی فاضلہ صفات
اس کی اُخروی زندگی کا پیش خیمہ ہیں، بنابریں اسلام نے عورت ومرد کی ازدواجی زندگی
کےلئے عام اجتماعی وتمدنی قوانین کے علاوہ خصوصی احکام بھی مرتب فرمائے ہیں تاکہ
انسانی زندگی کے ہر دوپہلو (دنیوی واخروی) سلجھے ہوئے ہوں نہ اس کےلئے ظاہری ترقی
کی راہیں مسدود ہوں اورنہ اُخروی ترقی کے راستے بند ہوں، لیکن چونکہ یہ زندگی
دائمی نہیں لہذا اس زندگی کےلئے اُسی قدر محنت کرنے کی ضرورت ہے جس قدر ناگزیر ہو
اورباقی ماندہ تمام وقت اس زندگی کی اصلاح کےلئے وقف کرنا چائیے جو دائمی اورباقی
ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سے تدبیر منزل کے قوانین جس
طرح اصلاح منزل کےلئے ہیں اسی طرح اس کے ضوابط اصلاح آخرت کےلئے بھی ہیں مثلاً مرد
کی حاکمانہ حیثیت اورعورت کی محکومانہ زندگی یامرد پر اخراجات خانگی کا وجوب
اورعورت پر بچوں کی ذمہ داری اسی قسم کے جملہ احکام اصلاح دنیا وآخرت ہر دو کےلئے
ہیں، پس عورت کی تحریک آزادی کانظریہ صرف آخرت سے ہی چشم پوشی نہیں بلکہ ظاہری
شریفانہ زندگی کےلئے بھی سم قاتل ہے اوراشتراکیت جس میں عورت کو حیاوعفت سے
بیگانگی کی تعلیم دی گئی ہے صرف جذبات وشہوات کی تکمیل کا بہانہ ہے اس کو تمدن کی
اصلاح میں دخیل کرنا یااجتماعی نظام میں موثر کہناصرف سادہ لوح طبقہ کی آنکھوں میں
دھول جھونکے کے مترادف ہے، پس انسان کی حیوان سے ممتاز اورکامیاب زندگی کا مدارصرف
اسلامی قوانین کی پیروی ہے اوربس اورازدواجی زندگی کےلئے اسلام نے جو نظریات پیش
فرمائے ہیں عورت ومرد ہر دو کےلئے اس سے بہتر نہ کوئی لائحہ عمل ہے اورنہ ہو
سکتاہے اوربالخصو ص نظریہ طلاق جو اسلام نے پیش کیا ہے باقی ادیانِ عالم میں سے
صرف اسی مقدس دین کاطرّہ امتیاز ہے اورازدواجی زندگی کو خوش سے خوش تر اورخوب سے
خوب تر بنانے اورزن ومرد کے باہمی تعلقات کو انتہائی خوشگوار رکھنے کےلئے جہاں مرد
کےلئے عدل وانصاف اورعورت کے لئے اطاعت شعاری اورمرد پر اخراجات ومصارف کاوجوب
اورعورت پر خانگی تربیتی معاملات کا بوجھ تقسیم کار کے طور پر عائد کئے گئے ہیں
تاکہ باہمی اختلاف وانتشار کا سدّ باب ہوسکے وہاں اختلاف وانتشار باہمی کاآخری حل
طلاق قرار دیا گیا ہے تاکہ اختلاف باہمی کے لاعلاج ہونے کی صورت میں زن ومرد کے
لئے ازدواج وبالِ جاں نہ بنارہے بلکہ خیروخوشی سے آزادانہ طور پر بذریعہ طلاق ایک
دوسرے سے الگ ہوکر نئی ازدواجی زندگی میں قدم رکھنے کے قابل ہوسکیں۔
آج دنیا کی مہذب قومیں جن کے مذہب میں طلاق
نہ تھی نت نئے نزاعات وفسادات سے تنگ آکر ازدواجی زندگی میں طلاق کےلئے جگہ تلاش
کررہے ہیں جس کو اسلام نے آج سے پونے چودہ سوسال پہلے ضروری قرار دیاتھا، پس جذبات
وخواہشات کی تکمیل میں انتہاپسندی اورافراط ہے ملوکیت یاآمریت اوراس میں آوارگی
اوررتفریط کا نام ہے نظریہ اشتراکیت اوران کے بین بین نقطہ اعتدال پرجم کررہنا
یعنی ان دونوں نظریوں میں حدود ضروریہ کی پابندی اورمیانہ روی کے نظریہ کانام ہے
اسلام، چنانچہ جملہ اسلامی فروعی ضوابط واحکام کا محور ومدار صرف یہی اصولی نظریہ
ہے اوریہی ہے تعمیر انسانیت کا آخری پروگرام اورتکمیل نظام زندگی کا آخری کورس جو
ہر شعبہ زندگی میں رہبری کے فرائض کی انجام دہی کرسکتاہے مسئلہ کی تفصیل ہماری
کتاب اسلامی سیاست میں ملاحظہ فرمائیں۔