تابوتِ بنی اسرائیل
وَ قَالَ لَھُمْ: گویا انہوں نے اپنے نبی سے
طالوت کی بادشاہت کی نشانی طلب کی اورنبی نے یہ فرمایاکہ تمہارے پاس تابوت آئے گا
اور تفسیر برہان میں حضرت امام باقرؑ سے مروی ہے کہ یہ وہی تابوت تھا جس میں حضرت
موسیٰؑ کو اپنی والدہ نے بندکرکے دریامیں ڈال دیا تھا اس میںتورات کی الواح
اورحضرت موسیٰؑ کی زرہ اوردیگر تبرکات بندتھے بنی اسرائیل اس کی تعظیم کرتے تھے،
حضرت موسیٰؑ کی وفات کے بعد وہ ان کے وصی یوشعؑ کے پاس تھا پس کچھ عرصہ بعد انہوں
نے اس کی تعظیم چھوڑ دی حتی کہ بچے اس کے ساتھ راستوں میں کھیلاکرتے تھے جب تک
انہوں نے تابوت کی عزت کی وہ خود بھی عزت میں رہے اورجب وہ گناہوں میں پڑ کر تابوت
کی عزت سے کنارہ کش ہوئے تو مبتلائے مصائب ہوگئے اورمروی ہے کہ ان کے دشمن جب ان
پر غالب ہوئے تو ان کے باقی سامان لوٹنے کے ساتھ ان سے وہ تابوت بھی چھین لئے گئے
تھے۔
بعض کہتے ہیں کہ یہ تابوت حضرت آدم ؑ پر
اُتراتھا اوراس میں تمام انبیا کی تصویریں تھیں اورورثہ بورثہ بنی اسرائیل تک
پہنچا تھا اورامام موسیٰ کاظم ؑ سے مروی ہے کہ اس کاطول تین ذراع اورعرض دوذراع
تھا (برہان ) لڑائی کے وقت اس کو لشکرکے سامنے رکھتے تھے اوراس سے آواز پیدا ہوتی
تھی اورچل پڑتا تھا اورفوج اس کے پیچھے پیچھے چلتی تھی جب وہ ٹھہر جاتا تو وہ بھی
ٹھہر جاتے تھے۔
فِیْہِ سَکِیْنَةاس کے مطلب میں اختلاف ہے
بعض روایات میں ہے کہ تابوت سے جنت کی ہوانکلتی تھی اوروہی سکینہ تھی اورعلامہ
طبرسی نے فرمایا ہے کہ ظاہر یہ ہے کہ سکینہ کا معنی امن واطمینان ہو کیونکہ اس
تابوت میں بھی بنی اسرائیل کےلئے سکون قلب واطمینان ہوتا تھا، ممکن ہے کہ اس سے
مراد آثار علم کابقیہ اورتبرکات انبیا ہوں امام موسیٰ کاظم ؑ سے سکینہ کامعنی
دریافت کیا گیا تو فرمایاکہ وہ اللہ کی پیدا کردہ روح تھی جو بولتی تھی اورجب ان
کو آپس میں اختلاف درپیش ہوتا تو وہ ان کے ساتھ کلام کرتی تھا اورخبر دیتا تھا (
برہان)
اٰلُ مُوْسٰی وَ اٰلُ ھٰرُوْن: اس مقام پر
آلِ موسیٰؑ وآلِ ہارون ؑ سے مراد خود موسیٰؑ وہارون ؑ ہیں اورعرب میں آلِ فلاں بول
کرخود وہ شخص مراد لینا عام ہے اورکہتے ہیں کہ اس تابوت میں حضرت موسیٰؑ کی نعلین
اورحضرت ہارون ؑ کا عمامہ بھی تھا۔
تَحْمِلُہُ الْمَلٰئِکَةُ: فرشتوں کے اُٹھا
لانے کا مطلب بعض نے تو یہی بیان کیاہے کہ جانب آسمان سے فرشتے اٹھا کرلائے چنانچہ
ابن عباس سے یہی قول مروی ہے اوربعض نے کہاہے کہ جب بنی اسرائیل کے دشمن ان پر
غالب آئے اوران سے تابوت چھین لیا اورانہوں نے تابوت کو اپنے بت خانہ میں لے جاکر
رکھ دیا پس تابوت کے پہنچتے ہی تمام بت منہ کے بل گر گئے تو انہوں نے تابو ت کو
وہاں سے نکال کر شہر کے باہر کہیں رکھ دیا پس ان لوگوں کی گردنوں میں درد پیدا ہو
گی اورجہاں تابوت رکھتے تھے وہاں وبا ا ورموت عام ہو جایا کرتی تھی لہذا انہوں نے
باہمی مشورہ کیا کہ اس کو یہیں سے نکال دینا چاہیے چنانچہ انہوں نے اس کو دوبیلوں
پر مضبوط کس کر باندھ دیا اوران دوبیلوں کو ہانک دیا پس ملائکہ ان کو بنی اسرئیل
کے پاس لائے، اس روایت کے اعتبار سے تحمل کا معنی صرف لانا ہوسکے گا نہ کہ اٹھالانا۔
مقدمہ تفسیر مراة الانوار میں ہے کہ احادیث
سے ظاہر ہوتا ہے کہ تبرکات انبیا مثلاً الواح اورعصائے موسیٰؑ اوران کے علاوہ باقی
چیزیں آئمہ معصومین علیہم السلام کے پاس موجود تھیں اورتابوت بھی ان کے پاس تھا
کیونکہ یہ چیزیں اسی میں تھیں اوربعض زیارات کے کلمات میں ہے کہ تم وہی ہو جن کے
پاس تابوت سکینہ پہنچائی گئی اوربعض زیارات میں ہے کہ تم وہ ہوکہ خدانے تم کو اپنی
حکمت کاتابوت قرار دیا ہے اوراسی کتاب میں مناقب بن شہر آشوب سے مروی ہے کہ جناب
رسالتمآب کی وفات کے بعد حضرت جبرائیل اہل بیت کو پرسہ دینے کےلئے آیا اورسلام
دیا، یہانتک کہ اس نے کہا جَعَلَکُمُ اللّٰہُ تَابُوْتَ عِلْمِہ وَ اَوْرَثَکُمْ
کِتَابَہ یعنی تم کوخدانے اپنے علم کاصندوق وتابوت بنایا ہے اورتمہیں ا پنی کتاب
کا وارث بنایاہے۔
بعض مفسرین نے اس مقام پر سکینہ سے مراد روح
سکون لیا ہے جوخداوندکریم مومنین کو عطا فرماتا ہے اوراس کو سکینہ کے لفظ سے تعبیر
کیا گیا ہے کیونکہ اس سے دل ودماغ میں سکون واطمینان آجاتا ہے اوراحادیث جو سکینہ
کے متعلق وارد ہوئی ہیں ان کی تاویل بھی اسی معنی کے مطابق کی گئی ہے ( واللہ اعلم
)